جنتی گدھا

مدثراحمد

پرانے زمانے کی بات ہے کہ ایک آدمی بازارمیں گدھا بیچ رہا تھااور چیخ چیخ کرکہہ رہا تھا کہ گدھا لے لو یہ جنتی گدھا ہے۔ لوگ اس کی آواز کو سن کو اس کے اطراف جمع ہونے لگے۔ کچھ ہی دیر میں یہ بات بادشاہ کے دربارمیں پہنچ گئی کہ بازارمیں جنتی گدھا فروخت کیا جارہا ہے۔ بادشاہ کو بھی اشتیاق ہوا کہ وہ اس گدھے کو نہ صرف دیکھے بلکہ اسے خرید لے، وہ اپنے وزیروں کوساتھ لیکر بازار پہنچا اور گدھا فروخت کرنے والے سے پوچھنے لگا کہ آخر اس میں کونسی خوبی ہے جس کی وجہ سے تم اسے جنتی گدھا کہہ رہے ہو۔

گدھا بیچنے والے نے کہا کہ اگر اس گدھے پر بیٹھ جائینگے تو کوئی بھی جنت کا نظارہ کرسکتا ہے۔ لیکن شرط یہ ہے کہ گدھے پر بیٹھنے والا ایماندار اور منصف ہو۔ اس شرط کو سننے کے بعد بادشاہ ایک لمحہ کیلئے چونکا ، لیکن اپنے آپ کو سنبھالتے ہوئے گدھے کوخرید لیا، پھر کیا تھا جنت دیکھنے کیلئے گدھے پر سوا رہوگیااوراپنے وزیروں وعوام کے سامنے کہنے لگا کہ وہ دیکھو جنت میں حوریں ، وہ دیکھو بڑی بڑی نہریں اور ایسے خوشی محسوس کرنے لگا کہ واقعی میں وہ جنت دیکھ رہا ہے۔

دراصل بادشاہ کوگدھے پر بیٹھنے کے بعد بھی کچھ نہیں دکھائی دے رہا تھالیکن اپنے آپ کو ایماندار و منصف ثابت کرنے کیلئے وہ جھوٹے دعوے کررہا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے وزراء اور عام لوگ بھی گدھے پر سوار ہوکر جنت کا نظارہ کرنے لگے، لیکن سب لوگ جھوٹا دکھائوا کررہے تھے کہ وہ جنت دیکھ رہے ہیں ، لیکن حقیقت میں کسی کو بھی جنت نظر نہیں آرہی تھی۔ گدھا بیچنے والا خوش نظرآرہا تھا کہ وہ کتنی آسانی کے ساتھ باشاہ سمیت لوگوں کو بے وقوف بنایا۔

آج ملک میں وزیر اعظم نریندرمودی بھی لوگوں کو جنتی گدھا بیچ رہے ہیں اور ان کے بھگت ان کے گدھے پر سوارہوکر ایسا ڈھونگ کررہے ہیں مانوکہ وہ ملک کے موجودہ ملک کے حالات سے بالکل بھی پریشان نہیں ہیں ۔ پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ، ڈالرس کے مقابلے میں روپئے کی قیمت میں گراوٹ، ملک میں بدحالی، اقتصادی و معاشی بحران سب کچھ ہوتے ہوئے بھی مودی بھگت کی تعریف کے پُل باندھ رہے ہیں ۔ خاص طور سے میڈیا ان کی تعریفیں کرتے ہوئے اس بات کو ثابت کرنے کی کوشش کررہا ہے کہ ملک میں کسی بھی طرح کی پریشانی نہیں ہے اور ہر ہندوستانی خوش ہے۔ درحقیقت مودی حکومت خودان کے ہی حامیوں کیلئے پائلس کی طرح ہوچکی ہے جو نہ تو سنبھالے جاتی ہے نہ ہی دکھانے کے قابل ہے، پھر بھی اس حکومت کو لوگ برداشت کررہے ہیں۔

کچھ دن قبل جب عوام میں یہ بات آئی کہ ہندوستان میں بے روزگاری بڑھ رہی ہے تو وزیراعظم نریندرمودی نے عوام کو مشورہ دیا کہ وہ بے روزگاری کو دورکرنے کیلئے پکوڑے بنائیں ، پھر کچھ دن بعد گیس کی قیمتوں میں اضافہ ہونے کی بات آئی تو وزیر اعظم نے نئی ترتیب پیش کی کہ لوگ ایل پی جی گیس استعمال کرنے کے بجائےنالیوں سے نکلنے والے پانی کو استعمال کرتے ہوئے روسی گیس بنائیں اور اس گیس سے بچت بھی ہوگی اورقدرتی وسائل کا تحفظ بھی ہوگا۔ ان کے دونوں ہی مشوروں کو سننے کے بعد مودی بھگتوں نے ایسا ڈھونگ کرنا شروع کیا، جیسے کہ وہ خود اس کام پر لگ چکے ہیں ۔ آج ملک میں اقتصادی حالت روزبروز خراب ہورہی ہے، فی الوقت ہندوستان کی ترقی کی شرح1.7ہے جبکہ سب سے بہترین ترقی کی شرح امریکہ کی ہے جہاں کی ترقی کی شرح یعنی جی ڈی پی6.1ہے۔ جی ڈی پی کی شرح بڑے اعدادو شمارات سے نہیں بلکہ چھوٹے اعداد سے ناپی جاتی ہے۔

پڑوسی ملک بنگلہ دیش اور پاکستان ہندوستان سے کئی گنا زیادہ بہتر ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان میں فی الوقت پٹرول کی قیمت ہندوستان سے کئی گنا کم ہے۔ سوشیل میڈیا پر ہم اکثر دیکھ رہے ہیں مودی بھگت کھلے الفاظ میں یہ کہہ رہے ہیں کہ بھلے ہی پیٹرولیم کی قیمتیں بڑھ جائیں ، پٹرول کےدام100 روپئے سے زیادہ ہوجائیں لیکن ہمارے لئے ہندتوا اہم ہے، ہم ہندوتوا کیلئے100روپئے بھی دیکرپٹرول خریدینگے۔ دراصل یہ سوچ ہندوستان کی ترقی کو لیکر نہیں بلکہ اپنے ہی ہاتھوں سے پیدا کئے جانے والے پائلس کو چھپانے کی ہے۔

جب تک کوئی بھی قوم یا شخص شخصیت پرستی پر اڑا رہے اُس وقت تک نہ وہ قوم ترقی کرسکتی ہے نہ ہی وہ ملک ترقی کرسکتا ہے۔ کسی بھی ملک کی ترقی کیلئے مذہب کا پابند ہونا ضروری نہیں بلکہ ترقیاتی منصوبوں کی پابندی کرنا ضروری ہے۔ مذہب کے نام پر عمل میں لائے جانے والے پاکستان کی ہی بات لیں تو وہاں کے حالات بد سے بدتر ہیں ، اگر یہی حال ہندوستان میں بھی ہندوتوا کے نام پر ہوجائیں تو اس ملک کی ترقی ناممکن ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔