ٹیکوں سے اب بھی دور لاکھوں بچے!

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

ایمونائزیشن کا وسیع پروگرام چلانے والے دیشوں میں سے بھارت ایک ہے۔ یہاں کا ٹیکہ کاری پروگرام جغرافیائی رقبہ، فائدہ اٹھانے والوں کی تعداد اور ویکسین کے استعمال کے لحاظ سے بھی بہت بڑا ہے۔ ہر سال تقریباً 27 ملین نومولود بچوں کو ٹیکہ لگایا جاتا ہے۔ ٹیکے لگانے کیلئے 9ملین سیشن سالانہ ہوتے ہیں ۔ ویکسین بنانے اور ایکسپورٹ کرنے میں بھارت سرفہرست ہے۔ تمام تر کوششوں کے باوجود 65 فیصد بچوں کو ہی ان کی زندگی کے پہلے سال میں تمام ٹیکے مل پاتے ہیں ۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے ٹیکہ کاری  کی مانگ پیدا کرنے کیلئے اور کوشش   کی ضرورت ہے۔ خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں ٹیکہ کاری کی در بہت کم ہے۔ معمول کے ٹیکوں کو بچوں تک پہنچانے میں جو دشواریاں آرہی ہیں ان کو دور کرنا ضروری ہے تاکہ مکمل ٹیکہ کاری کی راہ ہموار ہوسکے۔ سرکار مشن اندر دھنش کے ذریعہ ان بچوں کو ٹارگیٹ کرنے کی کوشش کررہی ہے جن تک معمول کی ٹیکہ کاری مہم کے ذریعہ نہیں پہنچا جاسکا ہے۔ مثال کے طورپر دوردراز کے علاقے (ہارڈ ریچ ایریا) کنٹرکشن سائٹ، اینٹ کے بھٹے، کارخانے اور فیکٹریوں وغیرہ میں کام کررہی خواتین کے بچے، مشن اندر دھنش کے تحت ہر ماہ کی سات تاریخ کو سات بیماریوں سے بچوں کو بچانے کیلئے

ٹیکے لگا ئے جاتے ہے۔ اس مہم کیلئے 216 اضلاع کی نشاندہی کی گئی، جہاں دو مرحلے کی ٹیکہ کاری ہوچکی ہے اور تیسرے مرحلے کے ٹیکے لگانے کا کام چل رہا ہے۔ مشن اندر دھنش میں سبھی بچوں کو ٹیکے لگائے جانے ہیں ۔ ان میں وہ بچے بھی شامل ہیں جن کو مکمل  ٹیکے نہیں لگ سکے ہیں ۔

ٹیکہ کاری وائرس اور بیکٹیریا سے پیدا ہونے والی بیماریوں سے بچائو کا سستا اور کارگر طریقہ ہے۔ سرکار کی جانب سے تمام ٹیکے پرائمری ہیلتھ سینٹر، سب سینٹر اور آنگن واڑی مراکز پر مفت فراہم کئے جاتے ہیں ۔ وزیراعظم محفوظ زچگی مہم کے تحت تمام حاملہ خواتین کا بچے کی ولادت سے پہلے مفت جانچ اور دیکھ بھال کا انتظام کیا جاتا ہے۔ کئی ریاستوں میں اسمارٹ کارڈ کے ذریعہ حاملہ عورتوں کی پرائیویٹ اسپتالوں میں مفت جانچ اور علاج کا انتظام بھی کیا گیا ہے۔ حاملہ خواتین کو بچے کی پیدائش سے پہلے اور اس کے بعد ٹیٹنس کا ٹیکہ دیا جاتا ہے۔ اس سے زچہ بچہ دونوں ٹیٹنس سے محفوظ رہتے ہیں ۔ ممتاز محل جس کی یاد میں شاہجہاں نے تاج محل بنوایا، وہ تیرہویں بچے کی ولادت میں ٹیٹنس کی وجہ سے ہی فوت ہوئی تھی۔ ٹیٹنس کا ٹیکہ معمول کے ٹیکوں میں شامل ہونے سے زچہ بچہ اموات در میں کمی آئی ہے۔ 30 ملین حاملہ عورتوں کو ہر سال ٹیکہ دینے کا ٹارگیٹ ہے۔

 قومی تخمینہ کی بات کریں تو مکمل ایمونائزبچوں کی تعداد 61 فیصد ہے اور ڈی پی ٹی3-کا کوریج 72 فیصد ہے۔ ضلعی سطح پر 80 فیصد سے کم ڈی پی ٹی 3- کوریج والے اضلاع کی تعداد 601 میں سے 403 ہے یا 67 فیصد یعنی دو تہائی۔ بھارت میں ایسے بچوں کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے جنہیں کوئی ٹیکہ نہیں مل سکا ہے حتی کہ ڈی پی ٹی3- بھی نہیں ۔ ایسے بچے تقریباً7.4 ملین ہیں ، ہمارے ملک نے پولیو سے نجات حاصل کرنے میں بڑی کامیابی حاصل کی ہے۔ ہر قومی ایمونائزیشن ڈے پر 172 ملین بچوں کو پولیو کی دوا پلائی گئی۔ پولیو ٹیکہ مہم میں ہر سال 800 ملین بچوں کو کور کیا گیا۔ ٹیکہ کاری مہم میں کولڈ چین یعنی ٹیکے اسٹور کرنے والی جگہ کا بہت اہم رول ہے۔ وہاں الگ الگ ٹیکے الگ الگ ٹمپریچر پر رکھے جاتے ہیں ۔

 کچھ دو سے آٹھ ڈگری پر تو کچھ کا درجہ حرارت نفی میں رکھنا ہوتا ہے۔ اسی طرح کولڈ چین سے نکلنے کے بعد ٹیکوں کو چار گھنٹوں کے درمیان استعمال کرنا ضروری ہے۔ ٹیکوں کا درجہ حرارت مین ٹین رکھنے کیلئے ریفریجریٹنگ باکسوں میں رکھ کر ایک مقام سے دوسرے مقام پر پہنچایا جاتاہے۔ دیش بھر میں یہ کام 27000 کولڈ چین سینٹر کررہے ہیں اور لاکھوں ہیلتھ کارکن اس کام میں لگے ہیں ۔ یہ رضاکار سردی، گرمی، برسات میں بغیر رکے پیدل، سائیکل، موٹر سائیکل، کار اور نائو سے ان دور دراز علاقوں تک ٹیکوں کو پہنچانے کا کام کرتے ہیں جہاں عام حالات میں بھی پہنچنا آسان نہیں ہے۔ ان کی محنت کی وجہ سے ہی ٹیکہ کاری پروگرام کو کامیابی مل رہی ہے۔

حال ہی میں خسرہ روبیلا کا ٹیکہ لانچ ہوا ہے، جو نوماہ سے 15 سال تک کے سبھی بچوں کو مرحلہ وار دیا جانا ہے۔ خسرہ کا ٹیکہ پہلے سے ہی معمول کی ٹیکہ کاری میں شامل ہے۔ تین سالہ مہم میں یہ یقینی بنانے کی کوشش کی گئی کہ خسرہ کی دوسری خوراک جو 16 سے 24 ماہ کے دوران دی جاتی ہے ہر بچے کو مل جائے۔ اس کیلئے 135 ملین بچوں کو ٹارگیٹ کیا گیا تھا۔ ان میں 70 ملین وہ بچے بھی شامل ہیں جن کو 2012-13 میں خسرہ کی خوراک دی جاچکی ہے۔ کئی لوگ خسرہ روبیلا (ایم آر) ٹیکے کی مخالفت یہ کہہ کر کررہے ہیں کہ جب خسرہ کا ٹیکہ پہلے سے معمول کی ٹیکہ کاری میں شامل ہے تو پھر اس نئے ٹیکے کی کیا ضرورت ہے۔ خسرہ روبیلا وائرس سے ہونے والی بیماری ہے۔ ایسا دیکھا گیا کہ جن کو خسرہ کا ٹیکہ دیا جاچکا تھا وہ بھی روبیلا کے شکار ہوئے۔روبیلا کی علامتیں بھی خسرہ کی طرح ہی ہوتی ہیں ۔ ناک سے پانی ٹپکنا، بخار آنا، بدن پر لا ل نشان بننا وغیرہ۔ روبیلا خسرہ سے زیادہ خطرناک ہے۔ خاص طور پر اگر کوئی حاملہ عورت اس سے متاثر ہوجائے تو اس سے پیدا ہونے والا بچہ دماغی، جسمانی طورپر کمزور، اندھا، بہرا یا پھر دل کی بیماری میں مبتلا ہوسکتا ہے۔ ایم آرٹیکہ پہلے سے موجود ہے اور ڈاکٹر اسے 400 سے 900 روپے میں دیتے ہیں ۔ ڈبلیو ایچ او کے ممبر ممالک نے اسے معمول کی ٹیکہ کاری میں شامل کیا ہے کیوں کہ ایک بھی بچہ چھوٹ جانے پر یہ وائرس دوبارہ اپنا اثر دکھا سکتا ہے۔ بھارت سرکارنے مرحلہ وار سنگل ٹیکہ مہم مکمل ہونے کے بعد ایم آر ٹیکے کو معمول کی ٹیکہ کاری میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

سو فیصد بچوں کو ٹیکے دیے جانے کیلئے سرکار کی وزارت صحت وخاندانی بہبود، ڈبلیو ایچ او اور یونیسیف مل کر کوشش کررہے ہیں ۔ ٹیکہ کاری مہم کو کامیاب بنانے کیلئے یونیسیف ریڈیو، ٹیلی ویژن، پرنٹ میڈیا، کمیونٹی لیڈروں اور مذہبی رہنمائوں کو اس سے جوڑنے کی کوشش کررہا ہے۔ مہم کی اسپیڈ کم ہونے کی دو تین وجہ عام طورپر سامنے آئی ہیں ۔ معلومات کی کمی، ٹیکہ کاری کی ضرورت اوراس کے فائدے، والدین کے پاس وقت کی کمی، ٹیکے لگانے کی جگہ، دن، تاریخ سے ناواقفیت اور غلط فہمیاں یا مخالف پروپیگنڈہ وغیرہ۔ یونیسیف پیغامات کی ترسیل کیلئے ریڈیو پروفیشنل کی مددلے رہی ہے۔ ریڈیو صحافیوں نے  ٹیکہ کاری سے متعلق اچھے اور اثر انداز پیغام بنائے ہیں جیسے وعدہ بھول نہ جانا ٹیکہ ضرور لگوانا وغیرہ۔ یونیسیف اچھے پیغامات کیلئے ریڈیو صحافیوں کو ریڈیو 4 چائلڈ ایوارڈ سے نوازتا ہے۔ اس نے پرنٹ میڈیا کے صحافیوں کو صحت پر لکھنے کیلئے تربیت دینے کا بھی منصوبہ بنایا ہے۔ پچھلے دنوں آئی آئی ایم سی کے ساتھ مل کر تین ماہ کا تجرباتی طورپر پائلٹ پروجیکٹ کیا تھا۔ اس کے تحت تیس طلبہ نے ٹریننگ لی تھی۔ خلاف توقع ان سب کو میڈیا میں جگہ مل گئی۔ یونیسیف اس پروگرام کو اور آگے بڑھانا چاہتا ہے۔

کہتے ہیں علاج سے بہتر ہے بچائو۔ بیماری سے بچنے کیلئے طرح طرح کی تدبیریں بنائی جاتی ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ چھوٹے بچوں کو بیماریوں سے کیسے بچایا جائے۔ پیدائش سے پانچ سال کے دوران بچوں کی زندگی کو سب سے زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔ بھارت میں نمونیا، ڈائریا، ٹیٹنس اور غذائیت کی کمی سے عام طورپر بچوں کی اموات ہوتی ہیں ۔ وائرس اور بیکٹریا سے ہونے والی بیماریاں بھی ان کیلئے مہلک مانی جاتی ہیں ۔ بچوں کو بچانے کا دنیا بھر میں آزمایا ہوا طریقہ ٹیکہ کاری ہے۔ جو کوسٹ ایفکٹیڈ ہونے کے ساتھ ہر طرح سے محفوظ ہے۔ یہ اقتصادی نقصان سے بھی والدین کو بچاتا ہے۔ مثلاً اگر بچہ بیمار ہوجائے تو والدین کی دہاڑی تو چھوٹتی ہی ہے ساتھ ہی بچے کو ڈاکٹروں کو دکھانے اور دوا دارو میں بڑی رقم خرچ ہوجاتی ہے۔ بچے دیش کا مستقبل ہیں ان کی حفاظت سب کی ذمہ داری ہے۔ سرکار کے ساتھ عوام کو مل کر صحت کی مہم کو کامیاب کرنا ہوگا تبھی ہر بچہ محفوظ اور ہر گودآباد  رہ پائے گی۔ صحت مند سماج سے ہی صحت مند ملک کا خواب پورا ہوسکتا ہے۔

تبصرے بند ہیں۔