اردو شاعری کی ترقی میں ایہام گوئی کا حصہ

ڈاکٹرمحمد خلیق الزماں

 اٹھارہویں صدی اردوشاعری کاانتہائی زرخیز دور رہاہے۔ اس دورمیں مختلف لسانی اورتہذیبی عوامل کے تحت شمالی ہندمیں اردوشاعری کارواج عام ہوا۔ ریختہ گوئی کی شروعات ہوئی اور اردوشاعری کی ایک بڑی اہم تحریک ایہام گوئی کاجنم اسی عہدمیں ہوا جس نے اردوشاعری کوبے حدمتاثرکیا۔ اور اردوزبان نے شاعری کی حدتک فارسی زبان کی جگہ لے لی اورایک توانازبان کی حیثیت سے معروف ومقبول ہوئی۔

صدیوں سے ہندوستان کی علمی اورادبی زبان فارسی تھی اورہندوستان کے شعرا اوراُدبانے فارسی زبان میں بے پناہ قدرت حاصل کرلی تھی لیکن اہل زبان ایران یہاں کے شعراکو قابل اعتنا نہیں سمجھتے تھے جس کی وجہ سے کئی تنازعات بھی سامنے آئے، عرفی اور فیضی کاتنازعہ اسی دورکی پیداوارہے۔ ایرانی اورہندوستانی فارسی دانوں کی اس محاذ آرائی نے اس احساس کواور بھی ہوادی کہ ہندوستانی فارسی زبان میں کتنی ہی مہارت حاصل کرلیں انھیں وہ پذیرائی اوراہمیت حاصل نہیں ہوسکتی جواہل ایران کوحاصل ہے۔ اس رویے نے ہندوستان کے فارسی گوشعراکو اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے استعمال اورفکروخیال کے جوہردکھانے کے لیے ایک نئے میدان کی طرف متوجہ کیا۔ چنانچہ سراج الدین علی خاں آرزونے یہاں کے شعرا کو ریختہ میں شعرگوئی کی ترغیب دی اورہرماہ کی پندرہویں تاریخ کوان کے گھرپر ’’مراختے‘‘ کی مجلسیں آراستہ ہونے لگیں۔ مشاعرہ کے انداز پر’’مراختہ‘‘ کی اصطلاح وضع کی گئی۔ اب نئی نسل کے بیشتر شعرانے فارسی میں شعرگوئی ترک کردی اوران کی پوری توجہ ریختہ گوئی میں صرف ہونے لگی یہ چیزیں اتنی عام ہوئیں کہ فارسی گوشعرابھی رواج زمانہ کے مطابق منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے ریختہ میں شاعری کرنے لگے۔

اٹھارویں صدی کے دوسرے دہے میں جب ولی کادیوان دہلی پہنچا تو اس نے شمالی ہند کے ریختہ گو شعرا میں ایک نئی روح پھونک دی۔ ولی کایہ دیوان ریختہ میں تھااورفارسی روایت کے عین مطابق حروف تہجی کے اعتبارسے ترتیب دیاگیاتھا جس کااثریہ ہوا کہ شعرائے دہلی میں بھی دیوان سازی کاعمل زور پکڑنے لگا۔ اس طرح اردوشاعری ایک نئے دورمیں داخل ہوگئی۔ شمالی ہندمیں جب اردوشاعری کاپہلادورشروع ہواتو اس دور کے اردوشاعر فارسی کی تہذیبی اورشعری روایت کے زیرسایہ پرورش پارہے تھے لہٰذا اردوشعرانے فارسی شعراکے مقبول رجحانات کوہی اپنامشعل راہ بنایا اورفارسی شاعری کی جس روایت کوپہلی باراختیارکیاگیاوہ ’’ایہام گوئی‘‘ کی روایت تھی۔ بقول ڈاکٹر جمیل جالبی:

’’دیوان ولی نے شمالی ہندکی شاعری پر گہرااثرڈالا اوردکن کی طویل ادبی روایت شمال کی ادبی روایت کاحصہ بن گئی۔ اٹھارہویں صدی شمال وجنوب کے ادبی وتہذیبی اثرات کے ساتھ جذب ہوکر ایک نئی عالم گیر روایت کی تشکیل وتدوین کی صدی ہے۔ اردوشاعری کی پہلی ادبی تحریک یعنی ایہام گوئی بھی دیوان ولی کے زیر اثر پروان چڑھی‘‘ـ۱ـ

ایہام گوئی شمالی ہندمیں اردوشاعری کی ایک بڑی تحریک تھی۔ یہ تحریک محمدشاہی عہدمیں شروع ہوئی اور ولی کے دیوان کی دلی آمد کے بعداس صنعت کو عوامی مقبولیت ملی۔ شمالی ہندمیں اردوشاعری کی ترقی کاآغاز اسی تحریک سے ہوتاہے۔

ایہام عربی زبان کالفظ ہے جس کے لغوی معنی ہیں ’وہم میں ڈالنا‘اور ’وہم میں پڑنا یاوہم میں ڈالنا۔ ‘چونکہ اس صنعت کے استعمال سے پڑھنے والاوہم میں پڑجاتاہے، اس لیے اس کانام ایہام رکھاگیا۔

ایہام کااصطلاحی مفہوم یہ ہے کہ یہ وہ صنعت ہے جس سے شعرکے بنیادی لفظ یالفظوں سے قریب اوربعید دونوں معنی نکلتے ہوں اور شاعرکی مراد معنی بعیدسے ہو۔ نکات الشعر امیں میرؔکے الفاظ یہ ہیں :

’’معنی ایہام اینست کہ لفظے کہ بروبناے بیت بوآں دومعنی داشتہ باشدیکے قریب ویکے بعید وبعید منظور شاعرباشدوقریب متروک او‘‘ ۲

ڈاکٹر جمیل جالبی ایہام کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’ایہام کے معنی یہ ہیں کہ وہ لفظ ذو معنی ہوجس پر شعر کی بنیاد رکھی گئی ہے اور ان دونوں معنی میں سے ایک قریب ہوں دوسرے بعید۔ اپنے شعر میں شاعر کی مراد معنی بعید سے ہوقریب سے نہیں۔ ‘‘۳

ایہام کئی طرح کے ہوتے ہیں اوراس کی کئی قسمیں ہیں۔ اردوکے مشہور نقادشمس الرحمن فاروقی نے اس کی تین قسمیں بیان کی ہیں :

1۔   ایہام خالص: 

یعنی جہاں ایک لفظ کے دومعنی ہوں ایک قریب کے اورایک دورکے اور شاعر نے دورکے معنیٰ مرادلیے ہوں۔

2۔   ایہام پیچیدہ : 

جہاں ایک لفظ کے دومعنی یادوسے زیادہ معنی ہوں اورتمام معنی کم وبیش مفید مطلب ہوں عام اس سے کہ شاعرنے کون سے معنی مراد لیے ہوں۔

3۔    ایہام مساوات :   

     جہاں ایک لفظ کے دومعنی ہوں دونوں برابر کے کم وبیش یابالکل قوی ہوں اور یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوکہ شاعرنے کون سے معنی مرادلیے تھے۔ ‘‘۴

 ایہام گوئی کی یہ صنعت عربی، فارسی، سنسکرت، ہندی اور اردو سب ہی زبانوں میں پائی جاتی ہے۔ یہ توواضح ہے کہ ہندی میں یہ صنعت سنسکرت سے آئی اورسنسکرت میں اس صنعت کو’ شلیش ‘کہاجاتاہے اوریہی نام ہندی میں بھی ہے۔ ہندی شاعروں نے اسے کثرت سے استعمال کیا ہے۔ مولوی عبدالحق لکھتے ہیں کہ :

’’شلیش سنسکرت کالفظ ہے اورسنسکرت میں اس صنعت کی کئی قسمیں ہیں۔ مگران میں سے خاص دو ہیں سبہنگ اورانہنگ۔ سبہنگ میں لفظ سالم رہتاہے اور ابہنگ میں لفظ کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے یہ صنعت پیدا کی جاتی ہے۔ ہندی میں یہ سنسکرت سے آئی ہے۔ ہندی شاعروں نے اسے کثرت سے استعمال کیاہے۔ ‘‘۵

 اردومیں ایہام کی صنعت کہاں سے آئی آیایہ فارسی سے آئی یاہندی سے۔ بیشتر ناقدین اردومیں ایہام گوئی کاسراہندی دوہروں سے ہی جوڑتے ہیں۔ مولوی عبدالحق کا بھی یہی مانناہے کہ اردوشاعری میں ایہام گوئی کی روایت ہندی شاعری کی رہین منت ہے۔ وہ لکھتے ہیں :

’’یہ خیال قرین صحت معلوم ہوتاہے کہ اردوایہام گوئی پرزیادہ ترہندی شاعری کااثر ہوااورہندی میں یہ چیز سنسکرت سے پہنچی۔ ‘‘۶

ڈاکٹرنورالحسن ہاشمی کانقطۂ نظراس سے کچھ مختلف ہے۔ وہ اٹھارہویں صدی میں فارسی گوشعراکی دربارمیں رسائی اوراس کے اثرات کوبنیاد بناکریہ کہتے ہیں کہ اردوشاعری میں ایہام کی صنعت فارسی سے آئی ہے۔ نورالحسن ہاشمی کی اس رائے سے قاضی عبدالودود کے علاوہ بہت سے لوگوں نے اختلا ف کیا۔ ڈاکٹر محمدحسن نے بیچ کی راہ نکالتے ہوئے ایہام گوشعراپرفارسی ہندی دونوں کے اثرات کی وکالت کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں

:’’غرض شمالی ہندمیں اردوادب کی ابتدا فار سی اورہندی کی دوہری ادبی روایات کے سائے میں ہوئی ۔ فارسی نے اردوادب سے بہت کچھ اخذواختیارکیا۔ اس کی حسن کاری لفظوں کے دروبست، اضافت وتراکیب، شاعرانہ لب ولہجہ اورایک مخصوص افتاد طبع اورشائستگی کا ایک خاص تصورلیا۔ ہندی شاعری سے بالواسطہ کئی اثرات پڑے۔ ‘‘۷

لیکن ڈاکٹر منظراعظمی مختلف ایہام گو شعرا کے کلام میں مستعمل ہندی الفاظ کی نشاندہی کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’اگرایہام گواردوشعراکے اشعارپر نظرکی جائے توفارسی لب ولہجہ اور اثرات کم اورہندی یابھاشائی لب ولہجہ اوراثرات نسبتاً زیادہ ملتے ہیں۔ فارسی اثرات کے تحت بیشترشعر رعایت لفظی کی نوعیت کے ہیں جب کہ ہندی اثرات کے تحت شعربیشترایہامی ہیں ‘‘۔ ۸

اردوشاعری میں ایہام گوئی کی شروعات امیرخسروسے ہوتی ہے وہ سب سے پہلے شاعرہیں جنھوں نے ایہام کو بطورصنعت اپنی فارسی شاعری میں استعمال کیا۔ پھرفارسی اوراردوکافائدہ اٹھاتے ہوئے اردومیں ایسے اشعارکہے جن میں یہ صنعت استعمال ہوتی تھی۔ ان کی کہہ مکرنیوں اورپہیلیوں میں ایہام کا استعمال کثرت سے ملتا ہے۔

ایہام گوئی کی ا س روایت کوفروغ دینے میں ولیؔکانام کافی اہمیت کاحامل ہے۔ اس صنعت کانمایاں اظہار ہمیں ولی کی شاعری میں ملتاہے۔ اسی لیے ولیؔکو ہی ایہام کی تحریک کانقطۂ آغاز ماناجاتاہے۔ مندرجہ ذیل اشعار میں ایہام کی عکاسی بھرپورملتی ہے:

لیاہے گھیرزلفوں نے یہ تیرے کان کاموتی

مگریہ ہندکا لشکرلگاہے آستارے کو

ہرشب تری زلف سے ’’مطول‘‘ کی بحث تھی

تیرے دہن کودیکھ سخن’’مختصر‘‘ کیا

موسیٰ جوآکے دیکھے تجھ نورکاتماشا

اس کوں پہاڑہوئے پھر طورکاتماشا

 ایہام گوئی کی صنعت کوجس نے عروج عطاکیاوہ خان آرزوؔ ہیں۔ خان آرزوؔ اوران کے شاگردوں نے اس صنعت کا فراوانی سے استعمال کیا۔ انھیں یقین تھاکہ مستقبل میں فارسی کے بجائے ریختہ ہی اس ملک کی زبان بننے والی ہے۔ ویسے اس صنعت میں طبع آزمائی کرنے والوں کی فہرست طویل ہے البتہ اہم ایہام گوشعرا میں انعام اللہ خاں یقینؔ، شاہ مبارک آبروؔ، شاکرناجیؔ،مصطفی خاں یک رنگ اورشاہ ظہورالدین حاتم وغیرہ کانام کافی اہمیت کاحامل ہے۔ طوالت سے بچتے ہوئے نمونے کے طور پر کچھ اشعار دئے جاتے ہیں :

ہوئے ہیں اہل زر خوابان دولت خواب غفلت میں

جسے سوناہے یاروں فرش پہ مخمل کے کہہ سوجا

نیل پڑجاتا ہے ہربوئی کا اے نازک بدن

تن اوپر تیرے چکن کرناہے گویا کارِ چوب

(آبروؔ)

نظرآتانہیں وہ ماہ رو کیوں

گزرتاہے مجھے یہ چاند خالی

نہ دیتا غیر کو نزدیک آنے

اگر ہوتا وہ لڑکا دور اندیش

(یقینؔ)

ہوں تصدق اپنے طالع کا وہ کیسا بے حجاب

مل گیا ہم سے کہ تھا مدت سے گویاآشنا

(حاتمؔ)

قوس قزح سے چرچہ کرانا تھا تجھ بھواں کا

   شاید کہ سربھراہے اب پھر کر آسماں کا

 (شاکرناجیؔ)

اردوشاعری میں ایہام گوئی کایہ دورتقریبا ۲۵۔ ۳۰برسوں کومحیط ہے۔ اس صنعت نے بہت سے شعراکو متاثرکیااو راس سے اردوکے ذخیرئہ الفاظ میں بیش بہااضافہ ہوا جس کافائدہ یہ ہوا کہ اسے باقاعدہ ایک زبان بننے اور اس سے پیکرتراشی میں نمایاں مددملی۔ لفظوں کی صوری اورمعنوی دونوں صورتوں میں کتنا تنوع ہوسکتاہے اوراس کے مضامین کی کتنی جہتیں ہوسکتی ہیں یہ ساری چیزیں اسی صنعت ایہام کی دین ہیں۔

ایہام گو شعرا کے کلام کے مطالعے سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے اشعار محض سطحی یا الفاظ کاگورکھ دھندہ نہیں تھے بلکہ ان اشعار میں درس و عبرت کے پہلو کے ساتھ ساتھ کئی تاریخی،معاشرتی اورشخصی حوالے بھی ملتے ہیں۔ ویسے تو یہ حوالے بعد کے شعرا کے کلام میں بھی کثرت سے ملتے ہیں لیکن ایہام گوئی کی بدولت دوسرے متعلقات اور مناسبات کی شمولیت نے ان حوالوں کو اور بھی واضح کر دیا ہے۔

ایہام گو شعرا نے اردو شاعری کی بہت بڑی خدمات انجام دی ہیں۔ ایک عام بول چال کی زبان جو ریختہ کہلاتی تھی اسے با قاعدہ ایک زبان کی حیثیت عطا کرنے میں ایہام گو شعرا کی کاوشیں اردو شاعری کی تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔ اسی طرح اردوشاعری میں بعض اصناف کی ایجاد کاسہرابھی ایہام گوشعراکے سرجاتاہے۔ سب سے پہلاواسوخت شاہ حاتم نے کہا۔ اولین شہرآشوب بھی ان کے ہی کے قلم کی رہین منت ہے۔ رباعیات کو رواج دینے میں ان کاکردار سب سے اہم ہے۔ اس کے علاوہ مخمس، مسدس، ترکیب بند، مراثی، قصائد اورساقی نامے بھی ایہام گوشعرا کی دین ہے۔

 ان خصوصیات کے باوجود ایہام گوئی کی صنعت سے اردوشاعری کو کافی نقصان بھی پہنچا۔ اس صنعت کے استعمال سے شاعری تصنع کاشکارہوگئی اورشاعر جذبے اور احساس کے بجائے الفاظ کے دروبست میں الجھ کر رہ گئے اوراس طرح شعری بے ساختگی اورجذباتی عظمت مجروح ہوتی گئی۔

حواشی

۱۔ تاریخ ادب اردو، ڈاکٹر جمیل جالبی،جلد دوم حصہ اول ص۱۹۱

۲۔ نکات الشعرا،میر تقی میر،مرتبہ ڈاکٹر محمود الہی،ص ۱۶۳

۳۔ تاریخ ادب اردو، ڈاکٹر جمیل جالبی،جلد دوم حصہ اول ص۱۹۱

۴۔ تعبیر کی شرح،شمس الرحمان فاروقی،اکادمی بازیافت،کراچی، پاکستان،۲۰۰۴،ص۱۱

۵۔ اردو شاعری میں ایہام گوئی،مولوی عبدالحق،بحوالہ اردو  شاعری میں ایہام گوئی کی تحریک،ملک حسن اختر ص۱۳۱

۶۔ اردو شاعری میں ایہام گوئی،مولوی عبدالحق،بحوالہ اردو ادب کے ارتقا میں ادبی تحریکوں اور رجحانوں کا حصہ،ڈاکٹر منظر اعظمی،ص۵۵

۷۔ دہلی میں اردو شاعری کا فکری پس منظر،ڈاکٹرمحمد حسن،ص۳۴۴

۸۔ اردو ادب کے ارتقا میں ادبی تحریکوں اور رجحانوں کا حصہ،ڈاکٹر منظر اعظمی،ص۵۴

تبصرے بند ہیں۔