جینت چودھری: میرا در کھلا ہے ، کھلا ہی رہے گا ، تمہارے لیے

ڈاکٹر سلیم خان

وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ کا ستارہ ایک ساتھ  بام عروج پر آیا اور ساتھ ساتھ روبہ زوال ہے۔  گجرات کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے نریندر مودی پر مسلم کش فسادات  کے سبب امریکہ میں داخلہ پر پابندی تھی ۔ یہ اعزاز شاید ہی کسی ہندوستانی سیاستداں کو حاصل ہوا ہو۔ یہی حال امیت شاہ کا تھا کہ سہراب الدین انکاونٹر معاملے میں جب چارج شیٹ داخل ہوئی تو خود مودی  نے ان سے استعفیٰ لے لیا اور انہیں تہاڑ جیل میں جانا پڑا۔ امیت شاہ نے ویسے تو وزیر داخلہ بننے کے بعد پی چندمبرم کو جیل بھیج کر اس کا انتقام لے لیا لیکن اس سے ان کے دامن کا وہ داغ دھلا نہیں ہے۔ امیت شاہ کو جیل جانے کے علاوہ  اپنے صوبے سے تڑی پار ہونے کا بھی  اعزاز حاصل ہے جو  شایدہی   کسی صوبے کےوزیر مملکت برائے داخلہ کے حصے میں آیا ہو۔  خیر یہ گزرے زمانے کی باتیں ہیں۔ نریندر مودی کو جب بی جے پی نے بلاواسطہ وزیر اعظم کے عہدے کا امیدوار بنایا تو انہوں اپنے بدتریندشمن سنجے جوشی کی جگہ سب سے وفادار ساتھی  امیت شاہ کو اترپردیش  میں پارٹی کا نگرانِ کار بنادیا ۔

2014کے قومی انتخاب میں بی جے پی کی غیر متوقع کامیابی نے نریندر مودی کو ملک کے وزیر اعظم بنادیا۔ اس کامیابی میں ملک کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش   کی 80میں سے73 سیٹوں کا سب سے زیادہ عمل دخل تھا اور  بی جے پی کی اس  عظیم ترین کامیابی کا سہرہ امیت شاہ کے سر بندھا ۔ ان کے اچھے دن آگئےنیز ذرائع ابلاغ نے انہیں چانکیہ کے خطاب سے نوازدیا۔ اس کا فائدہ اٹھا کر وزیر اعظم نے اپنے سب سے بڑے حریف راجناتھ سنگھ کی جگہ انہیں پارٹی کا صدر بنوا دیا ۔ اب ملک اور پارٹی دونوں کی   باگ ڈور مودی اور شاہ کے ہاتھوں میں آگئی۔ 2017 کے اندر اترپردیش کے ریاستی انتخاب  میں  بھی بی جے پی نے غیر معمولی کامیابی درج کرائی  اور اس کریڈٹ  مودی اور شاہ کی جوڑی کو دیا گیا ۔ اس کا فائدہ اٹھا کر راجناتھ کے اثرات پوری طرح زائل کرنے کے لیے یوگی ادیتیہ ناتھ کو وزیر اعلیٰ بنا دیا  جن کو سرکار چلانے کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔   2019  میں دوبارہ کامیاب ہونے کے بعد مودی جی نے امیت شاہ کو پارٹی سے نکال کر سرکار میں نمبر دو یعنی وزیر داخلہ بنادیا ۔اس کے ساتھ  راجناتھ سنگھ کو ایک اور پائیدان نیچے سرکا دیا گیا۔

بی جے پی کو دنیا کی سب سے بڑی اور امیر ترین پارٹی بنانے کے بعد آئینی مجبوری تحت امیت شاہ نے پارٹی کی  صدارت  جے پی نڈا کے حوالے کردی لیکن عملاً انہیں کا بول بالا رہا۔  وہ  بلندی کا زمانہ تھا۔ اپنے انتخاب سے ایک سال بعد اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی ادیتیہ ناتھ نے اپریل 2018 میں لکھنؤ کے اندر  دعویٰ کیا تھا کہ  بھارتیہ جنتا پارٹی   دنیا کی سب سے بڑی اور قابل اعتماد سیاسی جماعت  ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ   مرکز اور بی جے پی کی حکمرانی والی ریاستوں میں ترقی اور اچھی حکمرانی کی بدولت پارٹی مقبولیت کے نئی اونچائیوں پر پہنچ رہی ہے۔ وقت کے ساتھ یوگی ادیتیہ ناتھ پارٹی کے اسٹار پرچارک بنادئیے گئے۔ ملک بھر میں انتخابی مہم کے لیے انہیں یاد کیا جانے لگا اور مودی و شاہ کے بعد وہی بی جے پی کا سب سے مقبول ِعام چہرہ بنگئے ۔  فی الحال ملک کے پانچ صوبوں میں انتخاب ہورہا ہے  اور ان میں سے ایک اترپردیش بھی ہے  جہاں بی جے پی کی حالت اتنی خراب ہے کہ یوگی کو ان کے آبائی صوبے اتراکھنڈ میں بھی ابھی تک نہیں بلایا گیا ہے۔  یوگی جی کے لیے تویوپی کے اندر خود اپنی سیٹ بچانا مشکل ہورہا ہے۔

یہ قدرت کی ستم ظریفی ہے کہ انتخابی تاریخوں سے قبل خوب ہاتھ پیر مار لینے کے بعد مودی جی  اپنے گھر میں دبک کر بیٹھ گئے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ پنجاب سے جان بچا کر لوٹنے کے بعد شاید وزیر اعظم اپنے گھر سے باہر نکلے ہوں۔ سوامی پرساد موریہ کے پارٹی سے نکل جانے کے بعد  امیت شاہ کو  بھی گویا سانپ سونگھ گیا تھا۔ لوگ انہیں ڈھونڈتے پھرتے تھے مگرکوئی ٹھور ٹھکانہ ہی نہیں ملتا تھا۔ بڑی ہمت کرکے22 جنوری کو ہیلی کاپٹر سے وہ کیرانہ گئے اور گھر گھر ملاقات کرکے لوٹ آئے۔ اس کے بعد   یوم جمہوریہ   کو گھر سے نکلے تو  مغربی اترپردیش میں جانے کے بجائے دہلی کے اندر ہی  رکن پارلیمان پرویش   ورما کے گھر پر  جاٹ رہنماوں کے ساتھ ملاقات کرنے پر اکتفاء کیا۔ اس سے یہ بات صاف ہوگئی کہ بی جے پی کا وزیر داخلہ بھی جاٹ علاقوں میں گھسنے کی جرأت نہیں کرپارہا ہے۔  اترپردیش سے آئے دن بی جے پی رہنماوں پرعوامی  حملے کی خبریں آرہی ہیں اور  صوبے کے نائب وزیر اعلیٰ کیشو پرشاد موریہ  کوبھی ان کے آبائی گاوں سے انہیں کی برادری کے لوگوں  ڈانٹ ڈپٹ  کر بھگا  چکےہیں۔

پرویش کمار ورما کی رہائش گاہ پر مغربی یوپی کے جاٹ لیڈروں کے ساتھ میٹنگ کیمیں تقریباً 400 جاٹ لیڈروں کی  میٹنگ کو ’ سماجک بھائی چارہ‘ میٹنگ کا نام دیا گیا تھا ۔ سوال یہ ہے کہ مغربی اترپردیش میں جاکرنشست  کیوں نہیں کی گئی؟  اس میٹنگ میں امیت  شاہ نے اکھلیش یادو کی سماج وادی پارٹی کے ساتھ اتحاد کرکے الیکشن لڑنے والی آر ایل ڈی کو اشارے کنائے  میں این ڈی اے میں شامل ہونے کی دعوت دی۔ نشست کے بعد  پرویش  ورما  نے  آر ایل ڈی کے رہنما جینت چودھری کو کھلے عام  بی جے پی کے ساتھ ہاتھ ملانے کی پیشکش کرتے ہوئے کہا کہ جینت چودھری نے  غلط راستہ اختیار کیا ہے۔ وہ لوگ ان سے بات کریں گے اور  سمجھائیں گے۔ ہمارا دروازہ ان کے لیے کھلا ہے۔ ہم تو چاہتے تھے کہ وہ ہمارے گھر میں آئیں، لیکن انھوں نے دوسرا گھر منتخب کر لیا۔ظاہر ہے پرویش ورما نے یہ بات  امیت شاہ کے ایماء پر کی ہوگی  ۔

یہ تو کسی نے سوچا بھی نہیں تھا بی جے پی کے گڑھ اترپردیش میں اس کی یہ حالت ہوگی کہ وہ اپنے مخالف کیمپ کی ایک پارٹی کے سامنے گہار لگائے گی ۔ جینت چودھری کے والد اجیت سنگھ ایک زمانے میں اٹل جی کی کابینہ میں وزیر زراعت رہے ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے این ڈی اے کے ساتھ غداری کرکے یو پی اے میں شمولیت اختیار کرلی اور اب اس کے سب سے بڑے مخالف سماجوادی پارٹی کے ساتھ الحاق کرلیا ۔ ایسے میں بی جے پی  اپنا وہ نعرہ بھول گئی،’دیش کے غداروں کو گولی مارو سالوں کو‘کیونکہ سچائی تو یہی ہے کہ ان  لوھوں کے نزدیک پارٹی کا مفاد قومی فائدے سے بالاتر ہے۔  بی جے پی تو وہ پارٹی ہے کہ  جس کا وزیر اعلیٰ یوگی   ادیتیہ ناتھ کہتا تھا  ’بولی سے نہیں مانے تو گولی سے سمجھا دیں گے‘۔ اب وہ گولی  کی بولی کہاں چلی گئی ؟ امیت شا نامی  چانکیہ پر یہ وقت کیوں آیا کہ اپنے مخالفین کے سامنے دامن پسار کر فلم پورب پشچم کا یہ نغمہ گائے؎

کوئی جب تمہارا ہردیہ(دل) توڑ دے ،

تڑپتا ہوا جب کوئی چھوڑ دے

تب تم میرے پاس آنا پریے(عزیزم)

میرا در کھلا ہے کھلا ہی رہے گا،تمہارے لیے

امیت شاہ کی اس لاچاری  کا  جینت چودھری نے  وہی جواب دیا جوفلم کے اندر سائرہ بانو نے دیش بھگت منوج کمار کو دیا تھا ۔ جینت نے نہایت  دو ٹوک انداز میں اپنے ٹوئٹر ہینڈل  پر لکھا کہ  ’’دعوت مجھے نہیں، ان 700 سے زیادہ کسان کنبوں کو دو جن کے گھر آپ نے اجاڑ دیئے۔‘‘ بی جے پی فتنہ انگیز پیشکش کا اس سے زیادہ منہ توڑ جواب کوئی اور نہیں ہوسکتا تھا کیونکہ  اس کا مقصد  جینت چودھری کے حوالے شکوک و شبہات پیدا کرنے کے سوا کچھ اور نہیں تھا۔ ایک ایسے مرحلے میں جبکہ  مغربی اتر پردیش  کے اندر امیدواروں  کا اعلان  ہوچکا ہے  اورآرایل ڈی  کے خلاف  بی جے پی  کے امیدوار میدان میں ہیں اس طرح کے بیان سے جاٹوں اور مسلمانوں میں جینت چودھری کی شبیہ بگڑ سکتی ہے ۔ جینت چودھری اس چال کو سمجھ گئے اور انہوں نے اپنے جواب سے  بی جے پی منہ پر ایسا کرارہ طمانچہ مارا ہے کہ اس کی دھمک انتخاب کے بعد تک فضا میں گونجتی رہے گی ۔

بی جے پی کو یہ امید نہیں تھی جینت چودھری اس طرح آفر کو ٹھوکر سے اڑادیں گے۔ اس کے ساتھ جینت نے یہ بھی کہا کہ میں چونیّ نہیں ہوں جو پلٹ جاوں یہ سن کر بی جے پی خود  پلٹ گئی اور اب منہ کی کھانے کے بعد وہ کہہ رہی ہے کہ ہم نے تو پیشکش کی ہی نہیں تھی۔  مغربی یوروپ میں مظفر نگر فساد ات  سےپہلے مسلمانوں اور جاٹوں کے گہرے تعلقات تھے اس لیے بی جے پی کی دال نہیں گلتی تھی مگر  فساد کروا کر اس  نےجاٹوں کو اپنے ساتھ لے لیا اور آر ایل ڈی کا صفایا ہوگیا ۔ کسان تحریک نے جاٹوں کو بی جے پی سے دور کردیا اور ان کا مسلمانوں کے ساتھ پرانا رشتہ جڑ گیا۔ اس نے بی جے پی کو پھر سے اپنی پرانی حالت پر لوٹا دیا۔  اس لیے  وہ آر ایل ڈی کے سامنے ہاتھ پیر جوڑ رہی ہے لیکن مثل مشہور ہے’ اب پچھتائے کا ہوت جب چڑیا چگ گئی کھیت‘۔

مغربی یوپی کی جملہ 136 سیٹوں میں 103 پر بی جے پی کامیاب ہوئی اور 27 سیٹیں سماجوادی پارٹی  نے جیتیں ۔ باقی 6 میں سے3 پربی ایس پی ، 2پر کانگریس اور ایک آر ایل ڈی کا امیدوار کامیاب ہوا۔ اترپردیش کے پہلے مرحلے میں جن 58  سیٹوں پر ووٹ پڑنے والے ہیں ان میں سے پچھلی بار 53 نشستیں بی جے پی کے حصے میں آئی تھیں مگر اب وہ اس کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتی۔  مسلمانوں اور جاٹوں کے ساتھ آنے سے کمل  کا حال خراب ہوگیا۔ مودی جی کسان قانون واپس لیتے وقت جو وعدے کیے تھے ان میں ایک بھی پورا نہیں کیا۔ گنے کے ہزاروں کروڈ یوگی سرکار نے نہیں چکائے۔ امیت شاہ کہتے ہیں کہ کسانوں کا مفاد ان کے دل میں ہے لیکن سوال یہ پانچ سال تک وہ باہر کیوں نہیں آیا؟ اور آگے باہر آئے اس کی کیا گارنٹی ہے؟ سچ تو یہ ہے کہ جینت چودھری کو پیشکش کرنے کے بعد ان کے دو ٹوک جواب سے  بی جے پی  اس انتخابی سیریز کا پہلا میچ کھیل سے قبل ہار گئی اور اس کے کپتان  امیت شاہ کلین بولڈ ہوگئے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔