دین داری کا جامع اور متوازن تصور

ڈاکٹر محمد واسع ظفر

اسلام ایک مکمل اور جامع نظام حیات کا نام ہے۔ یہ بات اس لئے کہی جاتی ہے کیوں کہ اسلام انسان کو صرف اس کے رب سے متعارف ہی نہیں کراتا اور اسے صرف اس کی عبادت کے طریقے ہی نہیں سکھاتا بلکہ زندگی کے تمام شعبوں میں خواہ اس کا تعلق اخلاقیات سے ہویا معاملات سے، معیشت سے ہو یا معاشرت سے یا پھر سیاست سے اس کی رہنمائی ضرور کرتا ہے اور زندگی کے کسی موڑ پر اسے خالی اوربغیر رہبری کے نہیں چھوڑتا۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم مسلمانوں نے اپنی کم علمی اور ناسمجھی کی وجہ سے دین داری اور تقویٰ کو عبادات کے دائرے میں ہی محدود کردیا ہے اور دیگر شعبوں میں خود کو اسلامی تعلیمات سے بالکل آزاد کرلیا ہے جس کی وجہ سے معاشرے میں بڑی خرابیاں پیدا ہورہی ہیں، اسلام بھی بدنام ہورہا ہے اور لوگ بجائے اس دین کے قریب آنے کے اس سے دور ہورہے ہیں جس کا وبال بھی یقینا ہم مسلمانوں پر ہی آتا ہے۔ ایک داعی جو غیروں کے درمیان دعوت دین کا کام کر رہا ہو وہ انہیں یہ کہنے پر مجبور ہے کہ اسلام کو آپ مسلمانوں کی زندگی دیکھ کر نہیں بلکہ قرآن و حدیث کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کریں (کیوں کہ ان دونوں کے درمیان بڑا تضاد ہے) جبکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین اور سلف صالحین کا یہ حال تھا کہ ان کی زندگی اور اخلاق و معاملات کو ہی دیکھ کر لوگ اسلام میں داخل ہوجاتے تھے اور نصوص کو دیکھنے کی نوبت توبعد میں آتی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم اپنی عبادات میں کتنی مشقت اٹھاتے ہیں اسے کوئی نہیں دیکھتا لیکن ہمارے اخلاق و معاملات پرہر کسی کی نظر ہوتی ہے اور انسانی معاشرہ پر اس کے اثرات بھی مرتب ہوتے ہیں۔

ہمیں یہ جاننا اور سمجھنا چاہیے کہ دین داری اور پرہیزگاری صرف یہی نہیں ہے کہ پنجگانہ نمازوں بلکہ تہجد تک کا اہتمام کر لیاجائے، قرآن کی تلاوت اور اذکار مسنونہ کی پابندی کی جائے، رمضان المبارک کے روزے رکھے جائیں، زکوٰۃ و صدقات کے طور پر کبھی کبھار اپنے مالوں سے حاجتمندوں کی امداد کردی جائے، اگر اللہ نے مزید عنایت کیا ہو تو حج کرلیا جائے نیز اپنی شکل و شباہت اور وضع قطع کو اسلامی بنالیا جائے حتیٰ کہ وعظ و نصیحت اور بیعت و ارشاد کا سلسلہ قائم کرلیا جائے بلکہ اصل اور مکمل دین داری یہ ہے کہ ان سب کے ساتھ ساتھ انسان اپنے نفس کی پاکیزگی کا خیال رکھے، اپنے اخلاق کی درستگی پر توجہ دے، قول و قرار میں صداقت و راست بازی اس کی پہچان ہو، معاہدوں کی پابندی اس کی خصلت ہو، معاملات میں صفائی اور پختگی اس کا شعار ہو، آپس کے لین دین اور خرید و فروخت میں دیانت داری کو وہ اپنا شیوہ بنائے، کسی کی امانت میں خیانت نہ کرے، کسی کی حق تلفی نہ کرے اور جس کسی کا بھی جو حق اس پر عائد ہواس کو ادا کرنے میں اللہ سے ڈرے، کسی کو دھوکہ اور فریب نہ دے، کسی پر ظلم و زیادتی نہ کرے، اپنے فیصلوں اور برتاؤ میں ہمیشہ عدل و احسان اور انسانیت کے نفع کو پیش نظر رکھے، حرام سے بچے اور رزق حلال پر قناعت کرے، نیز حب مال، حب جاہ، ریا، حسد، کینہ، بغض و عداوت، عجب و تکبر جیسے مہلک باطنی امراض سے خود کو پاک کرنے کی فکر رکھے اور عقائد کی درستگی تو ان سب کے لئے شرط لازم ہے۔

جو شخص ان تمام صفات سے متصف ہو وہی حقیقتًا دین دار کہے جانے کا مستحق ہے۔ ایمان کے بعدنماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج انتہائی اہم اور لازم عبادات ہیں اور یہ وہ ستون ہیں جن پر اسلام کی بنیاد ہے لیکن جس طرح صرف ستون کو عمارت نہیں کہا جاسکتا اور وہ ستون عموماً کسی کام کے بھی نہیں ہوتے جن پر کوئی عمارت نہ کھڑی کی جائے، ٹھیک اسی طرح صرف ان عبادات کی پابندی بھی مکمل اسلام نہیں کہی جاسکتی جب تک مذکورہ صفات سے اسلام کی عمارت کی تعمیر نہ ہوجائے۔ ایک شخص نے حضرت عمرؓ کے پاس کسی کی گواہی دی تو آپؓ نے یہ معلوم کرنے کے لئے کہ گواہ سیرت و کردار سے کیسا آدمی ہے، اس سے کہا کہ اپنے کسی جاننے والے کو لے کر آؤ۔ چنانچہ وہ ایک شخص کو لے کر آیا جس نے اس کی تعریف کی۔ حضرت عمرؓ نے ان سے پوچھا کہ تم اسے کیسے جانتے ہو؟ کیا تم اس کے پڑوس میں رہتے ہو جو اس کے یہاں آنے جانے والوں کی پہچان رکھتے ہو؟ اس شخص نے کہا: نہیں، پھر آپؓ نے پوچھا کہ کیا تم نے اس کے ساتھ کوئی سفر کیا ہے کہ سفر میں اچھے اخلاق کا علم ہوجاتا ہے؟ انہوں نے کہا کہ نہیں، پھر آپؓ نے پوچھا کہ کیا تم نے اس کے ساتھ درہم و دینار کا معاملہ کیا ہے جس کے ذریعہ انسان کے تقویٰ کا علم ہوجاتا ہے؟ انہوں نے کہا کہ نہیں۔ پھر آپؓ نے فرمایا کہ میرا خیال یہ ہے کہ تم نے اسے مسجد میں کھڑا دیکھا ہوگا کہ وہ قرآن پاک کو آہستہ آہستہ پڑھتا ہے اور کبھی اپنے سر کو جھکاتا ہے اور کبھی بلند کرتا ہے یعنی رکوع و سجود میں مشغول ہے؟  انہوں نے کہا کہ جی ہاں، پھر آپؓ نے فرمایا کہ جاؤ تم اسے نہیں پہچانتے۔ (احیاء علوم الدین از امام غزالیؒ (اردو ترجمہ مصباح السالکین)، پروگریسو بکس، لاہور، جلد ۲، صفحات ۲۰۱-۲۰۲)۔

حضرت عمرؓ نے اپنے اس قول کے ذریعہ گویا یہ واضح کردیا کہ آدمی کی پہچان عبادات سے نہیں بلکہ معاملات سے ہوتی ہے اور دین داری صرف نماز، روزے اور اس طرح کی دیگر عبادات کے دائرے میں محدود نہیں بلکہ اصل دین داری تو اخلاق و معاملات میں ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد بھی ہے: ’’إِنَّ مِنْ خِیَارِکُمْ أَحَاسِنَکُمْ أَخْلَاقًا‘‘  یعنی ’’ تم لوگوں میں سے بہترین لوگ وہ ہیں جن کے اخلاق اچھے ہیں ‘‘۔ (صحیح مسلم، کتاب الفضائل، باب کَثْرَۃِ حَیَائِہِ ﷺ، بروایت عبداللہ بن عمرو بن عاصؓ)۔ آپؐ کا یہ بھی ارشاد ہے: ’’الْمُسْلِمُ  مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ مِنْ لِسَانِہِ وَ یَدِہِ‘‘  یعنی ’’مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان محفوظ رہیں ‘‘۔ (صحیح بخاری، کتاب الایمان، بروایت عبداللہ بن عمرو بن عاصؓ)۔ آپؐ نے یہ بھی فرمایا: ’’وَاللّٰہِ لَا یُؤْمِنُ، وَاللّٰہِ لَا یُؤْمِنُ، وَاللّٰہِ لَا یُؤْمِنُ‘‘ یعنی ’’ اللہ کی قسم وہ ایمان والا نہیں، اللہ کی قسم وہ ایمان والا نہیں، اللہ کی قسم وہ ایمان والا نہیں ‘‘۔ تو عرض کیا گیا کہ کون یا رسول اللہ؟ (تو آپؐ نے) فرمایا: ’’الَّذِي لَا یَأْمَنُ جَارُہُ بَوَائِقَہُ‘‘ یعنی ’’وہ شخص جس کے شر سے اس کا پڑوسی محفوظ نہ ہو‘‘۔ (صحیح بخاری، کتاب الادب، إِثْمِ مَنْ لَا یَأْمَنُ جَارُہُ بَوَائِقَہُ، بروایت ابوشریح رضی اللہ تعالیٰ عنہ)۔ ہم سب کا حال یہ ہے کہ عام مسلمانوں کو تو کیا اپنے پڑوسیوں کو بھی ہر قسم کی ایذا دے کر خود کو نہ صرف مسلمان بلکہ اپنی عبادتوں کی وجہ سے متقی اور پرہیزگار بھی سمجھتے ہیں جب کہ اللہ کے رسول ﷺ تین تین بار اللہ کی قسم کھاکر ایسے اشخاص کے ایمان کی نفی کر رہے ہیں۔ یہ حدیث ہمارے لئے عبرت آموز ہے۔

 رسول اللہ ﷺ نے تقویٰ اور پرہیزگاری کی وضاحت بھی اخلاقیات کی تعلیم کے ساتھ جوڑ کریوں کیاہے: ’’ایک دوسرے سے حسد نہ کرو، ایک دوسرے کو دھوکہ دینے کے لئے اموال کی قیمتیں نہ بڑھاؤ، ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو، ایک دوسرے سے منہ نہ پھیرو، تم میں سے کوئی دوسرے کی بیع پر بیع نہ کرے اور اللہ کے بندے آپس میں بھائی بھائی بن جاؤ، مسلمان (دوسرے) مسلمان کا بھائی ہے، نہ اس پر ظلم کرتا ہے، نہ اسے بے یارو مددگار چھوڑتا ہے اور نہ اس کی تحقیر کرتا ہے۔ تقویٰ یہاں ہے اور آپؐ نے اپنے سینے کی طرف تین بار اشارہ کیا (یعنی فقط ظاہر اً عمدہ اعمال کرنے سے انسان متقی نہیں ہوجاتا جب تک کہ دل اس کا صاف نہ ہو)، (پھر فرمایا): کسی شخص کے برا ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کی تحقیر کرے، ہر مسلمان پر (دوسرے) مسلمان کا خون، اس کا مال اور اس کی عزت و آبرو حرام ہے‘‘۔ (صحیح مسلم، کتابُ الْبِرِّ وَ الصِّلَۃِ وَ الْأَدَب، باب تَحْرِیْمِ ظُلْمِ الْمُسْلِمِ وَ خَذْلِہِ وَاحْتِقَارِہِ وَدَمِہِ وَ عِرْضِہِ وَمَالِہِ، بروایت ابوہریرہؓ)۔ اور ایک جگہ آپؐ نے یوں ارشاد فرمایا : ’’الدِّیْنُ النَّصِیْحَۃُ‘‘ یعنی ’’دین تو خیرخواہی کا نام ہے‘‘۔ صحابہؓ نے عرض کیا:  کس کی خیرخواہی؟ آپؐ نے فرمایا: ’’اللہ کی، اس کی کتاب کی، اس کے رسول کی، مسلمانوں کے ائمہ (حکمرانوں ) کی اور تمام مسلمانوں کی۔ (صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب بَیَانِ أَنَّ الدِّیْنَ النَّصِیْحَۃُ، بروایت تمیم داریؓ)۔

  ان احادیث کے ساتھ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے اس فرمان پر بھی غور کریں : {یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِیْ السِّلْمِ کَآفَّۃً وَلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْْطٰنِ اِنَّہٗ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ} (ترجمہ): ’’اے ایمان والو! اسلام میں پورے پورے داخل ہوجاؤ اور شیطان کے قدموں کی تابعداری نہ کرو، وہ تمھارا کھلا دشمن ہے‘‘۔ (البقرۃ:۲۰۸)۔ یعنی ایسا نہ ہو کہ تم اپنی زندگی کو مختلف شعبوں میں تقسیم کرکے بعض شعبوں میں تو اسلام کی پیروی کرواور بعض شعبوں کو اس کی پیروی سے مستثنیٰ کرلو۔ لیکن دین کی ناقص سمجھ کی وجہ سے بعض لوگ عبادات اور وضع قطع پر تو بہت دھیان دیتے ہیں لیکن اپنے اخلاق و معاملات پر بالکل بھی توجہ نہیں دیتے جب کہ اسلام میں ان کی اہمیت پر علماء کے درمیان کوئی اختلاف بھی نہیں اور نہ ہی کوئی دانشور ان سے اختلاف کرے گا۔ ایسے ہی لوگ یوم جزا میں مفلس ہوں گے جیساکہ رسول اللہ ﷺ نے قبل ہی آگاہ اور متنبہ کردیا ہے۔ آپؐ نے صحابہ سے پوچھا: کیا تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہے؟ صحابہ نے کہا کہ ہمارے نزدیک مفلس وہ شخص ہوتاہے جس کے پاس نہ کوئی درہم ہو اور نہ ہی کوئی مال و متاع ہو۔ آپؐ نے فرمایا: میری امت کا مفلس وہ شخص ہے جو قیامت کے دن نماز، روزہ اور زکوٰۃ (یعنی سب کچھ) لے کر آئے گا اور اس حال میں آئے گا کہ اس نے (دنیا میں ) کسی کو گالی دی ہوگی، کسی پر بہتان لگایا ہوگا، کسی کا مال( ناحق ) کھایا ہوگا، کسی کا خون بہایا ہوگا اور کسی کو مارا ہوگا تو اس کی نیکیوں میں سے اس کو بھی دیا جائے گا اور اس کو بھی دیا جائے گا (یعنی سارے مظلوموں کو ) اور اگر اس کے ظلموں کا بدلہ جو اس کے ذمہ ہے کی ادائیگی سے پہلے اس کی ساری نیکیاں ختم ہوجائیں گی تو ان (مظلوموں ) کی خطائیں اس پر ڈال دی جائیں گی، پھر اسے جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ (صحیح مسلم، کتابُ الْبِرِّ وَ الصِّلَۃِ وَ الْأَدَب، باب تَحْرِیْمِ الظُّلْمِ، بروایت ابوہریرہؓ)۔ اس طرح اخلاق و معاملات کی خرابی اور ظلم و زیادتی عبادات کے ذریعہ کمائی گئی نیکیوں کی بربادی کی وجہ بن جائے گی۔ اوریہ بھی تب جب ایسے شخص کی عبادات واقعی عبادات کہے جانے کی مستحق اور عنداللہ مقبول رہی ہو ں ورنہ اگر ایسے عوامل موجود رہے ہوں جن سے عبادات ہی نامقبول ہوگئیں مثلاً حرام غذا، اخلاص کی کمی اور ریاکاری، ارکان کی ادائیگی میں فساد، خشوع و خضوع کی کمی وغیرہ تو پھر بدلہ اور کفارہ کی نوبت بھی کہاں آئے گی۔ اس لئے صرف عبادات کو تکمیل کے درجہ تک لے جانا ہی اہم نہیں بلکہ ان کے ذریعہ ذخیرہ کی گئی نیکیوں کو اپنے اخلاق و معاملات کی درستگی کے ذریعہ محفوظ کرلینا اہم کام ہے۔ اس لئے علماء اور داعیان دین کو ان پر بہت زیادہ زور دینے کی ضرورت ہے۔

  دوسری طرف کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جن کے معاملات تو ٹھیک ٹھاک ہیں لیکن عبادات کا شعبہ ان کی زندگیوں سے بالکل مفقود ہے۔ ایسے لوگ یہ کہتے سنے جاتے ہیں کہ میں نماز و قرآن تو نہیں پڑھتا لیکن ان داڑھی ٹوپی والوں سے بہت بہتر ہوں جن کے معاملات خراب ہیں۔ یہ فکر بھی صحیح نہیں ہے۔ اس طرح وہ لوگ نادانستہ طور پر عبادات اور اسلامی شعائر کو ہلکا ٹھہراتے ہیں۔ جاننا چاہیے کہ اخلاق و معاملات کی درستگی اور دنیوی شرافت بھی اللہ کے نزدیک مقبول نہیں جب تک وہ عقائد کی درستگی اور اللہ کی مکمل اطاعت اور بندگی کے تحت نہ ہو جس میں نبی کریم ﷺ کی کامل اتباع بھی شامل ہے۔ اخلاق کے اتنے عظیم مرتبہ پر فائز ہونے کے باوجود جہاں اللہ رب العزت خود {وَ اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ} (یعنی بیشک آپ بہت عمدہ اخلاق پر ہیں۔ القلم: ۴) کی گواہی دے رہا ہو اور اس بات کی بھی بشارت دے رہا ہوآپ کے اگلے پچھلے تمام گناہ بخش دئے گئے، عبادات کے شعبہ میں آپؐ کی پابندی اور مشقت امت کے لئے سبق آموز اور قابل تقلید ہے۔ عبادات کی پابندی کو قرآن و حدیث میں نہ صرف متقین کی لازمی صفات میں سے گردانا گیا ہے بلکہ ان میں سے بعض کوایمان کی علامت اور نشانی تک بتایا گیا ہے۔ مثلاً اس آیت کریمہ کو دیکھیں : {فَاِنْ تَابُوْا وَاَقَامُوْا الصَّلٰوۃََ وَاٰتَوُا الزَّکٰوۃَ فَاِخْوَانُکُمْ فِیْ الدِّیْنِ} (ترجمہ): ’’اگر یہ توبہ کرلیں اور نماز قائم کرنے لگیں اور زکوٰۃ دینے لگیں تو دین میں تمہارے بھائی ہیں ‘‘۔ (التّوبۃ:۱۱)۔ اس آیت میں اسلامی برادری میں کسی شخص کے داخلہ اور وجود کو تسلیم کرنے کے لئے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے یہ شرط عائد کی گئی ہے وہ نہ صرف کفر و شرک سے توبہ کرے بلکہ نماز اور زکوٰۃ کی بھی پابندی کرے۔ نیز ارشاد خداوندی ہے:{اِنَّمَا یَعْمُرُ مَسٰجِدَ اللّٰہِ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ وَ اَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَاٰتَی الزَّکٰوۃَ وَ لَمْ یَخْشَ اِلَّا اللّٰہَ، فَعَسٰٓی اُولٰٓئِکَ اَنْ یَّکُوْنُوْا مِنَ الْمُھْتَدِیْنَ} (ترجمہ): ’’درحقیقت اللہ کی مسجدوں کو تووہی آباد کرتا ہے جو اللہ پر اوریوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے، نماز قائم کرتا ہے اور زکوٰۃ ادا کرتا ہے اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتا، سو امید کی جاتی ہے کہ یہی لوگ ہدایت یافتہ لوگوں میں سے ہوں ‘‘۔ (التّوبۃ:۱۸)۔ اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’إِنَّ بَیْنَ الرَّجُلِ وَ بَیْنَ الشِّرْکِ وَ الْکُفْرِ تَرْکَ الصَّلَاۃِ‘‘یعنی ’’بے شک آدمی اور شرک و کفر کے درمیان نماز کا ترک(حائل) ہے‘‘۔ (صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب بَیَانِ إِطْلَاقِ اسْمِ الْکُفْرِ عَلٰی مَنْ تَرَکَ الصَّلَاۃَ، بروایت جابرؓ)۔ اور ایک روایت میں آپؐ کا یہ ارشاد ہے :’’وَلَا دِیْنَ لِمَنْ لَا صَلَاۃَ لَہٗ، اِنَّمَا مَوْضِعُ الصَّلَاۃِ مِنَ الدِّیْنِ کَمَوْضِعِ الرَّاْسِ مِنَ الْجَسَدِ‘‘یعنی ’’جو نماز نہ پڑھے اس کا کوئی دین نہیں، نماز کا مرتبہ دین میں ایساہی ہے جیسا کہ سرکا درجہ ہے بدن میں ‘‘۔ (المعجم الاوسط للطبراني، رقم ۲۲۹۲، بروایت عبداللہ بن عمرؓ)۔

 مذکورہ نصوص پر غور کیجئے کہ ان میں نماز اور زکوٰۃ جیسی عبادات کو کس درجہ اہم بتایا گیا ہے؟ ایسے میں ان عبادات میں کوتاہی کرنا بلکہ اس سے آگے بڑھ کر انہیں ہلکا اور غیر ضروری سمجھنا کفر کی سرحد تک پہنچا سکتا ہے۔ اسی طرح اسلام کے کسی دیگر امر یا شعار کا مذاق اڑانا خواہ وہ اذکار کا اہتمام ہو، داڑھی ہو، شلوار کا ٹخنوں سے اوپر کرنا ہو، شرعی پردہ ہویا جنت یا جہنم کی کسی چیز کا ذکر ہو انسان کو فسق اور کفر تک لے جاسکتا ہے۔ اس لئے مسلم معاشرے میں دین داری کا جامع اور متوازن تصور قائم کرنے کی ضرورت ہے جہاں اخلاق کی بہتری بھی ہو، معاملات کی درستگی بھی، معاشرت کی پاکیزگی بھی اور عبادات کی پابندی اور ان میں احساس لذت بھی۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے وہ ہم سب کو دین داری اور پرہیزگاری کا جامع تصور عطافرمائے اوراسلام کی تمام تعلیمات کو عملی طور پر زندہ کرنے کی توفیق بھی عنایت کرے۔ آمین!

تبصرے بند ہیں۔