غالب، ایک بازدید: غالب فہمی کے کچھ نئے زاویے

وصیل خان

نام کتاب  :  غالب :  ایک بازدید
مصنف    :  پروفیسر یونس اگاسکر
تعارف و تبصرہ  :  وصیل خان
ناشر      :  عرشیہ پبلی کیشنز، دہلی
قیمت     : 200/- روپئے، صفحات  : 135
ملنے کے پتے  :  ثکتاب دار ممبئی   022-23411854  ثمکتبہ جامعہ لمٹیڈ، اردو بازار جامع مسجد  دہلی ۶   ث راعی بکڈپو ۷۳۴اولڈ کٹرہ، الہ آباد 09889742811   ثبک امپوریم، اردو بازار سبزی باغ پٹنہ ۴  ث مرزا ورلڈ بک، اورنگ آبادث  عثمانیہ بکڈپو کولکاتہ  ث قاسمی کتب خانہ جموں توی کشمیر

پروفیسر یونس اگاسکر زبان و ادب کے حوالے سےاپنی ایک معتبر شناخت رکھتے ہیں۔ درس وتدریس سے انسلاک پیہم او ر فکری ربط نے ان پرفکر و نظر کے جو در واکئے ہیں وہ ان کی بصیرت، فہم و ادراک کےمعنی خیز نتائج ہیں۔ سہ ماہی ترسیل کے ادارتی صفحات اور وقتا ً فوقتاً شائع ہونے والے مضامین ان کی ژرف نگاہی، تحقیقی جدوجہد، ایجادات و اکتشافات کی ترجمانی کرتے ہیں۔ ’غالب : ایک بازدید ‘ موصوف کی تازہ ترین تصنیف ہے جس کے توسط سے انہوں نے غالب شناسی کے کچھ ایسے نکات روشن کئے ہیں جو بڑی حد تک قابل فہم اور قرین قیاس نظر آتے ہیں۔ قابل ذکر بات یہ بھی کہ کتاب میں انہوں نے کہیں بھی ادعائی انداز اختیار نہیں کیا ہے بلکہ اپنے موقف کے ثبوت میں ٹھوس دلائل سے کام لیتے ہوئےخالص علمی انداز اختیار کرتے ہوئے اپنی باتیں مبرہن کی ہیں۔

پیش لفظ میں وہ لکھتے ہیں ’’ ان بالغ نظر شاگردوں کی تسکین ذوق کیلئے جن میں ایم اے اور پی ایچ ڈی کی سطح کے سند یافتہ طلبابھی شامل تھے، مجھے جو کاوش کرنی پڑی، اس نے مجھ پر غالب فہمی کے کئی در واکئے اور مجھے ایسے جہان معنی کی سیر کرائی جہاں سے لوٹ آنے کی خواہش و گنجائش ہی باقی نہ رہی۔ غالب سے میری تجدید محبت اور اس کی شعری کائنات کے متنوع پہلوؤں کی بازدید کا سلسلہ بھی اسی تفہیم و تدریس غالب ہی سے شروع ہوا جو فی الوقت، غالب : ایک بازدید پر منتج ہوا۔ ‘‘ اس ضمن میں ان کی وضاحتی سادہ دلی بھی دیکھتے چلیں وہ لکھتے ہیں ’’ اس کتاب کے عنوان میں شامل لفظ’ بازدید ‘ کے تعلق سے عرض ہے کہ براہ کرم اس میں ادعائیت نہ تلاش کیجئے گا یہ ناچیز تالیف غالب شناسی کی ایک طالب علمانہ کوشش ہے جسے اہل فکر و نظر کی ادنیٰ سی پذیرائی بھی حاصل ہو جائے تو میرے لئے باعث سعادت ہوگی۔ ‘‘  پیش لفظ کا طرز تخاطب نہ صرف ادعائی طرز تحریر کی نفی کرتا ہے بلکہ کتاب کا بالاستیعاب مطالعہ موصوف کے اس غیر ادعائی موقف کی تائید بھی کرتا ہے۔ حالانکہ اب یہ رویہ عام ہوگیا ہے کہ ناقص و مبہم تحقیق اور تنقید کے نام پر تنقیص محض کو سکہ ٔ رائج الوقت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اور اس کے مرتکبین بساط ادب پر خم ٹھونک کر دندناتے پھرتے ہیں ،ستم بالائے ستم یہ بھی کہ تمام تر ادبی فتوحات کے تمغات بھی جبراًجھپٹ کے اپنی جھولی میں ڈال لئے جاتے ہیں۔

یہ تماشاایک معمول بن چکا ہے جس کا مشاہدہ کوئی بھی کرسکتا ہے۔ بشرطیکہ آنکھیں کھلی ہوں اور ان پر مصلحت و مفادکا غلاف نہ چڑھا ہو۔ کتاب میں کل بارہ مضامین ہیں جس میں غالب فہمی کے کچھ نئے زاویوں کو اجاگرکیا گیا ہے جس سے ان مضامین کی معنی خیز ی اور کشش مزید بڑھ جاتی ہے۔ پہلا مضمون، نظم طباطبائی کی شرح دیوان اردوئے غالب مرتبہ ظفر احمد صدیقی کے عنوان سے ہے جس میں مصنف نے قدیم وجدید شارحین اور متعدد تدوینات کے حوالے سے محاکمہ کرتے ہوئے اپنا  عالمانہ وحکیمانہ زاویہ ٔ نظر پیش کیا ہے۔ ایک جگہ وہ رقمطراز ہیں۔

 ’’ طباطباعی نے ایک جگہ حالی کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا ہے مگر فاضل مرتب کی انصاف پسندطبیعت نے ان کے وار کو نہ صرف بے اثر بنایا ہے بلکہ طباطباعی کی زیادتی کی بھی نشاندہی کی ہے۔ طباطباعی کی علمیت اور بزرگی کا احترام لازم مگر حق پسندی کا دامن بھی ہاتھ سے جانے نہ دینے کی روش قابل ستائش  ہے۔

 کون ہوتا ہے حریف مئےمرد افگن عشق   

   ہے مکرر لب ساقی پہ صلا میرے بعد 

اس شعر کے تعلق سے حالی نے خود مرزا غالب کے بیان کردہ مطلب کو  ’ یادگارغالب  ‘میں نقل کیا ہے جس سے شعر کی معنویت اجاگر ہوتی ہے۔ طباطباعی نے نہ صرف اس مطلب کو یک قلم خارج کردیا ہے بلکہ حالی پر طنز بھی کیا ہے کہ ’ اس شعر کے معنی میں لوگوں نے زیادہ تدقیق کی ہے مگر جادہ ٔ مستقیم سے خارج ہے۔ ‘ فاضل مرتب نے حاشیہ لگاکر حالی کی پوری عبارت نقل کی ہے اور لکھا ہےکہ ’  لوگوں سے مراد یہاں حالی ہیں ‘ طباطبائی کا طنز آمیز تبصرہ نامناسب ہے اور لطف یہ ہے کہ طباطبائی کی شرح حالی ہی سے ماخوذ ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ طباطبائی کا طنز آمیز تبصرہ نہ صرف نامناسب ہے بلکہ ان کی سخن فہمی کو بھی معرض خطر میں ڈالنے کا باعث ہے۔ حالی نے  ’  یادگار غالب  ‘ میں خود غالب کی زبانی لفظ  ’ مکرر ‘ کے استعمال کی جو توجیہ پیش کی ہے ( کہ پہلی بار ساقی صلائے عام کے انداز میں پوچھتا ہے اور دوسری بار مایوسی کے عالم میں یہی بات دہراتا ہے ) وہ شعر کو فنی اعتبار سے نہایت بلند پایہ بناتی ہے۔ اسے جادہ ٔ مستقیم سے خارج بتانا حالی کے ساتھ غالب کی نکتہ سنجی پر بھی حرف لانے کے مترادف ہے۔ ‘‘

اسی طرح ایک اور مضمون بعنوان خودداری ٔ ساحل اور تفہیم غالب میں ؍ حریف جوشش دریا نہیں خودداریٔ ساحل ؍جہاں ساقی ہو تو باطل ہے دعویٰ ہوشیاری کا ؍اس کی شرحی تفہیم شمس الرحمان فاروقی نے جس انداز میں کی ہے اس پر مصنف نے علمی دلائل کی روشنی میں فنی بحث کرتے ہوئے لکھا ہے۔ ’’ بعض معتبر شارحین غالب نے  ’ خودداری ٔ ساحل ‘ سے، ساحل کی استقامت، پاداری، قوت مدافعت کے معنی مراد لئے ہیں جن کے درست ہونےمیں کوئی اشکال نہیں ہے۔ اردولغت : تاریخی اصول پر، کے مرتبین نے پاس عزت نفس، کی سند کے طور پر درد کا جو شعر درج کیا ہے اس سے لفظ ’ خودداری ‘ کے مذکورہ معنی برآمد نہیں ہوتے اس لئے یہ مثال مفید مطلب نہیں ہے۔ غالب کے زیر بحث شعر کی وہ تفہیم جو فاروقی صاحب نے پیش کی ہے، قابل قبول نہیں ہے۔ ‘‘

کتاب کے دیگر مضامین بھی بلیغ اشارات و کنایات اورعلمی دلائل کی روشنی میں تحریر کئے گئے ہیں جس کا معروضی مطالعہ پروفیسر یونس اگاسکر کی تنقیدی بصیرت کو واضح کرتا ہے، اس لحاظ سے یہ بات بلا خوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ یہ کتاب غالب فہمی میں ایک اچھا اور قیمتی اضافہ ہے۔ ایوان ادب میں ہم اس کتاب کا خیرمقدم کرتے ہیں۔

تبصرے بند ہیں۔