طرحی غزل

ناظم  ظؔفر

باپ کی خواہش! سارے مسائل، بیٹوں کے سلجھانے ہیں

 بیٹوں کو میراثِ پِدَر کُل، بہنوں کے ہتھیانے ہیں

خُلق و طبیعت مثلِ مغیلاں، شکل و شباہت کافر سی

بزمِ جہاں میں گُم یہ مسافر، حوروں کے دیوانے ہیں !

خندہ زنی، بشاش مزاجی،  سب تمثیل نگاری ہے

"چشم و لب و رخسار کی تہہ میں روحوں کے ویرانے ہیں "

بیٹے اونچے مسند پر سامانِ کشش ہیں اور ادھر!

گہنے سارے آج بھی بوڑھی ماؤں کے بیعانے ہیں

جس کی گل و گلزاری کی خاطر، عُمر نے دشت نوردی کی

اب بھی اسی امّید پہ قائم برسوں کے ویرانے ہیں

ہر تیٖر کمانِ فطرت کے اپنوں سے جو نکلیں سہ لینا

گل بوٹوں کے ساتھ ازل سے کانٹوں کے یارانے ہیں

علمِ عروض اور عیبِ سخن کے نسخے پیتا ہے صاحب!

یوں ہی نہیں عشاق ظؔفر کی غزلوں کے دیوانے ہیں

تبصرے بند ہیں۔