جناب ریاض انور صاحب کے اعزاز میں مشاعرہ

ڈاکٹر عابدالرحمن

اس میں کوئی شک نہیں کہ اردو کی بنا مسلمانوں نے ڈالی لیکن اردو زبان نے کبھی بھی اپنے آپ کو مذہب سے نہیں جوڑا۔ اردو زبان کی جو عالی شان عمارت اس وقت ہمارے سامنے کھڑی ہے اس کے بنیادی ستونوں میں غیر مسلم ہندوشخصیات بھی اتنی ہی شامل ہیں جتنے مسلمانوں۔ آزادی کے بعد خاص طور سے مذہب کو ملکی سیاست میں گھسیٹے جانے کے بعد سے سیاسی اور درپردہ سرکاری طور پر بھی اردو کو مسلمانوں کی زبان قرار دیاگیا جس کی وجہ سے غیر مسلموں نے تو اردو کو چھوڑا ہی بلکہ اس سے نفرت بھی عام ہو گئی اور اس سے برتے جانے والے تعصب کی وجہ سے مسلمانو ں نے بھی د وسری زبانوں میں مہارت کے حصول کے چکر میں اپنے آپ کو اس سے دور کرلیالیکن ان حالات کے باوجوداب بھی کچھ غیر مسلم حضرات ہیں جو اردو کی خدمت کر رہے ہیں انہی میں سے ایک شخصیت بلڈانہ میں محترم ڈاکٹر گنیش گائیکواڑ ہیں جن کی ماددری زبان مراٹھی ہے پیشے سے سرجن ڈاکٹر ہیں اور اپنی مصروف ترین پریکٹس میں بھی اردو کی خدمت میں مصروف کار ہیں۔

اردو سے انکا تعلق شاعری کے توسط سے قائم ہواپہلے وہ ہندی شاعری کی طرف مائل ہوئے پھراردو شاعری کے گیوسئے تابدار کے اسیر ہوگئے اورانہیں سنوارنے لگے اس کے لئے ڈاکٹر صاحب نے اردو سیکھی اور آغازؔ تخلص کے ساتھ اردو شاعری کا آغاز کیا اوراب تک تقریباً تین شعری مجموعے اپنے نام کر لئے۔ وہ اردو پڑھتے ہیں لکھتے ہیں اور شستہ اردو بولتے بھی ہیں۔ شاعری کے حوالے سے اردو کے لئے ان کی خدمات قابل قدر ہیں، اپنے ذاتی خرچ سے شعری نشستوں اور مشاعروں کا انعقاد کرتے رہتے ہیں، ابھی ۱۱، اگست کو شب میں انہوں نے بلڈانہ کے معروف شاعر محترم ریاض انور صاحب کے اعزاز میں ایک شاندار مشاعرہ کا انعقاد کیا جس کی صدارت معروف کہنہ مشق شاعر محترم شمس جالنوی صاحب نے فرمائی۔

 ڈاکٹر گنیش گائیکواڑ آغازؔ بلڈانوی صاحب نے محترم ریاض انور صاحب کا استقبال کرتے ہوئے دل کو چھولینے والے انداز میں اظہارخیال فرمایا اور محترم کی ہر صنف سخن پر معیاری اور قابل صد دادو تحسین طبع آزمائی کو خوب سراہا۔ نیز ڈاکٹر صاحب کے ساتھ ساتھ محترم ہارون ماسٹر اور سید آصف صاحبان نے بھی ریاض انور صاحب کا اعزاز و استقبال کیا۔ اس یادگار مشاعرے میں اردو کے ساتھ ساتھ ہندی اور مراٹھی شعراء نے بھی اپنا کلام پپیش کیا رمیش آراکھ، شری موہیتے، شری ماپاری شری کوٹھاری اور شری انگڑے صاحبان نے اپنی مراٹھی اور ہندی تخلیقات پیش کیں اردو شعراء میں معین گوہر اکولہ، یٰسین تنہا دیول گھاٹ، عظیم رائے پوری، فاروق رضا شیگاؤں، سلیم چوہان پوسد کریم درویش واشم، عمران ثانی بلڈانہ مستقیم ارشد پونہ صاحبان اور راقم الحروف نے اپنی اپنی تخلیقات پیش کیں، جبکہ مستقیم ارشد صاحب نے اپنی شاندار نظامت کے ذریعہ مشاعرے کے وقار کو مزید بلند کیا۔ صاحب اعزاز محترم ریاض انور صاحب نے اپنے کلام بلاغت نظام سے محفل کو چار چاند لگائے کہ ع پریکشا رام جیسا نیک، سیتا جی کی لیتا ہے۔۔۔  کہانی میں ہو راون تو بھروسہ ٹوٹ جاتا ہے، اور داؤ پر جس نے قبیلے کو لگا رکھا ہے۔۔ ہم نے اس شخص کو سردار بنا رکھا ہے۔۔

 جناب صدر سے پہلے ڈاکٹر صاحب نے بھی دیر میں اذاں دی کہ ع روشنی دیوار و د ر میں آ گئی ہے۔۔ جب سے اردو مرے گھر میں آگئی ہے اور ع کچھ ایسا رشتہ مرے اسکے درمیان رہا۔۔ جہاں وہ تیر بنا میں وہاں کمان بنا۔ صدر محترم کے کلام پر مشاعرے کا اختتام ہوا اظہار تشکر محترم لانجے وار سر نے کیا۔ اس سہ لسانی مشاعرے کے انعقاد میں دیر میں اذاں دینے والے خادم اردو ڈاکٹر گنیش گائیکواڑ آغاز بلڈانوی کے ساتھ شری لانجے وار سر اور ہندو مسلم ایکتا منچ کے روح رواں کاؤنسلر سید آصف صاحب نے بڑی محنتیں کیں۔

یہ شاندار مشاعرہ بلڈانہ شہر کا تاریخی مشاعرہ تھا جو بے حد کامیاب رہا۔ کسی غیر ارد داں کے ذریعہ اسطرح ارد کی محفلں کا انعقاد اور اردو کے شعراء کا اعزاز اور اس میں ہندو مسلم ایکتا منچ جسی تنظیموں کی حصہ داری اور فنکاروں اور سامعین میں ہندو مسلمانوں کی شرکت واقعی بڑا کام ہے جسکی پزیرائی اور تشہیرہو نی چاہئے اس طرح کے لوگ اور محفلیں نہ صرف ارد وزبان اور ہندوستانیت بلکہ ہماری گنگا جمنی تہذیب کے لئے بھی نیک شگون ہے۔

تبصرے بند ہیں۔