جناب حاجی عبدالوہابؒ

  مولانامحمدطارق نعما ن گڑنگی

  18نومبر2018بروزاتوارصبح ،اذانِ فجر کے وقت ،وہ حادثہ پیش آیا جس سے ملک پاکستان ہی نہیں بلکہ عالمِ اسلام واہل حق کے تمام حلقوں میں غم واندوہ کی لہر دوڑادی۔یعنی امیر تبلیغی جماعت مصلح الامت حضرت حاجی عبدالوہاب صاحب اس دارِ فانی سے رخصت ہوگئے ۔انا للہ وانا الیہ راجعون

زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا

  تمھیں سوگئے داستاں کہتے کہتے

رب تعالیٰ اپنے دین کی خدمت کے لیے اپنے بندوں میں سے انہیں منتخب فرماتاہے جورب کے محبوب ہوتے ہیں ۔دنیا میں رہ کر وہی لوگ دین کا کام کرتے ہیں جن کے دل دنیاوی حر س وہوس سے پاک ہوتے ہیں ۔وہ دنیا پہ آخرت کو ترجیح دیتے ہیں انہیں رب کی ملاقات کا شوق ہوتا ہے ۔ان خوش نصیب لوگوں میں ایک عظیم ہستی مصلح امۃ حضرت حاجی عبدالوہاب صاحب نور اللہ مرقدہ بھی تھے جنہوں نے اپنی ساری زندگی خدمت اسلام میں بسر کی ۔

دعوت وتبلیغ کے کام میں مگن اس عظیم شخصیت نے ہمیشہ اپنوں کو ہی نہیں غیروں کو بھی دین اسلام کے قریب کی۔لاتعدا دغیر مسلم اس عظیم کام کی وجہ سے دائرہ اسلام میں داخل ہوئے اور ہدایت پاگئے۔

حاجی عبدالوہاب صاحب رحمۃ اللہ علیہ 1922 ء کو دہلی میں پیداہوئے ۔ آبائی تعلق علاقہ سہارنپور، اتر پردیش سے تھا۔ انہوں نے اسلامیہ کالج، لاہور سے تعلیم حاصل کیا۔ تقسیم ہند سے قبل انہوں نے بطور تحصیلدار فرائض سر انجام دیے۔

حاجی عبد الوہاب رحمۃ اللہ علیہ تبلیغی جماعت کے بانی حضرت مولانامحمد الیاس کاندھلوی ؒ کے زمانے سے ہی تبلیغی جماعت سے منسلک ہوئے۔آخری وقت تک انہوں نے یہی صدا لگا ئی کہ ’’اللہ سے ہونے یایقین اور مخلوق سے کچھ نہ ہونے کا یقین ہمارے دلوں میں کیسے آئے گا‘‘یہی صدا اور تڑپ ہمیشہ رہی ۔۔۔۔حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے بیانات کو متعدد بار سننے کا موقع ملا ،آپ کے بیانات کو جس نے بھی سنا اللہ پاک نے ان کے دلوں کی حالت کوبدل دیا ۔۔یقینا یہ حضرت کے اخلاص کی برکات تھیں

شعور کی آنکھ کھلتے ہی حضرت حاجی عبدالوہاب صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی حکمرانی دل پرپائی۔ ان کی ہیبت و جلالت کا سکہ ان کی آخری سانس تک چلتا رہا وہ تندخو ، یا بات بے بات جھڑک دینے والے نہیں تھے۔

بلکہ وہ تو قطرئہ شبنم کی طرح نرم، کھلتی کلی کی طرح خوبرو، اور ایک مالی کی طرح اپنے گلشن کے گلوں ہی نہیں خاروں کے بھی قدرداں و نگہبان تھے۔ ان کی ایک لطیف مسکراہٹ دور دراز سے آنے والے مبلغ ومسافر کی تھکاوٹ دور کردیتی تھی، پھر ان کا پروقار استقبال، تبسم آمیز استفسار، اور ضیافت و مہمان نوازی کا والہانہ اندازاپنی مثال آپ تھا۔

حاجی صاحب  تواضع و انکساری کے خوگر، صبر و استقامت کے پیکراور اخلاص و للہیت کا نمونہ تھے ،ان کے سینے میں اتباعِ سنت کا جذبہ ہمیشہ موجزن رہتا تھا، چھوٹوں پر شفقت اور خورد نوازی ان کا طرہ امتیاز تھا، ہمیشہ اپنے متعلقین کو آگے بڑھانے انہیں بنانے سنوارنے، ان کی خوابیدہ صلاحیتوں کو بیدار کرنے کی فکر میں لگے رہتے تھے جماعت کے ساتھیوں کی ہمیشہ حوصلہ افزائی کیاکرتے تھے، قسام ازل نے ان کے اندر اتنے سارے اوصاف  وکمالات، اور اتنی ساری خوبیوں کو جمع کردیا تھا کہ انہیں احاطہ تحریر میں لانے کے لیے دفتر کے دفتر درکار ہیں، ملک کی بااثر شخصیات میں حضرت ؒ کا شمار ہوتا تھا۔حضرت ؒ کے وصال پر پورے ملک کی علمی وعوامی فضا سوگوار ہے ،ایک ایسا علمی خلا پیداہوگیا ہے جس کا پر ہونا بظاہر مشکل ہے۔

آئے عشاق، گئے وعدہ فردا لے کر     

اب انھیں ڈھونڈ چراغِ رخِ زیبا لے کر

 حضرت کا خاص وصف تواضع اور خوش اخلاقی تھا۔ وہ اپنے چھوٹوں کو بھی اپنے سے بڑا سمجھتے اوربڑے القابات و کلمات سے پکار تے تھے ۔جو بھی آپ سے ملنے جاتا ، خواہ شناسا ہوتا یا اجنبی، مسلمان ہوتا یا کافر، اس سے ایسی خوش اخلاقی اور نرمی سے ملتے کہ وہ سمجھتا کہ حضرت کو سب سے زیادہ تعلق اورمحبت مجھ ہی سے ہے۔

حاجی صاحب کی شخصیت قدرت کی عطا کردہ بے مثال صلاحیتوں اور اکابر واسلاف کے فیضانِ نظر سے تیار شدہ ایک مثالی شخصیت تھی جس کے بارے میںقلم یہ لکھنے پہ مجبور ہے؎

پروردہ  صد فصل بہا را ں جسے کہیے

  اسلا ف  کے گلشن کا وہ ایسا گلِ تر تھا

قارئین کرام!یہ دنیا مسافرت کا گھر ہے ہم سب مسافر ہیں اور ہمارے سفر کی آخری منزل آخرت ہے  دنیا کے ہر مسافر کو اپنے سفر میں تین چیزیں مطلوب ہوتی ہیں:

(1)    یہ کہ سفر راحت و آرام سے ہو۔

(2)   یہ کہ سفر عزت کے ساتھ ہو۔

(3)   یہ کہ سفر عجلت کے ساتھ ہو۔

ان ہی تینوں چیزوں کے حصول کے لئے ہر مسافر اپنی حیثیت کے مطابق اے سی کلاس سے لے کر سلیپرکلاس تک ریزرویشن کراتا ہے تاکہ سفر راحت کے ساتھ ہو، ٹکٹ خریدتا ہے اور ریلوے کے دوسرے تمام قوانین کی پابندی کرتا ہے تاکہ سفر عزت کے ساتھ طے ہو اور دوران سفر کسی قسم کی بے عزتی کا سامنا نہ کرنا پڑے، اور پھر منزل تک پہنچنے کے لئے تیزرفتار گاڑیوں کا انتخاب کرتا ہے کہ سفر عجلت کے ساتھ ہو اور جلد سے جلد منزل تک پہنچ سکے۔  دنیا سے آخرت کی طرف سفر میں بھی یہی تین چیزیں مطلوب ہیں کہ یہ سفر بھی راحت کے ساتھ ہو، عزت کے ساتھ ہو،اور عجلت کے ساتھ ہو، اور اس شان کے ساتھ سفر طے ہونے کا واحد ذریعہ اتباع سنت ہے کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اصحاب کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے دنیا سے آخرت کی طرف سفر کو جس طرح طے کرکے دکھادیا ہے اسی پر گامزن ہوجانے میں راحت بھی ہے، عزت بھی ہے،اور عجلت بھی  اور اسی چیز کا نام اتباع سنت ہے۔حاجی عبدالوہاب رحمۃ اللہ علیہ نے اتباع ِ سنت میں زندگی بسر کی ان کا ہر قول ،فعل وعمل اس بات کا بین ثبوت ہے۔

 حاجی عبدالوہاب رحمۃ اللہ علیہ ہماری اس فانی دنیا سے رخصت ہوگئے، یہی اس دنیا کا نظام بھی ہے ۔ کہ ہر ذی روح نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے ۔حضرت کی جدائی پر ابھی زخم ہرے ہیں اس لئے احساس کی شدت ہے، اب کیا ہوگا؟ اب کون ایسا روحانی معالج ملے گا؟ اب کون ایسا ہے جسے دیکھ کر اور جس کی ایک ایک نقل و حرکت سے سنتوں کا علم ہوگا؟ اتباع سنت کی وہ لگن، اور نہی عن المنکرات کے لئے وہ تڑپ اب کہاں دیکھنے کو ملے گی؟ یہ اور اس جیسے بہت سے سوالات ذہنوںکوبے چین و بے قرار کررہے ہیں مگر حقیقت بہرحال یہی ہے کہ حق کا کارواں چلتا ہی رہے گا۔اللہ کے دین کا کام کسی بھی شخصیت کا محتاج نہیں ہے۔ جس کا کام ہے وہی اپنے کام کے لئے افراد پیدا کرتا رہا ہے اور آئندہ بھی یہ نظام ان شا ء اللہ یوں ہی چلتا رہے گا۔

 حضرت سے سچی وابستگی اور حقیقی عقیدت کا تقاضا یہ ضرور ہے کہ ان کے جلائے ہوئے چراغوں کو ہم روشن رکھیں اور ان کے مشن کا اپنے کو وارث سمجھ کر اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں کوشاں ہوں  بس یہی ہے ان کو سچا خراج عقیدت !

اللہ پاک حضرت کی دینی وملی خدمات کو قبول فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے.آمین.

تبصرے بند ہیں۔