حج میں پوشیدہ ہے اتحاد اسلامی کا پیغام

ڈاکٹراسلم جاوید

آج ایام حج کا آغازہے، اس مقدس اسلامی فریضہ سے بالخصوص مسلمانوں اور بالعموم عامۃ الناس کو کیا پیغام ملتا ہے اسے جاننے کیلئے پہلے ہمیں مذہب اسلام کے اس عالمی اور ابدی پیغام کو سمجھنا ہوگا جس کی تنگنائیوں نے بنی نوع انسان کو جانوروں سے بھی بدتر بنارکھا تھا،عجم، عرب، کالے، گور ے اور رنگ و نسل کے علاوہ امیرو وغریب کی بے پناہ کھائیوں میں اولاد آدم ؑ پھنسی ہوئی تھی، اور اسی نسلی و لسانی فخرو امتیاز نے انسان کو ایک دوسرے کا دشمن بنارکھا تھا،ایسے حالات میں سیدالانبیاء ﷺ مذہب اسلام لے کر دنیائے آب و گِل میں مبعوث فرمائے گئے اور اسلام نے جو امتیازی تعلیم دی وہ اسی گروہی تصادم، رنگ و نسل، مال ودولت اور عجم عرب جیسی عصبیت سے خود دور کرنے کی بنیادی تعلیم تھی۔

چناں چہ عالم اسلام کے نظریۂ حیات پر یقین رکھنے والا خواہ کالا ہو یا گورا، مشرق کا رہنے والا ہو یا مغرب کا، عربی ہو یا عجمی، جو زبان بھی وہ بولتا ہے، وہ ایک عالم گیر امت مسلمہ کا فرد ہے۔ اسلام کے نزدیک صرف دو قومیں اور دو طبقے ہیں۔ حزب اللہ اور حزب الشیطٰن۔ جس نے اقرار توحید و رسالت کیا وہ حزب اللہ میں شامل ہوگیا اور جس نے انکار کیا وہ حزب الشیطٰن کی فہرست میں داخل ہوگیا۔ تاریخ اسلام پر ایک نظر ڈالیے، حضرت سلمان رضی اللہ عنہ فارس کے رہنے والے ہیں مگر وحدت کے سبب عظیم اعزاز سے سرفراز کیے جاتے ہیں۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ حبشہ کے رہنے والے ہیں مگر اسلام نے انہیں عزت و احترام کے اس مقام پر فائز کیا کہ امیر المومنین سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ ان کے احترام میں کھڑے ہوجاتے ہیں اور با آواز بلند فرماتے ہیں : ’’ بلال رضی اللہ عنہ ہمارے آقا ہیں اور ہمارے آقا ء کے غلام ہیں۔ ‘‘ پوری نوع انسانی کی یک جہتی ہو یا صرف ملت اسلامیہ کا اتفاق و اتحاد، اگر بہ نظر غائر جائزہ لیں تو چند بنیادی عناصر ہیں جو اتحاد و اتفاق کی فضا کو منتشر کرنے کا سبب بنتے ہیں اور وہ معروف ہیں۔ یعنی نسلی تمیز و تفاخر، علاقائی حد بندیاں، لسانی کش مکش اور مذہبی منافرت۔ جو لوگ دین اسلام کے پیروکار ہیں۔ ان کی یک جہتی اور اتحاد و اتفاق کی فضا قائم کرنے کیلئے داعی اسلام ؐ نے اپنے پاکیزہ اْسوہ سے اْن عناصر کی بیخ کنی کر دی جو امت کا شیرازہ منتشر کرتے تھے۔ آپ ؐنے امت کے افراد کو تسبیح کے دانوں کی طرح ایک لڑی میں پرودیا اور ’’عربی کو عجمی پر عجمی کو عربی پر سرخ کو کالے پر اور کالے کو سر خ پر کوئی فضیلت نہیں۔ سب آدم علیہ السلام کی اولادہیں اور آدم علیہ السلام مٹی سے ہیں۔ ‘‘ کا انقلاب آفرین فرمان سنا کر رنگ و نسل کے تمام تفاخر کو خاک میں ملا دیا۔ اسی طرح حبشہ کے رہنے والے سیاہ فام غلام حضرت بلال رضی اللہ عنہ اور فارس سے تشریف لانے والے حضرت سلمان رضی اللہ عنہ کو سینہ نبوت سے لگا کر علاقائی بنیادوں پر پیدا ہونے والے امتیازات کو فلسفۂ اسلام سے یک سر خارج کردیا۔

حج کا عظیم الشان اجتماع یہ بتا تا ہے کہ مذہب اسلام انسانیت کیلئے خداوندِ کریم کا آخری پیغام اور سب سے بڑا انعام ہے جس کی وضاحت حجۃ الوداع پر نازل ہونے والی اس آیت مبارکہ سے ہوتی ہے، مفہوم: ’’ آج ہم نے تمہارے لیے دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنے انعامات کی انتہا کر دی اور تمہارے لیے طریقِ حیات کے طور پر اسلام ہی کو پسند فرمایا۔‘‘حج اس دین کامل کا مظہرِ اتم ہے۔ اسلام کی بنیاد عقیدۂ توحید و رسالت ہے، جس کا عملی اظہار حج میں یوں ہوتا ہے کہ سب حجاج جہاں بیت اللہ، منیٰ مزدلفہ اور عرفات میں توحید الہٰی کا پرچم بلند کرتے ہیں، وہیں بارگاہِ ختم رسل حضرت محمد مصطفیٰﷺ میں حاضر ہوکر اس بات کا ثبوت دیتے ہیں کہ وہ آپؐکی نبوت و رسالت پر پختہ یقین رکھتے ہیں۔ ایک طرح سے دیکھا جائے تو بارگاہِ نبوت کی یہ حاضری اہل اسلام کے عقیدۂ ختم نبوت کا برملا اظہار بھی ہے کہ اللہ کے گھر کی حاضری کے علاوہ صرف مدینہ پاک کی حاضری ہی امت پر واجب کی گئی ہے اور حدیث پاک میں یہاں تک ارشاد ہوا: ’’ جس نے حج و عمر ہ کیا اور میری زیارت کو نہ آیا اْس نے مجھ سے جفا کی۔‘‘ اگرچہ متعدد انبیائے کرامؑ کے مدفن دنیا میں موجود ہیں، مگر اْن کی زیارت کی تاکید نہیں گئی، جب کہ حضور اکرم ﷺ کی بارگاہ اقدس کی حاضری کو نہ صرف واجب قرار دیا گیا۔ منجملہ دیگر گراں قدر انعامات کے سرکاردوعالمؐ کا یہ وعدہ ’’جس کسی نے ارادہ کرکے میری قبر کی زیارت کی اْس کیلئے میری شفاعت واجب ہوگئی۔‘‘ تو اس شخص سے بڑھ کر خوش نصیب اور کون ہوگا جس کی شفاعت لازماًآقائے دو جہاں ؐفرمائیں۔ حج میں عقیدۂ توحید و رسالت کا اقرار باللسان اور تصدیق بالقلب ہی نہیں بلکہ جسم و جاں کی تمام تر قوتوں، استعداد اور صلاحیتوں کے ساتھ آدابِ بندگی کی ادائیگی بھی ہے، رکوع و سجود اور قیام و قعود بھی، وضو اور غسل بھی، انفاق فی سبیل اللہ بھی، ہجرت کے سفر کی پیروی بھی اور جہاد بالنفس، جہاد بالمال اور جہاد باللسان بھی ہے۔

’’ حاضر ہوں، حاضر ہوں، اے میرے اللہ میں حاضر ہوں۔ اے وہ ذات جس کا کوئی شریک نہیں میں حاضر ہوں۔ بے شک تمام تعریفیں تیرے لیے ہیں، تمام نعمتیں تیری ہیں (تو ہی اْن کا عطا کرنے والا ہے ) تمام بادشاہی تیری ہی ہے اور تیرا کوئی شریک نہیں، میں حاضر ہوں۔ ‘‘

جب حجاج اور زائرین کوہ و صحرا، دشت و جبل، دریاو سمندر اور ہواؤں میں لبیک لبیک کہتے ہوئے کعبۃ اللہ کی جانب بڑ ھ رہے ہوتے ہیں تو لگتا ہے کہ کائنات کی ہر چیز اللہ کے حضور حاضری کیلئے بے تاب ہے۔ حاضری اور حضوری کا جو ذوق و شوق اور کیفیات سفرِ حج کے دوران طاری ہوتی ہیں دنیا بھر میں کہیں کسی بھی موقعے پر کسی بھی عبادت کے دوران دیکھنے اور سننے میں نہیں آتیں۔

یہ اسلام اور شارعِ اسلام محسن انسانیتﷺ کا فیض ہے کہ دنیا بھر کے ہر خطے اور ہر ملک، ہر رنگ و نسل کے اور ہر زبان بولنے والے لوگ، ایک ہی لباس، ایک سی وضع قطع میں اور ایک مرکز پر جمع ہوتے ہیں، ایک ہی مقصد لیے اور ایک ہی پکار اپنے ہونٹوں پر سجائے ہوئے۔ لبیک اللھم لبیک۔ یہ یک رنگی، یکسانیت، اتحاد اور یہی یگانگت اسلام کا اصل مقصد اور تعلیمات قرآن و سنت کا اصل مفہوم ہے۔دورِ حاضر ٹیکنالوجی کی تیز رفتار ترقی اور مادہ پرستی کا دور ہے جس میں نفرت، تعصب، انتشار، خوں ریزی، جبر و تشدد اور ظلم و ستم کا دور دورہ ہے، رنگ، نسل، زبان اور اقتصادی و گروہی مفادات نے بنی نوع انسان کو تقسیم کر رکھا ہے۔اس عہدِ ابتلا و آزمائش میں افراد اور قوموں کی نجات ایک ہی مرکز پر جمع ہونے اور اسلامی تعلیمات کو مشعلِ راہ بنانے سے ہی ممکن ہے جس کیلئے حج کا عظیم اجتماع ایک سنہری موقع پیش کرتا ہے۔ کاش بنی نوعِ انسان اللہ کے اس آخری پیغام اور اْس کے انعامات کی حکمتیں سمجھ پائے۔

نہ جانے صدائے ابراہیمیؑ میں کیا طاقت اور کتنا اخلاص تھا کہ ہر سال اتنے لوگ یہاں حاضر ہوتے ہیں کہ کسی سلطان وقت کے بلاوے پر بھی لوگوں کی اتنی بڑی تعداد جمع ہوئی ہوگی اور نہ ہوسکتی ہے۔ اونٹوں کے دور سے لے کر جہازوں کے زمانے تک زائرین و حجاج کی تعداد ہے کہ برابر بڑھتی چلی جا رہی ہے، دنیا میں کسی بھی جگہ پر انسانوں کا یہ سب سے بڑا اجتماع ہوتا ہے اور یہ محض اجتماع ہی نہیں ہوتا بلکہ بے شمار روحانی اور معاشرتی خوبیوں اور پہلوؤں کا حامل ہوتا ہے۔ حج کے موقع پر دنیا بھر کے علماء، محققین، سائنس دان، سیاست دان، تاجر، قانون دان اور دیگر شعبہ ہائے زندگی کے لوگ جمع ہوتے ہیں تو وہ حج کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ اپنے ملکی اور عالمی پیچیدہ مسائل پر افہام و تفہیم کرکے ملتِ اسلامیہ کے لیے بہترین لائحہ عمل بھی تجویز کرسکتے ہیں۔ اس لیے کہ حج ایک عالمی اسلامی کانفرنس بھی ہے۔اتنا بڑا اجتماع کسی قومی فخر کے اظہار اور کسی نسلی عصبیت کے حوالے سے نہیں ہوتا اور نہ ہی وقتی سیاسی ہنگاموں کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ بلکہ اس عالم گیر اجتماع میں جو شریک ہوتا ہے وہ یہاں زرق برق لباس پہن کر نہیں بلکہ ایک طرح کا کفن اوڑھ کر حاضر ہوتا ہے۔ اس اجتماع میں اپنی شخصی وجاہت کا نہیں ہر لمحہ خطاؤں پر ندامت کا اظہار کیا جاتا ہے، تخت نشین خاک نشین بن کر رہتے ہیں۔ حج کے اجتماع میں جو کچھ نظر آتا ہے اگر یہی کچھ امت کا اجتماعی رویہ بن جائے تو فکری و روحانی اور سیاسی و معاشرتی انقلاب دو قدم کے فاصلے پر رہ جاتا ہے۔

تبصرے بند ہیں۔