جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے

عبدالعزیز

            ہندو پاک کے درمیان کئی جنگیں ہوچکی ہیں۔ ہر جنگ تباہی اور بربادی کا پیش خیمہ ثابت ہوئی ہے۔ کسی جنگ نے مسئلہ کو حل نہیں کیا ہے بلکہ مسئلہ کو بڑھایا ہے۔ پہلے دونوں ممالک (ہندستان و پاکستان) ایٹمی طاقت سے محروم تھے جس کی وجہ سے تباہی اور بربادی بھی محدود پیمانے پر ہوئی۔ اب دونوں ملکوں کو بخوبی معلوم ہے کہ اگر جنگ خدانخواستہ ہوتی ہے تو دونوں ممالک اس قدر تباہی اور بربادی سے دوچار ہوں گے کہ جس کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا ہے۔ ساحر لدھیانوی نے اپنی ایک نظم میں کتنی سچی اور دل لگتی بات کہی تھی  ؎

جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے  … جنگ کیا مسئلہ کا حل دے گی

خون اپنا ہو یا پرایا ہو  … نسل آدم کا خون ہے آخر

جنگ مشرق میں ہو یا مغرب میں … امن عالم کا خون ہے آخر

بم گھروں پر گرے یا سرحد پر … روح تعمیر زخم کھاتی ہے

فتح کا جشن ہو یا شکست کا سوگ … زندگی میّتوں پر روتی ہے

            انسان اس سرحد کے پار مرے یا اس سرحد کے پار مرے وہ انسان ہوتا ہے۔ وہ کسی نہ کسی کا بیٹا، یا باپ ہوتا ہے، کسی نہ کسی کا بھائی اور بہن ہوتاہے۔ اس کے عزیز و اقارب ہوتے ہیں۔ جب وہ مرتا ہے تو سیکڑوں آنکھیں پُرنم ہوتی ہیں۔ سیکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں دلوں کو صدمہ پہنچتا ہے اور اس کے اثرات ایک نہیں کئی خاندان پر پڑتے ہیں اور اس کے اثرات برسوں قائم رہتے ہیں۔ جھگڑوں اور جنگوں کو بڑھانے میں جو چیز اس وقت سب سے بڑا رول ادا کرتی ہے وہ سیاست ہے۔ بدقسمتی سے معمولی قسم کا سیاسی فائدے کیلئے لوگ جنگ وجدل کی بات کرتے ہیں تاکہ ان کو اقتدار کی کرسی پر چند دنوں بیٹھنا نصیب ہو۔ اس سیاست نے پوری دنیا کا نقشہ بدل دیا ہے۔ ذاتی اور جماعتی مفاد انسانیت پر حاوی ہوجاتی ہے جو ظلم ڈھاتی ہے۔ علامہ اقبالؒ نے اس گندی اور غیر انسانی و غیر اخلاقی سیاست پر بہت سے اشعار کہے ہیں ان کا ہر ایک شعر ایک کتاب کے برابر ہے   ؎

ان تازہ خداؤں میں وطن سب سے بڑا ہے

جو پیرہن اس  کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے

اقوام جہاں میں ہے رقابت تو اسی ے

تسخیر ہے مقصود تجارت تو اسی سے

خالی ہے صداقت سے سیاست تو اسی سے

کمزور کا گھر ہوتا ہے غارت تو اسی سے

اقوام میں مخلوق خدا بٹتی ہے اسی سے

قومیت اسلام کی جڑک کٹتی ہے اسی سے

            اسی سیاست نے ملک کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کیا جس کے نتیجہ میں لاکھوں انسان ایک دوسرے کے ہاتھوں قتل کئے گئے۔ لاکھوں گھر ویران ہوگئے۔ لاکھوں لوگ خانماں برباد ہوئے جس کے اثرات برسوں تک دونوں ملکوں پر قائم رہے۔ آج بھی اس کے اثرات پوری طرح ختم نہیں ہوئے۔

            عام طور پر ہندستان و پاکستان میں سیاسی افراد ایک دوسرے کو جنگ کی دھمکی دے کر اپنی پارٹی کو برسر اقتدار لانے کی کوشش کرتے تھے مگر میاں نواز شریف نے خلاف معمول حالیہ الیکشن میں جنگ و جدل کی بات کرنے کے بجائے دونوں ملکوں میں امن و امان کے رشتہ کو بڑھانے کی بات کی۔ اس کے باوجود پاکستانیوں نے ان کو الیکشن میں کامیاب و کامران کیا۔ اس کا مطلب صاف تھا کہ پاکستانی عوام ہندستان سے کسی قیمت پر جنگ وجدل کے خواہاں نہیں ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی اور نریندر مودی نے پاکستان کے خلاف جنگ و جدل کی باتیں ضرور کیں مگر جب الیکشن جیت کر وزیر اعظم کی کرسی پر فائز ہوئے تو   نہایت اچھی شروعات کی۔ پاکستانی وزیر اعظم کو اپنی رسم حلف وفاداری کی تقریب میں بلایا۔ خود لاہور بغیر کسی تکلف اور پروگرام کے پہنچ گئے۔ پٹھان کوٹ کے حملہ کا مسئلہ آیا تو اسے بھی نمٹانے کی بھرپور کوشش کی۔ بیچ میں پاکستانی وفد سے ملاقات سے ہندستان یقینا ناراض ہوا اور بات چیت میں رکاوٹ پیدا ہوئی مگر مجموعی طور پر دیکھا جائے تو ہندستان کا کردار دوستی کی طرف تھا اور امن و امان کو قائم رکھنے کیلئے تھا۔ پاکستان کی عوامی حکومت فوجی دباؤ کی وجہ سے وہ کردار ادا نہ کرسکی جس کا وعدہ میاں نواز شریف نے اپنے قومی اسمبلی کے الیکشن میں کیا تھا۔

             اس وقت اوڑی سیکٹر میں فدائین کے حملے سے دونوں ملکوں میں تناؤ پیدا ہوگیاہے۔ ہندستان کو حسب معمول رد عمل کی بات کرنی پڑ رہی ہے۔ اس وقت پاکستان کی حکومت کو فوجی دباؤ سے باہر آنا چاہئے اور طاقت اور ایٹمی طاقت کی بات کرنے کے بجائے امن و اتحاد، انصاف اور اخوت کی بات کرنی چاہئے۔ پاکستانی حکمراں کا یہ کہنا کہ ’’پاکستان افغانستان نہیں ہے اور نہ ہندستان امریکہ ہے‘‘ درست نہیں ہے؛ بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ دونوں ہمسایہ ممالک ہیں۔ دونوں کو اپنے اپنے ملک سے غربت اور افلاس کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔ بے تحاشہ رقوم جو قومی آمدنی کا دفاع پر دونوں ملکوں میں خرچ ہورہا ہے وہ رفاہی اور فلاحی کاموں پر صرف ہونا چاہئے۔ دونوں ممالک کے عوام بھی یہی چاہتے ہیں۔ اگر عوام کی اکثریت اپنے اپنے ملکوں کے سیاست دانوں اور بگڑتی ہوئی سیاست کو ٹھیک کرنے میں مستعدی اور سرگرمی سے جٹ جائے تو سیاست دانوں اور سیاسی پارٹیوں کو اچھی طرح معلوم ہوجائے گا کہ جنگ کی بات کرنے والوں کو جیت یا کامیابی نصیب نہیں ہوگی بلکہ امن و امان، اخوت اور بھائی چارہ کی بات کرنے والوں کی جیت ہوگی تو دونوں ملکوں کی صورت حال بدل جائے۔ بدقسمتی سے ایسی عوامی تحریک دونوں ملکوں میں آگے نہیں آرہی ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔