حسن پور گنگھٹی کی ایک علمی و ادبی محفل کی روداد

کامران غنی صباؔ

کچھ لوگوں سے خونی رشتے تو نہیں ہوتے لیکن اْن سے اتنی قربت ہو جاتی ہے کہ بہت سارے خونی رشتے بھی پیچھے رہ جاتے ہیں۔ مولانا محمد نظر الہدی قاسمی صاحب سے میرا تعلق کچھ ایسا ہی ہے۔ پائدار رشتے یوں ہی وجود میں نہیں آ جاتے بلکہ ان کے بیچھے خلوص و اپنائیت، ایثار و قربانی اور بے پناہ محبت کی ایک مضبوط بنیاد ہوتی ہے۔ مجھے احساس ہے کہ نظر الہدی قاسمی بھائی نے ہمیشہ قولی و عملی ہر اعتبار سے اس بنیاد کو مضوط تر کرنے کی کوشش کی ہے۔

19 اگست کو نظر الہدی بھائی کا میسج ملا کہ 26 اگست بروز اتوار ان کی کتاب(کتابِ زندگی) کی رسم اجرا تقریب ہے۔ ساتھ ہی ایک علمی مذاکرہ بھی رکھا گیا ہے جس کا عنوان ہے "گائوں اور دیہات میں اردو کا فروغ: مشکلات اور حل”۔نظر الہدی بھائی کے میسج نے مجھے پس و پیش میں مبتلا کر دیا۔ ہمارے اسکول میں 25 اگست تک عید الاضحی کی چھٹی تھی۔26 سے اسکول کھل رہا تھا، اس لیے میرا اسکول میں رہنا بھی ضروری تھا۔ اتوار کا دن دوسری بڑی پریشانی تھی۔ اتوار کو ہمارے اسکول کے زیادہ تر ٹیچر اوڈی ایل (ٹریننگ) میں رہتے ہیں۔ اس وجہ سے اتوار کے کسی پروگرا م میں شرکت کرپانا میرے لیے بہت مشکل ہوتا ہے۔ میں نے بہت ہی احساسِ شرمندگی کے ساتھ نظرالہدی بھائی سے معذرت کی کہ پروگرام میں شریک نہیں ہو پائوں گا لیکن وہ بضد تھے کہ آدھے گھنٹے کے لیے ہی سہی آپ کو آنا ہی ہوگا۔ محبت اگر ضد پر آمادہ ہو جائے تو جیت کر ہی دم لیتی ہے اور کمال یہ ہے کہ جسے وہ شکست دیتی ہے اْسے بھی شکست کھا کر ایک عجیب سا لطف و سرور حاصل ہوتا ہے۔ نظر الہدی بھائی کی محبت بھری ضد کے آگے بجز سر تسلیم خم کرنے کے میرے پاس کوئی دوسرا چارہ نہ تھا۔ میں نے پروگرام میں شریک ہونے کا وعدہ کر لیا   ؎

ہماری جیت یہی تھی کہ خود سے ہار آئے

 کسی کے ہم پہ کئی قرض تھے اتار آئے

26 تاریخ کو جناب راحت حسین (چک نصیر) کے ہمراہ ہم جناب نظر الہدی قاسمی کے آبائی گائوں حسن پور گنگھٹی، مہوا(ویشالی) پہنچے۔ ہم لوگ ذرا تاخیر سے پہنچے تھے۔ مذاکرہ شروع ہو چکا تھا۔ اسٹیج پر امتیاز احمد کریمی، ڈائرکٹر اردو ڈائرکٹوریٹ(پٹنہ)، مشتاق احمد نوری، پروفیسر معراج الحق برق، پروفیسر ممتاز احمد خاں، مولانا مظاہر عالم قمر شمسی، اورانوار الحسن وسطوی تشریف فرما تھے۔ مائک پر نظر الہدیٰ قاسمی صاحب کے والد گرامی اور امارت شرعیہ بہار، اڑیسہ و جھارکھنڈ کے نائب ناظم مولانا مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی نظامت کا فریضہ انجام دے رہے تھے۔ موسم کی ناخوشگواری کے باوجود پنڈال لوگوں سے بھرا ہوا تھا۔ مقامی افراد کے علاوہ قرب و جوار سے بھی محبان اردو کی اچھی خاصی تعداد موجود تھی۔ چونکہ ہم لوگ تاخیر سے پہنچے تھے اس لیے بیشتر مقررین کی گفتگو ہو چکی تھی۔ میں ابھی بیٹھ کر ماحول کو سمجھنے کی کوشش ہی کر رہا تھا کہ مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی صاحب نے آواز دے کر مجھے مائک پر بلا لیا۔ چونکہ ظہر کی جماعت سے قبل پروگرام ختم کرنا تھا اور مقررین کی تعداد زیادہ تھی اس لیے انہوں نے دو منٹ میں اپنی بات مکمل کرنے کی شرط بھی لگا دی تھی۔ اس موقع پر مجھے شکیل بدایونی کا یہ شعر یاد آ رہا تھا  ؎

جو نقابِ رْخ اْٹھا دی تو یہ قید بھی لگا دی

اْٹھے ہر نگاہ لیکن کوئی بام تک نہ پہنچے

شاید کلیم عاجز مرحوم نے ایسے ہی کسی موقعے کے لیے کہا ہوگا  ؎

ہمارے دل کی کہانی طویل ہے عاجزؔ

اک عمر چاہیے تکمیل داستاں کے لیے

بہرکیف! مشتاق احمد نوری، امتیاز احمد کریمی اور دانشورانِ اردو کی سنجیدہ محفل میں دو منٹ بھی میرے لیے کافی تھا۔ اس دو منٹ میں بطورِ خاص اردو اساتذہ کی تربیت کے حوالے سے میں نے دانشوران کی توجہ مبذول کرانے کی کوشش کی۔ سرکاری اسکولوں میں اردو کے مسائل، کتابوں کی عدم فراہمی، نصابی کتابوں میں طباعت کی غلطیاں اور عوامی سطح پر اردو سے بے اعتنائی پر بھی اپنی معمولی تجربات بیان کرنے کی کوشش کی۔ میرے بعد کاروان ادب حاجی پور کے جنرل سکریٹری انوار الحسن وسطوی نے انفرادی سطح پر اردو کے لیے بیداری لانے پر زور دیا۔ مشتاق احمد نوری نے بھی اردو آبادی خاص طور سے بچوں کے والدین اور سرسرست سے اپیل کی کہ جس طرح دوسرے موضوعات کے لیے پرائیوٹ ٹیوشن کا انتظام کیا جاتا ہے، اسی طرح اردو کے لیے بھی الگ سے تربیت کا نظم کیا جائے۔

اردو ڈائرکٹوریٹ کے ڈائرکٹر امتیاز احمد کریمی نے کہا کہ اردو سے ہماری تہذیبی اور مذہبی شناخت ہے اگر ہمارے بچے اردو سے نابلد رہیں گے تو اپنی تہذیب اور مذہب سے بھی دور ہو جائیں گے۔امتیاز احمد کریمی نے بہت ہی جذباتی انداز میں اردد آبادی خاص طور پر اردو کے اساتذہ سے اپیل کی کہ وہ اردو کے بقا و تحفظ کے لیے آگے آئیں۔ اردو کے ہونہار طلبہ و طالبات کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ اگر کسی وجہ سے اسکولوں میں اردو کی کتابیں دستیاب نہیں ہو پائیں تو اردو کے اساتذہ اپنے ذاتی خرچ سے کتابوں کی فوٹو کاپی کرا کر تقسیم کردیں۔ یہ اردو کے لیے ان کی بڑی خدمت ہوگی۔ امتیاز احمد کریمی کے بعد پروفیسر ممتاز احمد خاں نے اپنے تعلیمی تجربات بیان کرتے ہوئے اردو کے فروغ میں اساتذہ کے کردار کو اہم بتایا۔ تقریب سے مولانا مظاہر عالم قمر شمسی، پروفیسر معراج الحق برق،مولانا سراج الہدی ندوی ازہری،ماسٹر محمد عظیم الدین انصاری، اظہار الحق قاسمی (بحرین)، حافظ توقیر سیفی،سید مصباح الدین، ڈاکٹر فیض احمد، ڈاکٹر ذاکر حسین، مولانا عبدالقیوم انصاری وغیرہ نے بھی خطاب کیا لیکن تاخیر سے پہنچنے کی وجہ سے میں ان حضرات سے گفتگو سے فیضیاب نہ ہو سکا۔

ظہر کی جماعت سے قبل پروگرام کا پہلا حصہ ختم ہو چکا تھا۔نماز کے بعد مولانا نظر الہدی قاسمی کی کتاب ’’کتابِ زندگی‘‘ کا اجرا ہونا تھا۔( یہ کتاب مفتی نظر الہدی قاسمی صاحب کے والد ماسٹر محمد نور الہدی رحمانی کی حیات و خدمات پر مشتمل مضامین اور منظوم تاثرات کا مجموعہ ہے)۔ بارش کی وجہ سے رسم اجرا کا پروگرام باہر میدان کے بجائے نور اردو لائبری کے اندر کرنے کا فیصلہ ہوا۔ نماز بعد سبھی لوگ لائبریری میں جمع ہو چکے تھے۔پرفیسر نجم الہدی صاحب(سابق صدر شعبہ اردو بہار یونیورسٹی ) بھی تشریف لاچکے تھے۔ انہی کے دستِ مبارک سے کتاب کی رسم اجرا ہونی تھی۔ دانشورانِ اردو کی کہکشائوں کے درمیان نور اردو لائبریری کا وسیع و عریض ہال مزید پر نور لگ رہا تھا۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ چاروں طرف الماریوں میں سلیقے سے سجی ہوئی کتابیں بھی آج اپنی قسمت پر رشک کر رہی ہوں۔ مولانا نظر الہدی قاسمی کی پہلی کتاب دانشوران علم و ادب کے ہاتھوں میں پہنچ چکی تھی۔ پروفیسر نجم الہدی، مشتاق احمد نوری، امتیاز احمد کریمی، مفتی ثناء  الہدی قاسمی،پروفیسر ممتاز احمد خان، انوار الحسن وسطوی، پروفیسر معراج الحق برق،،مولانا مظاہر عالم قمر شمسی جیسی باوقار شخصیات کی موجودگی میں کتاب کا اجرا بحسن و خوبی انجام پایا۔

علی الصبح گھر سے اسکول اور پھر اسکول سے پروگرام میں شرکت کی وجہ سے طبیعت تھک سی چکی تھی لیکن مفتی صاحب(مفتی ثناء  الہدی قاسمی) کا حکم تھا کہ میں پروگرام کی خبر بنا کر جائوں گا۔ ان کا حکم ٹھکراتے ہوئے مجھے اچھا نہیں لگااس لیے مزید کچھ دیر رکنا پڑا۔عصر کی نماز کے بعد راحت حسین صاحب کے ساتھ میں اپنی جائے ملازمت چک نصیر پہنچ چکا تھا۔ دن بھر کی تکان کے باوجود دانشوران کی محفل سے لوٹتے ہوئے اس بات کی خوشی ہو رہی تھی کہ اردو زبان کی بدولت ہی آج مجھے ایسے لوگوں کی قربت میسر ہے جن کا قرب بھی بہت سارے لوگوں کے لیے کسی خواب سے کم نہیں۔

تبصرے بند ہیں۔