یوں زندگی کا ساتھ نبھائے ہوئے تو ہیں
جمالؔ کاکوی
یوں زندگی کا ساتھ نبھائے ہوئے تو ہیں
پاؤں کی بیڑیوں کو بجائے ہوئے تو ہیں
…
پنچر ہوئ تو تھی ذرا رکنا پڑا مگر
منزل پہ چل کہ دور سے آئے ہوئے تو ہیں
…
سورج نظر نہ آئے تو سورج کا کیا قصور
دنیا پہ اپنا رنگ جمائے ہوئے تو ہیں
…
ان سے دلِ ہزیں بھی تقاضہ نہ کرسکا
جھوٹی قسم تھی دل کو بتائے ہوئے تو ہیں
…
ویسا خلوص ویسی وفا اب کہاں سے ہو
آخر ہوا شہر کی وہ کھائے ہوئے تو ہیں
…
بے دست پا ہوئے مگر خدار میرے دوست
ظالم کے آگے سر کو اٹھائے ہوئے تو ہیں
…
ہم کو رقیب کہتے ہیں ہڈی کباب میں
ویسے ہم ان کے خاص بلائے ہوئے تو ہیں
…
لگتاہے چارچاند بھی ان کے وقار میں
تصویر میری گھر میں سجائے ہوئے تو ہیں
…
اغیار ہم سفیروں کو اپنا سمجھ کہ وہ
نادان اپنی جان گنوائے ہوئے تو ہیں
…
یہ خوف ہے کہ وقت پہ اک دوست بھی نہ ہو
دشمن کو اپنا دوست بنائے ہوئے تو ہیں
…
ہے خون میرے دل کا یا رنگ حنائ ہے
دنیا سے ایک راز چھپائے ہوئے تو ہیں
…
من کی تو خیر چھوڑیے تن ہوسکا نہ پاک
عزت مآب گنگا نہائے ہوئے تو ہیں
…
کرسی ملے تو کتنے گھروں کو اجاڑ دیں
جتنا کو سبز دکھائے ہوئے تو ہیں
…
رنگون سے صدائیں یہ آتی ہیں آج کل
آخر کسی کہ ہم بھی مٹائے ہوئے تو ہیں
…
ان کی سماعتوں کا ہوتا ہے کیا اثر
ہم اپنی دھن میں بین بجائے ہوئے تو ہیں
…
ہر شام اپنے گھر میں بھی شمع جلا سکیں
اتنا جمالؔ ہم بھی کمائے ہوئے تو ہیں
تبصرے بند ہیں۔