جنسی تعلیم: اسلامی نقطہ نظر

محمد صابر حسین ندوی

 حقیقت یہ ہے کہ اسلام کی پہلی کرن علم کے لبادہ میں ظاہر ہوئی اور اسی کی روشنی تلے اسلامی تہذیب و ثقافت اور حضارت نے جنم لیا، اس کے ماننے والوں نے اسی بلند بانگ اور اکسیرکے ذریعہ پورے عالم کو گل گلزار اور امن وامان کا گہوارہ بنادیا، دنیا وآخرت کی فلاح و بہبودی میسر ہوئی، تخت و تاج، جاہ وحشم نے ان کے قدم چومے، ؛لیکن زہے افسوس کامیابی و کامرانی کا یہ تیز گام سیلاب علم کی تقسیم (عصری ودنیاوی) کی زد میں آگیا، اور رفتہ رفتہ کارواں ٹوٹ، پھوٹ اور انتشار کا شکار ہوتا گیا، حتی کہ آج غیروں کی غلامی، ذلت و رسوائی، اور مغربی نظام تعلیم کو اپنانے اوربالخصوص نصاب تعلیم میں فحش لٹریچر کی شمولیت، جنسیات کے نام پر بے دریغ جنسی ہیجان اور ہوس پرستی وہوس رانی کی فضا عام کرکے اپنے ہی ہاتھوں نوخیز مسلم نسلوں کوقربان کرنے پر مجبور ہوگئے۔

اسلام ان مذاہب اور تہذیبوں میں سے نہیں جس میں ’’جنسیات ‘‘شجر ممنوعہ یا اس کی تعلیم روحانیت کے خلاف متصور کی جائے، اور عائلی زندگی، معاشرت ومعاملات کا سر رشتہ کاٹ دیا جائے اور ان سب سے قطع نظر کرتے ہوئے جنگل، صحراوں، اور پہاڑوں میں زندگی گزارنے کا درس دے اور اسی تجردانہ زندگی کو معراج تصور کیا جائے، اور ناہی یہ ان مذاہب میں سے ہے جہاں جنسیات کو شتر بے مہار چھوڑ دیاجائے یا اس کی قدر وعظمت اس قدر بلند کردی جائے کہ اسے پرستش کا مقام مل جائے، بلکہ اسلام ایک متوسط مذہب کا نام ہے ’’وکذلک جعلناکم امۃ وسطا‘‘(بقرۃ:۱۴۳)افراط وتفریط کی اس میں کوئی جگہ نہیں ہے، یہ اعتدال وتوازن کی راہ کو انسانیت کا منشور قرار دیتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اسلام کا تصور جنس مشرق ومغرب کے مروجہ تصورات سے بنیادی طور پر مختلف ہونے کے سبب ایک الگ تشخص کا حامل ہے۔

  واقعہ یہ ہے مغرب کا تصور جنس فکری بے راہ روی و انحراف اور حیوانی مشاہدات کی بنیاد پر قائم ہیں، جوقرون وسطی میں کلیسائی عروج اور عیسائی عقیدہ کے برخلاف ہیں، اور اس نوجدیدیت جس نے تثلیث پر اپنی بنیاد رکھی اس میں، اثباتیت (Positvism) ارتقائیت(Evolutionism):جس میں انسان کو ایک ترقی یافتہ حیوا ن تصور کیا جاتا ہے، اور جنسیت (Genderism) بنیادی ارکان قرار پائے، چنانچہ آگسٹ کومٹے(Augest Comte)کی فکر نے مادے کی صداقت اور حسی تجربے کی قطعیت کا شہرہ کیا، جس کی کوکھ سے کارل مارکس کی فکر نکلی، ایسے ہی چارلس ڈارون نے حیاتیاتی ارتقاء (Biological Evolution)کو بنیاد بناتے ہوئے نہ صرف حیوانات ونباتات ؛بلکہ علوم عمرانی میں ارتقائی فکر کے متعارف ہونے کی راہ ہموار کردی، اسی دوران سگمنڈ فرائڈنے جنس، لا شعور اور تحت الشعور کی بنیاد پر انسانی رویوں اور طرز عمل کی تعبیر کا خیال پیش کیا، نتیجتاً اس کی فکر میں شعوری عمل کی اہمیت کو کم اور تحت الشعور اور لا شعور کو زیادہ بنیادی مقام حاصل ہوگیا، اور رفتہ رفتہ مغربی لادینی اور اس سے زائد ترقی وٹکنالاجی کی بہتات میں اس قدر اندھا ہوگیا کہ انہیں نشأۃ کے نام پر نصاب تعلیم کا حصہ بنادیا گیا اور پھر اس نصاب سے تیار نسلوں نے مغربی نظام خاندان اور معاشرت کا ڈھانچہ بگاڑ کر رکھ دیااور جب اس سے بھی سیری حاصل نہ ہوئی تو اس نظام کو مشرق اور خلیجی ممالک میں رائج کرنے اور اس کی مخالفت کرنے والوں کوترقی کا دشمن ماناگیا ؛بلکہ اسلام کو اس نے قدامت پرستی اور جنسیت کی تعلیم میں رکاوٹ ہونے کا طعنہ دیا۔ (دیکھئے:جنسی تعلیم اسلامی اقدار کے تناظر میں، ڈاکٹر انیس احمد)۔

جنسیت کی تاریخ اور اس کے ارتقا ء پر غور کیا جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے، جنسیت کوئی ایسا معاملہ نہیں جس کا تذکرہ بالکل الگ طورپر کیا جائے یا اسے کسی مستقل شعبہ کے ذریعہ سمجھا جائے یا سمجھایا جائے؛بلکہ اس کی لطافت وپاکیزگی اور اندرون کا تجزیہ کیا جائے تو دراصل یہ اسلامی خاندانی نظام اور معاشرت کا ایک حصہ ہے، اور یہ بات پوشیدہ نہیں کہ اسلامی خاندانی تصور ات کے ارکان خوف، للہیت، خشوع، خضوع اور آپسی محبت وروادی پر منحصر ہے، اسے بہتر سے بہتر بنانے اور اس کے ارکان میں وعناصر کیلئے یقینا علم کی ضرورت واہمیت ہے بلکہ اسلام کا وہی معاشرہ کامل واکمل قرار پائے گا جو انابت الی اللہ کے ساتھ علوم وفنون کی مہارت کا حامل ہو، اسی لئیشریعت اسلامی میں علم کیلئے خوب ابھارا گیا ہے، اور اس کی جستجو میں سرگرداں ا فراد کی فضیلت بتلائی گئی ہے، قرآن کریم نے بلا کسی دینی ودنیوی تفریق کے خود یہ دعا سکھلائی :

’’قل رب زدنی علماً‘‘(طہ:۱۱۴)

لیکن ساتھ ہی حضور اکرم ؐ اپنی دعاوں میں خاص اہتمام سے کہا کرتے تھے:

’’اللھم انی اسئلک علماً نافعا ‘‘(ابن ماجہ:۹۲۵، نسائی : ۸۹۵۰ وغیرہ)

یعنی اے اللہ علم نافع عظا فرما، اور علم مضر سے پناہ بھی چاہتے تھے اور فرماتے:

’’اللھم انی اعوذبک من علم لا ینفع‘‘(مسلم:۱۰۳۴، وغیر ذلک)

اس سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ جنسیت کی تعلیم کو باقاعدہ نصاب میں داخل کردینا اور بالغ ونابالغ کی تفریق کے بغیرعام کردینا سود مند نہیں بالخصوص بلوغ سے قبل جنسیات کی تعلیم لغو ہے، کیونکہ حضوراکرم ؐ کا فرمان ہے:

’’احرض علی ماینفعک واستعن باللہ‘‘(مسلم:۲۶۶۴)

یعنی انسان کو چاہئے کہ وہ اپنے آپ کو ایسے کاموں کیلئے ابھارے جو اس کیلئے نفع بخش ہو، جبکہ نابالغ کیلئے جنسیات کی تعلیم نفع تو کیا !انسانی تعمیر میں خود کشی کا درجہ رکھتی ہے، دراصل جنسی تعلیم کے متعلق اسلام کا مستقل تربیتی کورس ہے، جوعین تقاضہ فطرت اور عمر کے موافق ومناسب اور ذہنی لیاقت کے اعتبار سے ہے۔

 مرحلہ اولی:

جب کہ انسان ۷اور ۱۰ کے ابتدائی مرحلوں میں ہوتا ہے، یہ وقت نماز، وضو، نواقض وضواور طہارت کے احکام وغیرہ سکھلانے اور ان کا بستر الگ کردینے کا حکم ہوتا ہے، تاکہ بدن مس ہونے کی بنا پر جنسی ہیجان نہ پنپنے پائے، حضور اکرم ؐ نے فرمایا:’’مروا أولادکم باالصلاۃ وھم أبناء سبع سنین واضربوھم علیھا وھم أبناء عشر سنین وفرقوا بینھم فی المضاجع ‘‘(ابوداود:۴۱۸)، نیز یہی وہ عمر ہوتی ہے جس میں آداب استئذان (دوسروں کے گھروں میں جانے کیلئے اجازت طلب کرنا )سکھلانے کا حکم ہے، فرمان الہی ہے:’’یاأیھا الذین آمنوا لیستأذنکم الذین ملکت أیمانکم والذین لم یبلغوا الحلم منکم ثلث مرات‘‘(النور:۵۸)، اور نظریں جھکانے، غیر محرم کی طرف نہ دیکھنے کا بھی حکم دیاجائے’’قل للمؤمنین یغضون من أبصارھم ویحفظوا فراجھم ذلک ازکی لھم، ان اللہ خبیر بما یصنعون‘‘(النور:۳۰)، اگر اس نہج پر تعلیم وتربیت ہوتو ابتدائی اینٹ عفت وپاکدامنی اور صلاح کی پڑے گی۔

مرحلہ ثانی:

جب کہ انسان کی عمر ۱۰سے ۱۸ کے درمیان ہو ؛یہ وہ عمر ہے جس میں جنسیات کی طرف کشش اور اس کے متعلق جاننے کی تمناوخواہش پیدا ہوتی ہے، یہ مرحلہ اساتذہ و والدین کیلئے بھی پریشان کن ہوتا ہے ؛کہایسے میں ہر اعتبار صحیح معلومات پہونچانے اور غلط طریقوں سے بچانے کی ذمہ داری ہے اور انہیں دین حنیف کی اتباع اور زنا کے قریب بھی نہ جانے کی تلقین کی ضرورت ہوتی ہے:

’’ولا تقربواالزناانہ کان فاحشۃ وساء سبیلا‘‘(اسراء:۳۲)

نیز آداب تربیت میں خصوصی لحاظ کی بھی ضرورت ہوتی ہے، جیساکہ حضوراکرمؐ نے سکھلایا ؛روایت میں ہے کہ آپؐ سے ایک نوجوان نے زنا کی اجازت چاہی، یہ سن کر صحابہ کرامؓ بھڑک اٹھے ؛لیکن آپؐ نے فرمایا:’’دعوہ، اقبل یابن اخی‘‘اسے چھوڑدو، اور اسے قریب بلایا اور بٹھا کر سوال کیا :’’أترضاہ لامک‘‘ کیا یہ (زنا)تم اپنی والدہ کیلئے پسند کروگے، تو اس نے جواباً کہا:نہیں اے اللہ کے رسول، آپؐ نے فرمایا: ’’فکذلک الناس لایرضونہ لامھاتھم‘‘یعنی اسی طرح دوسرے بھی اپنی ماؤوں کیلئے اسے پسند نہیں کرینگے(ھکذا:بخاری:۱۴۶۹، مسلم:۱۰۵۳)

اسی طرح ان میں عفت و پاکدامنی اور طہارت کی اہمیت پیدا کرنے کیلئے سورہ النور:۳۳کی آیتیں سنائیں اور بتلائیں کہ اللہ پاکدامنی اختیار کرنے والوں کو کس طرح بے نیاز و مستغنی کردیتا ہے اور ان کے حق میں کس قدر وہ غفور ورحیم ہے۔

مرحلہ ثالث:

یہ ۱۸؍اور اس کے بعد کی عمر ہے؛یہ وہ عمر ہے جہاں انسان کی شادی اور جنسیات کی تعلیم ضروری ہوتی ہے، چنانچہ علماء اور واعظین کی ذمہ داری بھی ہوتی ہے کہ پورے آداب کے ساتھ ضروری معلومات فراہم کریں، جو کہ اس سلسلہ میں قرآن واحادیث کی زبان ہے، ابن عباس کی روایت ہے کہ حضرت عمرؓ آپؐ کے پاس آئے او ر کہنے لگے :اللہ کے رسولؐ میں ہلاک و برباد ہوگیا، تو آپؐ نے پوچھا کس چیز نے تمہیں ہلاک کر دیا ؟، فرمایا:’’حولت رحلی اللیلۃ‘‘(یہ کنایہ تھا بیوی کے ساتھ قبل میں پیچھے کے راستے سے مجامعت کرنے سے)، اس پر آپؐ خاموش ہوگئے اور کچھ جواب نہ دیا، تب ہی یہ آیت نازل ہوئی، ’’نسائکم حرث لکم فأتوا حرثکم أنی شئتم‘‘ (بقرۃ:۲۲۳)اور فرمایا:’’اقبل وادبر واتق الدبر والحیضۃ۔ ۔ الخ‘‘یعنی آگے، پیچھے سے جماع کرو لیکن دبر اور حیض کے ایام سے بچو، (ترمذی:۴۷ ۳۲)، اس سلسلہ میں عورت ومرد کے مابین کوئی امتیاز نہیں ؛یہاں تک کہ حضرت ام سلمہ کے بارے میں آتا ہیکہ؛وہ حضورؐ کے پاس حاضر ہوئیں اور کہنے لگیں :ان اللہ لا یستحی من الحق۔ ۔ بیشک اللہ تعالی حق سے نہیں شرماتا لہذا آپ بتلائیے کہ کیا عورت پر بھی احتلا م ہونے(بعض روایتوں میں ہے کہ خواب میں اگر احتلام ہو) کی صورت میں غسل ہے، تو آپ ؐ نے بڑی نرمی سے فرمایا :ہاں جب کہ وہ پانی (گیلاپن)دیکھ لے ’’نعم اذا رأت الماء‘‘(بخاری:۱۳۰، مسلم:۷۳۸)، اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان انصار خواتین کی تحسین فرمائی جو مسائل دریافت کرنے میں شرماتی نہ تھیں (الاربعون النوویۃ’’اشارات وفوائد‘‘:ص۔ ۳)، بلکہ یہ عمر کا وہ مرحلہ ہے جس کے بعد دینی ودنیاوی طور پر پیش آمدہ تمام مسائل کا حل معلوم کرنا یا اہل علم کا انہیں بتانا لازم ہوجاتا ہے۔

ان توضیحات سے مقصود یہ ہیکہ عمر کا لحاظ کرتے ہوئے تعلیم وتربیت پر توجہ کی ضرورت ہے، یکسر جنسی تعلیم کا انکار کرنا اور اسے اسلام مخالف گرداننا بھی درست نہیں، شریعت اسلامیہ کا بڑا علمی ذخیرہ ایسا ہے جو جنسی تعلیمات پر مشتمل ہے، جیسے ’’کتاب الطھارۃ۔ کتاب النکاح والطلاق والحلالۃ واللعان ‘‘وغیرہ، سچ تو یہ ہے کہ خود قرآن کریم میں جنسی تعلیم مذکور ہے، دکتور موریس بوکایی اپنی مشہور کتاب’’القرآن الکریم والتوراۃ والانجیل ‘‘میں لکھتے ہیں ؛کہ’’لم یستبعد القرآن الحیاسۃ الجنسیۃ‘‘ جنس کی تعلیم سے قرآن اچھوتا نہیں، اور لکھتے ہیں ؛قرآن نے عورتوں کے پاس متعددطریقوں سے جماع کرنے کا  خو د تذکرہ کیا ہے’’تشید عبارات قرآنیۃ الی سلوک الرجال فی علاقتھم الاثیرۃ مع نسائھم فی ظروف متنوعۃ ‘‘۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کما تشیر الی ذلک الآیتان: بقرۃ : ۲۲۲۔ ایضاً:۲۲۳،۔ ۔ ۔ ۔ یہاں تک کہ قرآن کریم نے نا مناسب جنسی عمل کرنے پرجیسے؛زنا، لواطت، شذوذوغیرہ کے جرم میں سخت سزائیں مقرر کی ہیں (النور:۲)۔

البتہ اس سلسلہ میں اسلامی شان ورفعت اور لطافت وسنجیدگی اور طریقہ کا ر کا خیال ضروری ہے، جیسا کہ’’ مجلۃ الوعی الاسلامی‘‘(عدد۵۱۱، ربیع الاول ۱۴۲۹، مارچ؍۲۰۰۸، ص:۷۱) میں جنسی تعلیم وتربیت کیلئے پانچ اصول بتلائے گئے ہیں :۔

۱۔ ضبط وسائل الحدیثۃ والبعد عن وسائل الاثارۃ: یعنی والدین اور ذمہ داروں پر واجب ہیکہ اپنے بچے کی نگہداشت پر توجہ دیں، جنسی میلان اور اسے بھڑکنے والی تمام جدید آلات، انٹرنیٹ، موبائل وغیرہ کے استعمال اور غلط استعمال پر نگاہ رکھیں۔

۲۔ لبس الحجاب بالنسبۃ لفتیات:بچی جیسے ہی مشتھات ہوجائے اسے نقاب پہننے کی ترغیب دیں تاکہ جنسی چھیڑ خانی سے بچ سکے۔

 ۳۔ منع الخلوۃ والاختلاط بین الرجل والمرأۃ:مرد و عورت کے مابین اختلاط سے بچائیں تاکہ فتنہ قریب بھی نہ آسکے، کیونکہ حضور اکرم ؐ کا ارشاد ہے:’’لا یخلون احدکم بامرأۃ فان الشیطان ثالثھما‘‘(احمد:۱؍۱۸)۔

۴۔ غض البصر:نظر شیطان کے تیروں میں سے پہلا تیرہے، اس لئے سب سے پہلے اس کی حفاظت کی جائے۔

۵۔ الزواج المبکر:سب سے بہتر اور مناسب رائے یہ ہے ؛کہ جوان ہوتے ہی شادی کردی جائے تاکہ ہر قسم کے فتنہ کا سد باب ہوسکے، آپؐ نے فرمایا:تم میں سے جس کو جماع کی استطاعت ہو وہ شادی کرے، کیونکہ یہ نظروں کوجھکا دیتی ہے اور شرمگاہوں کی حفاظت کرتی ہے’’یا معشرالشباب! من استطاع منکم البائۃ فلیتزوج فانہ اغض البصر واحصن للفرج ومن لم یستطع فعلیہ بالصوم فانہ لہ رجاء‘‘(بخاری:۵۰۳۰، مسلم:۱۴۲۵:دیکھئے:www.alukah.net)

بچوں میں یا ایک خاص عمر میں جنسی میلان کا پایاجانا اور اس کے تئیں تجسس ایک فطری عمل ہے، اسے نہ تو دبانے اور مسخ کرنے کی ضرورت ہے اور نا ہی ابھارنے اور اکسانے کی، بلکہ ان مرحلوں میں عمر کی رعایت کرتے ہوئے علمی ودینی تربیت کی طرف توجہ مرکوز کرنا چاہئے، اہل خانہ اور اسکول و معاشرہ کی ذمہ داری ہے کہ مناسب رویہ اختیار کریں، انہیں اس بیچ یہ بتلائیں کہ دوسروں کے اعضاء کو دیکھنا یا انہیں بد نیتی یا بد نگاہی سے دیکھنا عنداللہ مبغوض عمل ہے، اسے نہ صرف جسمانی وروحانی نقصان ہے بلکہ نفس کے مردہ ہوجانے اور اللہ کے ناراض ہوجانے کا سبب بھی ہے، اور انہیں یہ بھی سمجھانے کی ضرورت ہے کہ اس سلسلہ میں ا سلام کا نقطہ نظر کیا ہے؟ اگر اللہ نے اسے یہ فطرت دی ہے تو اس کا تقاضہ کیا ہے، وہ ان جنسی اعمال کو کیونکر تسکین پہونچا سکتے ہیں، اس کے برخلاف اسکول و کالج میں سیکس ٹائز دکھلا کر یا جنسی تصویر کشی کے ذریعہ منظر کشی کرکے یا محفوظ سیکس کی تعلیم دے کر یقینا تخریب کا کام ہوسکتا ہے؛ تعمیر کا نہیں، معاشرہ  ہلاکت وبربادی کی طرف تو جاسکتا ہے ؛صلح پسندی و عزت وعفت اور پاکدامنی کی طرف نہیں۔

 چنانچہ’’ہمارے یہاں یہ سوال بار بار اٹھتا ہے کہ اگر دور جدید میں ہمیں جنسی بے راہ روی کو روکنا ہے، تو اس کیلئے جنسی تعلیم کو لازمی کردینا چاہئے، میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ ایک منفی فکر کی علامت ہے، تعلیمی نصاب میں الگ سے جنسی نصاب فراہم کرنا اور محفوظ طریقوں سے اپنی خواہش پوری کرنا سکھانا مسئلہ کا حل نہیں ہے، بلکہ خود مسئلہ ہے، مسئلہ کا اصل حل تعلیمی حکمت عملی ہے، جب تک ہم اپنے نصاب کے اندر خاندان کی اہمیت، خاندان کے حقوق اور فرائض کو شامل نہیں کرینگے، اس وقت تک یہ سمجھنا کہ اگر بچوں کو یہ بات سمجھا دی جائے کہ خاندانی منصوبہ بندی کیا ہوتی ہے، جنسی امراض کیا ہوتے ہیں، اور ان سے کس طرح بچا جائے، اس سے باعفت اور باعصمت معاشرہ وجود میں آجائے گا تو یہ سراسر ایک واہمہ ہے، یہ صداقت سے خالی مفروضہ ہے! اس لئے ہمیں فکری زاوئے کو تبدیل کرنا ہوگا، اور بجائے اسی بات کو دہرانے کے جو مغرب بار بار کہہ رہا ہے یعنی اگر ایڈز کے مہلک اور جان لیوا مرض کو روکنا ہے تو جنسی آگاہی(sexual awareness)پیدا کی جائے، کنڈوم کلچر کو عام کیا جائے اور لوگوں کو بتایا جائے کہ کس طرح محفوظ جنسی بے راہ روی اختیار کرسکتے ہیں (گویا ناجائز جنسی تعلق بجائے خود کوئی بری بات نہیں )، اس نوعیت کے تمام نعرے اسلامی تصور حیات کے منافی ہیں، جس چیز کو اسلام نے حرام قرار دیا ہو آخر اس کو محفوظ سیکس کہہ کر کیسے جائز قرار دیا جاسکتا ہے ؟ یہ اختیار فرد، معاشرہ یا ریاست کو کس نے دیاہے؟ گویا جوبات مغرب کہہ رہا ہے ہم اسے کسی بھی انداز میں کہیں، وہ نقصان، خرابی اور تباہی کی طرف ہی لے کر جائے گی‘‘ (جنسی تعلیم اسلامی اقدار کے تناظر میں۔ از:ڈاکٹر انیس احمد، ۱۵؍جنوری۲۰۱۸)۔

مذکورہ تفصیلی بحثوں سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ جنسی تعلیم کے متعلق اسلامی نقطہ نظر اور طریقہ کار کیا ہے، ایسے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ ؛جن اسکولوں میں قبل از وقت یابعد ازوقت لیکن اختلاط اور بے ادبی  کے ساتھ یہ تعلیم دی جائے، تو بہتر ہے کہ ان اسکولوں میں بچے اور بچیوں کو داخل نہ کریں بلکہ متبادل تلاش کریں اور ضرورت یہی ہے کہ عفت وپاکدامنی اور پاکیزگی کے ساتھ دنیاوی مضرتوں سے انہیں واقف کرائیں۔ ساتھ ہی ساتھ ضرورت اس بات کی ہے کہ عصری تقاضوں کے مطابق تعلیمی نصاب کی ترتیب ا ورتربیت کے متعلق غور وفکر کیا جائے۔

حضرت مولانا سیدی علی میاں ندویؒ اس کی وضاحت کرتے ہوئے اپنی معرکۃ الآرا کتاب’’انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج وزوال کااثر‘‘میں لکھتے ہیں :’’اس مقصد کیلئے اس کو منظم جماعتیں اور مکمل ادارے قائم کرنے ہونگے اور ایسے ماہرین فن کا انتخاب کرناہوگا جو ہر فن میں دست گاہ رکھتے ہوں، وہ ایسا نصاب تیار کریں جو ایک طرف کتاب وسنت کے محکمات اور دین کے ناقابل تبدیل حقائق پر مشتمل ہو اور دوسری طرف مفید عصری علوم اور تجزیہ وتحلیل پر حاوی ہوں، وہ مسلمان نوجوانوں کیلئے علوم عصریہ کی از سر نو تدوین کریں جو اسلام کے اصولوں اور اسلام کی روح کی بنیاد پر ہو، اس میں ہر ایسی چیز ہو جو نوخیز طبقہ کے لئے ضروری ہو اور جس سے وہ اپنی زندگی کی تنظیم کرسکے اور اپنی سالمیت کی حفاظت کرسکے وہ مغرب سے مستغنی ہو اور مادی ودماغی جنگ میں اس کے مقابلہ میں آسکے اپنی زمین کے خزانوں سے فائدہ اٹھا ئے اور اپنے ملک کی دولتوں کو استعمال میں لائے، اسلامی ملکوں کی مالیات کی نئی تنظیم کرے اور اسکو اسلامی تعلیمات کے ماتحت اس طرح چلائے کہ طرز حکومت اور مالیاتی امور کی تنظیم میں یوروپ پر اسلامی نظام کی برتری صاف ظاہر ہوجائے اور وہ اقتصادی مشکلات حل ہوجائیں جن کے حل کرنے کے معاملہ میں یوروپ سپر ڈال چکا ہے، اور اپنی بے بسی کا معترف ہے‘‘(ص:۳۵۳)۔

2 تبصرے
  1. آصف علی کہتے ہیں

    کوئی بھی تہذیب اور ثقافت آرٹ کا انکار نہیں کرتی تاہم ان کا تعین وہ اپنے عقائد اور نظریہ حیات کے مطابق کرتی ہے. مغربی فکر و تہذیب کا مرکزی نقطہ چونکہ یہ ہے کہ انسان اپنا خدا خود ہے اور مختار مطلق ہے اور کسی خدا و رسول کی غلامی اس کو سزا وار نہیں لہذا وہ زندگی اپنی مرضی اور اپنی خواہشات کے مطابق بسر کرے گا. چنانچہ اس نظریہ حیات کے مطابق شیطان اور نفس امارہ کو کھل کھیلنے کا موقع ملتا ہے اور جنس پرستی اور لذت کوشی ایک باقاعدہ فلسفہ بن کر سامنے آتے ہیں. یوں عریانی اور فحاشی ان کے نزدیک فرد کا پرائیویٹ معاملہ اس کا حق اور اس کی مرضی ہے اور جو وہ کرے سب جائز ہے.
    مسلمانوں کی فکر اس کے برعکس نہ تو فرد کو خدا سمجھتی ہے اور نہ اسے اپنی ہر حیوانی خواہش پوری کرنے اور اپنی ہر مرضی پر عمل کرنے کی اجازت دیتی ہے. لیکن بدقسمتی سے مسلم معاشروں کی قیادت ان لوگوں کے ہاتھ میں ہے جو ہر معاملے میں آنکھیں بند کر کے مغرب کی پیروی کو ترقی کی معراج سمجھتے ہیں چنانچہ روشن خیالی اور ترقی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مغرب کی فلمیں، ڈرامے اور تفریحی پروگرام وہ اپنے ریڈیو، ٹی وی سے نشر کرنا ضروری سمجھتے ہیں. یوں مسلمان قوم کے اخلاق برباد کیے جا رہے ہیں اور ان کے عقائد و نظریہ حیات کے برعکس مغربی ثقافتی پالیسی مسلمان ملکوں پر نافذ اور مسلط کی جا رہی ہے.

    1. محمد صابرحسین ندوی کہتے ہیں

      جزاکم اللہ ۔۔۔۔آپ نے بہت خوب تجزیہ پیش کیا ہے۔

تبصرے بند ہیں۔