جموں و کشمیر کے پنچایتی انتخابات

ایم شفیع میر

ریاست بھر میں اس وقت پنچایتی انتخابات کو لیکر ایک ہنگامہ خیز صورتحال بنی ہوئی ہے،بے شک پنچایتی انتخابات کو غیر سیاسی طور انجام دینے کی باتیں کی جاتی ہیںاور یہ دعویٰ بھی کیا جارہا ہے کہ پنچایتی انتخابات کا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیںمگر ایسی باتیں سن کر یا تو خوب ہنسی آتی ہے یا پھر انسان آگ بگولہ ہو جاتا ہے کیونکہ اِس بات میں ذرا برابر بھی حقیقت نہیں کہ پنچایتی انتخابات کا سیاست سے کوئی سروکار نہیں۔ یوں کہا جائے کہ سیاست کی پہلی سیڑھی پر آنے کے لئے پنچایتی انتخابات میں حصہ لینا لازمی ہے تو بے جا نہ ہوگا۔

 پنچایتی راج چونکہ ایک آزاد ادارہ تھا۔ ماضی میں واقعی اِس میں سیاست کا کوئی عمل داخل نہیں تھا تبھی جا کر عوام متفقہ طور کسی ایک باشعور انسان کو اپنا رہبر بنا لیتے تھے پھر اُس رہبر کی باتوں پر عمل بھی کرتے تھے۔ قابلِ غور تو یہ ہے کہ عوام جسے رہبری کا تاج پہناتے تھی وہ حقیقی معنوں میں اُس قابل ہوتا تھا، وہ ایک باشعور اور بیباک انسان ہوتا تھا تبھی جا کر وہ خوف ِ خدا اور انصاف کے تقاضوں کو مد ِ نظررکھتے ہوئے کوئی بھی کام انجام دیا کرتا تھا۔ یہ ماضی کی پنچایتی راج کا ایک خوشگوار دور تھا جس کی مثال موجودہ دور کے پنچایتی راج میں کہیں دور دور تک دیکھنے کو نہیں مل رہی ہے۔

 موجودہ دور میں پنچایتی ادارہ اس قدر سیاست زدہ ہو چکا ہے کہ بغیر سیاسی عمل دخل کے امیدواروں کا میدان میں آنا ایک نا ممکن سی بات ہے۔ جس طرح اسمبلی انتخابات میں لوگ حصہ لیتے ہیں اور انتخابی مہم چلاتے ہیں اسی طرح پنچایتی انتخابات میں بھی لوگ انتخابی مہم چلانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھتے۔ حد تو یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں نے پنچایتی انتخابات میں اس حد تک اپنی دخل اندازی جاری رکھی ہے کہ ایم ایل اے صاحبان بھی گھر گھر جا کر عوام سے ووٹوں کی بھیک مانگتے نظر آرہے ہیں۔ رواں پنچایتی انتخابات میں دیکھا جائے تو بی جے پی زمینی سطح پر اپنی ساکھ کو مضبوط کرنے کے لئے طرح طرح کے حربے اپنا رہی ہے۔ رائے دہندگان کو خریدنے کا ناپاک عمل بھاجپا نے اس انداز سے شروع کر دیا ہے کہ اب رائے دہندگان کا اس خوفناک وباء سے بچ پانا کافی دشوار نظر آرہا ہے۔ پنچایتی انتخابات میں بھاچپا کی دخل اندازی اس حد بڑھ رہی ہے کہ پیسوں کی بنیاد پر ہر پنچایت میں زیادہ سے زیادہ امیدواروں کومیدان میں اُتارا جاتا ہے اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ عوام جس امیدوار کو اپنا مستقبل سونپنا چاہتے ہیں وہ ناکام ہو کر رہ جاتا ہے، بھاجپا ’’لڑائو اور راج کرو‘‘ کی پالیسی اپنا کرجو زہر عوامی حلقوں میں گھول رہی ہے وہ انتہائی افسوسناک اور قابل ِ رحم ہے۔

پنچایتی انتخابات میں سیاسی مداخلت اس خوفناک موڑ تک آ پہنچی ہے کہ نام نہاد سیاست دانوں کو اچانک خدا صاحب یا د آ گئے ہیں، سیاسی لیڈران نے اب نماز ادا کرنے کے لئے مساجدوں میں جانے کا رُخ کر دیا ہے،  یوں لوگ نماز پڑھنے کیا آئے تو نماز ادائیگی کے فوراًبعد مکار لیڈر اپنی بات چھیڑ دیتا ہے، طرح طرح کے حدیثوں کا حوالہ دیکر انتخابات میں ووٹ کے صحیح استعمال کرنے کا بھاشن مسجد میں ہی شروع کر دیتا ہے اور اپنی چوڑی چکلی باتوں سے سادہ لوح لوگوں کے دل لبھانے کی مکاری کی ادا کاری کرتا ہے اور پھر یہ سادہ لوح لوگ ایسے نام نہاد لیڈران کی مکاری کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اس لئے عوام ہوش کے ناخن لیں کہ اب ابلیس مساجدوں میں بھی آگھسے ہیں۔جو مسلم لیڈر ان اپنی غلیظ سیاست کو چمکانے اور مفادِ خصوصی کے لئے مساجدو ں میں سیاسی بھاشن دینے اور سیاسی باتیں کرنے سے گریز نہیں کرتے وہ ایمانی طور کورے اور خالی لوگ ہیں۔سیاست ہی اُن کا دین اور سیاست ہی اُن کا ایمان ہے۔ ایسے لوگ اسلام کے دشمن اور ابلیس کے طرفدار ہیں۔’’ ارے او!!مسلم لیڈرو!! کیا ہوگیا ہے آپ کو؟؟ آپ کیوں چند پیسوں کے عوض مفادِ خصوصی اورغلیظ سیاست کو ایمان پر ترجیح دیکر اپنی عاقبت کو خطرے میں ڈال رہے ہو؟؟؟کیوں آپ نے ایمان کو ایک کھلونا سمجھ رکھا ہے؟؟ کیوں آپ کے ضمیر اس قدر مردہ ہوچکے ہیں کہ آپ نے سیاست چمکانے کے لئے ایک ایسا طریقہ کار اپنایا جس سے آپ ایمانی طور کمزور تصور ہو رہے ہیں، کیا تمہیں اس بات کا اندازہ ہے کہ آپ کی اِن ناپاک حرکتوں سے غیر تمہارا کیا حشر کریں گے ؟؟آپ کو معلوم نہیں کہ آپ خوفناک مستقبل کو دعوت ِ عام دے رہے ہو۔ شاعرِ مشرق علامہ اقبالؒ نے شائد آ پ ہی جیسے لوگوں کے لئے لکھا تھا کہ

مُلا کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت
نادان یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد

لہٰذاایسے مسلم لیڈران کو چاہیے کہ وہ اپنی آخر ت پر بھی نظر رکھیں جو مساجدوں میں جا کر سیاسی بھاشن دیتے ہیں اور سادہ لوح لوگوں کو اپنی مکاری کا شکار بناتے ہیں‘‘۔یہاں یہ بات قابل ِ ذکر ہے کہ اس طرح کے اقدامات پر علمائے کرام کو خاموشی اختیار نہیں کرنی چاہیے۔ سادہ مزاج لوگوں کوسیاست کے اِن فریبی اور ناپاک ہتھکنڈوں سے باہر نکالنے کے لئے علماء حضرات کو اپنا کردار نبھانا وقت کا تقاضا ہے اگر بر وقت علمائے کرام نے ایسے معاملات پر خاموشی اختیار کر رکھی تو لازماً فریبی اورمکار سیاست دان سادہ لوح لوگوں کو گمراہی کا شکار بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ اس لئے علمائے کرام کو چاہئے و ہ ووٹ کے استعمال اور مساجدوں میں سیاسی باتیں کرنے پر شرعی طورعوا م کو آگاہ اور معلومات فراہم کریں تاکہ جو نام نہاد سیاستدان نماز ادائیگی کے لئے مساجدوں میں محض اس لئے جاتے ہیں تاکہ وہ سادہ لوح لوگوں اپنی مکاری،  دغابازی اورفریب کاری کا شکار آسانی سے بنا سکیں۔اگر علمائے کرام نے بروقت ایسے حساس معاملات پر خاموشی اختیار کر رکھی تو قوم کو گمراہی کی راہ پر جانے سے کوئی روک نہیں سکتا، بلکہ دجال نما سیاست دان قوم کو اپنی چوڑی چکلی باتوں میں بہلا پھسلا کر گمراہی کی راہ پر لے جانے کے لئے سرگرم ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ریاست میں بھاجپا مسلمانوں کو ہی مسلمانوں کے خلاف مہرہ بناکر استعمال کرنے کی سازشیں کر رہی ہے اور افسوس ناک بات یہ ہے کہ ریاست کامسلمان طبقہ بھاجپا کی ان ناپاک سازشوں کا شکار بڑی آسانی سے ہو رہے ہیں،  یہ ہماری بے حسی اور غیر شعوری کی وہ مثالیں ہیں جو ہمیں ایک نہ ایک دن تباہی کے دہانے پر لا کر رکھ دیں گی، یہ وقت ہے کہ ریاست کا مسلمان طبقہ سازشوں کا شکار نہ ہو لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ ریاست کے مسلمان طبقہ میں ذہنی بالغ نظری مکمل طور سے مفقود ہوتی چلی جا رہی ہے۔ قوم کے وہ رہبر ہی خود سازشوں کا شکار ہو رہے ہیں جنہیں قوم نے اپنے تحفظ کے لئے چنا تھا۔ ایسی صورتحال میں مسلم دشمن سازشوں کا فروغ پانا ایک آسان کام ہے۔

گو کہ مرکزی سرکار نے پنچایتی انتخابات کراکر یہ باور کرانا چاہا کہ ریاست میں بغیر سرکار کے بھی زمینی سطح پر تعمیر و ترقی کے باب رقم کئے جائیں لیکن کیا یہ ممکن ہے کہ پیسوں کی بنیاد پر جس اُمیدوار کو کامیاب کیا جائے وہ کرپٹ نہ ہو؟؟جس کرپشن سے امیدوار کو میدان میں اُتار کر عوامی رہبری کا تاج پہنایا جائے وہ کسی بھی قیمت میں ایک انصاف پسند اور ترقی پسند رہبر نہیں ہوسکتا۔ یہاں یہ صاف معلوم ہوجاتا ہے کہ بھاجپا ریاست میں سرکار کے بغیر پنچایتی راج کے تحت تعمیرو ترقی کے جو خواب دیکھ رہی ہے اُن کا شرمندہ ٔ تعبیر ہونامشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن ہے۔ کیونکہ زمینی سطح پر جب عوام اپنی مرضی کے مطابق کوئی نمائندہ چن ہی نہیں سکتی تو پھر تعمیرو ترقی کا خواب شرمندۂ تعبیر ہونا ایک فصول خیال ہے۔

قابل غور یہ بھی ہے کہ کچھ لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ آج کی سیاست مکر و فریب کا دوسرا نام بن چکی ہے، اس لیے شریف آدمیوں کو نہ سیاست میں کوئی حصہ لینا چاہیے، نہ الیکشن میں کھڑا ہونا چاہیے اور نہ ووٹ ڈالنے کے خرخشے میں پڑناچاہیے۔یہ غلط فہمی خواہ کتنی نیک نیتی کے ساتھ پیدا ہوئی ہو، لیکن بہر حال غلط اور قوم وملّت کے لیے سخت مضر ہے۔ ماضی میں ہماری سیاست بلا شبہ مفاد پرست لوگوں کے ہاتھوں گندگی کا ایک تالاب بن چکی ہے، لیکن جب تک کچھ صاف ستھرے لوگ اسے پاک کرنے کے لیے آگے نہیں بڑھیں گے، اس گندگی میں اضافہ ہی ہوتا چلا جائے گا، اور پھر ایک نہ ایک دن یہ نجاست خود ان کے گھروں تک پہنچ کر رہے گی۔ لہٰذا عقل مندی اور شرافت کا تقاضا یہ نہیں ہے کہ سیاست کی اس گندگی کو دور دور سے برا کہا جاتا رہے، بلکہ عقل مندی کا تقاضا یہ ہے کہ سیاست کے میدان کو ان لوگوں کے ہاتھ سے چھیننے کی کوشش کی جائے، جوکبھی مذہب تو کبھی ذات پات کے نام پر اسے مسلسل اسے گندا کر رہے ہیں۔لیکن موجودہ وقت میں ہماری یہ حالت ہے کہ

اِس بت کے پجاری ہے مسلمان ہزاروں
بگڑے ہیں اس کفر میں ایمان ہزاروں

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔