اخلاق حسنہ: بندۂ مؤمن کا قیمتی سرمایہ

محمد صدرِعالم قادری مصباحیؔ

 ارشادربانی ہے:بیشک اللہ کسی قوم سے اپنی نعمت نہیں بدلتاجب تک وہ خوداپنی حالت نہ بدلیں، (یعنی معاصی میں مبتلاہوکر، شکرترک کرکے اورنیک اعمال اوراچھے خصال ترک کرکے بدیوں اورگندی عادتوں کے خوگرہوجائیں )اورجب کسی قوم سے برائی چاہے(یعنی اس کے عذاب وہلاک کاارادہ فرمائے)تووہ پھرنہیں سکتی اوراس کے سواان کاکوئی حمایتی نہیں (جواس کے عذاب کوروک سکے)۔ (کنزالایمان، سورۂ رعد-آیت11)

نسخۂ روحانی یہ ہے کہ زبان کوذکرمیں قلب کوفکرمیں مشغول رکھنالازمی ہے اس لئے کہ جوکوئی ذکرالٰہی کوبھولتاہے اوراللہ تعالیٰ کی نعمتوں کاشکرادانہیں کرتاتواس سے نعمتیں چھین لی جاتی ہیں اوراس کی حالت بدسے بدترہوجاتی ہے پھروہ پہلی حالت سے محروم ہوجاتاہے اُسے وہ نوازشات نصیب نہیں ہوتی جواُسے پہلے حاصل تھی۔

 اللہ تبارک وتعالیٰ کی عادت کریمہ ہے کہ وہ اپنے بندوں کے گناہوں کی وجہ سے ان کے حالات بدل دیتاہے۔ مثلاًابلیس، اس کانام عزازیل ہے بوجہ نافرمانی اسے ابلیس کے نا سے موسوم کیاگیا۔ حضرت ابراہیم بن ادہم رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایاکہ میراایک کھیت سے گزرہوا تومجھے دورسے کسان نے پکارا:یابقر!(ائے بیل)میں نے کہاکہ ایک معمولی کمزوری سے ایک انسان نے میرانام ذلّت سے بدلا۔ اگراللہ تعالیٰ کی نافرمانی کروں توہ میری معرفت کے بہت مراتب چھین لے یاذلّت میں مبتلاکردے۔ (روح البیان)

 اپنے گھرپرنظرڈالیے، محلوں کودیکھئے، شہرکودیکھئے، اپناملک ہندوستان ہویاپوری دنیا، ایک ”افراتفری”کاعالم برپاہے۔ آدمی آدمی کاقاتل بناہواہے، حیوانیت رقص کررہی ہے، انسانیت ”دم آخر”کی ہچکیوں میں مبتلاہے، کیاکہاجاسکتاہے۔ بظاہرتوکوئی ایسے آثارنظرنہیں آتے کہ مسلم اُمہ ہوکہ پوری دنیا، امن وسکون کی تلاشی میں کامیاب ہوسکی ہو۔ کیادنیااسی طرح ختم ہوجائے گی؟ مایوسیاں جب گھرکرلیتی ہیں تودماغی صلاحیتیں ختم ہوکرایسے ہی دعوے سامنے آتے ہیں۔ کسی طرف سے آوازلگ رہی ہے کہ دنیاختم ہورہی ہے، دنیامیں خاک اُڑے گی۔ بے شک مایوسیاں انسانی فکروسعی کومفلوج کردیتی ہے۔ یقینا ایک دن ایساآئے گاکہ جسے”یوم قیامت”کہاجاتاہے، جس کاعلم سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی کونہیں کہ وہ دن جزااورسزاکے اعلان کاہوگا۔

البتہ موجودہ حالات سے ناامیدہوکراِدھراُدھردیکھنا، تباہی وبربادی کی علامت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کووہ صلاحیتیں اورتدابیرعطافرمائیں ہیں کہ جنہیں بروئے کارلاکرآج بھی ہم ان ناگفتہ بہ حالات کامقابلہ کرکے امن وسکون کے سائے میں آسکتے ہیں۔ بے شک آج مسلمان سنبھل جائے توکل ہی حالات سنبھل جائیں گے۔ خودصحیح ہوگئے توسب کچھ صحیح ہوجائے گا۔ ہمارے حالات اچھے ہوسکتے ہیں اگرہم اپنے عمل وکردارکواللہ تعالیٰ اوراس کے مقدس رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم وفرمان کے تابع کرلیں۔ طریقۂ اسلام کوصرف زبان سے نہیں بلکہ اپنی زندگی میں ڈھال لیں۔ ایمان کویقین بنالیں اس طرح کہ کتنی ہی آفت، بلا، مصیبت آئے، اس پرآنچ نہ آئے کہ”یقین ایمان کی منزل”ہے، ازل تاابدکے درمیان، یہ اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کوجلومیں لے کرروزحشراپنے مقرب بندوں کو اعزازسے نوازے گی۔

رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طورپرفرمادیاکہ کامل ایمان اس شخص کاہے، جس کے اخلاق عمدہ ہوں۔ اورفرمایاکہ جوچیزقیامت میں سب سے زیادہ بھاری ہوگی وہ حسن اخلاق ہے، جس میں حسن اخلاق ہوگااُس کادرجہ روزے داروں اورنمازپڑھنے والوں کے برابرہوگا۔ (مسنداحمد)

آج مسلمان اپنے ایمان ”(یقین)کوصحیح کرلیں توکیساخوف وخطرہ ہے ؟ دشمنان اسلام کی لگائی ہوئی آگ خودبخودٹھنڈی ہوکردنیامیں مسلمانوں کے لئے گلزاربن جائے گی۔ معلوم ہواکہ اخلاق ایک ایساعمل ہے، جسے ایمان کی تکمیل سے منسلک کیاگیاہے۔

اکثراخلاقی کمزوریوں کی بنیادیہ ہوتی ہے کہ انسان کے قول وفعل میں تضادہوتاہے، وہ گفتگوتوبہت اونچی کرتاہے، لیکن عمل میں بہت نیچی سطح پرہوتاہے، آپ ﷺ کی زندگی میں قول وفعل کا تضادنہیں تھا، آپ ﷺلوگوں کوجس بات کی دعوت دیتے اسی پرآپ ﷺکاعمل ہوتا، اسی لئے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے ایک شخص کے سوال کے جواب میں فرمایاکہ اخلاق محمدی کاخلاصہ یہ ہے کہ آپ ﷺ سراپاقرآن تھے:’’کان خلقہ القرآن۔ ‘‘(مسند احمد۶؍۹۱)

اپنے پرائے اوراردگردکے سبھی لوگوں سے، معاشرتی زندگی کی بساط، آپس کے باہمی تعلقات، معاملات اورروابط کوحسن وخوبی وخوش اسلوبی سے نبٹانے کانام ہی ’’ اخلاقِ حسنہ ہے‘‘ان حسین اعمال، ستودہ عادات اورمحمودہ کردارکامظاہرہ انسان کی سب سے بڑی نیکی ہے۔ دوسروں سے کج خلقی اوربرے ڈھنگ سے پیش آنا، جھوٹ، فریب، فراڈ، ظلم وستم، اغوا، چوری، ڈاکہ زنی اوررشوت خوری جیسے منفی اعمال کو اختیارکرنا، خلق خداکوستانااورپریشان کرنا، ’’بداخلاق ہے‘‘یہ بداطواریاں، بدچلنیاں، بدکرداریاں سب سے بری باتیں اوربہت بڑے گناہ ہیں۔

حُسنِ اخلاق انسانیت کی اعلیٰ ترین قدروں سے روشناسی، انسان دوستی، شرافت اورنیکی کے آداب کانام ہے۔ یہ مثبت اعمال کاایک خوبصورت مظاہرہ ہے اوریہ حسین صفات اوراحسن اعمال انسان کی سب سے بڑی نیکیاں اورعظیم عبادتیں ہیں۔ حُسن اخلاق انسان کی عادات واطواراورکردارکاایساحسین، خوشگوار اورجگمگاتاروشن پہلووسرچشمہ ہے جس سے پیار، محبت، صلح، رواداری اوردوستی کی روشنی پھوٹتی ہے۔ اس دنیامیں انسانی زندگی کی تمام خوشگواریاں اورسکون مسرت اسی روشنی کے دم سے قائم ہیں جبکہ بداخلاقی انسانی اعمال وکردارکاایسامنفی اورتاریک پہلوہے جس سے نفرت، دشمنی اورناخوشگواری جنم لیتی ہے۔ اس دنیامیں معاشرتی زندگی کی بساط پر انسان کے تمام دکھ، پریشانیاں اسی بدخلقی کی پیداوارہیں۔

احادیث طیبہ میں اخلاق حسنہ کے بارے میں حدیثیں بھری پڑی ہیں جن میں سے چندمندرجہ ذیل ہیں !

(۱)’’عن عبداللّٰہ بن عمرعن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال المسلم من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ والمھاجرمن ھجرمانھی اللّٰہ عنہ‘‘حضرت عبداللہ ابن عمرسے روایت ہے وہ نبی اکرم ﷺسے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایاکہ کامل مسلمان وہ ہے کہ جس کی زبان اورہاتھ سے مسلمان محفوظ رہے، اورکامل مہاجروہ ہے کہ جس نے اللہ تعالیٰ کی منہیات کوچھوڑدیا۔ (بخاری شریف، ج۱، ص۶، کتاب الایمان)(۲)’’عن مالک بلغہ ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بعثت لا تمم حسن الاخلاق‘‘حضرت مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم نے فرمایاکہ میں حسن اخلاق کے(قدروں )کی تکمیل کے لئے بھیجاگیاہوں ‘‘(مؤطا، مشکوٰۃ)(۳)’’عن ابی ھریرۃقال قال رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اکمل المؤمنین ایمانا احسنھم خلقا‘‘حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشادفرمایاکہ مسلمانوں میں کامل الایمان وہ لوگ ہیں جن کے اخلاق اچھے ہیں (ابوداؤد)(۴)امیرالمؤمنین حضرت سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشادفرمایاکہ:’’بے شک بندہ حُسن اخلاق کے ذریعے دن میں روزہ رکھنے اوررات میں قیام کرنے والوں کے درجے کوپالیتاہے اوراگربندہ (سختی کرنے والا)لکھاجائے تووہ اپنے ہی گھروالوں کے لئے ہلاکت ہوتاہے۔ ‘‘(طبرانی اوسط، ج۴، ص۳۶۹)(۵)حضرت عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہافرماتی ہیں کہ حضورنبی اکرم، نورمجسم، سیدعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشادفرمایاکہ:’’بندہ اپنے حُسنِ اخلاق کی وجہ سے رات کو عبادت کرنے والے اورسخت گرمی میں کسی کو پانی پلانے والے کے درجے کو پالیتاہے۔ ‘‘(شعب الایمان، ج ۶، ص ۲۳۷)(۶)حضرت سیدناابودرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ مدینے کے تاجور، رسولوں کے اَفسر حضورنبی اکرم، نورمجسم، سیدعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشادفرمایاکہ:’’میزان عمل میں حُسنِ اخلاق سے وزنی کوئی اورعمل نہیں۔ ‘‘(الادب المفرد، باب حسن الخلق، ص۹۱)(۷)حضرت جابررضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضورنبی رحمت ﷺ نے ارشادفرمایاکہ:’’کیا میں تمہیں تم میں سب سے بہتر شخص کے بارے میں خبرنہ دوں ؟‘‘ہم عرض گزارہوئے، ’کیوں نہیں ‘ارشادفرمایا، ’’وہ جوتم میں سے اچھے اخلاق والا ہے۔ ‘‘(۸)حضرت جابررضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سیدالعالمین ﷺنے ارشادفرمایاکہ:’’بروزمحشرتم میں میرے سب سے زیادہ محبوب اورمیری مجلس میں زیادہ قریب وہ لوگ ہوں گے جو تم میں حُسن اخلاق والے اورنرم خوہوں، وہ لوگوں سے الفت ومحبت رکھتے ہوں اورلوگ بھی ان سے محبت کرتے ہیں اورقیامت کے دن تم میں سے میرے لئے سب سے زیادہ قابل نفرت اورمیری مجلس میں مجھ سے زیادہ دوروہ لوگ ہوں گے جو مُنہ بھرکے باتیں کرنے والے، باتیں بناکرلوگوں کومرغوب کرنے والے اورتکبرکرنے والے ہوں۔ ‘‘(جامع الترمذی، کتاب البروالصلۃ، ص۴۰۹)(۹)حضرت جابربن سمرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضورسرورعالم ﷺنے ارشادفرمایاکہ:’’اسلام میں وہی شخص اچھاہے جولوگوں میں سے اخلاق کااچھاہے۔ ‘‘(الترغیب والترہیب، کتاب الادب وغیرہ، باب الترغیب فی الخلق الحسن، ص۲۷۵)مذکورہ تما م احادیث طیبہ سے حُسنِ اخلاق کی فضیلت روزروشن کی طرح ظاہروباہرہوجاتی ہے اس لئے ہمیں آپس کے معاملہ  کی درستگی پرمکمل دھیان دیناچاہئے کیوں کہ اسلام میں حُسنِ اخلاق کابہت بڑامقام ومرتبہ ہے۔

بے شک تاریخ کے اوراق گواہ ہے کہ جوقوم اخلاقی پستی کاشکارہوئی، وہ تباہ وبربادہوگئی۔ آج ہم اخلاقی پستی کی آخری حدوں کوچھوڑ کر”رحمت باری”کی بارش چاہ رہے ہیں۔ سرکاردوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم کواللہ تعالیٰ نے اعلیٰ اخلاق پرپیدافرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ میں حسن اخلاق کی تکمیل کے لئے بھیجاگیاہوں۔ آپ نے فرمایاکہ” میں اس لئے بھیجاگیاہوں کہ مکارم اخلاق کامعاملہ درجۂ اتم تک پہنچادوں ”۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمدہ اخلاق سے لوگوں کوگرویدہ بنایا، ایساگرویدہ کہ اس عظیم ہستی پرجان نثارکرنے والے مقدس صحابۂ کرام کی جماعت ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرنے لگے۔ اگرکسی نے تلخ لہجہ اختیارکیاتوآپ نے نرم وسنجیدہ اندازاختیارفرمایا۔

کاش !یہ اندازرسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کاہرامتی اپنالے توکم ازکم مسلمانوں میں آج جونفرتوں اورفرقوں کے فتنے جنم لے رہے ہیں، وہ ختم ہوکراخوت ومحبت کی ہوائیں لہرانے لگیں گی۔ آج ہم اتباع رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بجائے ادھراُدھرجارہے ہیں ؟شایدہواکے رخ پرجارہے ہیں۔ ہواکے ساتھ ساتھ آندھی بھی توہے۔ ایک اورہواہے، کاش ہم رخ پہچانیں توجوہواقرآنی ہو، اسلامی ہواہو، جس میں آدمی اطمینان وسکون کی سانس لیتاہے۔ آؤ!ہم اپنارخ قرآنی ہواکی طرف موڑلیں۔ آج لوگ کہہ رہے ہیں کہ” چلوتم ادھرکوجدھرہورخ ہواکا”اگرآج مسلمان اخلاق حسنہ کی سمت رخ موڑلیں تو”چلیں گے جدھرہم، ادھرہی ہوگاہواکارخ”آئیے ہم!معلم اخلاق صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات کومشعل راہ بناکرہم دنیاکوحسن اخلاق کی دعوت دیں کہ پوری دنیاظلم واستبداد، فرقہ واریت کی آگ میں جل رہی ہے۔

الحمدللہ!اخلاق حسنہ مسلمانوں کی صفت تھی، جسے بروئے کار لاکرمسلمانوں نے دشمنان اسلام کے دل موہ لئے اوروہ کہہ اُٹھے کہ اسلام انسانیت، الفت، محبت، چاہت، اخوت، صلح، رواداری والامقدس مذہب ہے۔ کاش!ملت اسلامیہ میں وہ اخلاق حسنہ پیداہوجائے، جس کی تعلیم وتربیت خودرسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دی اورمقدس صحابۂ کرام نے اس پرعمل کرکے دنیاکوبتادیاکہ معاملات کاحل جنگ وجدال، قتل وغارت اورفتنہ وفساد سے ممکن نہیں بلکہ اخلاق حسنہ کواپناکرعمل کرنے میں ہے۔ پھرمسلمان توآج جس کرب وبلاسے گذررہے ہیں، اس کاتقاضاہے کہ وہ ”اخلاقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم”اپناکراپنی” خودی” کو بلندترکرلیں، ورنہ اگراخلاق حسنہ کوکھویاتوایمان بھی کھونے کاخدشہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اخلاق حسنہ کو اپناکرایمان کامل کے حصول کی توفیق عطافرمائے اوراپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے ہماراکھویاوقارومرتبہ بحال فرمادے۔ آمین

تبصرے بند ہیں۔