جونپور کے چند طبیب شعراء

ڈاکٹر فیاض احمدعلیگ

جونپور اے مولد سلطان عادل شیر شاہ

تیرے آثار قدیمہ تیری عظمت کے گواہ

جونپور ارباب علم و فضل کے دارالسرور

کہتے تھے شیراز ہند اکثر تجھے اہل شعور

شہرجونپور جو شیر شاہ سوری کا مسکن رہا جہاں اس نے تعلیم و تربیت حاصل کی۔ (۱)اور چودھویں صدی عیسوی کے اواخرمیں ملک الشرق خواجہ جہاں ملک سرور نے اسے ’’دارالسرور‘‘ کا نام دیا۔ (۲) اور اس کے ڈھائی سو سال بعد مغل شہنشاہ شاہ جہاں نے اسے ’’شیرازہند‘‘ اور ’’دارالعلم‘‘ جیسے لقب سے نوازا۔ (۳) اس شہر کو فیروز شاہ تغلق نے اپنے مرحوم چچا زاد بھائی جونا شاہ کے نام پر ۱۳۶۱ء میں آباد کیا۔ بقول وامق جونپوری

’’۱۳۶۱ء میں جب فیروز شاہ تغلق اپنے دورۂ بنگال کے بعد دہلی واپس جارہا تھا تو موسم کی صعوبتوں سے بچنے کے لیے اس نے کچھ عرصہ ظفرآباد میں قیام کیا۔ اس دوران دریائے گومتی کی دوسری جانب شمال مغرب کی سمت اس کو ایک ٹیلہ نظر آیا جس کو جائے وقوع کے اعتبار سے اس نے بہت  پسند کیا تو اس پر ایک قلعہ تعمیر کروایا اور اس قلعہ کے دامن میں اپنے مرحوم چچازاد بھائی جونا شاہ کے نام پر شہر جونپور آباد کیا (شہر جونپور کے اعداد سے خود اس شہر کی تاریخ ۷۷۲ھ نکلتی ہے۔ ‘‘(۴)

فیروز شاہ تغلق نے نہ صرف اس شہر کو آباد کیا بلکہ اس کو مختلف علوم و فنون کا مرکز بنایا۔ بقول وامق جونپوری

’’شہر کو باوقار اور با رونق بنانے کے لیے دور دراز مقامات سے عالموں، دانشوروں اور صنعت گروں کو بلوا کے یہاں بسایا۔ اس طرح تھوڑی ہی مدت میں جونپور ترقی کرکے ہندوستان کے مشہور و ممتاز شہروں میں شمار ہونے لگا۔ ‘‘(۵)

اس طرح روز اول سے ہی جونپور عالموں، دانشوروں اور صنعت گروں کا گہوارہ رہا ہے اور دنیا کی تہذیب و تمدن کی تاریخ میں جو مقام کبھی روم، مصر، یونان، ایران اور بغداد و قرطبہ کو حاصل رہا ہے۔ بعینٖہ وہی مقام ہندوستان کی علمی وادبی تاریخ میں کبھی شیراز ہند جونپور کو حاصل تھا اورساری دنیا سے اہلِ علم جونپور میں آکر آباد ہورہے تھے۔ بقول سید اقبال احمد جونپوری

’’چودھویں صدی عیسوی میں جونپور علم و فن کا مرکز اور گہوارہ تھا جہاں مصر و عراق، ایران و عرب سے طالبان، علم چلے آرہے تھے۔ ‘‘(۶)

مذہبی تحریکات ہوں یا ادبی و سماجی میدان ہر جگہ جونپورکو سبقت و برتری حاصل رہی ہے، مہدوی تحریک ہو یادینی ودعوتی تحریک، تحریک تشیع ہو یا اہل سنت و الجماعت۔ تمام تحریکوں کی جڑیں اسی مٹی میں پیوست ہیں اور سب کی نشو و نما اسی کے خمیر سے ہوئی ہے۔ ملا دائودجیسا عالم و فاضل اسی ذرۂ خاک کی پیداوار ہے جس نے ’’پدما وت‘‘ ’’رامائن‘‘ اور’’کبیر بانی‘‘ جیسی عظیم الشان تصانیف کو عالمی شاہ کاروں میں شامل کرایا۔ جونپور کے تخلیقی نور سے دہلی کے اصحاب علم و فضل بھی مستفید ہوئے اور ایک زمانے تک ایک عالم اس کا گرویدہ رہا۔ مولانا یزدی جونپوری، ملا محمود جونپوری، مولانا کرامت علی کرامت جونپوری وغیرہم سے ایک عالم مستفید ہوتارہا ہے۔ فن تعمیر میں بھی جونپور کو امتیازی شان حاصل رہی ہے جس کے نشانات شاہی قلعہ، شاہی پل اور مختلف تاریخی مساجد کی صورت میں آج بھی موجود ہیں۔

سائنس و ٹکنالوجی، جغرافیہ، ریاضی اور دیگر سیاسی و سماجی علوم میں بھی جونپور ہر دور میں نمایاں رہا ہے۔ چنانچہ سرشاہ سلیمان (قانون) پروفیسر محمد شفیع (تاریخ) پروفیسر بلقیس بانو (بایوکیمسٹری)  محمد خلیل (سابق ایڈیٹر سائنس کی دنیا ) وغیرہ جیسے بے شمار ناموں کی ایک کہکہشاں ہے جو جونپور کی علمی تاریخ کومنور کیے ہوئے ہے۔

فن موسیقی سے بھی جونپور کے شرقی بادشاہوں خصوصاً حسین شاہ شرقی کو خاص دلچسپی تھی اور اس میدان میں بھی مختلف ایجادات کا سہرا حسین شاہ مشرق کے سرجاتا ہے۔ بقول قرۃ العین حیدر:

’’حسین شاہ شرقی کو جب بھی دلی کے سلطان بہلول اور سلطان سکندر سے جنگ کرنے سے فرصت ملتی وہ اپنا طنبورہ لے کے بیٹھ جاتا۔ راگوں کی دنیا کی نئی نئی سیاحتیں کرتا یا قدیم نسخوں کی ورق گردانی میں مصروف رہتا‘‘۔ (۷)

حسین شاہ شرقی نے بہت سے راگ و خیال اور ساز ایجاد کیے۔ اسی کے عہد میں دھرپد کی جگہ ’’خیال‘‘ عام طور پر مقبول ہوا۔ (۱۸) اسی دور میں موسیقی کی مشہور زمانہ کتاب ’’شرومنی‘‘ کی تخلیق ہوئی۔ (۹) اور امیر خسرو کے بعد اگر یہ مرتبہ اجتہاد کسی کو حاصل تھا تو وہ حسین شاہ شرقی تھا۔ (۱۰) اس طرح بحیثیت مجموعی شرقی دور حکومت (۱۴۰۲ء-۱۴۴۰ء) کو جونپور کی تاریخ کا سنہرا دور کہا جاسکتا ہے۔

اردو ادب میں اشرف جہانگیر سمنانی سے رشید احمد صدیقی تک سجاد ظہیر سے لے کر افتخار اعظمی تک، حفیظ جونپوری سے لے کر وامق جونپوری تک ایک طویل سلسلہ ہے جن سے جونپور کی ادبی فضا منور ہے۔ بقول مسیحا جونپوری

نوید ذوق تھا قوموں کو علم و فن میرا

میں جونپور ہوں مشہور ہے سخن تیرا

جونپور میں شعرا کی تعداد ہر دور میں زیادہ رہی ہے اورا ٓج بھی مختلف انجمنوں کے طفیل شعراء کی تعداد میں مستقل اضافہ ہو رہا ہے۔ شعراء کی اسی کثیر تعداد کو دیکھتے ہوئے رشید احمد صدیقی نے ایک جگہ لکھا ہے کہ :

’’میں نے  جونپور میں اس کثرت سے شاعر دیکھے تھے کہ میں یہ سمجھنے لگا تھا کہ ہر اردو داں شاعر ہوتا ہے جو نہیں ہوتا ہے مجھ جیسا گیا گزرا ہوتا ہے۔ ‘‘(۱۱)

بلاشبہ شعراء کی یہ کثرت جونپور کی علمی و ادبی زرخیزی کی دلیل ہے۔ شعر و ادب کی محفلیں اور مختلف انجمنیں آج بھی ایک ٹکسال کی حیثیت سے اردو زبان و ادب کے فروغ میں متحرک ہیں۔ اس کی ادبی و لسانی حیثیت کو دیکھتے ہوئے حفیظ جونپوری نے کبھی کہا تھا   ؎

اس شہر کو حفیظ کیا۔ ہم نے لکھنؤ

ٹکسال چڑ ھ گئی ہے زباں جونپور کی

جونپور کو اردو کا ٹکسال بنانے میں اس کے علماء، صلحاء، ادباء شعراء اور دانشوروں کے ساتھ ساتھ یہاں کے اطباء کا بھی اہم کردار رہا ہے، چنانچہ قدیم اطباء میں اولاد علی کا ہش جونپوری، حکیم قیام الدین بخت جونپوری، حکیم نصیر الدین نصیر جونپوری وغیرہم کے نام قابل ذکر ہیں جب کہ دور حاضر میں حکیم محمد جنید عباسی، ڈاکٹر غفران جونپوری (دونوں کا ابھی چند سال قبل انتقال ہوا ہے) اور اقم السطور ڈاکٹر فیاض احمد (علیگ) وغیرھم طبیب شعراء کی حیثیت سے جونپور کے شعری منظر نامے کا حصہ ہیں، جونپور کے تمام طبیب شعراء پر سیر حاصل گفتگو کرنا اس مقالہ میں ممکن نہیں۔ اس لیے کہ جونپور کے تمام طبیب شعراء کے تفصیلی حالات اور ادبی خدمات کا جائزہ لینے کے لیے باقاعدہ تحقیق کے ساتھ (کیونکہ بعض مصنفین اور تذکرہ نگاروں نے غیر مستند خاندانی اطباء کو بھی اس زمرہ میں شامل کردیا ہے) مستقل تصنیف کی ضرورت ہے۔

اولاد علی کا ہش جونپوری ولد مولانا شاہ عوض علی جونپوری۔ جونپور کے اولین طبیب شعراء میں کاہش جونپوری کا نام انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ کاہش جونپوری ۱۲۱۷ھ مطابق ۱۸۰۲ء میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم رواج کے مطابق گھر پر حاصل کی اس کے بعد اعلی تعلیم کے لیے فرنگی محل لکھنؤ تشریف لے گئے۔ وہاں سے فراغت کے بعد علم طب کی تعلیم حکیم مسیح الزماں سے حاصل کی اور ان کے ساتھ مطب میں بیٹھ کر عملی تجربات کے ساتھ ماہر حکیم بن کر نکلے لیکن اس کے بعد ذاتی مطب یا کسی طبّی ملازمت کا کوئی تذکرہ نہیں ملتا بلکہ تمام تذکرہ نگاروں کے مطابق وہ بہار کے ضلع گیا میں دیوانی عدالت میں پیش کار رہے اور اس کے بعد ترقی کرکے سررشتہ دار کے عہدہ پر مامور ہوئے لیکن چند سالوں بعد ہی یہ ملازمت بھی چھوڑ دی اور گوشہ نشیں ہوکر تجرد کی زندگی گزاری۔

کاہش جونپوری مستند طبیب ہونے کے ساتھ ساتھ شعر و ادب سے بھی دلچسپی رکھتے تھے اور کاہش جونپوری کے نام سے باقاعدہ ارد و اور فارسی دونوں زبانوں میں اشعار کہتے تھے۔ فارسی میں مرزا قتیل سے اور اردو میں شیخ ہمدانی و مصحفی سے اصلاح لیتے تھے۔ (۱۲)

ان کی مطبوعہ تصانیف میں ’’رسالہ فارسی‘‘، ’’رسالہ مکتوبات‘‘  ’’منتخب العروض‘‘ ایک دیوان فارسی اوردو دیوان اردو ہیں (۱۳) لیکن اب مذکورہ تمام تصانیف نایاب ہوچکی ہیں، چونکہ ان کاکوئی مجموعہ کلام دستیاب نہیں ہے، البتہ تذکروں میں ان کے چند اردو و فارسی کے اشعار منقول ہیں جن کی روشنی میں ان کی شاعری کی مقدار تو نہیں لیکن معیار کو بخوبی سمجھا جاسکتا ہے۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں۔

مسی ملی تو دیکھ کے سوسن نے آہ کی

نرگس شہید ہوگئی ترچھی نگاہ کی

۔ ۔ ۔ ۔

غنی ہوتا ہے سر محتاج تیری آشنائی کا

حباب بحر نے کاسہ لیا الٹا گدائی کا

۔ ۔ ۔

سینہ تادل ہمہ پر داغ تمنا کردی

اے فلک ! باتوچہ کردیم باما کردی

کاہش  جونپوری کا ۱۸۶۴ء میں جونپور میں ہی انتقال ہوا۔ جونپورکے تذکرہ نگاروں کے علاوہ ہندو پاک کے دیگر تذکرہ نگاروں نے بھی کاہش جونپوری کا تذکرہ کیا ہے۔ (۱۴)

حکیم قیام الدین بخت جونپوری (۱۸۶۵ء-۱۹۴۸ء) :

بخت جونپوری کی پیدائش جونپور میں اور انتقال مشرقی بنگال میں ہوا اور وہیں مدفون ہوئے، جونپور شہر کے محلہ ملا ٹولہ میں ان کا آبائی مکان تھا۔ بخت جونپوری عالم و فاضل ہونے کے ساتھ ہی ماہر حکیم بھی تھے اور فن طب کے تمام مروجہ مضامین پر عبور کے ساتھ ہی تشخیص و علاج میں بھی امتیازی شان کے حامل تھے۔ بخت نے طب کی تعلیم اس دور کے مشہور اطباء مثلا حکم محمد عبدالعلی لکھنوی، حکیم محمد یعقوب، حکیم محمد سعید الدین و حکیم محمد عبدالعزیز دریا بادی وغیرھم سے حاصل کی اور ان کی سند پر درج تاریخ کے مطابق وہ ۴ ذی الحجہ ۱۳۰۸ھ مطابق ۱۸۹۳ء میں فارغ التحصیل ہوئے۔ (۱۵) بخت جونپوری فن کتابت و خطاطی میں بھی ماہر تھے جس کے کچھ نمونے آج بھی عرفان جونپوری صاحب کے پاس محفوظ ہیں۔ وہ شاہی عیدگاہ اور جامع الشرق جونپور کے امام بھی رہے۔ جونپور کے آنریری مجسٹریٹ بھی رہے۔ اس سے متعلق تمام سرکاری حکم نامے اور تصدیق نامے آج بھی مکرمی عرفان صاحب کے پاس محفوظ ہیں۔

بخت جونپوری کے علامہ شبلی نعمانی سے قریبی مراسم تھے خط و کتابت کا سلسلہ بھی تھا۔ شبلی کی تحریک پر ہی وہ تحریک ندوۃ العلماء  کے فعال رکن رہے جس کا ثبوت ان کے نام علامہ شبلی کے خطوط سے ملتا ہے جو آج بھی عرفان جونپوری صاحب کے پاس محفوظ ہیں اور انہیں کے حوالے سے تین خطوط ڈاکٹر الیاس اعظمی صاحب نے شکریہ کے ساتھ مکتوبات شبلی میں شامل کیا ہے۔ (۱۶)

الیاس اعظمی کے مطابق بخت جونپوری کے مراسم اور خط و کتابت کا تعلق علامہ شبلی کے علاوہ مولانا حبیب الرحمن خاں شیروانی، امیرمنیائی، سر شاہ سلیمان، مولانا عبدالحئی حسنی، جلیل مانک پوری، حفیظ جونپوری، ڈپٹی عشرت حسین اختر مینائی، آہ مینائی وغیرہم سے بھی تھے۔ بخت جونپوری کے نام مذکورہ شخصیات کے خطوط آج بھی عرفان جونپوری صاحب کے پاس محفوظ ہیں۔

اردو، فارسی اور عربی زبان میں مہارت، تبلیغ دین سے رغبت اور دنیاوی جاہ و جلال کے ساتھ ہی بخت جونپوری کو شعر و ادب سے بھی دلچسپی تھی اور باقاعدہ مشق سخن کرتے تھے، امیر مینائی لکھنوی کے شاگرد تھے، غزل، نظم، قصائد کے ساتھ فن تاریخ گوئی میں ید طولی رکھتے تھے مگر افسوس کہ ان کا کوئی مجموعہ شائع نہ ہوسکا۔ اب اس کو زمانہ کی ستم ظریفی کہئے یا بخت جونپوری کی بدبختی کہ ان کا شعری سرمایہ محفوظ نہ رہ سکا۔

بخت جونپوری کے جو اشعار تذکروں اور تاریخ کی کتب میں دستیاب ہیں۔ ان کی روشنی میں بلاشبہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ بخت کی غزل کلاسیکی شاعری کا نمونہ ہے۔ ان کی غزلوں میں سادگی زبان و بیان کے ساتھ ساتھ بھر پور تغزل بھی موجود ہے۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں :

نشان خط نہیں اس بت کے روئے انور پر

نئی ہے بات کہ سبزہ اگاہے پتھر پر

تمہارے آنے کی ساری اذیتیں بھولے

کہو تو ہاتھ بھی رکھیں نہ قلب مضطر پر

——

عکس روئے  یار کی دل میں مرے تنویر ہے

آئینے کا آئینہ تصویر کی تصویر ہے

بخت ان کو مجھ سے نفرت غیرسے الفت ہے بس

اپنی اپنی قسمت، اپنی اپنی تقدیر ہے

——

مذکورہ اشعار میں ’’سبزہ اُگا ہے پتھر پر‘‘ ’’آئینے کا آئینہ‘‘ اور ’’تصویر کی تصویر’’جیسی تشبیہات و استعارات سے ان کی زبان و بیان پر قدرت اور فنی مہارت کا اندازہ اصحاب فکر و فن بخوبی لگا سکتے ہیں۔

بخت جونپوری خاندانی اور ذہنی دونوں لحاظ سے مولانا کرامت علی کرامت سے انتہائی قریب تھے۔ اس قربت و صحبت نیز ذاتی علم و فضل کے باعث مذہبی رجحان، مسلکی روا داری اور قومی یکجہتی  کے عناصر بھی ان کی شاعری میں نمایاں ہیں۔

عاصیوا اشک ندامت میں عجب تاثیر ہے

بس یہی ا مرض کہنہ کے واسطے اکسیر ہے

جامۂ تفریق پھینکو زاہدو ! چھوڑدو دوئی

دے صدا  ناقوس تو سمجھو کہ یہ تکبیر ہے

مذکورہ اشعار میں بخت جونپوری نے علمی، طبّی، دینی اور مسلکی رجحانات کو یکجا کرکے اور اشک ندامت کو تمام گناہوں کے لئے اکسیر بتاکر فنی و طبّی مہارت کا ثبوت دیا ہے۔ مذکورہ اشعار کی روشنی میں ’’دیگ کے چند چاول‘‘ کے مصداق، ان کی فکری و فنی حیثیت پرکھا جاسکتا ہے۔

غزل، نظم اور قصائد کے ماسوا بخت جونپوری کا اصل میدان تاریخ گوئی تھا۔ اس فن کی تمام صنعتوں میں فنی و لسانی مہارت کا ثبوت دیتے ہوئے بخت جونپوری نے بے شمار قطعات تاریخ کہے ہیں اور بقول طفیل انصاری

’’اگر آپ کی سبھی تاریخو ں کو یکجا کیا جائے تو تاریخ گوئی کا ایک مجموعہ تیار ہوسکتا ہے۔ ‘‘(۱۷)

تاریخ گوئی ایک مشکل فن ہے جس میں کسی مصرع، شعر، نثری جملہ یا لفظ کے حروف ابجد سے کسی واقعہ کی تاریخ نکالی جاتی ہے۔ یہ فن اردو کے علاوہ دیگر زبانوں میں بھی موجود رہا ہے، جس مصرع، شعر یا جملہ سے تاریخ برآمد ہوتی ہے اسے اردو اور فارسی میں ’’مادۂ تاریخ‘‘ عربی میں ’’قطعۂ تاریخ‘‘ اور ترکی میں ’’رمز‘‘  کہا جاتا ہے۔ اردو میں تاریخ گوئی کی روایت بہت قدیم رہی ہے لیکن اس کا تعلق خالص علم و فن اور صنعت گری سے ہونے کے باعث عوام الناس کی دلچسپی ہمیشہ اس میں کم رہی ہے جس کی وجہ سے شعراء نے بھی فن تاریخ گوئی پر کم توجہ دی اور ہر دور میں دیگر اصناف سخن  کی بہ نسبت تاریخ گوئی کم مقبول رہی اس لیے کہ بقول آزاد:

’’بازار میں ہمیشہ وہی جنس رکھی جاتی ہے جس کی مانگ ہوتی ہے اور چونکہ مانگ ہوتی ہے اس لیے ہر ہاتھ  اس کی طرف بڑھتا ہے اور ہر آنکھ اسے قبول کرتی ہے۔ ‘‘(۱۸)

مذکورہ اصول کے خلاف بخت جونپوری نے اس صنف پر اپنی توانائی صرف کی جس کا نہ کوئی طلبگار نہ خریدار۔ انہوں نے بازار کی مانگ اور پبلک ڈیما نڈ کے خلاف تاریخ گوئی جیسے مشکل فن کو فکر و فن کا محور بنایا اور اپنے بیش بہا تجربات اور فنی ایجادات سے فن تاریخ گوئی کو وسعت بخشی۔ انہوں نے فن تاریخ گوئی کی تمام مروجہ اصناف اور صنعتوں جیسے صنعت منقوطہ، صنعت مہملہ یا غیرمنقوطہ، صنعت منقوطہ و مہملہ، صنعت ذوبحرین و ذو قافیتین، صنعت زبرو بینات، صنعت صوری و معنوی، صنعت صوری و معنوی سال عیسوی وغیرہ میں اپنی فن مہارت کا ثبوت دیا ہے۔ مذکورہ تمام صنعتوں میں بحت جونپوری نے قطعات و قصائد لکھے ہیں۔ سلطنت آصیفہ کے ولی عہد کی پیدائش پر بخت نے ۱۵ قطعات تاریخ اور ۳۱ اشعار پر مشتمل ایک قصیدۂ تاریخ لکھا تھا۔ ان قطعات اور قصیدہ میں انہوں نے فن تاریخ گوئی کی مختلف صفتوں کو برتا ہے۔ مذکورہ قطعات اور قصیدہ کو اس وقت ایک رسالہ کی صورت میں جادو پریس جونپور نے شائع کیاتھا جواب نایاب ہو چکا ہے۔ اس رسالہ کے پشت پر جادوپریس کے مالک اور جادو اخبار کے ایڈیٹر حافظ عبدالرحمن خاں صاحب کا مختصر مگر جامع تبصرہ موجود ہے۔ ملاحظہ ہو:

’’اللہ اللہ یہ چھوٹا سا رسالہ سحر مقالہ ہے یا عجیب و غریب تاریخوں کا خزانہ۔ اس رسالہ کے مصنف ادیب یکتا، مورخ و عروضی بے ہمتا حضرت علامہ مولانا حکیم محمد قیام الدین بخت مد ظلہ امام جامع مسجد شاہی جونپور برادر زادہ حضرت مولانا کرامت علی جونپوری قدس سرہ ہیں۔ اس مجموعہ میں علاوہ لاجواب وبے مثل ۱۵قطعات تاریخ کے ایک قصیدہ ۳۱ شعروں کا ایسا حیرت افزا و اعجازنما ہے جو تاریخی دنیا میں ہل چل ڈال دے گا اور میں بلا مبالغہ  یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ اس نے آج تک کے تمام تاریخی ریکارڈ توڑ دیئے۔ اس قصیدہ کے ہر مصرع سے بے تکلف کامل ۱۳۵۲ھ نکلتا ہے اور ہر مصرع دوسرے مصرع سے اس قدر مربوط اور ہر شعراس قدر فصیح و بلیغ ہے کہ پڑھ کر وجد ہوتا ہے اور یہ خیال من میں نہیں آتا کہ اس سے تاریخ نکلتی ہے۔ مع ہذا قصیدہ کی پوری شان و لوازم کے ساتھ شروع سے آخر تک صنعت براعت، استہلال کی بھی رعایت رکھی ہے جس نے اور بھی چار چاند لگادیے، الحق !  ان صنائع و بدائع، فصاحت و بلاغت اور قوافی کی پابندی کے ساتھ ۳۱ شعر لکھنا اور ہر مصرع سے تاریخ نکالنامصنف علام کا حصہ اور ان کی قادر الکلامی اور تاریخ گوئی کے بے مثال نکمال کی بین دلیل ہے۔ ‘‘(۱۹)

مذکورہ رسالہ سے چند قطعات تاریخ ملاحظہ ہو

طفل دکن کا لے کر آیا

خوان خلافت سبحان اللہ

اس کی جبیں سے صاف عیاں ہے

شان خلافت سبحان اللہ

سال ولادت بخت یہ لکھ دو

جان خلافت سبحان اللہ

فرزند لو محل میں ولی عہد کے ہوا

پیارا عزیز اور دلارا ہے کیا ہے یہ

اے بخت میں نے سال ولادت کا لکھ دیا

دل کا سرور آنکھوں کا تارا ہے  کیا ہے یہ

۱۳۵۲ھ

——

اسی طرح  فتاوائے محمدیہ پر کہے گئے چند قطعات جن میں ہر مصرع سے اس کا سن تصنیف ۱۳۴۲ھ برآمد ہوتا ہے۔

یہ فتووں کا ہے پہلا خوب حصہ

۱۳۴۲ھ

شواہد، قول سارے معتمد ہیں

۱۳۴۲ھ

سناد و طبع کا یہ سال اے بخت

یہ فقہی فتوے جید، مستند ہیں

فن تاریخ گوئی پر عبور اور زود گوئی کے باوجود ان کا کوئی مجموعہ شائع نہ ہو سکا اور تمام تاریخی قطعات و قصائد ان کی بے نیازی، زمانے کی بے اعتنائی اور ہم عصروں کی ناقدری کے باعث محفوظ نہ رہ سکے۔

حفیظ جونپوری جو بخت جونپوری کے ہم عصر تھے۔ بخت جونپوری کے نام حفیظ جونپوری کا ایک خط طفیل انصاری صاحب نے اپنی کتاب ــــــــــــ ــــــــــــــ حفیظ جونپوری۔ حیات اور شاعری اور ’’کلیات حفیظ‘‘  میں شائع کیا ہے۔ حالانکہ دونوں جگہ مکتوب الیہ یعنی بخت جونپوری کا نام نہیں لکھا ہے لیکن اس خط کی اصل کاپی عرفان جونپوری صاحب کے پاس محفوظ ہے۔ ان کے مطابق یہ خط مصدقہ طور پر بخت جونپوری کے نام ہی ہے اس خط کا مضمون ملاحظہ ہو:

میں امید کرتا ہوں کہ نسخہ اور قطعہ تاریخ تیار ہوگا۔ اگر نہیں تو آپ دونوں مرحلے طے کریں۔ انشاء اللہ میں شنبہ کو دس بجے تک ضرور بالضرور آپ کے دردولت پر حاضر ہوں گا۔ تاریخ کے لیے ایک مرتبہ میں آپ کی خدمت میں لکھ بھی چکا ہوں۔ ‘‘(۲۰)

مذکورہ خط سے ظاہر ہوتا ہے کہ حفیظ جونپوری کی بخت جونپوری سے ملاقات و مراسلت دونوں تھی اور وہ ان سے علمی، ادبی اور طبّی مشورے بھی لیتے رہتے تھے جیسا کہ مذکورہ خط میں ’’نسخہ‘‘  اور ’’قطعہ تاریخ‘‘ سے واضح ہوتا ہے۔ حفیظ جونپوری خالص غزل کے شاعر تھے اورفن تاریخ گوئی سے ان کو کوئی خاص دلچسپی نہ تھی اس لیے کہ یہ فن ان کے لیے دقت طلب تھا جیسا کہ حفیظ جونپوری خود لکھتے ہیں :

’’تاریخ گوئی سے فطرتاً مناسبت نہیں۔ اگرکسی کے اصرار پر کبھی تاریخ کہنے کا اتفاق ہوا تو مادۂ تاریخ نکالنے میں سخت دقت پیش آئی۔ ‘‘(۲۱)

شاید اسی دقت کی وجہ سے وہ وقتاً فوقتاً بخت جونپوری سے رجوع کرتے رہے مگر افسوس کہ انہوں نے کہیں بھی بخت جونپوری کا تذکرہ نہیں کیا نہ احباب میں نہ ہم عصروں میں نہ اپنوں میں نہ بیگانوں میں۔ حفیظ جونپوری نے ایسا کیوں کیا؟ اور ان کے اس رویہ کو کیا نام دیا جائے؟ اس کا فیصلہ ارباب نقد و نظر کے حوالے میں صرف اتنا کہہ سکتا ہوں کہ بقول شاعر:

بہ بزم  مئے ہے یاں کوتاہ دستی میں ہے محرومی

جو بڑھ کے خود اٹھالے ہاتھ میں مینا اسی کاہے

حکیم نصیر الدین محمود نصیرجونپوری:- جونپور کے طبیب شعراء میں نصیر جونپوری کا بھی ایک اہم نام ہے جو ۱۸۸۰ء میں فیض آباد کے ایک گائوں حافظ پور میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم گھر پرحاصل کرنے کے بعد مدرسہ حنفیہ جونپور سے درس نظامی کی تکمیل کی اس کے بعدتکمیل الطب کالج جھوائی ٹولہ لکھنئو سے طب کی تعلیم حاصل کی اور جونپور واپس آکر ذاتی مطب شروع کیا۔ موزوئی طبع اور فطری ذوق کے باعث علاج معالجہ کے ساتھ شعر و ادب کا شوق بھی جاری رہا اور اپنے عم محترم زین العابدین عابد کی سرپرستی و شاگردی میں مشق سخن کرتے رہے۔ ان کا مجموعہ کلام ’’بادہ کہن‘‘ کے نام سے ان کے صاحبزادے محمد جنید عباسی نے شائع کیا ہے۔

نصیر جونپوری نے خالص غزل کی شاعری کی ہے اور قدیم اساتذہ فن کی پیروی کرتے ہوئے غزل کو اسی قدیم رنگ سے آراستہ کیا ہے۔ ان کی غزل میں عشق و محبت کی داستان، د ل کا درد، دنیا کے پند و نصائح ھجر کا کرب اور وصل کی خواہش کا جابجا خوبصورت اظہارملتا ہے۔

نصیر اب چھوڑ دو الفت حسینوں کی کہا مانو

ہوا تو دل لگاکر ہائے رسوائے جہاں کیسا

نصیر جونپوری کے یہاں تغزل کے پردے میں درد و غم کی ایک ایسی زیریں لہر موجود ہے جو دل کو چھیڑنے کے ساتھ ہی دماغ کو بھی جھنجھوڑتی ہے ھجر و صال کی نیرنگیاں، لب و رخسار کی رعنائیاں، تصور جاناں کی دلکشی، شب فراق کی تلخیاں، عمر گزشتہ کی تلخ و شیریں یادیں، احباب کی رنجشیں، اغیار کی پھبتیاں اور زمانے کی ستم ظریفیاں، غرض تمام ذاتی تجربات و مشاہدات ان کی غزل میں موجود ہیں۔ سماجی، سیاسی اور معاشرتی مسائل سے گریز کرتے ہوئے انہوں نے غزل کو اظہار ذات کا وسیلہ بنایا ہے۔

گیسو کی کبھی یاد کبھی رخ کا تصور

کیا حال کہوں میں شب فرقت کی سحر کا

نصیر جونپوری کی شاعری اسی شب فرقت کا درد انگیز بیانیہ ہے جس میں کہیں رخ جاناں کا تصور، کہیں گیسو کی یاد تو کہیں یاس و حرماں نصیبی کا تذکرہ ہے۔

روتے روتے ھجر میں ان کے ہوئیں آنکھیں سفید

دیدۂ خونبار  اب آنسو بہانا چھوڑ دے

وقت کے ساتھ بالوں میں سفیدی آنا تو عام بات ہے اور ہرخاص و عام اس سے واقف ہے۔ نصیر جونپوری کا امتیاز یہ ہے کہ انہوں نے سب کی طرح صرف بال سفید نہیں کیے بلکہ صجر میں روتے روتے آنکھیں تک سفید کرلیتیں اس طرح کی نادر تشبیہات و استعارات کا استعمال ہی نصیر جونپوری کا طرۂ امتیاز ہے۔ دیدۂ… کی سرخی کب سفیدی میں بدل گئی صجر کی گریہ و زاری اور شب فراق کی اختر شماری میں اس کا احساس ہی نہ ہوسکا اور جب احساس ہوا تو وقت نکل چکا تھا شب فرقت کے بعد جو صجر آئی اس میں تمام رنگین مناظر بھی سفید نظر آنے لگے۔

دیدہ ٔ  … کی سرخی سے آنکھوں کی سفیدی تک کی پوری داستان ’’بادۂ کہن‘‘ میں سموئی ہوئی ہے۔ آنکھوں کی اس سفیدی نے حسن و عشق کی جذبات اور دل کے احساسات تک کو سفید کردیا۔ اب رخ یار ہو یا گیسوئے دلدار، آنکھوں کا میخانہ ہو یا ساقی کا پیمانہ سب بے کیف و بے رنگ نظر آتا ہے۔

نہ چھیڑ اے ساقی غم آغاز الفت کا وہ فسانہ

نہ وہ ساقی رہا باقی نہ وہ ساغر نہ پیمانہ

نصیر جونپوری کی غزل میں … کا رنگ نمایاں ہونے کے باوجود ان کا اپنا آزادی لب و لہجہ ہے۔ انہوں نے غزل میں تقلید کے ساتھ جدت طرازی بھی کی ہے۔ ان کا اپنا منفرد اسلوب ہے جس میں زبان و بیان کی سادگی کے ساتھ ہی اچھوتی تشبیہات و استعارات کے برمحل استعمال سے غزل کا حسن … آتشہ ہوجاتا ہے۔ تغزل، شوخی اور بانگپن کے ساتھ ہی نصیر کی شاعری میں یا سبت کا رنگ بھی نمایاں ہے جو بسا اوقات قاری و سامع کے ذہن کو بوجھل کردیتا ہے۔

نصیر جونپوری نے اردو کے ساتھ ہی فارسی زبان میں بھی داد سخن دی ہے اور اردو غزل کی طرح ہی فارسی میں بھی اپنے انفرادی اسلوب اور رنگ و آہنگ کو برقرار رکھا ہے۔ صرف زبان کی تبدیلی ہوئی ہے ورنہ موضوعات، مضامین، لفظیات، تراکیب اور لب و لہجے کے لحاظ سے فارسی زبان میں بھی نصیر جونپوری کی اپنی انفرادی شان برقرار رہے۔

من جان ندا سازم اے شوخ ستمگارے

پروانہ صنعت سوزم بر شعلہ رخسارے

مشتاق جہالت رایکساں حرم و دیر است

آن کعبۂ اینماں است ایں قبلۂ دیدارے

مصادر و مراجع

۱-     تاریخ سلاطین شرقی اور صوفیاء جونپور، سید اقبال احمد جونپوری شیراز ہند پبلشنگ ہائوس جونپور جنوری ۱۹۸۸ء، ص ۲۷۸

۲-     ایضاً: ص ۱۱۶

۳-     ایضاً:ص ۱۱۶

۴-     گفتنی ناگفتنی۔ وامق جونپوری، خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری، پٹنہ ب ت، ص ۲۰

۵-     ایضاً: ص ۲۰

۶-     پھول اور چراغ، انتخاب کلام شفیق جونپوری مرتبہ سید اقبال احمد جونپوری، شیراز ہند پبلشنگ ہائوس، جونپور مارچ ۱۹۶۵ء، ص ۶

۷-     آگ کا دریا، قرۃ العین حیدر، ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس، دہلی ۱۹۸۹ء، ، ص ۱۲۲

۸-     غبار خاطر، ابوالکلام آزاد، ساہتیہ اکادمی، دہلی، ۱۹۹۶ء، ص ۶۹-۲۶۸

۹-     تہذیب الاخلاق، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ، دسمبر ۱۹۸۶ء، ص ۲۶

۱۰-   پھول اور چراغ، ص ۷

۱۱-   آشفتہ بیانی میری، رشید احمد صدیقی، مکتبہ ادب نو۔ دہلی اپریل ۱۹۶۰ء، ص ۶۶-۶۵

۱۲-   تخلی نور، مولوی سید نور الدین زیدی ظفر آبادی جادو پریس، جونپور ب ت، ص۲۹

۱۳-   ایضاً: ص ۲۹

۱۴-   مسلم شعراء بہار، حصہ چہارم، حکیم سید احمد اللہ خاں ندوی، انٹرنیشنل پریس، کراچی ۱۹۶۸ء، ص ۵۶

        ضمخانۂ جاوید جلد ششم، لالہ سری رام مرتبہ خورشید احمد خاں مقتدرہ قومی زبان، اسلام آباد۱۹۹۰ء، ص ۶۱

۱۵-   یہ سند آج بھی عرفان جونپوری صاحب کے پاس محفوظ ہے۔

۱۶-   مکتوبات شبلی، ڈاکٹر محمد الیاس اعظمی، ادبی دائرہ اعظم گڑھ، دسمبر ۲۰۱۲ء، ص ۱۱-۱۰۷

۱۷-   حفیظ جونپوری، حیات اور شاعری، طفیل انصاری، مونارک آفسیٹ پریس جونپور، جولائی۲۰۰۶ء، ص ۲۵

۱۸-   غبار خاطر، ص ۹۲

۱۹-   رسالۂ تاریخ، حکم قیام الدین بخت جونپوری، جادو پریس، جونپور ۷

۲۰-   حفیظ جونپوری۔ حیات اور شاعری، ص ۵ کلیات حفیظ جونپوری مرتبہ طفیل احمد انصاری، قومی اردو کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی، اپریل ۲۰۱۰ء

۲۱-   کلیات حفیظ جونپوری، ص ۶۸

تبصرے بند ہیں۔