جنگ: نقصان کے سوا کچھ بھی نہیں

راحت علی صدیقی قاسمی

   ہندوستان تین مرتبہ پاکستان سے مقابلہ کرچکا ہے، ہمیشہ پاکستان کو منھ کی کھانی پڑی اسکی تمام تدابیر ناکام ہو گئیں شکست اسکا مقدر ٹھہری وقت بدلا حالات بدلے مگر نتائج یکساں رہے،آج تک بھی اسکا فتح کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا،اور تاریخ رقم ہوئی کہ جب بھی ہندو پاک کے درمیان مقابلہ آرائی ہوئی تو ہندوستان نے فتح کے پرچم لہرائے اور کامیابی کے جھنڈے گاڑ دئے ،مگر ساتھ ہی روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ دہشت گردی کا خاتمہ نہ ہوسکا ،کل بھی سرحد پر حادثات ہوتے تھے اور آج بھی ہورہے ہیں،ہزاروں جانیں قربان ہوچکیں لاکھوں افراد متاثر ہوگئے کروڑوں کی قیمت کے ہتھیار کااستعمال کئے جاچکے،مگر یہ تدابیر دہشت گردی کے خاتمہ میں موثر نہیں ہوئیں،یقیناًضرورت کے مطابق فیصلہ لئے جاتے رہے اور سرحد کی حفاطت کے لئے موزوں اقدامات کئے جاتے رہے،لیکن سنجیدگی سے اگر غور کیا جائے کیا ہم نے اپنی منزل حاصل کر لی تو جواب نفی میں ہوگا،مسلسل واقعات سرحد پر رونماہوتے رہے ہیں،چند دنوں قبل اڑی سیکٹر پر دہشت گردوں نے حملہ کیا اور سرحدکے محافظوں نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا اور سرخ روہوگئے،ہر فرد وبشر کا قلب انکی محبت میں مغموم ہوا،اور سینہ بھٹی کی طرح دہک اٹھا کہ انکے قاتلوں سے بدلہ لیا جائے،انکا خون ارزاں اور سستا نہیں ہے،وہ ایک ہندوستانی کا خون ہے کسی ندی نالے میں بہتا ہوا پانی نہیں ہے،جس کا احساس ہمیں مد مقابل کو کرانا ہے، ملک کے جانباز فوجیوں نے سرجیکل اسٹرائیک کرکے اپنی شجاعت و بہادری دانشمندی کا ثبوت دیا،اور انکی جانوں کا حساب برابرکردیا،ہر ہندوستانی کا چہرا خوشی سے کھل اٹھا ،لیکن باعث تشویش امر یہ ہے کہ اس حادثہ کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی بڑھتی چلی گئی لوگ خوف و ہراس کے عالم میں زندگی گزارنے لگے،جنگ اور اسکے نقصانات کے تذکرے گلی محلوں،چائے خانوں میں ہونے لگے بعض لوگوں کو جنگ عظیم کے قصے کہتے ہوئے بھی سنا گیا،لوگ سہمے ہوئے ہیں ،دنیا جانتی کہ جب دو ملکوں کے درمیان جنگ ہوتی ہے جان ومال ہر شئی کا نقصان ہوتا ہے،اقتصادیات تباہ ہوجاتی ہیں بھوک مری کے واقعات رونما ہوتے ہیں غربت و افلاس کا اندھیرا چھا جاتا ہے اور اس تاریکی سے باہر نکلنا ساون کی اندھیری رات میں انجان راستوں پر چلنے کے مثل ہوتا ہے،اور خاص طور پر جب ہندو پاک کی بات ہو تو یہ خدشات مزید بڑھ جاتے ہیں،چونکہ دونوں ممالک جس کیفیت میں ہیں جنگ دونوں کی تباہی اور یورپ کے ایشیاء پر تسلط کا راستہ ہے عرب ممالک میں جو صورت حال ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے،وہاں یورپین ممالک کس پوزیشن میں ہیں وہ سب جانتے ہیں،ان کے علاوہ ایشیاء کے باحیثیت ممالک ہندوستان، پاکستان اور چین ہی ہیں،دونوں کی جنگ اقتصادی و معاشی اعتبار سے تباہی لائیگی،ادھر ہندوستان روس سے معاہدہ طے کر چکا ہے، 400میزائل خریدے جائینگے اور پاکستان ایک سال قبل ایم آئی 35 ہیلی کاپٹر کا معاہدہ کر چکا ہے،جس سے ایک خاطر خواہ رقم روس کو ملے گی،اور فائدہ روس کا ہوگا،یہ لوگ جو شور مچارہے ہیں نعرے لگا رہے ہیں،دہشت گردی کے خاتمہ کا راگ الاپ رہے ہیں، انہیں امن پیار بھائی چارہ اور محبت سے کوئی تعلق نہیں ہے انکا مطلب و مقصد تو صرف اپنا تسلط،اپنا کاروبار، اپنی طاقت،اس کے علاوہ یہ لوگ سوچتے نہیں ہیں،جتنی گوری انکی چمڑی ہے،اتنے ہی سیاہ انکے دل ہیں اگر انہیں انسانیت سے سروکار ہوتا تو امریکہ کیوں پل بھر میں جاپان کے 70 ہزار لوگوں کو خاک کرتا؟کیوں روس شام کے معصوموں کو گولیوں کا نشانہ بناتا؟یہ انسانی شکلوں میں بھیڑئے ہیں، جو صرف شکار کرنا جانتے ہیں، ،تجارت سرمایہ داری، حکمرانی یہی سب انکے خواب ہیں اس سے باہر انکے لئے کچھ نہیں،اگر ہوتا تو عراق و افغانستان تباہ نہ ہوتے،تاریخ کے یہ واقعات عبرت ہیں،ہمیں جھنجھوڑ رہے ہیں؛ہمیں ہوش کے ناخن لینے چاہئے اور سنجیدگی سے سوچنا چاہئے کیا ہم دوسروں کا آلہ کار بنیں گے،ہر ذی شعورآدمی کا جواب نا ہوگا تو پھر جنگ میں ہاں کیوں؟یہ کوئی سیاسی مدعا نہیں ہے یہ ہمارے ملک کے وقار کا مسئلہ ہے،پہلے ہی ایک بڑی تعداد ہمارے ملک کی غریبی و مفلسی کی زندگی گزار رہی ہے نا انہیں تعلیم میسر آتی ہے نا زندگی کے عیش و آرام محرومی آنسو اور غم یہی انکا نصیب ہوتا ہے بے روزگاری کا عالم یہ ہے کہ بہت سے تعلیم یافتہ افراد بھی خالی ہیں انہیں بھی کوئی مناسب روزگار نہیں ملتا،بھوک سے متاثر ممالک میں ہندوستان 97 ویں مقام پر ہے لاکھوں افراد بھوک سے تڑپتے کروٹیں بدل کر رات گزار دیتے ہیں،ہر دن یہی صورت حال کوئی جائے فرار نہیں ہے بچوں کی نشو نما نہیں ہوپارہی ہے انکی تعلیم تعلم کا نظم نہیں ہو پاتا جو ملک کے مستقبل کیلئے بھیانک صورت حال ہے کیا اس صورت حال میں جنگ فائدہ کا سودا ہے،ہم یہ نہیں کہتے کہ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائیں، مناسب تدبیر کیجئے، سنجیدہ گفتگو کیجئے،پڑوسی کو احساس دلائیے،، یہ جنگ اس کے لئے کتنی بھیانک اور خطرناک ہے،اور خود بھی ہمیں سنجیدگی سے سوچنا ہے، ملک کی طاقت اسکی معیشت ہوتی ہے ،پاکستان ہمارے ملک سے لاکھوں ٹن کے حساب سے ادرک،لہسن،ٹماٹر،خریدتا ہے کم کرنے کی وجہ سے ،جس سے ہمارے ملک کا 3 ہفتے میں تقریبا 170 کروڈ کا نقصان ہے،ہم چین کی اشیاء کا بائیکاٹ کررہے ہیں جس سے ہمارا بازار متاثر ہوگا،ان تمام چیزوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے غور و فکر کیا جائے،کیا جنگ کسی مسئلے کا حل ہے،جنگ تو بذات خود ایک مسئلہ ہے،جن لوگوں نے اسے اپنا شعار بنایا انکے حالات دیکھئے،جن ممالک نے اسے اپنا شیوہ بنایا،انہیں دیکھئے وہاں عبرتیں موجود ہیں،صدیاں گذر جاتی ہیں،پر کوئی قابل اطمینان تبدیلی نظر نہیں آتی،تاریخ کے صفحات اسی جانب مشیر ہیں،خاص طور پر اس صورت حال میں دو دو چار کی طرح صاف ہے یہ جنگ ہمارے لئے فائدہ مند نہیں ہے،ہماری سرحدیں محفوظ ہیں،ہمارا ملک محفوظ ہے،ہم نے ہمیشہ پاکستان کو شکست دی،پھر یہ بے چینی کیوں،پہلے بھی سرحد پر حادثات ہوئے،حکمت کیساتھ ہم نے انکا مقابلہ کیا ہے،پھر اس غیر دانشمندی کے کیا معنی ہیں،سیاست کرنے کے کے لئے بہت سے مدعے ہیں،ملک سے بڑھ کر تو کچھ بھی نہیں،ہم دوسروں کی معیشت کیوں مضبوط کریں،دولت بھی ہماری جائے،جانیں بھی ہماری، لعل و جواہر سے اغیار کھیلں،ہم اپنے پاؤں پر کلہاڑی کیوں ماریں، نتیجہ دوسرے کو حاصل ہو ان سوالات کے ضمن میں غور کریں جنگ میں فائدہ تو ہے مگر کس کا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔