جنگل میں مور ناچا، کس نے دیکھا؟

ڈاکٹر سلیم خان

ہندو پاک کی سرد جنگ کو ذرائع ابلاغ نے گرم کرکے  سرحد سے گھر گھر پہنچا دیا ہے۔ اب دن رات ہر موبائل پر   ایک   لفظی جنگ  برپا  ہے۔ پلوامہ سے شروع ہونے والے اس سلسلے میں سرجیکل اسٹرائیک نے دھوم مچا رکھی  ہے۔ اس پر ہندوستانی فضائیہ کے سربراہ بی ایس دھنووا  کا  بیان سب سے اہم ہے کیونکہ  فضائی حملے سے متعلق ان سے بہتر معلومات کوئی اور  فراہم نہیں  کرسکتا ؟ انہوں  نے  واضح لفظوں میں کہا ہے کہ ’’ہم ٹارگیٹ پر نشانہ لگاتے ہیں۔ فضائیہ مرنے والوں کی تعداد نہیں گنتی مرنے والوں کی تعداد بتانا حکومت کا کام ہے‘‘۔  اب سوال یہ ہے کہ کس حکومت کا کام ہے؟ اس لیے کہ اس معاملے میں دوممالک یعنی  ہندوستان و پاکستان کی  سرکاریں  ملوث ہیں۔ جس جگہ بمباری ہوئی ہے وہاں تک  ایک حکومت کی رسائی تو  ہے  لیکن    دوسرے کی  نہیں اس لیے جو وہاں جاسکتا ہے اسی کی بات مانی جائے گی۔   وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے گوہاٹی کے اندر اپنے خطاب میں اعتراف کیا  ہے کہ حکومت پاکستان کو مہلوکین کی تعداد کا علم ہے۔

حکومت کے علاوہ ذرائع ابلاغ کا کام عوام تک حقائق کو پہنچانا ہے اس لیے  میڈیا بتا سکتا ہے۔ دونوں ممالک میں بے شمار اخبارات اور ٹیلیویژن چینلس موجود ہیں لیکن ایسے مواقع پر آزادی و جمہوریت کے تمام بلند بانگ دعووں کے باوجود عارضی طور پر سہی سارے  ذرائع ابلاغ اپنی حکومت کی بولی بولنے پر مجبور کردیئے جاتے ہیں۔ اس لیے پاکستان اور ہندوستان کے اخبار و ٹیلی ویژن کو چھوڑ کر معتدل یعنی بین الاقوامی میڈیا سے رجوع کرنا پڑتا ہے اور ایسا کرنے پر  وہ پاکستان کی تائید میں نظر آتے ہیں۔ ایسے میں  کپل سبل کا یہ  سوال درست  لگتا ہے کہ آخر بین الاقوامی ذرائع ابلاغ ہماری تائید کیوں نہیں کرتا؟   ساتھ ہی انھوں نے بی جے پی والوں سے   یہ بھی کہا  ہے کہ جب یہی بین الاقوامی میڈیا پاکستان کے خلاف بولتا ہے تو آپ کو خوشی ہوتی ہے لیکن جب کوئی سوال اٹھاتا ہے تو آپ  اسے پاکستان کا  حمایتی ٹھہرا  دیتے  ہیں۔

 جناب  بی ایس دھنوا نے  شواہد پیش کرنے  کے بجائے منطق  کی مدد سے حملہ ثابت کرنے کی کوشش کی۔ انہوں   کہا ’’اگر نشانہ  ہدف پر  نہیں ہوتا تو پھر پاکستان کےخارجہ سکریٹری اس پر سرکاری بیان کیوں جاری کرتے؟ اگر جنگل میں بم گرائے  گئے ہوتے تو خارجہ سکریٹری اس پر ردعمل کیوں دیتے ؟ اور پاکستان جوابی کارروائی کیوں کرتا ؟ ‘‘۔ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ اگر پاکستانی جہاز ہندوستان کی سرحد کے اندر آکر کسی جنگل میں بمباری کرکے چلے جائیں تو ہندوستانی خارجہ سکریٹری اس کی مذمت نہیں کریں گے اور ہندوستان کی طرف سے جوابی کارروائی بھی  نہیں ہوگی نیز اگر ہندوستان کے خارجہ سکریٹری نے بیان جاری کردیا تو اس سے پاکستان کا یہ دعویٰ سچ ثابت ہوجائے گا۔  جس دن  بی ایس دھنووا نے  یہ بیان دیا اس روز ہندوستانی فضائیہ کے سکھوئی طیارہ نے راجستھان کے گنگا نگر میں بین الاقوامی سرحد کے پاس ایک پاکستانی ڈرون کو مار گرایا ہے۔ اس نے نہ  بمباری کی  تھی اور نہ کرسکتا تھا تو اس کے خلاف کارروائی کیوں ہوئی ؟   فوجی سربراہان کو   جب  میدان جنگ سے نکال کر سیاست کے میدان میں لایا جاتا ہے  تو یہی سب ہوتا ہے۔ بالاکوٹ پر فضائی  حملے کا سیاسی فائدہ اٹھانے کے لیے وزیراعظم نے بڑے طمطراق سے اعلان کیا کہ اگر آج ہمارے پاس رافیل طیارے ہوتے تو بات ہی کچھ اور ہوتی لیکن جناب  بی ایس دھنووا کا خیال ان سے مختلف ہے۔ وہ  مگ ۲۱بائسن  کی بابت کہتے ہیں  کہ’’یہ بہتر طیارہ ہے، اس کا رڈار افضل ہے، اس میں ہوا سے ہوا میں مار کرنے کی صلاحیت ہے‘‘۔

جناب بی ایس دھنوا  کے بیان کا موازنہ اگر سیاستدانوں سے کیا جائے تو وہ خاصہ معقول اور پر وقار  نظر  آتا ہے۔ اس معاملے میں  امیت شاہ اپنے گرو نریندر مودی  سے دو قدم آگے نکل گئے اور  یہ اعلان کردیا کہ  ’’پچھلے پانچ سالوں میں اُری اور پلوامہ میں دو بڑے حادثات ہوئے۔ اُری حملے کے بعد ہماری فوج نے پاکستان میں گھس کر سرجیکل اسٹرائیک کیا اور ہمارے جوانوں کی شہادت کا بدلہ لیا۔ پلوامہ حملے کے بعد ہر کوئی سوچ رہا تھا کہ اس بار سرجیکل اسٹرائیک نہیں ہو سکتا۔ اب کیا ہوگا؟ اس وقت پی ایم مودی کی قیادت والی مرکزی حکومت نے حملے کے بعد ۱۳ویں دن ائیراسٹرائیک کی اور ۲۵۰دہشت گردوں کو مار گرایا۔‘‘امیت شاہ نہ جانے کس دنیا میں رہتے ہیں اور اپنے آپ کو کیا سمجھتے ہیں ؟  وہ  برسرِ اقتدار پارٹی کے صدر اور راجیہ سبھا کے رکن ضرور ہیں لیکن حکومت کا حصہ نہیں ہیں۔ ان کے پاس کوئی وزارت نہیں ہے۔ انہیں پتہ ہونا چاہیے کہ وزارت خارجہ  نےاس کو بدلے کی کارروائی کہنے کے بجائے متوقع حملے کے روک تھام کی کارروائی بتاتی ہے۔

مرکزی وزیر ایس ایس اہلووالیانے تو یہاں تک کہہ دیا کہ  ایئر اسٹرائک کا مقصد پیغام دینا تھا،مارنا نہیں’تھا۔ وزارت خارجہ کے ذمہ داروجئے گوکھلے نے اپنے اولین بیان میں یہ  بات کہی  اس کے بعد  ملک کی وزیر دفاع نرملا سیتا رامن نے بھی اس کی تائید کی اور اسے انتقام کے بجائے دفاعی اقدام قرار دیا۔ مودی کابینہ میں وزیرمملکت برائے امورِ خارجہ سبکدوش فیلڈ مارشل  وی کے سنگھ نے پہلے تو یہ اعتراف کیا کہ انہیں مہلوکین کی تعداد کا علم نہیں ہے لیکن بعد میں ان پر سیاست غالب آگئی۔   انہوں نے ٹویٹ  کیا کہ ’’رات ساڑھے تین بجے مچھر بہت تھے، تو میں نے ہِٹ (مچھر مارنے کی دوا) مارا۔ اب مچھر کتنے مارے، یہ شمار کروں یا آرام سو سو جاؤں؟‘‘۔ یہ درست ہے مچھروں کو مارنے کے بعد گنا نہیں جاتا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ صبح فخر سے ان کی تعداد نہیں بیان کی جاتی ورنہ لوگ مچھر مار کے خطاب سے نواز دیتے ہیں۔

فی الحال ہر خاص و عام  مہلوکین  کی تعداد کو لے کر اٹکلیں لگا رہا ہے۔ یہ معاملہ اس قدر مضحکہ خیز ہوچکا ہے کہ آج تک  چینل والوں نے فلم شعلے  کا معروف  منظر چرا کر ایک مختصر ویڈیو بناڈالی ہے جس میں بار بار  گبر سنگھ پوچھتا ہے کتنے آدمی تھے اور ہر بار  بی جے پی کا ایک رہنما اس کا  جواب دیتا ہے۔ صدر امیت شاہ ڈھائی  سو بتاتے ہیں،  سبرامنیم سوامی اور راجناتھ سنگھ ۳۰۰،  یوگی ادیتیہ ناتھ ۳۵۰ اور ایک نامعلوم رہنما تو ۴۵۰ تک پہنچ جاتا ہے۔ یعنی جس کے تخیل کی پرواز جتنی زیادہ ہوتی ہے وہ اتنی اونچی اڑان بھرتا ہے۔ اس کے آگے  رافیل کے طیاروں کی رفتار ماند پڑچکی ہے اور اس میں کی گئی  بدعنوانی  کے کاغذات چوری ہوچکے ہیں۔ ایک طرف  مہلوکین کی تعداد کے بارے میں فضائیہ کے سربراہ، وزیرمملکت برائے خارجہ وی کے سنگھ او ر وزیر دفاع  نرملا سیتا رامن    اپنی لاعلمی کا اعتراف کرتے ہیں جبکہ  امیت شاہ سے  لے کریوگی ادیتیہ ناتھ تک ہرکوئی بہت کچھ جانتا ہے۔ عوام پریشان ہے کہ آخر   کس کی بات  مانی جائے؟     اس صورتحال پر راجکپور کی فلم ’ایک دل اور سو افسانے‘   کا نغمہ معمولی ترمیم کے ساتھ صادق آتا ہے؎

ایک  ہی حملہ سو افسانے،   ہائے سیاست ہائے زمانے

  جتنے نیتا اتنی زبانیں،  کوئی بتائے  کس کی مانیں

امیت شاہ کے  اس دعویٰ  کا مذاق اڑاتے ہوئے نوجوت سنگھ سدھو نے کہا  پہلی بار عوامی سطح پر بالاکوٹ کے مہلوکین کی تعداد سامنے آئی ہے۔ امیت شاہ نے کہا کہ ہم نے ۲۵۰ دہشت گردوں کا صفایہ کیا بغیر کسی کو ہلاک کیے۔ نوجوت سدھو نے اہلو والیہ سے  حملے کے مقصد  پر سوال کیا کہ ، ’ مقصد اگر مارنا نہیں تھا تو  کیا تھا؟ دہشت گردوں کو مارنے گئے تھے یا پیڑ اکھاڑنے؟ اس کے علاوہ  سدھو نے اور بھی اہم سوال کیے مثلاً  کیا یہ انتخابی ہتھکنڈہ تھا؟ اور کہا کہ غیر ملکی دشمن سے لڑنے کے نام پر ہمارے لوگوں سے دھوکہ ہوا ہے۔ فوج پر سیاست بند کی جائے۔فوج اتنی ہی مقدس ہے جتنا ملک ہے۔ اپنے ٹویٹ کا آخری فقرہ’ اونچی دکان پھیکا پکوان‘ انہوں نے  بی جے پی اور اس کے صدر کی نذر کردیا۔ نوجوت سنگھ  سدھو کا ٹویٹ  پہلے ہی موضوع بحث بن گیا تھا جب انہوں نے چانکیہ کا حوالہ دے کر  کہا تھا کہ ’جس جنگ میں بادشاہ کی جان کو خطرہ نہ ہو، اس کو جنگ نہیں سیاست کہتے ہیں۔  ناکام حکومتیں جنگ کا سہارا لیتی ہیں۔ آپ اپنے کھوکھلے سیاسی مقاصد کے لئے اور کتنے بےقصور لوگوں اور جوانوں کی قربانی لو‌گے۔ ‘

نوجوت سنگھ سدھو  جیسے لوگوں کے سوالات کو پہلے تو وزیرخزانہ ارون جیٹلی نے  غیر ذمہ دارانہ قرار دیا اور پھر  وزیراعظم اپنے اوپر تنقید کرنے والوں کو پاکستان کا ہمنوا قرار دے دیا  لیکن اس حکمت عملی کارگر  نہیں ہوگی اس لیے کہ کس کس کی زبان پر تالے ڈالے جائیں گے۔ سدھو سے پہلے  مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے  بھی اسی طرح کے سوال اٹھائے تھے۔ پلوامہ سانحہ کے بعد انہوں نے کہا تھا کہ،  جوانوں کی زندگی انتخابی سیاست سے زیادہ قیمتی ہے۔ سرجیکل اسرائیک کے بعد انہوں نے پوچھا ’ملک کو یہ جاننے کا حق ہے کہ پاکستان کے بالا کوٹ میں انڈین ایئر فورس کے ہوائی حملے کے بعد حقیقت میں کیا ہوا؟ کپل سبل کی مانند ممتا بنرجی نے  بھی میڈیا رپورٹس کا حوالہ دیتے ہوئے کہ تھا کہ،  ہوائی حملے کے بعد ہمیں بتایا گیا کہ ۳۰۰ سے ۵۰۰دہشت گرد مارے گئے۔ حالاں کہ واشنگٹن پوسٹ اور نیو یارک ٹائمس نے لکھا  کہ کوئی مارا نہیں گیا۔ یو ٹیوب پر موجود  بی بی سی کی  رپورٹ  میں صرف ایک شخص کے معمولی  زخمی ہونے کی بات کی  گئی ہے۔

مغربی بنگا ل کی وزیر اعلیٰ نے زور دے کر کہا  کہ ،  اس ملک میں لوگ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ بالا کوٹ میں کتنے دہشت گرد مارے گئے ؟ حقیقت میں بم کہاں گرایا گیا؟ کیا وہ نشانے  پر گرا تھا ؟ ہمیں یہ جاننے کا حق ہے۔انہوں   نے وزیر اعظم مودی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا  کہ ایئر اسٹرائک کے بعد وزیر اعظم مودی نے ایک بھی آل پارٹی میٹنگ نہیں کی۔ ممتا بنرجی کا اعتراض واجب ہے کیونکہ   پلوامہ والی آل پارٹی میٹنگ سے بھی وہ غائب تھے۔ ایسا لگتا ہے کہ مودی جی کے نزدیک کسی قومی مسئلہ کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔بی جے پی کی جانب سے ان سنجیدہ  سوالات کے نہایت مضحکہ  خیز جوابات سامنے آرہے ہیں۔  اترپردیش کے وزیرزراعت  سوریہ پرکاش ساہی نے  علی گڈھ میں کہا کہ جو مہلوکین کی تعداد معلوم کرنا چاہتے ہیں وہ پاکستان جاکرپتہ لگائیں۔ وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ تو سوریہ پرکاش سے  آگے منگل گرہ  تک پہنچ گئے اور کہہ دیا  ہماری خفیہ ایجنسی کو پتہ چلا کہ وہاں ۳۰۰ لوگ موبائل فون استعمال کررہے تھے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا وہ سارے لوگ  کیمپ کے اندر  تھے ؟ وہ سب  دہشتگرد تھے ؟ اور یہ کیسے معلوم ہوگیا کہ وہ سب کے سب مارے گئے ؟

وزیراعظم نریندر مودی نے دگوجئے سنگھ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے  کہا کہ حزب اختلاف پاکستان کے پوسٹر بوائے کے طور پر کام کررہا ہے لیکن  اب تو اس طرح کا سوال  شیوسینا کے چیف ادھو ٹھاکرے نے بھی کردیا  ہے۔ اپنے ترجمان سامنا میں ٹھاکرے نے لکھا کہ قوم کو یہ جاننے کا حق ہے بالا کوٹ میں کیا ہوا؟ وہاں کتنے لوگ مارے گئے؟ ملک کے شہریوں کو یہ جاننے کا حق ہے کہ ہماری فوج نے دشمن کو کتنا اور کس طرح کا نقصان پہنچایا ہ؟ ہمیں نہیں لگتا کہ یہ پوچھنے سے ہماری فوج کا حوصلہ پست ہوجائے گا۔ سچ تو یہ ہے کہ ان سوالات کو سن کر فوج کا نہیں بلکہ بی جے پی کا حوصلہ ٹوٹ جاتا ہے۔ مصنوعی دیش بھکتی کے  غبارے کی  ہوا نکل جاتی ہے۔ شیو سینا نے  تو کمال صاف گوئی سے کام لیتے ہوئے یہ بھی پوچھا ہے کہ،  پلواما میں استعمال کیا  جانے والا ۳۰۰ کیلو آر ڈی ایکس  کہاں سے آیا؟  اور ہوائی حملے میں کتنے دہشت گرد مارے گئے ؟ ان موضوعات  پر بحث انتخاب کے آخری دنوں تک جاری رہے گی کیوں  کہ پلواما حملے سے پہلے مہنگائی،  بے روزگاری اور رافیل سودہ حزب اختلاف کا اہم مدعا ہوا کرتا تھا   جن  پر مودی سرکار کا بم گر گیا ہے۔ شیو سینا نے اعتراف کیا  کہ انڈین ایئر فورس کی کارروائی کے بارے میں  نہ صرف اپوزیشن بلکہ امریکہ اور برطانیہ جیسے ممالک کا میڈیا بھی سوال کر رہاہے۔ اب مودی جی کو بتانا ہوگا کہ کیا  ہندوتواوادی شیوسینا بھی پاکستان کی پوسٹر بوائے ہے؟ اور اگر ہے تو بی جے پی نے اس کے ساتھ الحاق کیوں کررکھا ہے؟

ادھو ٹھاکرے تو خیر بی جے پی اتحاد میں شامل ہیں لیکن آج کل پرکاش امبیڈکر کو بھی  بی جے پی کا خفیہ حلیف سمجھا جارہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جیسے جیسے دیش بھکتی کا بخار اتر رہا ہے لوگ پوچھنے لگے ہیں اور ان کی زبانوں پر قفل لگانا ممکن نہیں ہے؟ بھارتیہ ریپبلکن پارٹی کے سربراہ پرکاش امبیڈکر نے پوچھا کہ حملے کی اعتباریت پر سوال اٹھ رہے ہیں۔ یہ واضح نہیں ہے کہ حکومت کیا حاصل کرنا چاہتی تھی؟ کیا وہ صرف یہ دکھانا چاہتے تھے کہ ہم حملہ کرسکتے ہیں ؟ اگر ہاں تو انہیں تصاویر ظاہر کرنی چاہییں۔ وقت کے ساتھ سوال کرنے والوں کی فہرست طویل ہوتی جارہی ہے۔ اب اس میں پٹنہ سے  بی جے پی کے رکن پارلیمان    شتروگھن سنہا کا نام بھی شامل ہوگیا ہے۔ بی جے پی کے شاٹ گن نے حکومت سے ہوائی حملے کی معلومات طلب کی ہے  اور آگے بڑھ  کردگ وجے سنگھ  کےپلوامہ حملہ کو حادثہ بتانے پر شتروگھن سنہا نے  دفاع کرتے ہوئےکہا کہ وہ  بہت ہی میچور انسان ہیں۔ ان کا کہنا کچھ اور ہوگا اور کچھ اور بول گئے ہوں گے،  اس پر مت جائیے۔ کیا بی جے پی کے اندر جرأت ہے کہ وہ شتروگھن سنہا پر کارروائی کرے؟ بی جے پی کو فی الحال اس کا پوش نہیں ہے۔ اس  پر  انتخابی جنون سوار ہوگیا ہے اور  ایسے میں جب  کوئی سوال کرتا ہے ’ جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا ؟ ‘تو وہ سب ایک زبان ہوکر چیخنے لگتے  ہیں ’ ہم نے دیکھا،  ہم نے دیکھا،  ہم نے دیکھا‘۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔