جمہوری تماشہ

ڈاکٹر عابد الرحمن

ملک کو ’سنگھ مکت‘ کروانے کا عزم کرنے والے نتیش کمار سنگھ کی گود میں بیٹھ گئے ۔ بہار میں بی جے پی کو شکست دینے کے لئے انہوں نے اپنے دیرینہ حریف لالو پرساد یادو کے ساتھ مل کر ’مہا گٹھ بندھن ‘ بنا یا تھا ۔ اب لالو یادواور ان کی فیملی کے دیگر ممبران خاص طور سے لالو کے بیٹے اور نتیش کمار کے نائب تیجسوی یادو کے خلاف کرپشن کے معاملات کو لے کر حال ہی میں جو سی بی آئی کارروائی ہوئی اس کے بہانے انہوں نے وزارت اعلیٰ کے عہدے کا استعفیٰ دے دیا اوراس مہا گٹھ بندھن سے وداع لے لی ،کہ کرپشن کے معاملات کے ساتھ ان کا نباہ ناممکن ،ہے اور وہ ان کے ضمیر کی آواز کے مطابق عمل کر رہے ہیں ،لیکن کیا حقیقت یہی ہے؟ ان کے استعفیٰ دیتے ہی مودی جی نے ٹویٹر پر انہیں ،کرپشن کے خلاف لڑائی میں شامل ہونے پر بہت بہت مبارکباد دی اور انہوں نے بھی دل گہرائیوں سے اسے قبول کیا ۔ ان کے اس استعفیٰ پر بہار بی جے پی کے صدر سشیل کمار مودی نے بہت صحیح بات کہی تھی کہ یہ سب ڈراما ہے،اور اس کے کچھ ہی گھنٹوں کے اندر اندر سشیل کمار مودی نائب وزیر اعلیٰ بن گئے اور وزارت اعلیٰ کی کمان دوبارہ نتیش کمار کے پاس آ گئی ، خیر، پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا۔

ویسے اس طرح کے ڈرامے بھی نتیش کمار کے لئے نئے نہیں ہیں ،لوک سبھا انتخابات سے کچھ ہی پہلے انہوں نے یہی ڈرامہ بی جے پی اتحاد این ڈی اے کے ساتھ کیا تھا ،اوراعلان کیا تھا کہ ’’ہم اپنے بنیادی اصولوں سے سمجھوتا نہیں کر سکتے ہم نتیجہ سے نہیں گھبراتے جب تک یہ اتحاد بہار پر محیط تھا کوئی مسئلہ نہیں تھا لیکن اب ہمارے پاس کوئی متبادل نہیں ہے ،ہم ذمہ دار نہیں ہیں ( بی جے پی اتحاد سے الگ ہونے کے) ہم یہ فیصلہ لینے کے لئے مجبور کئے گئے ہیں ۔ ‘‘اس وقت بھی وزارت اعلیٰ انہی کے پاس رہی تھی کہ بی جے پی سے الگ ہونے پر لالو اور کانگریس نے ان کی حمایت کی تھی ،یوں اسمبلی الیکشنس کے لئے مہا گٹھ بندھن کی بنیاد پڑی تھی ۔ اس وقت انہوں نے جن ’بنیادی اصولوں ‘ کے تحت بی جے پی کا ساتھ چھوڑا تھا وہ کیا تھے اس کی تفصیل تو انہوں نے آج تک نہیں بتائی ،لیکن اب بی جے پی سے دوبارہ ہاتھ ملانے کے بعد سوال اٹھتا ہے کہ کیا بی جے پی نتیش کمار کے ان ’بنیادی اصولوں ‘ پر آگئی ہے جن کی بنیاد پر نتیش جی نے اس سے رشتہ توڑ لیا تھا ؟ ہمیں تو نہیں لگتا کیونکہ اس کے بعد سے بی جے پی میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی دیکھنے میں نہیں آئی۔ ایسا لگتا ہے کہ نتیش کمار کی سیاست کے کوئی اصول ہی نہیں ہیں ۔ حالیہ معاملہ کو ہی دیکھ لیجئے اگر کرپشن اور بد عنوانی کے خلاف لڑائی ہی ان کا اصول ہوتا جس کے تحت اب انہوں نے لالو سے رشتہ توڑا ہے تو وہ لالو کے ساتھ ہاتھ ہی نہ ملاتے کہ لالو یادو چارا گھوٹالے میں مجرم ثابت ہو چکے ہیں ۔

سوال یہ ہے کہ اس وقت ان کا ضمیر کیا مرگیا تھا جو اس نے لالو کے خلاف آواز نہیں دی ؟اسی طرح انہوں نے ایک اور ڈراما لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی سے بری طرح ہار جانے کے بعد بھی کیا تھا ،انہوں نے اس ہار کی اخلاقی ذمہ داری قبول کر تے ہوئے وزارت اعلیٰ کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا اوردلت پریم درشاتے ہوئے اپنے ایک کٹھ پتلی کو وزیر اعلیٰ بنا دیا تھا لیکن صاحب جب وزیر اعلیٰ بنتے ہی اس کٹھ پتلی نے ان کی ڈوریوں والا جامہ اتار پھینکنے کی کوشش کی تو انہوں نے اس سے وزارت اعلیٰ چھین لی اور ساری ’اخلاقی ذمہ داری ‘ طاق پرر کھ کر دوبارہ وزیر اعلیٰ بن بیٹھے تھے۔ یعنی نتیش کمار کی سیاست صرف اقتدار کی سیاست ہے اس میں وہ دلتوں ، پچھڑوں ،کرپشن کی مخالفت اور سیکولر ازم وغیرہ کی جو بات کرتے ہیں وہ صرف اپنے اقتدار کی ضرورت کے تحت ہی کرتے ہیں ۔ اب بھی شاید کوئی بڑی ڈیل ہوئی ہو گی تبھی تو وہ ،اپنے ڈی این اے( DNA )تک کو خراب کہہ دینے والے مودی جی کی گود میں بیٹھ گئے۔

  یہ جو کچھ بہار میں ہوا دراصل جمہوریت کا تماشہ ہے ، اور ہم مسلمانوں کے لئے چشم کشا ہو نا چاہئے کہ نہ لالو پرساد دودھ کے دھلے ہیں نہ کانگریس اور دوسری بی جے پی مخالف پارٹیاں اور نہ ہی یہ سب بشمول نتیش کمار ہمارے ہمدرد اور مسیحا ہیں ۔ آج بی جے کے خلاف سیکولرازم کی باتیں کرنے والے یہ لوگ اگر اپنے اقتدار کے زمانے میں اسی سیکولر ازم کی اقدار کو مضبوط کر نے کا تھوڑا بھی کام خلوص کے ساتھ کرلیتے تو بی جے پی کو اقتدار ہی نصیب نہ ہوتا ۔ لیکن ایسا ہونا تھا نہ ہوا ،کیونکہ جو لوگ سیکولر ازم کی باتیں کرتے آئے ہیں ، نظریاتی طور پر وہ خود بھی سیکولرنہیں ہیں ۔ مودی جی کے اقتدار میں آنے سے پہلے اور بعد میں جس طرح بڑے بڑے اور پرانے کانگریسی لیڈر بی جے پی میں شامل ہوئے ہیں وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کی ساری سیاست اقتدار کے لئے ہی ہے اور یہی حا ل پوری کانگریس پارٹی کا بھی ہے،اب پوری پارٹی تو بی جے پی میں جا کر اقتدار کے مزے نہیں لے سکتی اس لئے اب کانگریس میں موقع بہ موقع یہ باتیں کی جارہی ہیں کہ بی جے پی کی راہ پر آیا جائے ۔ لوک سبھا انتخابات اور حال ہی میں یوپی اسمبلی انتخابات میں کانگریس کی ہار کے اسباب کے ضمن میں پارٹی کاتجزیہ یہی ہے ۔ دراصل ملک میں تقریباًتمام سیاسی پارٹیاں سیکولرازم کی باتیں مسلمانوں کو ڈرادھماکر اپنا الو سیدھا کر نے کے لئے ہی کرتی ہیں ،دوسروں کو کمیونل کہنے والے وقت پڑ نے پر ان سے بھی زیادہ کمیونل ہو جاتے ہیں ،سیکولر ازم کی ان باتوں کی وجہ سے بر سر اقتدار اور حزب اختلاف دونوں مزے میں رہتے ہیں اور نقصان ہوتا ہے ان کا ہے جن کے لئے یہ باتیں کی جاتی ہیں ۔

آزادی کے بعد سے ہم مسلمان اسی سیاست کے دام فریب میں بری طرح پھنسے ہوئے ہیں اور ہر چھوٹے بڑے الیکشن کے وقت مزید اسی میں پھنس جاتے ہیں ۔ ہم نے آج تک سیکولرازم کے نام پر ہو رہی اس سب سے بڑی کمیونل سیاست کے مایا جال سے باہر نکلنے کی کوئی خاص کو شش نہیں کی ، ہمارے جو لوگ اس سیاست کا توڑ پیش کر نے کی کوشش کر رہے ہیں وہ اول تو سیاسی دکاندار ہیں اور دوم اپنی اول فول باتوں اور غیر ضروری زبان درازیوں سے دانستہ یا نادانستہ طور پر اسی سیاست کو مضبوط کر نے کا سامان کر رہے ہیں ۔ بہار میں ہوئے جمہوری سیاست کے اس تماشے نے ایک بار پھر یہ ثابت کردیا کہ وطن عزیز کی سیاست میں بھروسے کے لائق کوئی نہیں ،کسی کو کسی کی نہیں پڑی سوائے کرسیء اقتدار کے ۔ سوال یہ ہے کہ نتیش کمار کی طرح چہرے بدلنے والے لوگ کب تک ہمیں دھوکا دیتے رہیں گے ؟ سیکولرازم سیکولرازم کا شور مچانے والے کب تک ہمیں الجھا کر اپنا الو سیدھا کرتے رہیں گے ؟ کب تک ہم ان لوگوں کے تلک اور ٹوپی کے کھیل سے بہلتے رہیں گے؟

اب ملکی سیاست انتہائی منفی رخ اختیار کر چکی ہے ایسے میں ضروری ہے کہ ہم ایک متحد اور منظم ووٹ بنک بن کر مضبوط سیاسی قوت کا روپ دھاریں تاکہ اپنی شرطوں پر سیاسی سودے بازی کرسکیں ،یا کسی سیاسی پارٹی کو سبق سکھاسکیں ۔ لیکن اس کے لئے بہت سوچ سمجھ کر ،ماضی اور حال کے تجربات کی روشنی میں مستقبل کا لائحہء عمل تیار کرنا ہوگااور اس میں جذباتیت کی بجائے ہوش کو ،چلا پکار کی بجائے عمل کو اور جارحانہ اور اشتعال انگیز بیان بازی کی بجائے سنجیدہ خوش گفتاری اور نرم لہجے کو مقدم رکھنا ہوگااور اس سب کے لئے ضروری ہے کہ پہلے ہم متحد ہوں ، تمام نمائندہ تنظیمیں اور اہل علم و دانش ایک ساتھ آئیں سر جوڑ کر بیٹھیں قوم کی اجتماعی فلاح کے لئے اپنے چھوٹے موٹے مفادات کی قربانی دیں ، ہماری صفوں میں گھسے منافقین کو پہچانیں اور انہیں الگ تھلگ کریں ،اولی الامر منکم کی قرآنی صفات کے مطابق قائد کا انتخاب کریں اور پھر اس پر بھروسہ کرتے ہوئے اس کی اطاعت کریں اور اس کے محاسبہ کو بھی آسان اور یقینی بنائیں ۔ تاکہ اللہ کی مدد بھی ہمارے شامل حال ہو۔ اور اگراب بھی ہم ایسا نہ کر سکے تو کم ازکم ہمیں مزید خراب حالات سے نمٹنے کی تیاری تو کر نی ہی چاہئے ۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔