جمہوریت پر گرتا اندھیرا 

وصیل خان

جنگل اور شہر کا نمایاں فرق یہی ہوتا ہے کہ جنگل میں زندگی گزارنے کیلئے کوئی ضابطہ یا قانون نہیں ہوتا وہاں رہنے والے جانورکسی کے دباؤ میں نہیں رہتے  ہر ایک اپنی مرضی اور خواہش کا مالک ہوتا ہے ۔طاقت ور کمزوروں پر رحم نہیں کرتا، ہر طرف ظلم و طغیان کی حکمرانی ہوتی ہے، ایسے میں وہاں انصاف نام کی کسی شئے کی توقع کار عبث ہی کہی جاسکتی ہے۔اس کے برعکس جہاں انسان بستے ہیں وہاں زندگی گزارنے کیلئے ضابطے بنائے جاتے ہیں قانون سازی کی جاتی ہے، تہذیب و معاشرت کے فروغ کیلئے بڑے بڑے مدارس اور کالج کھولے جاتے ہیں،  آپسی تنازعات کے خاتمے کیلئے عدالتیں قائم کی جاتی ہیں اور انصاف کی فراہمی پر پورا زور صرف کیا جاتا ہے تاکہ کوئی کسی پر ظلم روا نہ رکھ سکے ۔تاریخی مطالعہ بتاتا ہے کہ ماضی میں انسانی تاریخ طلم و جبر سے بھری ہوئی تھی اس کے باجود لوگوں نے انصاف کی برتری کیلئے بڑی سے بڑی قربانیاں پیش کیں اس تعلق سے مسلم اور غیر مسلم حکمرانوں نے اپنے اپنے دور میں جو مثالیں پیش کیں وہ آب زر سے لکھنے کے لائق ہیں اس کی چند مثالیں ہم یہاں پیش کررہے ہیں ۔

عباسی خلیفہ مامون الرشید ( 218۔107ھ) اپنے سیاسی مخالفین کیلئے نہایت سخت اور بے رحم تھا مگر عام لوگوں کے ساتھ وہ ہمیشہ ہمدردی سے پیش آتا، ایک روز اس کے دربار میں بغداد کی ایک بوڑھی عورت آئی، اس نے خلیفہ مامون سے شکایت کی کہ میں ایک غریب عورت ہوں میرے پاس ایک زمین تھی جس کو ایک ظالم نے مجھ سے چھین لیا، میں نے کتنی ہی فریا د کی مگر اس نے ایک نہ سنی میری دادرسی کی جائے اور میرے ساتھ انصاف کیا جائے ۔مامون نے پوچھا، وہ ظالم کون ہے جس نے تمہارے ساتھ ایسا سلوک کیا ۔بڑھیا نے اشارے سے بتایا کہ وہ وہی ہے جو اس وقت آپ کے پہلو میں بیٹھا ہوا ہے، مامون نے دیکھا تو وہ اس کا بیٹا عباس تھا ۔مامون نے اپنے ایک وزیر کو حکم دیا کہ وہ شہزادے کو وہا ں سے اٹھائے اور اسے لے جاکر بڑھیا کے برابر کھڑا کردے، وزیر نے ایسا ہی کیا، اب مامون نے حکم دیا کہ دونوں اپنا اپنا بیان دیں۔

شہزادہ عباس رک رک کر آہستہ آواز میں بول رہا تھا لیکن بڑھیا بلند آواز میں بول رہی تھی ۔وزیرنے بڑھیا کو تنبیہ کرتے ہوئے کہا آہستہ بولو، خلیفہ کے سامنے زور زور سے بولنا آداب کے خلاف ہے، لیکن مامون نے اپنے وزیرکو روکا اور کہا کہ اسے آزاد چھوڑدو وہ جس طرح چاہے اسے کہنے دو ۔سچائی نے بڑھیا کی زبان تیز کردی ہے اور شہزادے کو اس کے جھوٹ نے گونگا بنادیا ہے،  یہی وجہ ہے کہ وہ اپنا موقف بیان نہیں کرپارہا ہے ۔بڑھیا کا دعوی درست تھا،  چنانچہ فیصلہ بڑھیا کے حق میں ہوا اور اس کی زمین اسی وقت شہزادے سے لےکر بڑھیا کو دے دی گئی ۔

حضرت علی ؓابن ابی طالب چوتھے خلیفہ ٔراشد تھے ایک بار ان کی زرہ چوری ہوگئی،  حضرت علی ؓکو معلوم ہوا کہ وہ فلاں یہودی کے پاس ہے ۔انہوں نے کوفہ کے قاضی شریح کی عدالت میں دعویٰ دائر کیا، اپنے دعوے کے حق میں انہوں نے دو گواہ پیش کئے،  ایک اپنے غلام قنبر کو اور دوسرے اپنے بیٹے حسن ؓکو ۔قاضی شریح نے کہا کہ باپ کے حق میں بیٹے کی گواہی قابل قبول نہیں اور صرف ایک گواہ دعویٰ ثابت کرنے کیلئے کافی نہیں بالآخر قاضی شریح نے مقدمہ خارج کردیا اورزرہ بدستور یہودی کے پاس باقی رہی ۔یہودی اس فیصلے سے بے حد متاثر ہوا اس نے کہا یہ تو نبیوں جیسا معاملہ ہے جہاں ایک قاضی حاکم وقت کے خلاف فیصلہ دیتاہے، اس کے بعد یہودی نے اسلام قبول کرلیا او ر زرہ یہ کہہ کر حضرت علی ؓکو  واپس کردی کہ یہ آپ ہی کی ہے اور آپ کا دعویٰ درست تھا (  اسباق تاریخ ) ایرانی بادشاہ نوشیرواں کے محل سے  متصل ایک غریب عورت کا جھونپڑاتھا جسے ہٹائے بغیر ممکن نہ تھا کہ محل کی دیوار سیدھی ہوسکے غریب عورت کسی صورت جھونپڑاہٹانے پر راضی نہ ہوئی نوشیرواں مطلق العنان بادشاہ تھا ا سکے ایک اشارے پر جھونپڑا ٹوٹ سکتاتھا لیکن اس نے ایسا نہیں اور محل کی دیوار ٹیڑھی کردی گئی ۔تاریخ ایسی بے شمار مثالوں سے بھری پڑی ہے کہ انصاف کے قیام کیلئے لوگوں نے اپنی انانیت اور طاقت کو بالائے طاق رکھ دیا۔

گذشتہ دنوں پناما پیپر لیکس معاملے میں پاکستانی وزیراعظم نواز شریف نے استعفیٰ دے دیا کیوں کہ وہاں کی سپریم کورٹ نے انہیں مجرم قرار دیتے ہوئےسرکاری سطح کے کسی بھی عہدے کیلئے نا اہل قرار دے دیا تھا ۔اس نے اپنے فیصلے میں نہ صرف مرکزی کابینہ کو برخاست کردیا بلکہ ان کی بیٹی اور بیٹوں کے خلاف بھی کیس درج کرنے کی ہدایت کی اور کہا کہ نواز شریف صادق اور امین نہیں رہے ۔پاکستان اپنے قیام کے بعد سے ہی زیادہ تر فوجی حکمرانوں کے تسلط میں رہا ہے یہی سبب ہے کہ وہاں ابھی تک جمہوری مزاج نہ بن سکا اس کے برعکس ہندوستان کو نہ صرف دنیا کی سب سے بڑی جمہوری حکومت کا درجہ حاصل ہے، یہاں کی عدلیہ مستحکم ہے، مقننہ اور انتظامیہ کی بنیادیں پختہ ہیں اس کے باجود پاکستانی عدلیہ کا حالیہ فیصلہ اتنا خوش کن ہے جس نے ہر ایک کو خاص طور پر ہندوستانی عدلیہ، مقننہ اور انتظامیہ کے تعلق سے یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ کیا واقعی ہندوستانی حکومت کے یہ بنیادی ستون اتنے ہی مضبوط و مستحکم ہیں اور اگر ہیں تو یہاں ایسی حکومتوں کا وجود کیوں باقی ہے جنہوں نے قانون، عدلیہ اور انتظامیہ کو یرغمال بنارکھا ہےاور جس نے اپنے قول و عمل سے یہ ثابت کردیا ہے کہ یہ ملک  جمہوری نہیں آمرانہ طرز حکومت میں سانسیں لے رہا ہے،  جہاں عوام پر عوام کی حکومت کا تصور ہی ختم ہوچکا ہے ۔قانون اور عدلیہ آج بھی مضبوط ہیں اور اپنا اپنا فرض نبھانا چاہتے ہیں لیکن کرپٹ اور بدعنوان حکمرانوں کی بے جا مداخلت انہیں کمزور کررہی ہے ۔

انصاف کا قیام کسی بھی حکومت کے استحکام کیلئے انتہائی ضروری ہے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب حکمراں نیک نفس اور منصف ہوں ۔ملک کی موجودہ صورتحال آج یہی منظر پیش کررہی ہے۔ حکمراں طبقہ صرف اسی عمل میں مصروف ہے کہ بس کسی نہ کسی طرح وہ ملک کی تما م ریاستوں پر اپنا تسلط قائم کرلے اسے نہ انصاف سے سروکار ہے نہ ظلم وجور کے خاتمے سے۔ تاریخ یہی بتاتی ہے کہ اس طرح کےخواہش رکھنے والے عناصر ہمیشہ ناکام ہی ہوئے ہیں،  ان کی یہ حکمت عملی کبھی کامیاب ہونے والی نہیں ۔آنے والا الیکشن یہی بتانے والا ہے کہ یہا ں انصاف کی حکمرانی ہوگی، ظلم و ستم اور متعصبانہ سیاست کی نہیں ۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔