حالیہ انتخابی نتائج :چند غور طلب پہلو

محمد عبد اللہ جاوید

بھارت کی پانچ ریاستوں کے حالیہ انتخابی نتائج ‘ملک کے موجودہ حالات میں مختلف زاویوں سے دیکھے جارہے ہیں ۔بی جے پی کی انتخابی جیت ‘یوپی اور اتراکھنڈ جیسی اہم ریاستوں کیلئے ان کی کامیاب حکمت عملی اوردوسرے نمبر پر ہونے کے باوجود منی پور اور گوا میں اقتدار کا حصول جیسے اقدامات سکیولر اور جمہوری اقدار کیلئے خطرات سمجھے جارہے ہیں ۔پچھلے سال کے اواخر سے نوٹ بندی کی وجہ سے جو حالات بنتے گئے‘ عام طور سے یہی سمجھا جارہا تھا کہ بی جے پی حکومت کو شکست ہوگی لیکن موجودہ حالات یہ کہہ رہے ہیں کہ نوٹ بندی ‘سرمایہ داروں کو بالخصوص اور عوام الناس کو بالعموم انتخابات سے ہم آہنگ کرنے کی ایک انتہائی سوچی سمجھی سکیم تھی۔اگر اُن حالات کا انتخابی نتائج سے پیدا شدہ حالات سے موازنہ کیا جائے تو اس دور رس سکیم کے خدوخال سمجھنے میں زیادہ دشورای نہیں ہوگی۔

جن زاویوں سے بی جے پی کی جیت کے تجزیے کئے جارہے ہیں ان میں نوٹ بندی کے امر کے علاوہ دو اور امور بڑی اہمیت کے حامل ہیں ۔ایک سکیولر پارٹیوں کا آپسی نااتفاقی اور دوسرا مسلمانوں کی سیاسی حکمت عملی کا فقدان اور متحدہ اقدام کی کمی۔اب جبکہ حالات ایک طرف ڈھل چکے ہیں ‘ دانشمندی‘ مثبت طرزفکر وعمل کے ساتھ‘ حالات کی بہتری اور انہیں صحیح رخ دینے کی کوشش میں ہے۔بھارت جیسے مخلوط سماج میں جس تخریبی اورتفرقہ بازی کے ساتھ سیاسی اقتدار کے حصول کی کوششیں کی گئیں ہیں وہ اب ایک خطرہ کی شکل اختیار کرچکی ہیں ۔ممکن ہے کہ 2019کے ہدف کے پیش نظر مکرکی مختلف صورتیں رونما ہوں ۔اگر ان کا فوری تدارک نہ کیا جائے تو برسراقتدار حکومت عوام کو لایعنی کاموں میں الجھاتے ہوئے اپنے مخصوص ایجنڈے پر عمل درآمد کی کوششیں تیز ترکرے گی۔ ان کوششوں کو نتیجہ خیز بنانے میں حزب مخالف(opposition) کی کمزوری‘موثر قیادت کا فقدان اور عوامی مزاحمت کی کمی بڑا اہم رول ادا کرسکتی ہے۔اس تناظر میں بعض غور طلب پہلو‘ملک اور باشندگان ملک کے تئیں ہمارے جذبہ ٔ خیر خواہی اور ملی جائزہ و احتساب سے بڑا گہرا تعلق رکھتے ہیں :

سیاسی افق پرہمارا وجودکتنا سیاسی؟

 زندگی کے مختلف شعبوں میں ‘سیاست کا شعبہ بالکل جداساہے۔ اس میدان کے شہسوار بننا‘ بڑے اہم تقاضوں کی تکمیل پر منحصر ہوا کرتا ہے جس میں سب سے زیادہ اہمیت‘کسی بھی گروہ کی اجتماعی فکر اوراسکے عمل کی وسعتوں کی ہم آہنگی ہوتی ہے۔بی جے پی حکومت کے تقریباً تین سال مکمل ہونے کوہیں ‘ اس دوران اس نے جو کچھ کیا‘اس سلسلہ میں مسلمانوں کا رد عمل ان کی توقعات کے عین  مطابق رہا۔چاہے تین طلاق‘یونیفارم سول کوڈ ہو یا بھارت ماتا کی جئے اور ترنگے کی سلامی جیسے ایشوز‘ان سب پر رد عمل ‘ کمزور سیاسی وسماجی شعور کا مظہر رہا۔ملک کے مختلف حصوں میں ہوئے احتجاجات‘ جلسہ و جلوس اور اجتماعات کا نتیجہ کیا نکلا‘ موجودہ حالات اچھی طرح سمجھاتے ہیں کہ ان سب کی حیثیت سوائے وقتی جذبات کے اظہار کے کچھ اور نہیں تھی۔ہر مسئلہ کو ملی نقطہ نگاہ سے اڈریس کرنے کی بجائے‘ ملک و ملت کے وسیع تر مفادات میں کسی اجتماعی موقف کی پابندی میں مسائل کو دیکھنا اور سمجھنامطلوب ہے۔اسکی اہمیت کا اندازہ ہوگا جب آپ اس پہلو سے غور کریں گے کہ آخر بی جے پی کی حالیہ انتخابی جیت پر ہمیں حیرت کیوں اور اسکے اسباب کیا؟

بی جے پی کی جیت پر حیرت کس لئے؟

 کسی بھی امر کا جائزہ اس بات کے پیش نظر لیاجاتا ہے کہ اس کیلئے کیا کیا گیا تھا؟ مثلاً اگر تجارت میں بھاری نقصان ہوا ہو تو اس کے صحیح صحیح اندازے کیلئے یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس کاروبار میں سرمایہ کاری(investment)کیا کی گئی تھی اور دیگر وسائل کس قدر صرف کئے گئے تھے؟یوں جملہ investmentکے تناظر میں دیکھا جاتا ہے کہ نقصان کس حد تک ہوا ہے اوراسکی تلافی کیسے ممکن ہوسکتی ہے۔اگرحالیہ انتخابات سے متعلق یہ دیکھا جائے کہ انتخابات سے قبل اور دوران‘ ملت کا کیا investmentرہا؟ اگر یہ متعین ہو توتشویش بھی بجا اور مستقبل میں نقصان کی تلافی بھی ممکن۔

لہذا اس بات پر غور ہوناچاہئے کہ ملک اور باشندگان ملک کی خیرخواہی کیلئے ملت نے انہیں کس صحت مند پالیسی اور متبادل سے واقف کرایا تھا؟ کس قدر عوامی شعور کی بیداری کا کام ہواتھا؟کتنے امیدواروں اور پارٹی کے ذمہ داروں سے ملاقات کی گئی تھی؟ووٹوں کی تقسیم کو بچانے اور فسطائی عناصر کے حق میں ان کے استعمال کی روک تھام کیلئے کیا ٹھوس اقدامات کئے گئے تھے؟ کتنی تعداد ایسی ہے جسے بروقت ووٹ کے استعمال کی اہمیت و ضرورت سے واقف کرایا گیا تھا؟کتنے مسلم امیدواروں کو آپس میں انتخاب لڑنے سے روکا گیا تھا؟افراد ملت کے کتنے شب وروز تعمیری کاموں میں صرف ہوئے؟ کتنی افرادی قوت لگی؟کتنے وسائل صرف کئے گئے؟یہ اور اسطرح کے کام اگر انتخابات سے قبل اور دوران انجام دیئے گئے ہوں اور نتائج انکے بالکل برعکس رونما ہوئے ہوں تو تشویش واجبی ہے اور پیداشدہ حالات پرتعجب کرنابھی درست ہے۔

اگریہ سب کام(investments)نہ ہوئے ہوں تو بی جے پی کی جیت‘ سکیولر امیدواروں کی ہاراوراسمبلی میں مسلم نمائندوں کی کمی پر تشویش کس وجہ سے؟ اگر یہ جذبات ٹھیٹ ملی نقطہ نگاہ سے ہیں تو ان کا کوئی وزن نہیں ‘سیاسی میدان میں سیاسی بصیرت‘حکمت عملی اورمنصوبہ بند سرگرمیوں کا شمار ہوتاہے جذباتیت کانہیں ۔اگر تشویش کی وجہ برسراقتدار حکومت کی تخریب کاری ہے تو یہ دیکھنا چاہئے کہ ہم اپنے مسلکی اختلافات ‘عدم اتحاد‘کاروبار اور لین دین کی نوعیت ‘موجودہ خاندانی نظام اوراداروں کی کارکردگی کے ذریعہ بھارت جیسے مخلوط سماج میں اسلام کی کیسی تصویر پیش کررہے ہیں ؟ اگر تشویش کی وجہ یہ ہو کہ برسراقتدار حکومت اپنے ایجنڈے پر عمل درآمد کے ذریعہ ملک کی اقلیتوں کو نقصان پہنچاسکتی ہے تو ہمیں متحدہوکر ملک و باشندگان ملک کی خیر خواہی کیلئے کوشش کرنے میں کونسی رکاوٹیں حائل محسوس ہورہی ہیں ؟ جب زمین اللہ کی اورتمام انسان اللہ کے

(اَلْبِلاَدُ بِلاَدُ اللّٰہِ وَالْعِبَادُ عِبَادُ اللّٰہِ-  مسند احمد)

تو پھرہم اپنے بے مثال اخلاق وکردار سے دلوں کو جیتنے کی بجائے کچھ اور کیوں سوچ رہے ہیں ۔اگر تشویش اس پہلوسے ہے کہ فسطائی طاقتیں بڑی تیزی کے ساتھ‘منصوبہ بندطریقے سے مختلف شعبہ ہائے حیات میں اپنے تخریبی منصوبوں کے ساتھ نفوذ کررہی ہیں تو ہمیں اللہ تعالیٰ کے اس حکم

( أَنْ أَقِیْمُوا الدِّیْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوا فِیْہِ …

(الشوری:13-قائم کرو اس دین کو اور اس میں متفرق نہ ہوجائو) پر عمل درآمد کا جائزہ لینا چاہئے کہ کس حد تک ہم نے اپنے فروعی اختلافات اور مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ملک و ملت کی خیر خواہی کیلئے ایک جٹ ہوکرمنظم جدوجہد کی ہے۔

زمین پرانسانوں کا نظام چلانے کیلئے اللہ رب العزت نے اہل ترافراد کی خوبیوں اور خصوصیات کی وضاحت فرمادی ہے‘ جس میں ایمان کے علاوہ اور بھی کئی نظم و انصرام اورمسائل کے حل کی علمی وجسمانی صلاحیتیں شامل ہیں ۔اس پہلو سے غور ہونا چاہئے کہ مسلمان بحیثیت مجموعی انسانوں کے نظام کو چلانے کے اہل کیوں نہیں بن سکے ہیں ؟بلکہ اس جائزہ میں بلا کی شدت ہونی چاہئے کیوں کہ وہ لوگ اہل قرار پاگئے ہیں جن کی تخریب کاری اور انسانیت دشمنی سے ساری دنیا واقف ہے۔

 اگرسیاسی حکمت عملی اورحقیقت پسندی سے صرف نظر کرتے ہوئے حالات کو دیکھنے‘ سمجھنے اور ا ن سے نپٹنے کیلئے جذباتی اور سطحی نہج پر کوششیں کی جائیں تو‘ ہر اقدام ناقص شمار ہو گااور اس سے کسی خاطر خواہ نتیجے کی توقع بھی نہیں کی جاسکے گی۔غالباً یہی وجہ ہوگی کہ اب تک کی کئی شکست فاش نے بھی مسلمانوں کو بحیثیت ایک باشعور سیاسی اور انسانیت دوست گروہ کے بھارت میں متعارف نہیں کرایا ہے۔ اگر اس صورت حال پر قابو نہ پایا گیا تو 2019کے انتخابات میں مسلمانوں کی آپسی سیاسی رساکشی سے فسطائیت کو مستفید ہونے سے روکنا ممکن نہیں ۔بس ان دوامور پر غور کرکے دیکھ لیجئے:

(1) انتخابی سیاست میں کون مسلمان حصہ لیں گے؟ ایسا کئی بار ہوا ہے کہ مسلمانوں کی موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جس طرح فسطائی طاقتیں polarizationکی کوشش کرتی ہیں اسی طرح مسلمان اپنے مخصوص مفادات اور ایجنڈے کے مطابق اپنے ہی مسلمان بھائی کے خلاف انتخابی میدان میں اترتے ہوئےself-polarizationکا ذریعہ بن جاتے ہیں ۔ یہ المیہ بڑا جان لیوا ہے کہ مسلم اکثریتی علاقوں سے فسطائی پارٹی کا امیدوار کامیاب ہوجاتا ہے ۔حالیہ یوپی انتخابات میں کل82حلقہ انتخابات جہاں مسلمانوں کی آبادی 30%سے زیادہ ہے ان میں سے 62نشستوں پر بی جے پی کی جیت ہوئی ہے (ہفنگٹن پوسٹ)۔

ملت میں اسقدر اتحاد و اتفاق تو ہونا چاہئے کہ مسلمان ‘مسلمان کے خلاف کھڑا نہ ہو۔جب اللہ کے رسولؐ نے کسی مسلمان کے سودے پر سودہ نہ کرنے

(لاَ یَبِعِ الرَّجُلُ عَلٰی بَیْعِ اَخِیْہِ … مسلم)

اور کسی مسلمان کے پیغام پرکسی دوسرے مسلمان کو پیغام نہ بھیجنے کی ہدایت فرمائی تو پھر اس کا اطلاق سیاسی میدان میں کیوں نہیں ہوتا۔اور وہ بھی ایسے معاملہ میں جو ملک و ملت کے مجموعی مفادات سے متعلق ہو؟برسوں سے دیکھتے اور بھگتے آرہے ہیں کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے ووٹ ضائع کرتاہے۔ انکے میدان میں اترنے اور غیر حکیمانہ انداز سے تشہیر کرنے سے دیگراقوام متحد ہوتی ہیں ‘ لیکن پھر بھی اسکی روک تھام کیلئے واضح حکمت عملی وضع کرنے میں تساہلی برتی جاتی ہے ۔

(2) مسلمانوں میں منصبوں کی چاہت –  لوگوں کے اجتماعی معاملات میں انتہائی محتاط طرز عمل اختیار کرنے کی جانب ہمیں متوجہ کیا گیا ہے۔کسی گروہ کی نہیں بلکہ رسول اللہ ؐ نے کسی دو آدمیوں کی ذمہ داری قبول کرنے کی خواہش سے بھی منع فرمایا ہے اور کہا کہ منصب کی یہ چاہت قیامت کے دن ذلت و رسوائی کا سبب بنے گی۔ہاں اگر ملت اجتماعی طور سے کسی کو ذمہ دار بناتی ہے تو اللہ رب العزت کی تائید و نصرت شامل حال رہے گی۔ ورنہ سیاست اور قیادت ایسی کوئی شئے نہیں کہ جس کی ہر کوئی ہر سطح پر تمنا کرے۔اس بات کا تجزیہ ہونا چاہئے کہ آخر مسلمانوں میں کیوں کر یہ منصب کی چاہتیں بڑھنے لگیں ہیں ؟کیا اللہ کی رضا اورجنت کا حصول‘منصبوں سے جوڑدیا گیا ہے؟ مسجدوں سے لیکر محلے کی کمیٹیوں تک اور تنظیموں سے لے کر مختلف اداروں تک ‘ہر جگہ منصب کے حصول کی کوشش میں ایک مسلمان اور ایک غیرمسلمان میں کوئی جوہری فرق نظر نہیں آتا۔منصب کی چاہتوں کے اسی ذہن نے آج یہ دن دکھلائے ہیں کہ ہم کہنے کو تو ایک ہیں لیکن کوئی کسی کی سنتانہیں ۔ گرام پنچایت سے لے کر پارلیمانی حلقوں تک کھڑے ہونے والے امیدوار‘ ہمارے کس اجتماعی فیصلے کے تحت امیدوار بن جاتے ہیں ؟وہ کس کی سنتے ہیں ؟ ان کیلئے آداب سیاست کا تعین کون کرتا ہے؟ جب کسی مسلمان کی انفرادی و اجتماعی کوششوں کا کریڈٹ اسلام کی طرف منسوب ہوتا ہو تو اس کی عوامی حیثیت کا تعین ‘اسلام کی روشنی میں ‘ اجتماعی فیصلے کے تحت ہونا چاہئے۔

بہرحال‘ موجودہ حالات کی بہتری اور آنے والے انتخابات کے پیش نظر حسب ذیل امور سے متعلق ‘جائزہ و احتساب اوراجتماعی حکمت عملی وضع کرنے پر غور و خوص ہونا چاہئے۔اس کے دوپہلو ہوں گے۔ایک سیاست کے بعض ٹیکنکل اور قانونی پہلوئوں کو سمجھنے اورحسب حال اقدامات کرنے سے متعلق ہے۔اور دوسرا پہلو مسلمانوں کی سیاسی ترجیحات اور حکمت عملی پر باضابطہ کام کے علاوہ انہیں بھارت میں خیر امت کی ذمہ داریاں ادا کرنے پر متوجہ رکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔

حدبندی (delimitation)

  سیاست کے بعض قانونی امور میں حدبندی یعنی محفوظ حلقہ انتخاب(delimitation of constituency) نہایت اہمیت کا حامل ہوتا ہے جس کے ذریعہ مختلف علاقوں اورمذہبی اکائیوں کو مخصوص طریقے سے تقسیم کیا جاتا ہے۔ گرچہ دستور ہند کی روشنی میں کسی قریبی وقت حلقہ انتخابات کی حدبندی اور محفوظ کرنے کا کوئی مرحلہ درپیش نہیں ہے لیکن غالب امکان ہے کہ 2020کے دہے میں کسی وقت اس کااطلاق ہوگا اور حلقوں کی نئے سرے سے حدبندی کی جائے گی۔اس ضمن میں قانونی کارروائی کرنے کا پورا حق حاصل رہتا ہے۔ حکومتی کمیشن کی جانب سے جاری ہونے والے نوٹیفیکشن کے پیش نظر صورت حال کا جائزہ لیتے ہوئے ملی و ملکی مفادات کے تحت اقدامات کئے جاسکتے ہیں ۔اس سے قبل 2000کی ابتدا میں ہوئے حدبندی کے معاملہ میں حکومت کی جانب سے باوجود اعلانات کے مسلمانوں کاکوئی خاص عمل دخل نہیں رہا۔نتیجتاً اب ملک کے کئی مقامات ایسے ہیں کہ جہاں جدبندی کی وجہ سے کہیں مسلم ووٹ منتشرہوگئے ہیں تو کہیں مسلم نمائندوں کی جیت کے امکانات معدوم ہوگئے ہیں ۔

اگر یوپی کے انتخابات کا اس پہلو سے جائزہ لیں تو بی جے پی کی جیت کے پیچھے یہ ایک امر ( حدبندی کا معاملہ)بھی کارفرما نظر آئے گا۔ اس سلسلہ میں نہ صرف سیاسی میدان سے تعلق رکھنے والے مسلمان توجہ کریں بلکہ ایک کوشش یہ بھی ہونی چاہئے کہ ہمارے نوجوانوں کو سوشل اور پالیٹکل سائنسز‘جیسے میدانوں میں اعلیٰ تعلیم کے حصول پر آمادہ کیا جائے۔ ملت کے متحدہ فورمز حسب حال سہولیات بہم پہنچائیں اور خاندانی سطح پر والدین کی ذہن سازی ہو کہ بچوں کا مستقبل ڈاکڑز اور انجینئرزبننے ہی سے نہیں بلکہ علم کے حصول کے ایسے کئی میدان ہیں جن میں بہتر کارکردگی اور ملک و ملت کی خدمت کے ذریعہ شاندار مستقبل یقینی بنایا جاسکتا ہے ۔ موجودہ رجحانات اور درپیش مسائل نے مطالعہ سیاسیات (political studies)کو کافی وسعت دے دی ہے جس کے تحت نہ صرف سیاسی نظریات‘سیاسی نفسیات اور رائے دہندگان کے رجحانات پر باضابطہ اسٹڈی کی جاسکتی ہے بلکہ بیسیوں شاخیں ایسی ہیں جو سیاست کی مختلف جہتوں کو علمی و فنی لحاظ سے جاننے ‘ سمجھنے اوران میں تخصص حاصل کرنے کے مواقع بہم پہنچاتی ہیں ۔

ریزوریشن

  اسی ذیل میں ریزرویشن کا معاملہ بھی آتا ہے۔مسلم اکثریتی علاقوں کو کسی غیر مسلم کیلئے مخصوص کرنا سراسر زیادتی ہے لیکن نہ صرف چند ریاستیں بلکہ اب تو یہ ایک ٹرینڈ کی شکل اختیار کرگیا ہے کہ ریزرویشن کے ذریعہ مسلم اور دیگر طبقات کو انکے واجبی حقوق سے محروم کردیا جائے۔اس سلسلہ میں حکومت کی جانب سے جاری نوٹیفیکیشن کے پیش نظر مناسب اقدامات اور باضابطہ اسٹڈی ہونی چاہئے اور ازروئے دستور موجود گنجائش کے پیش نظر مسلم ریزرویشن کی پرزور حمایت کرنی چاہئے۔سیاست کے مزید قانونی پہلوئوں پر گفتگو ذیل میں درج بعض امور کے تحت ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔جائزہ و احتساب اور حکمت عملی وضع کرنے سے متعلق دوسرے پہلو کے حسب ذیل امورقابل توجہ ہیں :

ملت کا سیاسی وفاق

 آزادی کے بعد سے ہورہے انتخابات میں مسلمانوں نے مختلف سطحوں پر فتح اور شکست کابخوبی مظاہرہ کیا ہے اور سیاست اور سیاسی دائو پیچ اب ملت کیلئے شجر ممنوع نہیں رہے‘ بلکہ اس سے متعلق اس قدر فکر تشکیل پائی ہے کہ ہمارے ادارے اور تنظیمیں بھی اس سیاسی فکر سے متاثر نظر آتے ہیں ۔ لیکن یہ کیابات ہے کہ جب سکیولر اور جمہوری اقدار کے تحفظ کیلئے صاف ذہن اور پاکیزہ کردار لوگوں کی حمایت کی بات آتی ہے تو ہر انتخابی موسم میں ہماری فکر منتشر اوربے سمت ہوکر رہ جاتی ہے؟

 ملت کی اس اجتماعی تساہلی پر فوری روک لگنی چاہئے اور ایسی کوئی حکمت عملی وضع کی جانی چاہئے کہ ملکی و ریاستی سطح پر ملت کی سیاسی ترجیحات اور پالیسیز میں ہم آہنگی پیداہو۔جس طرح اسلام کے عائلی اور دیگر قوانین اور مسلمانوں کے تحفظ کیلئے مسلم پرسنل لا اور مسلم مجلس مشاورت ہے‘ اسی نہج پرسیاسی امور میں ملت کی راہنمائی کیلئے کسی اجتماعی نظم کے بارے میں غور وخوص ہوناچاہئے۔ اگر ملت کے ان متذکرہ پلاٹ فارمزیا ان کے تحت کسی اور ذیلی نظم سے سیاسی راہنمائی ممکن ہوتوفبھا ورنہ کسی اجتماعی نظم کی فی الفور تشکیل پر غور وخوص ہوسکتا ہے۔اس سلسلہ میں کرناٹکا مسلم متحدہ محاذ کا کامیاب تجربہ اوربہار‘تلنگانہ اورٹمل ناڈوجیسی ریاستوں کی کوششیں موجب ترغیب ہیں ۔بھارت جیسے مخلوط سماج کیلئے بہتر ہوگا کہ کسی مناسب حکمت عملی کے ذریعہ اس وفاق میں یا اسکی سسڑ کنسر کی حیثیت سے غیر مسلم تنظیموں کی شمولیت پر بھی غور کیا جائے۔ اس وفاق کے ذریعہ سیاسی امور کی اصلاح‘مثالی معاشرہ کے وژن کا تعین‘سیاسی شعور کی بیداری ‘ووٹر لسٹ کی تیاری ‘ سیاستدانوں سے ملاقات وگفتگو اور مختلف سماجی اور سیاسی امور سے متعلق پالیسی ڈاکیومنٹس کی تیاری کا اہتمام ہو۔پھر انتخابات سے قبل مطالبات اور سفارشات پر مشتمل منشور پر سیاسی جماعتوں کوآمادہ کرنے‘اچھے امیدواروں کو یقینی بنا نے اور کسی بھی طرح کی تخریبی سرگرمیوں پر روک لگانے کی منصوبہ بند کوشش ہو۔ ممکن ہے کہ ریاست اورملک گیر سطح پر مسلمانوں کے سیاسی وجود کا پروقار احساس عام ہوگااور سیاسی اموراور انتخابی سیاست کو صحت مند رخ دینے میں کامیابی بھی میسر آئے گی ۔

غالباً ملک کے موجودہ سیاسی و سماجی حالات ملی اتحاد کیلئے درکار متعینہ مقاصد اور ان کے خدوخال واضح کررہے ہیں تاکہ ملک و باشندگان ملک کی خیرخواہی اور ملت کے تہذیبی و دینی تشخص کی بقاء اور فروغ کیلئے ایک اجتماعی نظم کی تشکیل کیلئے فی الفور اقدام کیا جاسکے۔ارباب حل وعقد اس جانب متوجہ ہوں تو ملک و ملت کا بھلا ہوسکتا ہے۔

ملی جماعتوں کے ذمہ دار اورحکمرانوں کی اصلاح

 موجودہ حالات میں بحیثیت مجموعی ہر سطح کے صاحب اقتدار(حکمرانوں ) کی اصلاح پر توجہ دینی چاہئے۔اقتدار کا حصول مطمح نظر ہو تو ملت کا ہر فرد نہ اقتدار پاسکتا ہے اور نہ ہی ہر وقت تعاون دینے کیلئے اسکو مواقع میسر آسکتے ہیں ۔جبکہ اقتدار کی اصلاح کی کوشش ہو تو یہ وقت کی قیود سے آزاد ‘فکر وعمل کاایک قابل عمل ماحول بہم پہنچاتی ہے۔اِذْھَبْ اِلیَ فِرْعَوْنَ اِنَّہُ طَغٰی (النازعات:۱۷)کا حکم ‘حضرت موسی ؑکو دیا گیا تھا کہ وہ جائیں اوروقت کے حکمران فرعون کی اصلاح کریں ‘اور اس سے کہیں فَقُلْ ہَل لَّکَ إِلَی أَن تَزَکَّی (النازعات: ۱۸)-  کیا تو اپنے تزکیہ کے لئے تیار ہے؟-   لہذا اقتدار کی اصلاح کا کام ملی جماعتوں کے وہ افراد انجام دیں جنہیں ملت ہی کے افراد نے مختلف ذمہ داریوں پر فائز کیاہے۔گویا ملی تنظیموں اور جماعتوں کا مشترک ایجنڈا سیاست کا تزکیہ بھی ہوگا۔

 مثبت طرز فکر وعمل

  برسراقتدار قوم کا اپنا ایک مزاج ہوتا ہے اور وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ اس کی نفسیات میں تبدیلیاں بھی رونماہوتی ہیں ۔ان سے ربط و تعلق کی اصل بنیاد اخلاقی اقدارہونے چاہئے۔قرآن کریم میں حکمرانوں کے ساتھ گفت وشنید میں نرمی اختیار کرنے کی خصوصی تاکید کی گئی ہے تاکہ وہ اللہ سے ڈریں اور نصیحت حاصل کریں ‘فرعون سے بھی نرم لہجے میں گفتگو کرنے کی تاکید کی گئی تھی

(فَقُولَا لَہُ قَوْلاً لَّیِّناً لَّعَلَّہُ یَتَذَکَّرُ أَوْ یَخْشَی-   طہ:۴)

اسلئے انفرادی و اجتماعی اقدامات میں اس نفسیاتی پہلو کا خاص خیال رکھنا چاہئے۔یاد رہے‘برسراقتدار قوم اور ان کے ماتحت لوگ‘ مسلمانوں کے طرز عمل‘ ان کے جلسے و جلوس ‘ ان کے تقاضے اور بیانات کو اپنے مخصوص طریقے سے دیکھیں اور سمجھیں گے ۔ لہذامطلوبہ کردار یہ ہو کہ مسلمان بحیثیت مجموعی اس ملک میں بے لوث خادم‘ انسانوں کے سچے خیر خواہ کی حیثیت سے اپنی شناخت بنائیں اور خیر کے مجسم بنیں کہ لوگوں کو ہمیشہ اور ہر حال میں ‘خیر ہی کی توقع ہو

(خَیْرُکُمْ مَنْ یُّرْجَی خَیْرُہ-  ترمذی)

ان کے نزدیک اصل اعزاز و شرف کی بات اللہ اور اسکے رسول ؐ کی تعلیمات ہوں ‘ وجہ امتیاز دین ہو نہ کہ شہرت اور منصب و قیادت۔جب مطمح نظر‘ یہ آفاقی اقدار ہوں تو مسلمانوں کے رویوں سے بے نیازی‘حق گوئی اور بے باکی ظاہر ہوگی۔ان کا ہرمعاملہ‘دینی بنیادوں پر انجام پائے گا۔اسی لئے رسول اللہ ؐ نے مسلمانوں کو اپنے معاشرہ میں مادی اسباب کی بہ نسبت اخلاق و کردار کے لحاظ سے لوگوں میں نمایاں مقام حاصل کرنے کی تلقین فرمائی ہے۔

یہی اخلاقی سرمایہ امت کا شان امتیاز ہے ۔ اس کے نزدیک سب سے عزیز تر دین اور دینی مفاد ہوتاہے۔حتی کہ اگر وقت کے حکمران بھی حق ادا نہ کریں بلکہ ظلم کرنے لگیں تب بھی دینی مطالبات پر ہی اس کی توجہ مرکوز رہتی ہے۔اللہ کے رسولؐفرماتے ہیں کہ تم میرے بعد عنقریب ناپسندیدہ امراء اوران کے اثرات دیکھو گے۔یعنی نہ حکمراں ٹھیک ہوں گے اور نہ ہی ان کی وجہ سے حالات سازگار نظر آئیں گے۔لوگوں نے عرض کیا اگر ہم میں سے جو شخص ایسا زمانہ پائے تو کیا کرے؟آپؐ نے فرمایا :

اَدُّوْا الْحَقَّ الَّذِیْ عَلَیْکُم  وَ سَلُوْا اللّٰہَ الَّذِیْ لَکُمْ (مسند احمد)

  اپنے اوپر واجب ذمہ داریاں ادا کرتے رہواور اپنے حقوق اللہ تعالیٰ سے مانگو۔

رسول اللہؐ اور حضرات صحابہ کرامؓ کے ابتدائی دور کا مکہ معظمہ اور اطراف کے ممالک دیکھ لیں سب مقامات پر اہل اقتدار ‘مسلمانوں کے پاس موجود قرآن وسنت کی تعلیمات اور ان کے اعلی اخلاق وکردار کے آگے اپنے آپ کو ہیچ جان لئے تھے۔او رجب مسلمانوں کوسیاسی اقتدارنصیب ہوا تو ان کی طرز حکمرانی ‘رعایا پروری‘ خلق خدا کی بے لوث خدمت گزاری نے منصب و اقتدار کو وہ پاکیزگی عطا کی کہ لوگ اس کے آگے اپنی بے اقتداری پر افسوس کرنے لگے تھے۔

ملت اسلامیہ ہند بحیثیت خیر امت

 سارے انسانوں سے مسلمانوں کا ایک دینی و انسانی رشتہ ہے ‘داعی اور مدعو کا۔ہر انسان‘چاہے وہ کسی بھی مذہب کا ماننے والااور کسی بھی فکر وعقیدے کا حامل ہو‘ وہ محض ایک مدعو ہے۔فسطائیت سے وابستہ یا ان سے متاثر افراد کے سلسلہ میں بدظن ہوجانا‘ ان سے دوری بنائے رکھنا اور طرز عمل سے غیر مسلموں کو بیزار کرنا‘خیر امت کی شان نہیں ہوسکتی۔ مادی اعتبارات سے دیکھا جائے تو حکومت و اقتدار‘ دولت ووسائل کے لحاظ سے کوئی ملک‘قوم یا گروہ آگے ہوسکتا ہے لیکن ملت اسلامیہ کی فضیلت مسلمہ اور آفاقی ہے اسلئے کہ اسکے پاس دین ہے جس سے بڑا اعزاز اورفضل وکرم کوئی اور نہیں ۔ دین جسکو ملا وہی اللہ کا محبوب ہے(فَمَنْ اَعْطاہُ اللّٰہُ الدِّیْنَ فَقَدْ اَحَبَّہٗ-  مسند احمد‘بیہقی)۔اللہ کے ان محبوب بندوں کے پاس انسانوں کو دینے کیلئے قرآن و سنت کی بیش بہا نعمتیں موجود ہیں جن کے بارے میں کہا گیاکہ وہ ان تمام چیزوں سے بہترہیں جنہیں انسان جمع کرنے میں اپنی ساری عمر کھپا دیتا ہے (ھُوَخَیْرٌمِّمَّا یَجْمَعُوْنَ-  یونس:۵۸)۔لہذا دین کو اصل بنیاد تسلیم کرتے ہوئے تمام مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ انسانی بنیادوں پر بے لوث روابط وتعلقات قائم کرناچاہئے۔معاملات اور لین دین بڑھنا چاہئے۔خوشی اور غمی کے موقعوں سے جذبات اور احساسات کو ‘خالق کی مرضی سے جوڑنے کی کوشش کرنی چاہئے۔سماجی مسائل کے حل اور ایک مثالی سماج کیلئے باشندگان کا آپسی تعاون یقینی بناناچاہئے۔مطمح نظر بس یہ ہو کہ بھارت حقیقی معنوں میں ایک فلاحی ریاست (welfare state)بن جائے۔ظاہر بات ہے جو ملت سراپا خیر ہو اسکے وجود سے ملک توخیر ہی کا مرکز ہوگا۔

عام طور سے حالات کا مشاہدہ و فہم ‘ ہر ایک کے علم و فکر کے مطابق ہوتا ہے ۔حالات بظاہر ناسازگار ہوسکتے ہیں لیکن اللہ رب العزت پر توکل ہو اور ان تھک جدوجہدبھی تو‘ تنگی اور آزمائش کے دن بدلنے دیر نہیں لگتی عَسیَ اَنْ تَکْرَھُوا شَیْاً وَھُوَخَیْرٌ لَّکُمْ ( البقرہ:214)کے مصداق مستقبل تابناک ہوسکتا ہے۔لہذا موجودہ مسائل کے حل اور آنے والے حالات کی بہتری کے پیش نظر ‘ہماری صفوں میں بلا تاخیر مثبت تبدیلیوں کا آغاز ہونا چاہئے۔

 اَللّٰہُمَّ خُذْ بِیَدِنا فِیْ الْمَضَائِقِ

اے اللہ مشکل حالات میں ہمارا ہاتھ تھام لے

وَاَکْشِفْ لَنَا وُجُوْہَ الْحَقَآئِقِ

اور ہمارے لئے حقائق کے سارے پہلو کھول دے

 وَوَفِقْنَا لِمَا تُحِبُّ وَتَرْضٰیْ

اور جن کاموں کو تو پسندکرتا ہے اور جن سے توراضی ہوتا ہے ان کی ہمیں توفیق دے

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔