حج سبسڈی کے خاتمہ کا سرکاری اعلان

عبدالعزیز

 حج سبسیڈی کے خاتمہ کا معاملہ ہو یا مسلمانوں سے تعلق رکھنے والا کوئی اور معاملہ ہو اس میں زعفرانی حکومت کی مداخلت ہندوتو ایجنڈا کا ایک حصہ ہے جسے مودی سرکار ایک ایک کرکے 2019ء تک پورا کرے گی تاکہ ہندو پرستوں اور فرقہ پرستوں کو خوش کرسکے۔ بھگوا پارٹی یا اس کی حکومت میں جو لوگ مسلمانوں جیسا نام رکھتے ہیں جیسے نقوی، اکبر یا شاہنواز ان کو پارٹی نے حکم دیا ہے کہ وہ مسلمانوں کو دھوکہ دینے کیلئے یہ بتاتے رہیں کہ جو کچھ کیا جارہا ہے وہ مسلمانوں کے حق میں کیا جارہا ہے۔ خاص طور سے مسلم خواتین کی فلاح و ترقی حکومت کے پیش نظر ہے۔ یہ بالکل لغو اور دھوکہ دینے والی بات ہے۔

جہاں تک تین طلاق کامسئلہ ہے اس میںاپنوں کا کم قصور نہیں ہے کیونکہ جو لوگ اس کا غلط استعمال کررہے تھے اور قرآن و سنت کی خلاف ورزی کر رہے تھے قرآن مجید میں جو طلاق دینے کا شرعی طریقہ ہے اس کا پاس و لحاظ کرنا بہت حد تک چھوڑ چکے تھے۔ مسلم مطلقہ خواتین اور ان کے بچوں پر جو آفت اور پریشانی ہوتی تھی نہ علماء اس کا تدارک کر پاتے تھے اور نہ ہی مسلم معاشرہ میں ایسی طاقت اور قوت تھی کہ وہ طلاق کے غلط استعمال کو روک سکتا تھا۔ غیروں کو خاص طور سے اسلام اور مسلم دشمنوں کو اسلام کی ہنسی اڑانے کاموقع ہاتھ آگیا۔ اب جو لوگ تین طلاق کی رٹ لگائے ہوئے ہیں انھیں حکومت پر برسنے سے کہیں زیادہ تین طلاق کے غلط استعمال کے تدارک پر زور دینا چاہئے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں طریقہ بتایا گیا ہے اس پر عمل کرنا چاہئے تاکہ مسلم مطلقہ کی پریشانیوں میں کمی آئے اور ان کے بچوں کے مستقبل پر برا اثر نہ پڑے۔ شریعت پر عمل کرنے والوں کا کوئی کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا۔

 جہاں تک حج سبسیڈی کی بات ہے تو بھاجپا کو معلوم ہونا چاہئے کہ اس کے خاتمہ کیلئے آج سے نہیں بہت دنوں سے مسلم تنظیموں اور رہنماؤں کی طرف سے مطالبہ کیا جارہا تھا۔ حکومت پر یہ بھی زور ڈالا جارہا تھا کہ حج سبسیڈی کے خاتمہ کے ساتھ ہی ساتھ ہوائی کمپنیوں کی من مانی کا بھی خاتمہ ہو کیونکہ بیمار اور ناکارہ انڈین ایئر لائنس اور دیگر کمپنیاں کرایہ وصول کرنے میںمن مانی کرتی ہیں۔ اس طرح حکومت سبسیڈی کے نام پر بے معنی احسان جتانے کی کوشش کرتی ہے۔ دوسری طرف ضرورت سے زیادہ کرایہ کی رقم ایئر لائنس کمپنیاں وصول کرتی ہیں۔ حکومت اسے سبسیڈی کی شکل میں تھوڑی بہت رقم واپس کرتی ہے۔ اگر جس طرح دوسرے ملکوںمیں ہوائی کمپنیوں کو اڑان کی اجازت ہے اسی طرح اگر سعودی عرب کیلئے بھی کھلی چھوٹ یا اجازت دے دی جائے توحاجیوں کو پہلے سے بھی زیادہ آسانیاں ہوجائیں گی اور حج کاخرچ بھی بڑھنے کے بجائے کم ہوجائے گا۔

 جو لوگ مودی سرکار کو یہ بتانے کی کوشش کر رہے ہیںکہ سپریم کورٹ نے 2022ء تک سبسیڈی ختم کرنے کی ہدایت کی تھی۔ مودی سرکار نے بہت پہلے ختم کر دیا تو مودی سرکار یہی کچھ کرنے آئی ہے تاکہ ہندو پرست عناصر خوش رہیں اور ان کا ووٹ بینک متاثرنہ ہو۔ 2019ء تک اور بہت کچھ ہونے والا ہے۔ یوگی مودی سے بھی آگے کی طرف قدم بڑھا رہے ہیں ۔ دونوں میں بھی دوڑ لگی ہے کہ فرقہ پرستی میں کون آگے بڑھتا ہے؟ یوگی اندر اور باہر سے بھگوا نظر آتے ہیں۔ پورے یوپی کو بھگوا رنگ میں رنگ دینا چاہتے ہیں۔ یوپی کے حج ہاؤس کو بھی گیروا رنگ میں رنگ دیا گیا تاکہ یوگی اپنے کارنامے کو گنا سکیں۔ مودی نے یوگی کو مات دے دی یہ کرکے یا کہہ کے تم حج ہاؤس رنگو، ہم حج سبسیڈی کو ختم کر دیتے ہیں۔یہ مقابلہ آرائی 2019ء تک جاری رہے گی؛ مگرآثار اب یوگی اور مودی کے خلاف نظر آرہے ہیں۔ گجرات سے بھاجپا کے زوال کی شروعات ہوگئی ہے۔ گجرات کی اسمبلی کے حالیہ انتخابی نتائج بھاجپا کے کان کھڑے کر دینے کیلئے کافی ہیں۔

  سپریم کورٹ کے چار سب سے بڑے سینئر ججوں نے بھی عدالت عظمیٰ میں کیا کچھ ہورہا ہے اور مودی سرکار کس طرح عدل و انصاف کو متاثر کرنے کی کوشش کر رہی ہے نہ صرف ہندستان کو بلکہ ساری دنیا کو دکھا دیا۔ اس آئینہ میں یوگی اور مودی دونوںصاف دکھائی دیئے۔ اس کا بھی نتیجہ آنے لگا ہے۔ جج بی ایچ لویا کے مقدمہ کو جو دو ججوں پر مشتمل بنچ مقدمہ کی سماعت کر رہی تھی اس کے ایک جج ارون مشرا نے اس بنچ میں نہ رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔ چیف جسٹس آف انڈیا سے چار سینئر ججوں کی اب تک 15منٹ بات ہوچکی ہے ۔ مزید گفت و شنید کا پروگرام ہے۔ امید ہے کہ سپریم کورٹ کے نظام میں جو گڑبڑی حکومت وقت کے دباؤ سے ہوئی تھی یا ہونے والی تھی اس میں ایک حد تک کمی آئے گی۔ جانبدار ججوں کو بھی اس سے بہت کچھ سبق ملا ہے۔ چیف جسٹس نے بہت کچھ سیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ حکومت کو بھی اپنی اوقات کا پتہ چل جائے گا اور ایک حد تک اسے بھی اپنے دائرہ میں رہنا ہوگا۔ عدلیہ نے جس طرح آئینہ دکھایا ہے ضرورت ہے کہ میڈیا جو جمہوریت کا متاثر کن ستون ہے وہ بھی آئینہ دکھاتا رہے تاکہ 2019ء تک صورت حال تبدیل ہوجائے اور 2019ء میں بھاجپا کا خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہونے پائے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔