حد سے تجاوز کرتا ہندوستانی میڈیا

ہندوستان سے مسلمانوں کو سیاسی وسماجی سطح پر علیحدہ کرنے کی سازش کبھی کامیاب نہیں ہوگی

 تبسم فاطمہ

فرقہ پرستانہ اور نفرت و اشتعال انگیزی پر مبنی عالمی سیاست اس وقت مسلمانوں کے خلاف ہے۔ پیرس حملے کے بعد اس شدت میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ امریکن ریپلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار ڈونالڈ ٹرمپ اور اب ان کے بیٹے جونیئر ٹرمپ بھی مسلم مخالف سیاست کا سہارا لے کر ہی امریکہ کی موجودہ سیاست میں ہلچل پیدا کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ امریکہ میں مسلم مخالفت کی بنیاد ۱۱؍۹ حملے کے بعد ہی رکھ دی گئی تھی— عالمی سطح پر مسلمانوں کے خلاف غم وغصہ کی لہر اورشدت پسندی کے جو مظاہرے ہوئے، ان میں ابھی بھی کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ ٹرمپ نے اسی کا فائدہ اٹھا کر سیدھے سیدھے امریکیوں کی نبض پر ہاتھ رکھا اور مسلمانوں سے ناراض میڈیا اور ایک بڑا طبقہ ٹرمپ کی حمایت میں نظر آیا۔ فرانس اور چین میں کبھی نماز اور کبھی حجاب پر پابندیوں نے مسلمانوں کو نشانہ بنایا۔ غور کریں تو عالمی میڈیا کا ایک بڑا حصہ اس وقت مسلمانوں کے خلاف کھڑا ہے۔ اور اسی لیے مسلمانوں کی حمایت میں جو تھوڑی بہت آوازیں بلند ہونا چاہتی ہیں وہ خاموش کردی جاتی ہیں۔

 2014 سے پہلے کا ہندوستان سیکولرزم اور جمہوریت کی بنیاد پر کھڑا تھا۔ ایک مخصوص پارٹی اس بات سے آگاہ تھی کہ اگر نام نہاد سیکولرزم اور جمہوریت کی دیواروں میں سیندھ لگائی جائے تو سیاست کے لیے یہ سودا منافع بخش ہوسکتا ہے۔ عالمی سیاست کے پیش نظر مسلمانوں کے لیے جو دبا ہوا غصہ تھا، مخصوص پارٹی نے میڈیا کے ساتھ مل کر اس غصہ کی لہرکو آتش فشاں میں تبدیل کردیا۔ ہندوستانی سیاست میں ایسا پہلی بار ہوا جب ایک سیاسی پارٹی کو بیس کروڑ مسلم ووٹ کی حمایت منظور نہیں تھی۔ اس کھلی کھلی سیاست کا نہ صرف خیر مقدم ہوا، بلکہ انتہا پسندوں کے خاموش رویوں میں بھی تبدیلی آئی۔ اب ایک ایسی حکومت تھی جو بغیر مسلمانوں کے تعاون اور حمایت سے بنی تھی اور پر جوش میڈیا، جو اب تک کھل کر مسلمانوں کے خلاف نہیں آیا تھا، اب جوش وخروش کے ساتھ مسلم دشمنی نبھانے پر آمادہ تھا۔ ایسا نہیں ہے کہ مسلم قوم اس حقیقت سے واقف نہیں تھی کہ جس سیاسی پارٹی کو انہوں نے کوئی حمایت نہیں دی، وہ انہیں ان کے حقوق کیوں دے گی؟ محض ڈھائی برس کے عرصہ میں میڈیا نے مسلم مخالف فضا بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ مگر حد تب ہوگئی جب زی نیوز کے سدھیر چوہدری نے سیدھے طور پر اس ملک سے مسلمانوں کی حصہ داری کو ختم کرنے کا اعلان کیا۔ نوین جندل سے سو کروڑ کی رشوت مانگنے والے سدھیر چودھری نے ایسا بیان صرف فرقہ پرست سیاست کے پیش نظر نہیں دیا ہے۔ اس بیان کے پیچھے کا سچ اور ہے جسے سمجھنے اور سمجھانے کی ضرورت ہے۔ زی نیوز ایک مدت سے مسلمانوں کے ہندوستانی کردار کو داغدار کرنے کا کام انجام دے رہا ہے۔ سدھیر چودھری کا یہ کہنا کہ اگر پاکستان سے جنگ ہوتی ہے تو ہندوستان کی ایک کمیونٹی یعنی مسلمان کبھی اس جنگ میں ساتھ نہیں دیں گے، یہ ایک ایسا بیان ہے جس کی پر زورمذمت کے لیے مسلمانان ہند اور تمام ملی تنظیموں کو سامنے آنا چاہیے۔ اڑی کے دہشت گردانہ واقعات کے بعد محض سوشل ویب سائٹس کا جائزہ لیا جائے تو ہندوستانی مسلمانوں نے پاکستان کے خلا ف ہر طرح کا مورچہ اور محاذ کھول رکھا ہے۔ محبت کبھی نمائش کا حصہ نہیں رہی۔ یہ فرقہ پرستی اور فرقہ واریت کے اسی صفحہ کا ایک زہریلا حصہ ہے جہاں منصوبہ بند سازش کے تحت مسلمانوں کی خدمات کو ہندوستانی نقشہ سے غائب کیا جارہا ہے۔ کیا آزادی کی جنگ بغیر مسلمانوں کے ممکن تھی۔ ؟ کیا میر باقر جیسے عظیم مجاہد آزادی کے کارناموں کو فراموش کردیا جائے گا؟ 65 کی جنگ میں یہ شہید عبد الحمید تھے جس نے تین پاکستانی ٹینکوں کو اپنے گولوں سے اڑا دیا تھا۔ کشمیر میں ہونے والی بزدلانہ، دہشت گردانہ کارروائی پر ملک کا ہر مسلمان حکومت کے ساتھ ہے، یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔ یہ بات یہاں کے کروڑوں کی تعداد میں سیکولر دیگر مذاہب والوں کو بھی پتہ ہے، جن پر انتہاپسندانہ رنگ مسلط کرنے کی سازش کی جارہی ہے۔ سر زمین ہندوستان کے لیے قربانیاں دینے کا وقت آئے اور محاذ پر بھیجے جانے کی تیاری ہو تو ایک بھی مسلمان پیچھے نہیں ہٹے گا۔ آزادی کی روشن تاریخ میں ہندستانی مسلمانوں کی سرزمین ہند سے محبت اور حب الوطنی کے جذبے کو اس نظریے سے بھی دیکھے جانے کی ضرورت ہے کہ پاکستان کے قیام کے باوجود مسلمانوں کے ایک بڑے طبقے نے ہجرت سے انکار کیا۔ اس جذبے کی قدر کی گئی۔ فرقہ وارانہ فسادات ہوتے رہے لیکن مسلمانوں کی حب الوطنی کو کبھی داغدار کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ حکومتوں کی ناانصافیوں کے زیر سایہ بھی مسلمان جیتے رہے اور کبھی زبان پر کسی کلمۂ شکایت کو کوئی جگہ نہ دی۔ تو کیا محض ڈھائی برس کے عرصہ میں عالمی سیاست کی مسلم دشمنی مہم میں اہم کردار نبھاتے ہوئے اب ہندوستانی میڈیا تمام حدود سے تجاوز کرتا ہوا اب ہندوستان سے مسلمانوں کے مضبوط وجود کو علیحدہ کرنے کی سازش انجام دے رہاہے؟ پچھلے ڈھائی برسوں میں ہر حربہ استعمال کرنے کے بعد اب یہی آخری کڑی باقی تھی، اور اس تابوت میں آخری کیل ٹھونکنے کے لیے ایک رشوت خوراینکر کی خدمات حاصل کی گئی— ایسا لگتا ہے ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال میں کچھ بھی ممکن ہے۔ زی نیوز اینکر کا سیاسی بیان محض مسلم دشمنی میں دیا گیا بیان نہیں، اس کی حقیقت کچھ اور ہے۔ اب ذرا ڈھائی برس کی سیاست پر غور کرلیجئے۔ مودی بھکتوں کا سارا زور اس بات پر بھی ہے کہ جو مرکزی حکومت کا نہیں، وہ ’راشٹر بھکت‘ نہیں۔ مسلمانوں کے خلاف ہونے والی تمام کارروائیوں کا لب ولباب صرف یہ ثابت کرتا ہے کہ یہ ملک مسلمانوں کا نہیں۔ اور اسی لیے مسلمان یہاں کی مٹی اور اس سر زمین سے کبھی محبت نہیں کرسکتے۔ عدم تحمل اور عدم رواداری کے معاملات کے پس پشت بھی حب الوطنی کے مسئلہ کو دخل تھا۔ یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ مسلمانوں کی اکثریت اور چند نام نہاد دانشور دراصل ملک کی سالمیت سے کھیل رہے ہیں جب کہ فضا پرخطر نہیں ہے۔ یوگا، سوریہ نمسکار جیسے معاملات اس لیے اٹھائے گئے کہ مسلمانوں کی حب الوطنی پر سوالیہ نشان لگایا جاسکے۔ یہ بتایا جاسکے کہ ہندستانی مسلمان اپنی تہذیب وثقافت سے اس لیے دور ہیں کہ ان میں ملک سے محبت کا جذبہ نہیں۔ وندے ماترم سے لے کر ’بھارت‘کو ماں کہنے کا معاملہ سوچی سمجھی سازش اور منصوبوں کا حصہ تھا کہ یہ مسلمان تو اپنی سرزمین کو ماں کا درجہ نہیں دے سکتے، اس لیے ان کی حب الوطنی مشکوک ہے۔ گائے کے تنازعہ کے پس پشت بھی راشٹر پریم کا جذبہ پوشیدہ تھا۔ اب ان تمام کڑیوں کو جوڑیے۔ ساتھ میں نفرت واشتعال انگیزی پر مبنی بیانات دیکھیے تو اندازہ ہوگا کہ ایک معاملہ سامنے آتا ہے اور پھر اس معاملہ کو چوطرفہ ہوا دینے کے لیے مذموم اور نفرت بھرے بیانوں کا سہارا لیا جاتا ہے۔ یعنی غور کریں تو ڈھائی برس میں ماحول محض مسلمانوں کے خلاف نہیں بنایا گیا بلکہ ہندوستانی عوام کے دل میں بار بار اس شک کی گنجائش پیدا کی گئی کہ یہ ملک مسلمانوں کا نہیں۔ مسلمان اس سر زمین سے محبت نہیں کرتے۔ مسلمان بھارت کو ماں نہیں کہتے۔ اب صرف اس اعلان کی ضرورت تھی کہ ہندوستان میں رہنے کے باوجود ایک سو پچیس کروڑ آبادی والے ملک میں مسلمانوں کی ذات کو علیحدہ کرنے کا کام انجاد دیا جائے یہ سازش آہستہ آہستہ کامیاب ہوتی ہوئی اپنی منزل اور مقاصد کی طرف بڑھتی نظر آرہی ہے۔ میڈیا شطرنج کے مہروں کا اکام انجام دے رہے ہیں۔ مسلمانوں کو حب الوطنی کا ثبوت دینے کی ضرورت نہیں۔ حب الوطنی کا ثبوت دینے کی ضرورت اس تنظیم کو ہے، جس کی تاریخ نفرت، دشمنی اور انگریزوں کا ساتھ دینے میں بسر ہوئی۔ حالات خراب ضرور ہیں لیکن جنگ کی حمایت کسی بھی صورتحال میں نہیں کی جاسکتی یہ وقت دشمنی اور نفرت بھلا کر مسلمانوں پر بھروسہ کرنے کا ہے۔ کوئی دہشت گرد ثابت ہوجائے تو مسلمانوں کے قبرستان کے دروازے بھی اس کے لیے بند کردیے جاتے ہیں۔ ہندوستان سے مسلمانوں کو علیحدہ کرنے کی یہ سازش کبھی کامیاب نہیں ہوگی۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔