امام احمد رضا بریلویؒ کا نظریۂ تعلیم

محمد ریاض علیمی

فاضل بریلوی امام احمد رضا قدس سرہ ٗچودہویں صدی ہجری کے مایۂ ناز نعت گوشاعر، محقق، فقیہ، مفتی اور مجدد ہیں۔ آپ نے اپنی زندگی دین کی خدمت، مسلمانوں کے مسلّمہ عقائد اور نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کے لیے گزاری۔ اس سلسلے میں آپ نے اپنے دور کے متعدد غیر اسلامی امور و معاملات سمیت مسلمانوں کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بننے والے متعدد مسائل کا جائزہ لیا۔ اس کے بعد آپ نے ان مسائل کے حل کے لیے مختلف موضوعات کو زیرِ بحث لاکر ان میں نت نئی جہات کو متعارف کرواتے ہوئے ان کا حل پیش کیا۔ آپ نے اپنی تحریروں اور تقریروں کے ذریعے امت مسلمہ کی اصلاح کا بیڑا اٹھایا اور اپنی نعتیہ شاعری کے ذریعے ان کے دلوں کو عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سرشار کرنے کا عزم مصمم کیا۔اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی قدس سرہ تعلیمی میدان کے ایک عظیم شہسوار اور علم وحکمت کے گوہر نایاب تھے۔ آپ کے زمانہ میں بر صغیر پاک و ہند کے زیادہ تر مسلمان تعلیمی میدان سے دور تھے اور جو لوگ تعلیم حاصل کرنے میں کوشاں تھے وہ بھی حصولِ تعلیم کے اصل مقصد اور اس کی اصل روح سے ناواقف تھے۔ آپ نے اپنے دور میں مسلمانوں کی تعلیم و تعلم سے دوری اور اس سے بے رغبتی کی وجوہات کا جائزہ لیتے ہوئے مسلمانوں کو دوبارہ ان کی علمی میراث دلوانے کے لیے چند تعلیمی نظریات پیش کیے۔ آپ کے نظریۂ تعلیم پر متعدد اصحابِ علم و فن نے اپنے اپنے انداز سے روشنی ڈالی جس کا لب لباب یہی ہے کہ نوجوانوں کو تعلیم کے ذریعے محض تعلیم یافتہ بنانا نہیں بلکہ علم کی اصل روح اور اس کا جوہر ان کے دلوں میں منتقل کرنا ہے۔

فاضل بریلوی علیہ الرحمہ کے تعلیمی افکار و نظریات کا مطالعہ کرنے کے بعد سب سے پہلا نکتہ یہ سامنے آتا ہے کہ علوم چاہے قدیمہ ہو ں یا جدیدہ ‘ ان سب کا مقصد دین کا فہم حاصل کرنا ہونا چاہیے۔ اسلامی فقہیات کا علم ہو یا سائنسی علم، ہر علم کو دین و شریعت کے تابع کرکے اسے حاصل کرنا چاہیے۔ جیسے طبیعیات (Physics) اور ارضیات (Geology)سے پانی اور مٹی کی ماہیت و کیفیت اور احوال معلوم کیے جائیں تاکہ بدن، لباس، جائے سجدہ کی طہارت کے مسائلِ فقہیہ معلوم ہوسکیں۔ اسی طرح علم ریاضی (Mathematics)سے فرائض ومیراث اور پانی کی قلت و کثرت کے مسائل کا استخراج ہوسکے۔ علم توقیت کو نماز، روزہ اور حج وغیرہ کے مسائل کے لیے استعمال کیا جائے۔ علم کیمیاء (Chemistry) سے اشیاء کی کیفیت اور ماہیت وغیرہ کی پہچان کی جائے۔ ہمارے اداروں میں نصاب میں جدید تعلیم اس انداز سے دی جاتی ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ کے حقیقی فاعل و مختار ہونے کا ذکر ہی غائب کردیا گیا ہے۔ تعلیم کے انداز سے طالب علم یہی سمجھ بیٹھا ہے کہ فلاں اشیاء سے فلاں مرکب بنتا ہے۔ سورج اس طرح طلوع ہوتا ہے، چاند اس طرح پیدا ہوتا ہے۔ بارش ان وجوہات کی بناء پر ہوتی ہے۔ زلزلہ کی وجوہات فلاں ہیں، ان سب میں حقیقی فاعل اللہ تعالیٰ کا ذکر ہی ہٹادیا گیا ہے۔ یہ چیزیں طالب علم کے سامنے اس طرح پیش کی جاتی ہیں جیسے ان کے اسباب پیدا کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ بس یہ سب خود بخود وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ (امام احمد رضا کا نظریۂ تعلیم، محمد جلال الدین قادری)

مسلمان جب تک دینی و سائنسی علوم اغراض صحیحہ اور مقاصد حقیقہ کے لیے استعمال کرتے رہے دنیاوآخرت میں سر خرو رہے اور جب مسلمانوں نے اپنی تعلیم میں ان اغراض کو خارج کردیا، تب سے پستی میں ہیں۔ مذکورہ بالا تمام علوم کی تعلیم عام ہے اور لازمی بھی ہے لیکن امام احمد رضا کا نظریہ اور مقصد تمام اصناف علوم کی تعلیم کا مقصد اور مدعا دین کی فہمی اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے راستہ پر چلنا ہے۔ تعلیم اگر خدا رسی اور رسول شناسی میں معاون نہیں تو بے کار محض اور وقت کا ضیاع ہے۔ امام احمد رضا کے نزدیک تمام علوم و تعلیمات کا مقصد و منتہا بارگاہِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم میں نیاز مندانہ حاضری ہے۔ تمام علوم کی غرض و غایت گنبد خضراء کے مکین کے حضور عقیدت و محبت سے وابستگی ہے۔آپ کی اس بات سے بعض لوگوں نے یہ سمجھا کہ آپ سائنسی علوم سیکھنے کی نفی کرتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ آپ سائنسی علوم کے سیکھنے کی نفی نہیں کرتے بلکہ آپ کا نظریہ علوم عقلیہ، سائنس(Science)، فلسفہ (Philosophy)، منطق (Logic)، علم نجوم (Astrology)وغیرہا کی تعلیم کے بارے میں یہ ہے کہ ان علوم کو آیاتِ قرآنی و احادیث نبوی کی روشنی میں پرکھا جائے نہ کہ قرآن و حدیث کو ان علوم کے میزان پر پرکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ علوم عقلیہ کے نظریات ہمیشہ بدلتے رہتے ہیں۔ ان کے مشاہدات اور اصول کبھی بھی ایک جگہ قائم نہیں رہتے۔

فاضل بریلوی نے ’’نظریۂ حکمت ‘‘ کے نام سے ایک نظریہ پیش کیا۔ اس کو اس طرح سمجھا جاسکتا ہے کہ قرآن وحدیث کی حقیقتیں غیر متبدل ہیں جبکہ سائنس ابھی ترقی کی راہوں پر ہے۔ قرآن و حدیث کا کہا ہوا اٹل ہے لیکن سائنس کی تحقیقات ہر چند سالوں بعد تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ لہٰذا قرآنی علوم اور سائنس کے نظریات میں تضاد آجائے تو قرآنی نظریات کو اٹل اور حق ماننا معیار ایمان ہے۔ اس کے برعکس قرآنی نظریات کے مقابلے میں سائنسی نظریات کو ماننے سے حقیقت تک نہیں پہنچا جاسکتا۔ جب سے سائنسی علوم ایجاد ہوئے ہیں اس وقت سے ہر دور میں سائنسدان اپنا الگ نظریہ پیش کرتے رہے جبکہ قرآن کی بات حق ہے جو کبھی بھی تبدیل نہیں ہوسکتی لہٰذا قرآن اور سائنس کے تصادم میں قرآنی نظریات و اعتقادات پر ایمان لانا ضروری ہے۔

آپ کے تعلیمی نظریات میں ایک نظریہ’’ نظریہ افادیت ‘‘ کے نام سے ملتا ہے۔ اس کی وضاحت اس طرح کی جاسکتی ہے کہ علوم اپنے انواع و اقسا م کی کثرت کے باعث اس قدر ہیں کہ عام آدمی جس کی زندگی قلیل ہے وہ تمام علوم حاصل نہیں کرسکتا۔ اس لیے ضروری ہے کہ مفید علوم کی طرف متوجہ ہو۔ امام احمد رضا کے نزدیک نصاب میں وہ علوم شامل کیے جائیں جو دین و دنیا دونوں میں مفید ہوں، جو علم نافع نہ ہو، اس کی تحصیل سے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی پناہ مانگی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا : اے اللہ میں ایسے علم سے پناہ مانگتاہوں جو نفع نہ دے۔ ہمارے بعض اداروں میں جو تعلیم دی جارہی ہے ان میں سے بعض نہ دین کے لیے کارآمد ہیں اور نہ ہی دنیا کے لیے۔ اگر نظریۂ افادیت کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے تعلیمی نصاب مرتب کیا جائے تو یقینی طور پر طلبہ میں قابلیت پیدا کی جاسکتی ہے اور ان کے مستقبل کو بہتر سے بہتر بنایا جاسکتا ہے اور ان کی زندگی کے قیمتی لمحات غیر مفید علم میں ضائع ہونے سے بچائے جاسکتے ہیں۔

آپ کے تعلیمی نظریات میں ایک نظریہ ’’ نظریۂ حرمت ‘‘ بھی ملتا ہے جس کا مطلب اور مفہوم یہ ہے کہ تعلیم اور اس سے تعلق رکھنے والی ہر چیز اور فرد سے محبت اور اس کی عزت کی جائے۔ یعنی استاد، کتاب، کاغذ، مکتب وغیرہ کی عزت کی جائے۔ امام احمد رضا فرماتے ہیں کہ ہمارے ہاں اس چیز کا بہت بڑا فقدان ہے۔ استاد کووہ عزت نہیں دی جاتی جس کا وہ حقدار ہے۔ ہمارے معاشرے میں آئے دن ایسے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں جن میں طلبہ کی جانب سے استاد کی بے عزتی اور بے توقیری کی جاتی ہے۔ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ استاد سے کئی کئی سال پڑھنے کے بعد بھی طلبہ اسے اپنا استاد تسلیم کرنے پر راضی نہیں ہوتے۔ ایک بدقسمتی یہ بھی ہے کہ طلبہ اپنے آپ کو استادکے سامنے اس طرح پیش کرتے جیسے کہ وہ سب کچھ پہلے ہی سے سیکھے سکھائے ہیں۔استاد جو کچھ پڑھا رہا ہوتا ہے وہ اس کو معمولی سمجھ کر توجہ نہیں دیتے۔ فاضل بریلوی فرماتے ہیں کہ تعلیم حاصل کرنے والے کو چاہیے کہ جب کسی چیز کے حصول کا ارادہ کرے تو اگرچہ وہ کمالات سے بھراہوا ہو، اپنے تمام کمالات کو دروازہ پر ہی چھوڑ دے اور یہ سمجھے کہ میں کچھ نہیں جانتا، اگر استاد کے سامنے خالی ہوکر آئے گا تو بہت کچھ لے کر جائے گا۔ ہمارے معاشرے میں فاضل بریلوی علیہ الرحمہ کے اس نظریہ کو لاگو کرنے کی ضرورت ہے۔ ہماری درس گاہوں میں استاد اور کتاب کا ادب پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔

تعلیمی نظریات میں ایک نظریہ ’’نظریۂ مہابت‘‘ ہے اس سے مراد یہ ہے کہ زندگی میں وقار و سکون کی کیفیت پیدا کی جائے۔ بلکہ اگر غور سے دیکھا جائے تو تعلیم کا مقصد ہی زندگی میں وقار و سکینہ پیدا کرنا ہے۔ تعلیم کے بعد بھی اگر زندگی میں وقار اور سکون کی کیفیت پیدا نہ ہو تو وہ تعلیم محض بوجھ ہے۔ درحقیقت تعلیم کی عظمت کا عالم یہ ہے کہ وہ بوجھ کو ہلکا کرتی ہے اور زندگی میں سکھ اور چین لاتی ہے۔ ہمارے موجودہ تعلیمی نظام میں یہ خامی ہے کہ تعلیم کے حصول کے بعد ہمارے تعلیم یافتہ نوجوانوں میں وقار و سکون پیدا نہیں ہوتا وہ بے چینی کی اضطرابی کیفیت میں زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔ تعلیمی ماحول میں ایسے رویے اختیا رکرنے کی ضرورت ہے جس سے تعلیم کا اصل مقصد حاصل ہوسکے اور چین اور سکون حاصل ہوسکے۔

فاضل بریلوی علیہ الرحمہ نے تعلیم برائے حصولِ زر (مال) کا سختی سے رد کیا ہے۔ آپ کے نزدیک حصول تعلیم کا مقصد، مدعا اور غرض وغایت صرف حصول زر نہیں ہونا چاہیے بلکہ علم کے حصول کا مقصد رضائے الٰہی اور خدمت دین ہونا چاہیے۔ آپ فرماتے ہیں کہ رزق علم میں نہیں ہے وہ تو رزاقِ مطلق کے پاس ہے، وہ خود بندوں کا کفیل ہے۔ امام غزالی روایت کرتے ہیں: جو شخص دینِ خدا میں دانائی حاصل کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کو کافی ہوتا ہے اور اسے ایسی جگہ سے رزق دیتا ہے جہاں سے اس کا گمان بھی نہیں ہوتا۔ لہٰذا علم کا حصول صرف نوکری کرنا اور اس سے مال کمانا نہیں ہونا چاہیے۔ علم کا مقصد اس پر عمل کرنا اور اسے دوسروں تک پہنچانا ہونا چاہیے۔

اسی طرح ابتدائی تعلیم کا نظریہ پیش کرتے ہوئے فاضل بریلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ بچپن میں ذہن کی تربیت ہی بچے کی زندگی میں انقلاب پیدا کردیتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ابتدائی عمر میں بچے کو وہ تعلیم دی جائے جس سے وہ صحیح معنوں میں مفید مسلمان بن سکے۔ اس کی مزید وضاحت کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ بچے کی زبان کھلتے ہی اسے اللہ اللہ، پھر پورا کلمہ سکھایاجائے، جب تمیز آجائے تو آداب سکھائے جائیں، یعنی کھانے، پینے، اٹھنے، بیٹھنے اور چلنے پھرنے کے آداب سکھائیں۔ قرآن مجید کی تعلیم دیں، استاد کا ادب سکھائیں۔ حضور نبی اکرم ﷺ کی محبت اور آپ کے صحابہ و اہلبیت کی محبت اوران کی تعظیم سکھائے۔ سات برس کی عمر سے نماز کی زبانی تاکید شروع کردے۔ خیا نت، جھوٹ، غیبت اور چغلی جیسی برائیوں اور گناہوں سے بچنے کی تاکید کرے۔ اس نظریۂ تعلیم کا اصل مقصد یہ ہے کہ بچہ بڑا ہوکر جس شعبہ میں داخل ہونا چاہے ہوجائے لیکن عملی طو ر پر مسلمان رہے کیونکہ اسی میں اس کی کامیابی ہے۔(امام احمد رضا کا نظریۂ تعلیم)

فاضلِ بریلوی علیہ الرحمہ کے دور میں بر صغیر پاک و ہند پر انگریزوں کا قبضہ تھا۔ آپ نے اس وقت کے ماحول کو دیکھتے ہوئے کہاتھا کہ مسلمانوں کے تعلیمی ادارے خود کفیل ہونے چاہئیں۔ ان اداروں کو چلانے کے لیے غیر مسلموں اور انگریزوں کی امداد قبول کرنے سے حتی الامکان بچنا چاہیے۔ اس کی وجہ یہ سمجھ میں آتی ہے کہ اگر تعلیمی ادارے غیر مسلموں کے تعاون اور فنڈ سے چلیں گے تو ان اداروں میں اسلامی اصولوں کے مطابق تعلیم نہیں دی جاسکے گی۔ان اداروں میں ان ہی کے قوانین کو لاگو کرنا ہوگا اور انہی لوگوں کا مرتب کردہ نصاب پڑھانا ہوگا۔ فاضلِ بریلوی کے اس نظریہ کو اگر دورِ حاضر میں دیکھا جائے تو ہمیں تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کے لیے مختلف اقسام (NGOs) کے مالی تعاون سے اپنے تعلیمی اداروں کو محفوظ رکھنا ہوگا کیونکہ بعض مقامات پر ان کا نصاب اسلام اور پاکستان کی نظریاتی سرحدوں سے متصادم نظر آتا ہے۔ ہمارے معاشرے کی بے راہ روی اور تعلیم سے دوری اس امر کی متقاضی ہے کہ تعلیمی نظریات میں تبدیلی کی جائے۔ ہروہ چیز تعلیمی نصاب سے خارج کردی جائے جو نئی نسل کو اسلام اور پاکستان کا غدار بنانے کی کوشش کرتی ہے۔ آج بھی اگر فاضلِ بریلوی قدس سرہ کے تعلمی نظریات کو عام کیاجائے تو وہ وقت دور نہیں ہوگا کہ مسلمان اپنی پرانی تاریخ دہرا سکیں گے اور علم وحکمت میں وہی مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے جو ماضی میں مسلمانوں کا سنہری دور رہا ہے۔

تبصرے بند ہیں۔