سال 2018 کے لیے  اے ایم یو کی ریسرچ اسکالر کو ساہتیہ اکادمی کا باوقار انعام

ساہتیہ اکادمی کی جانب سے امپھال میں منعقدہ تقریب انعام میں اردو کے لئے سال رواں کا ’یوا پرسکار‘شہناز رحمن کو تفویض کیا گیا۔ ٹرائبل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آڈیٹوریم میں منعقدہ  سہ روزہ پروگرام کے پہلے دن مومنٹواور پچاس ہزار کے چیک پر مشتمل یہ انعام معروف ہندی شاعر اور ساہتیہ اکادمی کے نائب صدرمادھو کوشک کے ہاتھوں دیا گیا، مہمان خصوصی انگریزی کی معروف رائٹرایستھرڈیوڈ نے شال اور گلدستہ پیش کر کے انعام یافتگان کا استقبال کیا۔ نائب صدرساہتیہ اکادمی نے اپنی صدارتی تقریر میں کہا کہ ہر انسان اپنی صلاحیت کی بنیاد پراپنا کام منتخب کرتا ہے لیکن تخلیق ایک ایسا کام ہے جس کا انتخاب فطرت کرتی ہے، نوجوان تخلیق کاروں میں خواہش ہوتی ہے کہ وہ سماج کا جمود ختم کریں، ہمارے سامنے اس وقت پورے ہندستان کے نوجوان تخلیق کار موجود ہیں، انہوں نے ہندوستان کی بدلتی ہوئی سوچ اور سماج کو اپنی کتابوں میں پیش کیا ہے۔ انہوں نے مزیدکہا کہ ہمارے زمانہ میں وسائل کی قلت تھی، کتابیں ڈھونڈ کر پڑھنی پڑتی تھیں لیکن اس وقت نیٹ کے انقلاب کی وجہ سے ہمارے سامنے وسائل کا خزانہ ہے، اس لئے نو جوان قلم کاروں کی ذمہ داریاں بھی بڑھ جاتی ہیں۔

مہمان خصوصی ایستھر ڈیوڈ نے اپنے خطاب میں کہا کہ یہ نوجوان لکھنے والے ہندوستانی ادب کا روشن مستقبل ہیں۔ اچھا ادیب سماج کا معالج ہوتا ہے، خواہ وہ کسی بھی زبان کا ہو، مثال کے طور پراردو میں عصمت چغتائی نے عورتوں کے حقوق اور مسائل کی بات اپنے افسانوں میں کی اور ان افسانوں کے تراجم کے ذریعہ دوسری زبانوں کے لوگ بھی متاثر ہوئے، اور وہ بھی عورتوں کے مسائل پر بات کرنے لگے۔

ساہتیہ اکادمی کے سکریٹری کے سرینواس راؤ نے اپنے افتتاحی کلمات میں انعام یافتگان کو مبارکباد پیش کی اور ساہتیہ اکادمی کی سرگرمیوں پر روشنی ڈالی۔ اس موقع پرانعام یافتگان کے کوائف اورادبی سفر پر مشتمل سووینئر کا اجرا بھی ہوا۔

 ملک کی چوبیس زبانوں میں دئے جانے والے اس انعام کا اعلان ماہ جون میں کیا گیا تھا۔ شہناز رحمن کو یہ ایوارڈ ان کے افسانوی مجموعہ ’نیرنگ جنوں ‘پر دیا گیا ہے۔ ’ ’نیرنگ جنوں ‘سے پہلے2016میں ان کے  تنقیدی مضامین کا مجموعہ’ اردو فکشن :تفہیم تعبیر اور تنقید ‘بھی شا ئع ہو چکا ہے۔ علاوہ ازیں ملک و بیرون ملک کے معتبر ادبی رسائل و جرائد میں ان کی تخلیقات اور مضامین شائع ہو چکے ـ ـ ہیں۔  انہوں نے سال رواں کے ماہ مئی میں ہی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے’ آزادی کے بعد اردو افسانوں کی عملی تنقید کا مطالعہ‘ موضوع پر اپنا تحقیقی مقالہ مکمل کیا ہے۔

شہناز رحمن کا تعلق مشرقی یوپی کے ضلع سدھارتھ نگر سے ہے، انہوں نے مشرقی علوم جامعۃ الفلاح اعظم گڑھ سے حاصل کئے، بعد ازاں عصری علوم کے لئے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا رخ کیااور اعلی تعلیم کے مدارج طے لئے۔ افسانہ نگاری کے لئے شہناز رحمن کو2017میں ’ پروفیسر شمیم نکہت ایوارڈ ‘سے بھی نوازا جا چکا ہے، یوپی اردو اکیڈمی سے ’اردو فکشن :تفہیم تعبیر اور تنقید‘ پر جبکہ  بہار اردو اکیڈمی سے ’نیرنگ جنوں ‘پر بھی انعام مل چکا ہے۔ واضح رہے کہ اب تک کے انعام یافتگان میں شہناز رحمن پہلی خاتون ہیں جنہیں یہ باوقار ایوارڈ دیا گیا ہے۔

شہناز رحمن کی اس حصول یابی پر شعبہ اردواے ایم یو کے صدر پروفیسرطارق چھتاری نے اظہار مسرت کرتے ہوئے کہا کہ بے حد خوشی کی بات ہے کہ شعبہ کی کسی ریسرچ اسکالر کو ساہتیہ اکادمی کا یہ باوقار انعام ملا ہے، اس سے دوسرے طلبہ اور اسکالرز کو اپنی تخلیقی اور تنقیدی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کی تحریک ملے گی، انہوں نے مزید کہا کہ اطمینان کی بات یہ ہے کہ نئے لکھنے والے تخلیقی میدان میں پورے اعتماد کے ساتھ آ رہے ہیں، اس لئے امید کی جا سکتی ہے کہ آنے والے چند برسوں میں اردو فکشن معتبر ہاتھوں میں ہو گا۔ شہناز رحمن کی اس کامیابی پرشعبہ اردو اے ایم یو کے اساتذہ پروفیسر محمد زاہد، پروفیسر سید محمد امین، پروفیسر سید محمد ہاشم، پروفیسر مہتاب حیدر نقوی، پروفیسر قمر الہدی فریدی، پروفیسر ظفر احمد صدیقی، پروفیسر محمد علی جوہر، پروفیسر شہاب الدین ثاقب، پروفیسر سید سراج  اجملی، پروفیسر مولا بخش، پروفیسر نیلم فرزانہ، ڈاکٹر راشد انور راشد، ڈاکٹر خالد سیف اللہ، ڈاکٹر معید الرحمن، ڈاکٹر مشتاق صدف کے علاوہ شعبہ کے وظیفہ یاب اساتذہ پروفیسر قاضی جمال حسین، پروفیسر عقیل احمدصدیقی، پروفیسر ابولکلام قاسمی اور پروفیسر صغیر افراہیم نے بھی نے خوشی کا اظہار کیا ہے اور شعبہ کی ریسرچ اسکالر کو اس باوقار ایوارڈ کی مبارکباد پیش کی ہے۔

تبصرے بند ہیں۔