رسول اللہ ﷺ اپنے گھر میں

ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

            رسولِ اکرم ﷺ کی حیاتِ طیبہ کا ایک امتیازی پہلو یہ بھی ہے کہ وہ پرائیویٹ اور پبلک، دو حصوں میں منقسم نہیں تھی۔ آپ جیسے گھر سے باہر نظر آتے تھے، ویسے ہی گھر کے اندر بھی تھے۔ آپ کی گھریلو او ربیرونی، دونوں زندگیوں میں حد درجہ مطابقت تھی۔ آپ کی نجی اور گھریلو زندگی ایک کھلی کتاب کے مثل تھی۔ آپؐ نے اسے نہ صرف یہ کہ کبھی چھپانے کی کوشش نہیں کی، بلکہ گھر والوں، خادموں اور قریبی لوگوں کو حکم دے رکھا تھا کہ وہ آپؐ کو جس حال میں بھی دیکھیں اور جو کچھ کرتے یا کہتے ہوئے پائیں اسے بغیر کسی ادنیٰ تامّل کے دوسروں سے بیان کرسکتے ہیں۔

            کسی بھی فرد کی اندرونِ خانہ زندگی اس کی شخصیت کی بہترین عکاس ہوتی ہے۔ بہت ممکن ہے کہ وہ باہر کی زندگی میں، جب وہ دوسرے انسانوں کے رو بروٗ ہوتا ہے، تقدس کا لبادہ اوڑھ لیتا ہو اور اپنی اصل شخصیت سے مختلف صورت میں خود کو ظاہر کرتا ہو، لیکن وہ اپنے گھر والوں کو اندھیرے میں رکھنے میں ہرگز کامیاب نہیں ہوسکتا۔ کیوں کہ اس کی تمام خوبیاں اور خامیاں ان کی نگاہوں کے سامنے رہتی ہیں۔ اس لیے کسی فرد کی عظمت کو جانچنے اور پرکھنے کی بہترین کسوٹی اس کی اندرونِ خانہ مصروفیات ہیں۔ دیکھنا چاہیے کہ وہ دوسروں کو جس تقویٰ، دین داری اور پرہیز گاری کی تبلیغ کررہا ہے اس پر وہ خود کتنا عمل کررہا ہے اور اپنے بیوی بچوں سے کتنا عمل کروا رہا ہے؟ جس دین کی اقامت کا وہ علم بردار بنا ہوا ہے اس کو اپنے گھر میں کس حد تک قائم کرنے میں کامیاب ہوسکا ہے؟ جس سادگی و قناعت، ایثار و قربانی اور خلوص و للہیت کے فضائل وہ دوسروں کے سامنے بیان کررہا ہے اس کی جھلک اس کی اپنی گھریلو زندگی میں کس حد تک نظر آتی ہے؟ اس کسوٹی پر ہم رسول اللہ ﷺ کی حیاتِ طیبہ کو پرکھیں تو وہ عظمت کے انتہائی اعلیٰ معیار پر نظر آتی ہے۔ بیویاں عموماً شوہروں کے رازوں کی امین ہوتی ہیں۔ وہ ان کی کم زوریوں کو چھپاتی اور کوتاہیوں پر پردہ ڈالتی ہیں، لیکن ازواجِ مطہرات کا حال یہ تھا کہ انھوں نے رسول اللہ ﷺ کی اجازت سے آپ کی خلوت کے ایک ایک معاملہ کو محفوظ رکھا اور پوری سچائی اور امانت و دیانت کے ساتھ اسے امت تک منتقل کیا ہے۔ اس طرح آپؐ کی اندرونِ خانہ زندگی بھی اپنی تمام تفصیلات و جزئیات کے ساتھ ہمارے سامنے ہے۔ ہم جس طرح مستند معلومات کی روشنی میں یہ جانتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ گھر سے باہر جب صحابۂ کرامؓ کے ساتھ ہوتے تھے تو کیا سرگرمیاں انجام دیتے تھے؟ اسی طرح ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ جب آپ دوسرے انسانوں کی نگاہوں سے دور خلوت کدوں میں اپنی ازواجِ مطہرات اور بچوں کے درمیان ہوتے تھے تو آپ کا رہن سہن کس طرح کا ہوتا تھا؟ اور آپ کیا کرتے تھے؟ اس طرح ہم آپؐ کی جلوت کی زندگی کی طرح خلوت کی زندگی کو بھی اپنے لیے نمونہ بناسکتے ہیں۔

نوافل کی ادائی

            اللہ کے رسول ﷺاندرونِ خانہ کثرت سے نوافل کا اہتمام فرماتے تھے۔ آپؐ یہ عمل دن کے مختلف اوقات میں انجام دیتے تھے۔ خاص طور پر رات کا بیش تر حصہ اسی میں گزارتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں :

’’رسول اللہ ﷺ ظہر سے قبل دو رکعتیں اور ظہر کے بعد دو رکعتیں پڑھتے تھے۔ مغرب کے بعد دو رکعتیں اپنے گھر میں پڑھتے تھے۔ عشاء کے بعد دو رکعتیں پڑھتے تھے۔ جمعہ کی نماز کے بعد سیدھے گھر آتے تھے اور وہاں دو رکعتیں نماز پڑھتے تھے۔ ‘‘ 1؎

            حضرت ابوسعید خدریؒ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا:

اذا قضی احدکم صلاتہ فلیجعل لبیتہ منہا نصیباً فان اللہ جاعل فی بیتہ من صلاتہ خیراً۔ 2؎

(تم میں سے کوئی شخص جب (فرض) نماز سے فارغ ہوجائے تو اپنے گھر میں بھی کچھ نماز پڑھا کرے۔ اللہ تعالیٰ گھر میں اس کے نماز ادا کرنے سے خیر و برکت کا معاملہ فرمائے گا۔ )

            حضرت عبداللہ بن سعدؓ بیان کرتے ہیں : ایک مرتبہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا: گھر میں نماز ادا کرنا افضل ہے یا مسجد میں ؟ جواب میں آپؐ نے فرمایا:

’’دیکھو، میرا گھر مسجد سے کتنا قریب ہے۔ پھر بھی فرض نمازوں کے علاوہ دوسری نمازیں مسجد کے بجائے گھر میں ادا کرنا مجھے زیادہ پسند ہے۔ ‘‘ 3؎

            حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

            اجعلوا فی بیوتکم من صلاتکم ولا تتخذوہا قبوراً۔ 4؎

            (اپنے گھروں میں بھی کچھ نمازیں ادا کیا کرو۔ انھیں قبرستان نہ بنالو۔ )

نمازِ تہجد

            اللہ کے رسول ﷺ راتوں میں اٹھ کر کثرت سے اپنے رب کی عبادت کرتے اور اس کے سامنے سجدہ ریز ہوتے تھے۔ اس کی شہادت متعدد امہات المومنین نے دی ہے۔

            حضرت میمونہؓ فرماتی ہیں :

            ’’نبی ﷺ نماز پڑھتے تھے، میں آپؐ کے پہلو میں لیٹی ہوئی ہوتی تھی۔ ‘‘5؎

            حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں :

’’نبی ﷺ نماز پڑھتے تھے، جب کہ میں آپ کے اور قبلہ کے درمیان بستر پر لیٹی ہوئی ہوتی تھی۔ ‘‘ 6؎

            بعض احادیث کا صحیح مفہوم نہ سمجھنے کی وجہ سے کچھ صحابہ کہتے تھے کہ اگر کسی نمازی کے سامنے سے کتا، گدھا یا عورت گزرجائے تو اس کی نماز باطل ہوجاتی ہے، اس پر نقد کرتے ہوئے حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں :

’’تم لوگوں نے ہم عورتوں کو کتے اور گدھے کے برابر کردیا، حالاں کہ میں بستر پر لیٹی ہوئی ہوتی تھی، نبی ﷺ تشریف لاتے اور نماز پڑھنے لگتے۔ مجھے اچھا نہ لگتا کہ میں آپ کے سامنے لیٹی رہوں، چناں چہ میں پائنتی کی طرف سے چپکے سے کھسک لیتی تھی۔ ‘‘7؎

            حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں :

’’اللہ کے رسول ﷺ ہمیشہ گیارہ رکعتیں نماز پڑھا کرتے تھے۔ آپؐ کے سجدے بہت طویل ہوتے تھے۔ ایک سجدہ آپؐ اتنا طویل کرتے تھے جتنی دیر میں تم میں سے کوئی شخص پچاس آیتیں پڑھ لے۔ ‘‘8؎

            حضرت عائشہؓ آں حضرت ﷺ کے طویل قیام کا بھی تذکرہ کرتی ہیں۔ فرماتی ہیں :

            ’’آپ کا قیام اتنی دیر تک ہوتا تھا کہ آپ کے قدموں میں ورم آجاتا تھا۔ ‘‘9؎

            حضرت مغیرہؓ بیان کرتے ہیں :

’’نبی ﷺ نمازوں میں اتنا طویل قیام فرماتے تھے کہ آپؐ کے پیروں (یا فرمایا: پنڈلیوں ) میں ورم آجاتا تھا۔ آپؐ سے کہا گیا کہ آپؐ اتنا طویل قیام کیوں کرتے ہیں ؟ آپؐ نے جواب دیا:

أفلا أکون عبداً شکوراً۔ 10؎

(کیا میں شکر گزار بندہ نہ بنوں۔ )

            حضرت عبداللہ بن مسعودؓ اپنا ایک واقعہ ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں :

’’میں نے نبی ﷺ کے ساتھ ایک رات نماز پڑھی۔ آپؐ نے اتنا طویل قیام کیا کہ (میرے لیے ناقابلِ برداشت ہوگیا اور) میں نے ایک برے کام کا ارادہ کرلیا۔ شاگردوں نے دریافت کیا: کیسا برا کام؟ فرمایا: میں نے ارادہ کرلیا کہ نیت توڑ کر الگ بیٹھ رہوں۔ ‘‘ 11؎

            حضرت انس بن مالکؓ اپنے شاگردوں سے بیان کرتے ہیں :

’’تم رسول اللہ ﷺ کو رات میں نماز پڑھتا ہوا دیکھنا چاہتے تو دیکھ سکھتے تھے اور سوتا ہوا دیکھنا چاہتے تو دیکھ سکتے تھے۔ ‘‘12؎

            حضرت عائشہؓ کے شاگرد اسودؒ نے ان سے دریافت کیا: رسول اللہ ﷺ رات میں کس طرح نماز پڑھا کرتے تھے؟ انھوں نے جواب دیا:

’’آپ رات کے پہلے پہر سوجاتے تھے اور آخری پہر اٹھ کر نماز پڑھا کرتے تھے۔ پھر (فجر سے ذرا پہلے) بستر پر تھوڑی دیر آرام کرتے تھے۔ جب مؤذن اذان دیتا تو دفعتاً اٹھ جاتے تھے۔ ‘‘ 13؎

دعاؤں کا اہتمام

            آں حضرت ﷺ گھر میں مختلف اوقات میں دعاؤں کا اہتمام کرتے تھے۔ بستر پر سونے کے لیے جاتے وقت، بیدار ہوتے وقت، بیت الخلا میں جاتے وقت، وہاں سے نکلتے وقت، کھانا کھانے سے پہلے، کھانا کھانے کے بعد، مختلف مناسبتوں کے علاوہ بغیر مناسبتوں کے بھی، کثرت سے آپؐ سے دعائیں منقول ہیں۔ ایک مومن کا اپنے رب سے کتنا گہرا تعلق ہونا چاہیے، اسے اپنے رب سے دعا و مناجات کا کتنا اہتمام کرنا چاہیے، آں حضرت ﷺ کی زندگی اس کی عملی تفسیر تھی۔

            حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں :

’’رسول اللہ ﷺ جب سونے کے لیے بستر پر جاتے تو معوّذات پڑھتے، داہنے ہاتھ پر پھونکتے، پھر انہیں پورے بدن پر پھیر لیتے۔ ‘‘4 1؎

            حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ جب بیت الخلا جاتے تو یہ دعا پڑھتے تھے:

            اللّٰہُمَّ اِنِّی اَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْخُبُثِ وَالْخَبَائِثِ۔ 15؎

            (اے اللہ میں تجھ سے شیاطین (مذکر و مؤنث) کی پناہ مانگتا ہوں۔ )

            حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کو کثرت سے یہ دعا پڑھتے ہوئے سنا کرتا تھا:

اللہم انی اعوذبک من الہمّ والحزن والعجز والکسل والبخل والجبن وضلع الدین وغلبۃ الرجال۔ 16؎

(اے اللہ میں تیری پناہ چاہتا ہوں رنج و غم، بے بسی، بے کاری، بخل، بزدلی، قرض کے بوجھ اور لوگوں کے غلبہ و تسلط (اور ظلم) سے۔ )

            حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ نبی ﷺ یہ دعا پڑھا کرتے تھے:

اللہم انی اعوذ بک من الکسل والہرم والمأثم والمغرم، ومن فتنۃ القبر وعذاب القبر، ومن فتنۃ النار وعذاب النار، ومن شر فتنۃ الغنی، واعوذبک من فتنۃ الفقر، واعوذبک من فتنۃ المسیح الدجّال، اللہم اغسل عنّی خطایای بماء الثلج والبرد ونقّ قلبی من الخطایا کما نقّیت الثوب الأبیض من الدنس، وباعد بینی وبین خطایای کما باعدت بین المشرق والمغرب۔ 17؎

(اے اللہ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں کاہلی، بڑھاپا، گناہ اور قرض سے۔ قبر کی آزمائش اور قبر کے عذاب سے، جہنم کی آزمائش اور جہنم کے عذاب سے، مال داری کے بری آزمائش سے، اور میں تیری پناہ چاہتاہوں فقر کی آزمائش سے اور میں تیری پناہ چاہتا ہوں مسیح دجال کے فتنے سے، اے اللہ میری خطاؤں کو برف اور اولے کے پانی سے دھودے، میرے دل کو خطاؤں سے اس طرح صاف کردے جیسے تو نے سفید کپڑے کا میل کچیل صاف کردیا۔ میری خطاؤں اور میرے درمیان اتنی دوری کردے جتنی مشرق و مغرب کے درمیان ہے۔ )

            آں حضرت ﷺ کی بہت سی دعائیں ام المؤمنین حضرت عائشہؓ اور آپؐ کے خادمِ خاص حضرت انسؓ سے مروی ہیں۔ ظاہر ہے کہ آپؐ ان دعاؤں کا اہتمام گھر میں کثرت سے فرماتے تھے۔

گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹانا

            کارِ دعوت کی بے شمار مصروفیات کے باوجود آں حضرت ﷺ گھر کے چھوٹے بڑے کاموں کے لیے وقت نکال لیتے تھے اور ان کی انجام دہی میں اہلِ خانہ کا ہاتھ بٹاتے تھے۔ حضرت عائشہؓ کے شاگرد اسود بن زیدؒ نے ایک مرتبہ ان سے دریافت کیا: ’’نبی ﷺ جب گھر میں ہوتے تھے تو کیا کرتے تھے؟‘‘ حضرت عائشہؓ نے مجمل انداز میں جواب دیا:

’’آپؐ اپنے گھر والوں کے کاموں میں مصروف ہوتے تھے، لیکن جوں ہی اذان سنتے فوراً نماز کے لیے گھر سے نکل جاتے تھے۔ ‘‘  18؎

            دوسری روایت میں ہے کہ اس سوال کے جواب میں حضرت عائشہؓ نے فرمایا:

’’آپؐ بھی دوسرے انسانوں کی طرح ایک انسان تھے۔ اپنے کپڑوں سے جوں نکالتے، اپنی بکری کا دودھ دوہتے اور گھر کے دوسرے کام انجام دیتے تھے۔ ‘‘ 19؎

بیوی بچوں کی دل داری

            آں حضرت ﷺ گھر میں بیوی بچوں کے ساتھ بھی خاصا وقت گزارتے تھے۔ آپؐ ان کے ساتھ نرمی اور ملائمت سے پیش آتے، خوش طبعی اور ہنسی مذاق کرتے اور ان کے ساتھ محبت و اکرام کا معاملہ فرماتے تھے۔ حضرت ابنِ عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

خیرکم خیرکم لاہلہٖ وانا خیرکم لاہلی۔ 20؎

(تم میں سے بہتر وہ شخص ہے، جو اپنے گھر والوں کے ساتھ بہتر سلوک کرتا ہو اور گھر والوں کے ساتھ معاملے کے تعلق سے میں تم میں بہتر ہوں۔ )

            ایک مرتبہ مسجدِ نبوی کے صحن میں کچھ حبشی لوگ نیزوں کے ذریعے کرتب دکھارہے تھے۔ ام المؤمنین حضرت عائشہؓ کو وہ کھیل دیکھنے کی خواہش ہوئی۔ آپؐ نے انہیں اپنی اوٹ میں کرکے پورا کھیل دکھایا اور جب تک وہ خود اکتا کر چلی نہیں گئیں، آپ مستقل کھڑے رہے۔ 21؎

            ایک مرتبہ حضرت عائشہؓ نے آپؐ کو گیارہ عورتوں کا قصہ سنایا۔ اس قصے میں ہر عورت اپنے شوہر کی خوبیاں اور خامیاں بیان کرتی ہے۔ گیارہو یں عورت، جس کا نام امّ زرع تھا، اپنے شوہر کی تعریفوں کے پل باندھتی ہے۔ آں حضرت ﷺ پورے اطمینان اور سکون کے ساتھ یہ طویل قصہ ام المؤمنین کی زبانی سنتے ہیں اور آخر میں فرماتے ہیں :

کنت لک کأبی زرع لأم زرع۔ 22؎

(میں تمھارے لیے اسی طرح ہوں، جس طرح ام زرع کے لیے ابوزرع تھا۔ )

            اسی طرح آپ بچوں کو پیار کرتے، ان کے ساتھ خوش طبعی سے پیش آتے، ہنسی مذاق کرتے، ان کے ساتھ کھیلتے اور انھیں گود میں لے کر بوسہ دیتے تھے۔

            آپ اپنے چچا عباس بن عبدالمطلبؓ کے بچوں عبداللہ، عبیداللہ اور کثیر کو ایک قطار میں کھڑا کرتے اور فرماتے: ’’جو میرے پاس سب سے پہلے دوڑ کر آئے گا اسے فلاں فلاں چیز دوں گا۔ ‘‘ وہ سب دوڑ کر آتے، کوئی پیٹھ پر گرتا تو کوئی سینے پر اور آپ ان سب کو بوسہ دیتے۔ 23؎

            سیدہ فاطمہؓ آپ سے ملاقات کے لیے خدمت میں حاضر ہوتیں تو آپؐ کھڑے ہوکر ان کا استقبال کرتے، ان کو بوسہ دیتے اورانھیں اپنی جگہ بٹھاتے۔ 24؎ ان کے بچوں حضرات حسنؓ و حسینؓ، بڑی صاحب زادی حضرت زینبؓ کی بچی امامہؓ، آزاد کردہ غلام حضرت زید بن حارثہؓ کے بچے اسامہؓ اور دوسرے بچوں کے ساتھ آپؐ کے پیار و محبت کے واقعات کثرت سے کتبِ احادیث میں مروی ہیں۔

اہلِ خانہ کی تربیت

            آں حضرت ﷺ گھر میں بیوی بچوں کی دینی و اخلاقی تربیت پر بھی خصوصی توجہ دیتے تھے۔ خود نوافل و تہجد کا اہتمام فرماتے تو بسا اوقات اہلِ خانہ کو بیدار کرکے اپنے ساتھ شریک کرلیتے۔ حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں :

’’نبی ﷺ نماز پڑھتے تھے۔ میں آپ کے بستر پر سوئی ہوتی تھی۔ آخر میں جب آپ وتر پڑھنا چاہتے تو مجھے بیدار کرتے اور میں بھی وتر پڑھ لیا کرتی تھی۔ ‘‘ 25؎

            حضرت امِ سلمہؓ بیان کرتی ہیں : ایک رات نبی ﷺ بیدار ہوئے۔ اس موقعے پر آپؐ نے ازواجِ مطہرات کو بھی بیدار کرنے کے مقصد سے زور زور سے فرمایا:

سبحان اللہ، ماذا أنزل اللیلۃ من الفتن؟ ماذا أنزل من الخزائن؟ من یوقظ صواحب الحجرات؟ یا رُبَّ کاسیۃ فی الدنیا عاریۃ فی الاٰخرۃ۔ 6 2؎

(پاک ہے اللہ کی ذات۔ آج رات کتنے فتنے نازل ہوئے ہیں اور رحمتِ الٰہی کے کتنے خزانے اترے ہیں ؟ کوئی ہے جو ان کمروں والیوں کو جگادے؟ کتنی عورتیں ہیں جو اس دنیا میں لباس و زیورات سے آراستہ ہیں، لیکن آخرت میں وہ عریاں ہوں گی۔ )

            حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں : ایک رات میں اپنی خالہ ام المؤمنین حضرت میمونہ بنت الحارثؓ کے پاس ٹھہر گیا۔ اس رات رسول اللہ ﷺ کی باری ان کے یہاں تھیں۔ آپؐ رات میں اٹھ کر نماز پڑھنے لگے۔ میری آنکھ کھل گئی۔ میں نے سوچا کہ میں بھی آپؐ کے ساتھ نماز میں شریک ہوجاؤں۔ چناں چہ میں جاکر آپ کی بائیں جانب کھڑا ہوگیا۔ آپؐ نے میرے بال پکڑے اور مجھے کھینچ کر اپنی دائیں جانب کرلیا۔ 27؎

            گھر میں بیوی بچوں کے درمیان مختلف طرح کی باتیں ہوتی رہتی ہیں۔ اگر کبھی کوئی بات آپؐ ناشائستہ یا غیر معیاری محسوس کرتے تھے تو فوراً ٹوک دیتے تھے اور بیوی بچوں کی محبت اظہارِ حق میں مانع نہ ہوتی تھی۔

            ام المؤمنین حضرت خدیجہؓ کی وفات کے بعد آپؐ دوسری ازواج کی موجودگی میں ا ن کا تذکرہ کثرت سے اور بڑی محبت سے کرتے رہتے تھے۔ بسا اوقات حضرت عائشہؓ کو اس پر کچھ ناگواری ہوتی۔ ایک موقعے پر انھوں نے اس کا اظہار کردیا۔ کہنے لگیں : ’’کیا آپ اس بڑھیا کو بار بار یاد کرنے لگتے ہیں، جب کہ اللہ نے آپ کو اس سے بہتر بیویوں سے نوازا ہے۔ ‘‘ آپؐ نے فرمایا:

            إنّی قد رُزِقْتُ حُبَّہا۔ 28؎

            (ان کی محبت میرے اندر رچ بس گئی ہے۔ )

            دوسری روایت میں ہے کہ آپؐ نے اس موقعے پر حضرت خدیجہؓ کے احسانات یاد کیے اور مزید فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے صرف انہی سے مجھے اولادیں عطا کیں۔

            ایک مرتبہ حضرت عائشہؓ کے سامنے دوسری ام المؤمنین حضرت صفیہؓ کا تذکرہ ہونے لگا۔ حضرت صفیہؓ پست قد تھیں۔ حضرت عائشہؓ نے تعریض کرتے ہوئے ہاتھ کے اشارے سے کہا: وہ تو بس اس قدر ہیں ؟ آں حضرت ﷺ کے روئے انور پر ناگواری کے اثرات ظاہر ہوگئے۔ آپؐ نے فرمایا:

لقد قلت کلمۃ لو مزج بہا البحر لمزجتہ۔ 29؎

(تم نے ایسی بات کہہ دی ہے کہ اگر اسے سمندر میں ملادیا جائے تو اس کا پانی بھی کڑوا ہوجائے۔ )

            حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں : ایک بار میں نے آں حضرت ﷺ کے سامنے ایک شخص کی نقل اتاری تو آپؐ نے فرمایا:

مایسّرنی انی حکیت رجلا وان لی کذا و کذا۔ 30؎

(مجھے چاہے جتنی بڑی دولت حاصل ہوجائے، پھر بھی کسی شخص کی نقل اتارنے سے مجھے خوشی نہیں ہوگی۔ )

            ام المؤمنین حضرت امِ سلمہؓ کے لڑکے عمر (جو ان کے پہلے شوہر حضرت ابوسلمہؓ سے تھے) آں حضرت ﷺ کی پرورش میں تھے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نبیﷺ کی موجودگی میں کھانا کھارہا تھا۔ میرا ہاتھ لقمہ اٹھاتے وقت پلیٹ میں ادھر ادھر گھوم رہا تھا، آپؐ نے مجھے ٹوکا اور فرمایا:

یا غلام، سم اللہ وکل بیمینک وکل مما یلیک۔ 31؎

(لڑکے، اللہ کا نام لو، دائیں ہاتھ سے کھاؤ اور اپنے سامنے سے کھاؤ۔ )

ملاقاتیوں کے حقوق

            آدمی گھر میں ہوتا ہے تو اس کے رشتے دار، دوست احباب اور دوسرے لوگ اس سے ملنے کے لیے آتے ہیں۔ ان سے کس طرح پیش آنا چاہیے؟ ان کے ساتھ کیا برتاؤ کرنا چاہیے؟ آں حضرت ﷺ کے طرزِ عمل سے اس سلسلے میں بھی رہ نمائی ملتی ہے۔

            رسول اللہ ﷺ کی چچازاد بہن حضرت ام ہانی بنت ابی طالبؓ بیان کرتی ہیں کہ میں آپؐ سے ملنے آئی تو آپؐ نے فرمایا: مَرْحَبَا بِاُمِّ ہَانِی32؎ (ام ہانی کو خوش آمدید)۔ اسی طرح جب وفد عبدالقیس آپؐ سے ملاقات کے لیے حاضر ہوا تو اسے بھی آپؐ نے خوش آمدید کہا۔ 33؎

            آپؐ اپنی ازواج کی سہیلیوں کے ساتھ بھی اچھے سلوک سے پیش آتے تھے اور ان کے ساتھ خیر کا معاملہ کرتے تھے۔ حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں : ایک بوڑھی عورت نبیﷺ کے پاس آتی تھی۔ آپؐ اس کے آنے پر خوشی کا اظہار فرماتے تھے، اس کا اکرام و احترام کرتے تھے اور اس سے فرماتے تھے: آپ کیسی ہیں ؟ آپ کا حال کیسا ہے؟ آپ کیسے رہیں ؟ وہ جواب دیتی: ’’خیریت سے، میرے ماں باپ قربان جائیں آپؐ پر، اے اللہ کے رسول!‘‘ وہ عورت واپس چلی گئی تو میں نے عرض کیا: آپ اس بڑھیا پر اتنی توجہ فرماتے ہیں ؟ آپ اس کا اتنا اکرام کرتے ہیں ؟ آپؐ نے جواب دیا:

’’یہ ہمارے یہاں خدیجہؓ کے پاس آیا کرتی تھیں۔ کیا تمھیں نہیں معلوم کہ دوستوں اور عزیزوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا ایمان میں سے ہے۔ ‘‘ 34؎

            ملاقاتیوں کی جانب سے اگر کبھی کسی نامناسب رویہّ کا اظہار ہوتا تو آپؐ اس کی اصلاح فرمادیا کرتے تھے۔ حضرت سہل بن سعدؓ بیان کرتے ہیں : ایک شخص نبی ﷺ سے ملاقات کے لیے آیا۔ اس نے ایک سوراخ سے گھر کے اندر جھانکا۔ اس وقت آپ اپنا سر کھجلا رہے تھے۔ آپ کو پتا چلا تو آپؐ نے فرمایا: ’’اگر مجھے معلوم ہوجاتا کہ تم سوراخ سے جھانک رہے ہو تو اسے تمھاری آنکھ میں گھسا دیتا۔ ‘‘ آپؐ نے مزید فرمایا: ’’اجازت لینے کا حکم اسی لیے دیا گیا ہے تاکہ کسی ناپسندیدہ ہیئت پر نگاہ نہ پڑے۔ ‘‘ 35؎

            حضرت جابرؓ بیان کرتے ہیں : ایک مرتبہ میں نبی ﷺ سے ملاقات کے لیے حاضر ہوا۔ میں نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ آپؐ نے دریافت فرمایا: کون؟ میں نے جواب دیا: ’’میں ‘‘۔ آپؐ نے ناگواری سے فرمایا: ’’میں میں کیا‘‘ (یعنی اپنا نام بتانا چاہیے)  36؎

            ایک مرتبہ ایک شخص نے آپؐ سے ملاقات کی اجازت چاہی، آپؐ نے فرمایا: ’’یہ اپنی قوم کا برا آدمی ہے‘‘۔ پھر اسے اندر بلا لیا اور نرمی کے ساتھ ہنس ہنس کر اس سے باتیں کرتے رہے۔ جب وہ چلا گیا تو حضرت عائشہؓ نے عرض کیا: اے اللہ رسول! آپؐ اسے برا آدمی کہہ رہے تھے۔ پھر کیوں اس کے ساتھ نرمی سے پیش آئے اور ہنس ہنس کر اس سے باتیں کیں۔ آپؐ نے فرمایا:

انّ شرّ الناس منزلۃً عند اللہ یوم القیامۃ من ودعہ الناس اتّقاء فحشہٖ۔ 37؎

(قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے برا درجہ اس شخص کا ہوگا، جس کی فحش گوئی کی وجہ سے لوگ اس سے کتراتے ہوں۔ )

            رسولِ اکرم ﷺ کی اندرونِ خانہ زندگی میں بھی ہمارے لیے اسوہ ہے۔ ہمیں اسے بھی اپنے لیے مشعلِ راہ اور نمونۂ عمل بنانا چاہیے۔

ایک اشکال کا ازالہ

            ایک صاحب نے درج بالا مقالہ کے ایک جملہ پر یہ اشکال ظاہر کیا:

’’آپ نے اپنے مضمون میں رسولِ اکرم ﷺ کی خانگی مصروفیات کا ذکرکرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’رسول اللہ ﷺ اپنے کپڑوں سے جوئیں خود نکال لیا کرتے تھے‘‘۔ یہ کام آپؐ کی طبعی نظافت کے خلاف معلوم ہوتا ہے۔ آپ تو صفائی ستھرائی کا نمونہ تھے۔ اس لیے اس حدیث کو سمجھنے میں زحمت محسوس ہورہی ہے۔ ‘‘

            یہ اشکال درست نہیں ہے۔ اس سلسلے میں دو باتیں ملحوظ رکھنی چاہئیں – اول یہ کہ معتبر اور ثابت شدہ روایات کے بارے میں تاویل و توجیہ کا ذہن بنانا چاہیے، اس کے بجائے اوّل وہلہ میں اس پر اشکال وارد نہیں کردینا چاہیے۔ دوم یہ کہ کسی واقعے پر غورو خوض اپنے زمانے کے حالات کو پیش نظر رکھ کر نہیں، بلکہ اس کے زمانۂ وقوع کی روشنی میں کرنا چاہیے۔

            ہم سب جانتے ہیں کہ سرزمین عرب کا موسم بہت گرم ہوتاہے۔ عہدِ نبوی میں مدینہ میں صرف چند کنویں تھے، جن سے پوری آبادی پانی حاصل کرتی تھی، گھر میں پانی کا ذخیرہ کرنے کے لیے صرف دو ایک مٹکے ہوتے تھے۔ اس لیے آج کل کی طرح ممکن نہ تھا کہ روزانہ صبح و شام غسل کیا جائے، پہننے کے کپڑے بھی بہت زیادہ نہیں ہوتے تھے کہ روزانہ انھیں تبدیل کیا جائے۔ ام المومنین حضرت عائشہؓ کی روایت میں زور اس بات پر ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ گھر کے چھوٹے چھوٹے کام بھی اپنے ہاتھ سے کیا کرتے تھے، دوسروں پر انحصار نہیں کرتے تھے۔ بہ طور مثال انھوں نے دوکام بیان کردیے کہ آپؐ اپنی بکری کا دودھ خود دوہتے تھے اوراپنے کپڑوں سے جوں خود ہی نکال لیا کرتے تھے۔ اس کا مطلب نہ یہ ہے کہ آپ گھر میں صرف یہی دو کام انجام دیتے تھے، بقیہ دیگر خانگی کام دوسرے لوگوں کے حوالے تھے اور نہ اس سے یہ مطلب نکلتا ہے کہ آپ ہر وقت یہی دونوں کام یا ان میں سے کوئی ایک کام کرتے رہتے تھے۔ ظاہر ہے، اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ کبھی غسل کرنے کے بعد آپؐ کے پاس دوسرے دُھلے ہوئے کپڑنے نہیں ہوئے تو آپؐ نے وہی کپڑے پہن لیے اور انھیں پہننے سے پہلے پلٹ کر دیکھ لیا کہ کہیں کوئی جوں تو نہیں ہے۔ آپؐ کی طبعی نظافت اور صفائی ستھرائی کے معمول کو (جس کا تذکرہ احادیث میں کثرت سے ملتا ہے) دیکھتے ہوئے ظاہر ہے کہ یہ صورت حال شاذ و نادر ہی پیش آتی ہوگی۔

            حضرت عائشہؓ کی یہ روایت ہمارے سامنے رسول اللہ ﷺ کا ایک قابل تقلید نمونہ پیش کرتی ہے۔ دین دار گھرانوں میں بھی اس کا اہتمام نہیں کیا جاتا۔ بیویاں گھروں میں خادماؤں کی طرح اپنے شوہروں کے چھوٹے بڑے تمام کام انجام دیتی ہیں اور اگر کبھی ان سے کچھ کوتاہی ہوجائے تو شوہرانِ نام دار کی تیوریاں چڑھ جاتی ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کااسوہ اختیار کرتے ہوئے انھیں گھریلو کاموں میں اپنی بیویوں کا ہاتھ بٹانا چاہیے اور اپنے نجی کام خود کرنے کی عادت ڈالنی چاہیے۔

٭٭٭

1؎  بخاری، 937، 1165، 1172، 1180، مسلم، کتاب صلاۃ المسافرین، 729

2؎  ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلاۃ، باب ماجاء فی التطوع فی البیت، 1376، صححہ الالبانی

3؎  ابن ماجہ، حوالہ سابق، 1378، صححہ الالبانی

4؎  بخاری، ابواب التہجد، باب التطوع فی البیت، 1187

5؎  بخاری، کتاب الصلاۃ، 379، 518

6؎  بخاری، کتاب الصلاۃ، باب الصلاۃ علی الفراش، 383

7؎  بخاری، کتاب الصلاۃ، باب الصلاۃ الی السریر، 382، 508

8؎  بخاری، ابواب التہجد، باب طول السجود فی قیام اللیل، 1123

9؎  بخاری، کتاب التہجد، باب قیام النبیؐ اللیل، ترجمۃ الباب

10؎  بخاری، ابواب التہجد، باب قیام النبی ﷺ اللیل حتیٰ ترم قدماہ، 1130

11؎  ایضاً، ابواب التہجد، باب طول القیام فی صلاۃ اللیل، 1135

12ـ؎  ایضاً، ابواب التہجد، باب قیام النبی ﷺ باللیل من نومہ، 1141

13؎  ایضاً، ابواب التہجد، باب من نام اول اللیل و أحیا آخرہ، 1146

14؎  بخاری، کتاب الدعوات، باب التعوذ والقراء ۃ عند النوم، 6319

15؎  ایضاً، کتاب الدعوات، باب الدعاء عند الخلاء، 6322، مسلم، کتاب الحیض، باب ما یقول اذا أراد دخول الخلاء، 375

16؎  ایضاً، کتاب الدعوات، باب التعوذ من غلبۃ الرجال، 6363

17؎  بخاری، کتاب الدعوات، باب التعوذ من المأثم والمغرم، 6368

18؎  بخاری، کتاب النفقات، باب خدمۃ الرجل فی أھلہ، 5363

19؎  مسنداحمد، 6/256

20؎  ابن ماجہ، کتاب النکاح، باب حسن معاشرۃ النساء، 1977

21؎  بخاری، کتاب النکاح، باب نظر المرأۃ الی الحبش ونحوہم من غیر ریبۃ، 5236

22؎  بخاری، کتاب النکاح، باب حسن المعاشرۃ مع الأھل، 5189

23؎  مسند احمد، 1/214

24؎ ابوداؤد، کتاب الادب، 5217، ترمذی، کتاب المناقب، باب ماجاء فی فضل فاطمۃ، 3872

25؎  بخاری، کتاب الصلاۃ، باب الصلاۃ خلف النائم، 512

26؎  ایضاً، ابواب التہجد، باب تحریض النبی ﷺ علی صلاۃ اللیل، 1126

27؎  بخاری، کتاب اللباس، باب الذوائب، 5919

28؎  مسلم، کتاب فضائل الصحابۃ، باب فضائل خدیجۃ، 2435، 2437

29؎  ابوداؤد، کتاب الادب، باب فی الغیبۃ، 4875، ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ، 2502

30؎  حوالہ سابق

31؎  بخاری، کتاب الاطعمۃ، باب التسمیۃ علی الطعام والاکل بالیمین، 5376

32؎  ایضاً، کتاب الصلاۃ، باب الصلاۃ فی الثوب الواحد، 357

33؎  بخاری، کتاب الأدب، باب قول الرجل مرحباً، 6176

34؎  کنزالعمال، 7/115

35؎  بخاری، 5924، مسلم، کتاب الآداب، باب تحریم النظر فی بیت غیرہ، 2156

36؎  بخاری، کتاب الاستئذان، باب اذا قال من ذا قال أنا، 6250

37؎  مسلم، کتاب البر والصلۃ، باب مداراۃ من یتقی فحشہ، 2591

تبصرے بند ہیں۔