جیسی اب ہے تری محفل، کبھی ایسی تونہ تھی!

کرسٹوف جیفرلوٹ

ترجمہ:نایاب حسن

نئی دہلی میں اپنے حالیہ لیکچرزکے دوران آرایس ایس سربراہ موہن بھاگوت نے ایسے الفاظ کا استعمال کیا، جو گزشتہ چند سالوں کے دوران کیے گئے ان کے خطابات کے بالمقابل خاصے مہذب تھے، مثال کے طورپر دسمبر2014ء میں وشو ہندوپریشدکی گولڈن جوبلی منانے کے موقعے پر ایک وراٹ ہندوسمیلن کا انعقاد کیاگیا تھا، اس میں انھوں نے پر جوش انداز میں ہندوانتہاپسندوں کی جانب سے شروع کی گئی گھر واپسی مہم کی تائید کرتے ہوئے کہاتھا:’’ہم اپنے ان بھائیوں کو واپس لائیں گے، جواپنا راستہ بھول گئے ہیں، وہ اپنی مرضی سے اُدھر نہیں گئے، انھیں اغواکیاگیا اور انھیں مجبور کیاگیا، اب چور پکڑا جا چکاہے اور دنیا جانتی ہے کہ ہمارے گھر کے لوگ چور کے پاس ہیں، میں اپنے گھر والوں کو واپس اپنے گھر لانا چاہتاہوں، تو اسے ایک بڑا مسئلہ کیوں بنایا جا رہا ہے؟‘‘۔ نومبر2017ء میں اڈپی میں وشو ہندوپریشد کے ذریعے ہندومذہبی شخصیات کے سہ روزہ ’’دھرم سنسد‘‘ سے خطاب کرتے ہوئے بھی انھوں نے اسی لب و لہجے میں بات کی، انھوں نے کہا: ’’رام جنم بھومی پر صرف رام مندر بنے گا، اس کے علاوہ اور کچھ نہیں بنے گا، یہ مندر اسی شکل میں، انہی پتھروں سے اور انہی لوگوں کے ذریعے بنے گا، جو گزشتہ بیس پچیس سال سے اس کے لیے لڑتے آرہے ہیں، یہ ایک عوامی سطح کا وعدہ نہیں ہے، یہ ہمارے ذہنی عزم و ارادے کا اظہار ہے، یہ ایک ٹھوس حقیقت ہے اوراس میں کوئی تبدیلی نہیں ہونے والی‘‘۔ جبکہ گزشتہ ہفتہ بھاگوت نے اپنی تقریر میں کہاکہ:’’ہندوراشٹر کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہاں مسلمانوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہوگی، جس دن ایسا کہاگیا، اس دن ہندوتوا کا تصور ہی ختم ہوجائے گا‘‘۔

بھاگوت کے اس بیان کو دوطرح سے دیکھاجاسکتاہے، ایک تو یہ کہ واقعی ہندوستان کے مذہبی و تہذیبی تنوع کا اعتراف کیاگیاہے؛کیوں کہ بھاگوت نے بھارت کے آئین کے احترام کی بات بھی کی ہے، جس میں سیکولرزم کو مقدم رکھاگیاہے اور اس پر متعدد دفعات میں زور دیاگیاہے، اسی طرح بھاگوت نے ہندوراشٹر کی جو نئی تشریح کی ہے، وہ بھی جمہوریۂ ہند کی خاص شناخت’’کثرت میں وحدت‘‘کی عکاسی کرتی ہے۔ جبکہ ایک دوسری تشریح ہمیں ’’ہندوتوا‘‘ کے معنی کی طرف لے جاتی ہے، جسے بہ طوراصطلاح وی ڈی ساورکرنے اپنے پمفلیٹ Hindutva: Who is a Hindu?میں استعمال کیاہے اور اس کے مطابق نسل، علاقائیت، زبان اور رسوم و رواج کے مقابلے میں مذہب شناخت کی علامت نہیں ہے؛بلکہ اس کا تعلق ایک قومی شناخت سے ہے، جس کی چار بنیادیں ہیں اور سبھی شہریوں کو ہندوستان کے تئیں اپنے’’پِتربھومی‘‘اوروطنِ مقدس ہونے کی حیثیت سے قلبی تعلق رکھنااور اس کا اظہار کرنا ہوگا۔

ہندوتوایا ہندوراشٹر کی اس تعریف کی روسے اس ملک کے مسلمان اور عیسائی اولِ وہلہ میں باہر نکل جاتے ہیں ؛کیوں کہ (مقدس ہونے کی حیثیت سے )ان کا قلبی یا مذہبی تعلق تواپنے دوسرے مذہبی مقامات جیسے مکہ اورروم وغیرہ سے ہے، یہی وجہ ہے کہ ساورکر کے بعد سے ہندوقوم پرست طبقات ان مسلمانوں اور عیسائیوں کو وطن دشمن کی نظر سے دیکھتے اور انھیں لعنت ملامت کرتے ہیں، جب کہ دوسری طرف حیرت کی بات ہے کہ یہ لوگ عموماً ہندوستان کے شیعوں پر کوئی تنقید نہیں کرتے، جواپنی مذہبی رہنمائی قم اور نجف سے حاصل کرتے ہیں ؛بلکہ حقیقت یہ ہے کہ شیعہ اور بوہرہ طبقات اپنی ظاہری مسلم شناخت کے باوجود محبِ وطن سمجھے جاتے ہیں، جبکہ سنیوں کے تئیں اپنے عام تصور کی وجہ سے بہت سے ہندونیشنلسٹ یہ سوچتے ہیں کہ یہ لوگ کبھی بھی مین سٹریم سے نہیں جڑسکتے اور اسی وجہ سے یہ علیحدہ محلوں ؍آبادیوں (ghettoes)میں رہنے پر مجبور ہیں یا یہ لوگ قومی دھارے میں کوئی شناخت نہیں حاصل کرسکتے یا ملک چھوڑ کر جاسکتے ہیں۔

البتہ کچھ ہندونیشنلسٹ دانشوروں نے انھیں جوڑنے کی بھی کوشش کی ہے اور آرایس ایس نے اس سمت میں کچھ خاص اقدامات کیے ہیں ؛چنانچہ ایمرجنسی کے زمانے میں جماعتِ اسلامی کے رضاکاروں کے ساتھ جیل میں رہ کر نکلنے کے بعد آرایس ایس کے رہنماؤں نے تنظیم کے دروازے غیر ہندووں کے لیے بھی کھولناشروع کیا، جبکہ2002ء میں آرایس ایس لیڈراندریش کمار نے مسلم راشٹریہ منچ کی بنیاد رکھی، جو(اس تنظیم کی ویب سائٹ پر دستیاب معلومات کے مطابق)مہاتماگاندھی اور ہندومہاسبھاکے ذریعے اختیار کردہ راہوں سے الگ ایک تیسری راہ نکالنے کی کوشش میں ہے۔ کمارکے مطابق ہندواور مسلمانوں کے درمیان باہمی لڑائی جھگڑے کی کوئی وجہ ہی نہیں ہے؛کیوں کہ دونوں کے آباواجداد ایک ہی ہیں اور اس کی وجہ سے ان کا خون بھی ایک ہے، ان کا وطن بھی ایک ہے اور ان کی تہذیب بھی یکساں ہے، حالاں کہ ایک دلچسپ بات اس سلسلے میں یہ ہے کہ والٹر اینڈرسن اور سری دھر داملے نے اپنی کتابThe RSS: A View to the Insideمیں یہ لکھاہے کہ سنگھ پریوارراشٹریہ منچ کو اپنا ذیلی ادارہ نہیں مانتا، اس کی وجہ یہ ہے کہ کچھ ہندونیشنلسٹ مسلمانوں کے ساتھ کسی بھی قسم کا تال میل بنانے میں یقین نہیں رکھتے۔

ویسے یہ جاننابھی ضروری ہے کہ مسلم راشٹریہ منچ کے مسلمانوں کو قریب کرنے یا اپنے ساتھ ملانے کے کیامعنی ہیں ؟2003ء میں اس تنظیم کا پہلا کنونشن ہواتھا، جس میں ایک تجویز پاس کرکے مطالبہ کیاگیاتھا کہ گئو کشی پر مکمل پابندی لگائی جانی چاہیے، حال ہی میں اندریش کمار نے اس سے آگے بڑھ کر یہ کہاتھا کہ مسلمان سرے سے بیف کھانا چھوڑدیں، ماب لنچنگ کے واقعات خودہی ختم ہوجائیں گے، اس تنظیم کا دوسرا قومی کنونشن2004ء میں ہوا، جس میں دفعہ370؍کوکالعدم قراردینے کی سفارش کی گئی، اس کے بعد مسلم راشٹریہ منچ نے اجودھیامیں رام مندرکی تعمیر کی حمایت میں بھی تجویز پاس کی، اندریش کمار کاکہناہے کہ:’’بابری مسجدتومسجد تھی ہی نہیں، یہ اسلام کی توہین تھی؛کیوں کہ اس کانام ایک خاص انسان (بابر)کے نام پر رکھاگیاتھا‘‘۔ حقیقت یہ ہے کہ ایم آرایم کی اساس ہندونیشنلزم اور ذراوسیع پیمانے پر مسلمانوں کو حاشیے پر رکھنے والے نظریے پر قائم ہے۔

حالاں کہ ہندوتواکابہ طورایک قومی شناخت اور بہ طورایک طرزِ زندگی مذہب یا کسی قسم کی روحانیت سے کوئی تعلق نہیں اور مسلمان اپنے مذہب پرعمل کرسکتے ہیں، ہاں انھیں شناخت کی ان علامتوں کے تئیں اپنے قلبی تعلق کا اظہار کرنا پڑے گا، جوکم ازکم اقلیتوں کے نزدیک ہندووں سے تعلق رکھتی ہیں اورآرایس ایس انھیں قوم پرستی کی علامتوں کے طورپر دیکھتاہے، سنگھ لیڈرزجب ’’ہندو‘‘یا اس پر دلالت کرنے والے الفاظ کی جگہ ’’بھارتیہ‘‘کا لفظ استعمال کرتے ہیں، تواس سے ان کی مراد یہی ہوتی ہے۔ ممکن ہے بھاگوت نے اسی معنی کو ذہن میں رکھتے ہوئے ماضی میں یہ کہاہوکہ’’ہندوستان میں رہنے والا ہر انسان ہندوہے‘‘۔ اس نقطۂ نظرکی روشنی میں اقلیتوں کو قومی دھارے سے جوڑنے کا مطلب تہذیبی و مذہبی تنوع کا اعتراف نہیں ہے؛کیوں کہ بہر حال عیسائیوں اور مسلمانوں کوان کا نظامِ خوردونوش بدلنے اور اپنی مذہبی عبادات و رسوم کو مخصوص مقامات پر انجام دینے پر مجبور کیاجاتاہے، جیسے کہ عوامی مقامات پر نماز پڑھنے سے روکنا یا بقرعید کے موقعے پر جانوروں کی قربانی سے روکنا۔

اس لیے بھاگوت کی حالیہ تقریروں کو اُسی وقت نقطۂ تحول سمجھا جاسکتاہے، جب ان کے معنی یہ ہوں کہ سنگھ اسلام کا اعتراف کرتاہے، صرف یہ کہناکہ بہ طور مذہب ہندوستان کے مسلمان پرائیویٹ طورپر اسلام پر عمل کرسکتے ہیں اور ساتھ ہی عوامی سطح پر بھارتیہ؍ہندوروایات پر زور دیاجائے، تویہ درست نہیں ہے؛ بلکہ یہ ماننا ہوگا کہ دیگر مذاہب کی طرح اسلام بھی اِس ملک کا ایک مذہب ہے، جیساکہ آئینِ ہند میں اس کی صراحت کی گئی ہے کہ ہندوستان اور یہاں کی حکومت نہ تو مذہب مخالف ہوگی اور نہ لامذہبی ہوگی؛بلکہ وہ اس ملک کے تمام مذاہب کا تحفظ کرے گی۔ ویسے بڑی حد تک دستورِ ہند میں مذکورہندوستانی جمہوریت مسلمانوں کووہی کٹیگریزفراہم کرتی ہے، جو ہندوتواکی جانب سے کی جاتی ہیں اور ہندوستانی مسلمان صدیوں سے اِس سرزمین کی عزت و تعظیم کرتے آئے ہیں، یہاں کے مختلف خطوں میں صوفی سنتوں کے مزارات ہیں، جہاں بہت سے مسلمان بہ غرض حصولِ ثواب حاضری دینے جاتے ہیں، ان مقامات کا احترام ہندوبھی کرتے ہیں ؛کیوں کہ کسی چیز؍ذات کا قابلِ تعظیم و احترام ہونا مذہبی حد بندیوں سے ماوراہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔