پیغام ابراہیم ؑ

بشری ناہید

انی وجهت وجہی للذی فطرالسموات و الارض حنیفا و ما انا من المشرکین ¤ (الانعام۔ 79 )

"بلا شبہ میں نے یک سو هو کر اپنا رخ اس ہستی کی طرف کر لیا جس نے زمین و آسمانوں کو پیدا کیا ہے اور میں ہر گز شرک کرنے والوں میں سے نہیں هوں۔ "

حضرت ابراہیم علیہ السلام کی حیات مبارکہ میں قربانیوں کی عظیم الشان مثالیں ہیں۔ ابراہیم علیہ السلام کی پوری زندگی ہی قربانی هے اور قربانی ایسی نہیں جو زندگی کی تمام خواہشات و تمنائیں پوری کر لینے کے بعد دی گئی هو۔ ابراہیم علیہ السلام کی قربانیوں کے سلسلے اس گھر سے شروع هوتے هے جو ان کا اپنا تھا جس باپ کی انگلی پکڑ کر چلنا سیکھا تھا وہی باپ حق سے ناآشنا تھا’ اور آپ نے اپنے غوروفکر و تدبر کی بنیاد پر اس خدائے واحد کو پا لیا تھا جو تمام مخلوقات کا خالق و مالک هے اور اس خدا آشنائی نے ان کو حق کے لئے اپنے والد کے بالمقابل کھڑے هونے کی جرأت پیدا کی۔ یہ جہاد کوئی معمولی جہاد نہ تھا دنیا پرستوں کی زبان میں یہ رشتہ داروں اور شہر کے  لوگوں سے خواہ مخواہ کی دشمنی مول لینا تھا۔ یہ وہ میدان کارزار تھا جہاں تنہا هی جنگ لڑنی تهی۔ ار کی پوری آبادی ایک طرف اور حضرت ابراھیم علیہ السلام ایک طرف۔    حق کے لئے یکے بعد دیگرے آپ نے بہت کچھ سہا’ بہت کچھ برداشت کیا ‘ اپنے ہی باپ اپنے ہی عزیز و اقارب اور اپنے ہی وطن کے لوگوں کی طرف سے خود پر هونے والے ظلم کو سہنا’ اپنے والد اور دیگر لوگوں کو حق و باطل کا فرق سمجھانے کی انتہائی کوششیں ‘ اپنے وطن عزیزکو خیر آباد کہنا ‘ حضرت سارہ علیہ السلام کی  جدائی ‘ حضرت ہاجرہ علیہ السلام اور ننھے اسماعیل علیہ السلام کے ساتھ تنہا ایک ویران و بے آب و گیاہ علاقے میں بسنا…. تصور کیجئے اس تپتے ریگستانی صحرا میں جہاں دور دور تک زندگی کے آثار نظر نہ آتے هو ‘ ایسی جگہ اپنے لخت جگر اور محبوب بیوی کے ساتھ سفر  اور اس کے بعد اسی لخت جگر کو خواب میں اپنے ہی ہاتهوں قربان کرتا دیکھ کر اسے اپنے حبیب کا حکم اپنے معبود برحق  کا فرمان جان کر اس خواب  کو حقیقت کا رنگ دینے کے لئے خود کو’ بیوی کو’ تیار کر لینا خالق حقیقی سے عشق کی انتہا کا ایک بے مثال و بے نظیر واقعہ ‘  یہ حوصلہ وہمت ‘ یہ والہانہ جذبہ قربانی صبر ثبات  یہ سب  آپ کی پیغمبرانہ صفات کی کھلی دلیل هے۔ احکام الٰہی کی پیروی کی خاطر اپنی سب سے عزیز ترین چیز اپنی اولاد کی قربانی انجام دینے کی وہ اعلی ترین مثال قائم کی جسکی انسانی تاریخ میں کوئی نظیر نہیں۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ ساتھ ان کی وفا شعار بیوی اور بیٹےکی قربانیاں بھی بے نظیر هے کیوں کہ انہوں نے ہر مرحلہ پر اپنے شوہر اور باپ ابرہیم علیہ السلام  کا ساتھ دیا۔ اور اللہ تبارک تعالی نے ان کی ان بے غرض و بے لوث قربانیوں کو قیامت تک کے لئے نہ صرف یاد گار بنایادیا بلکہ اسے عبادت کا حصہ قرار دیا۔ حضرت ہاجرہ کی یاد گار دوران حج صفا و مروہ کی سعی اور حضرت ابراہیم و اسماعیل علیهم السلام کی یادگار ہر سال عید الاضحٰی کے موقع جانور کی قربانی.

یہ اعزاز اللہ کی جانب سے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے گھر والوں کو یونہی نہیں مل گئے ‘ ابراہیم خلیل اللہ نے اپنی تمام زندگی معبود  برحق کی خوشنودی و احکام آوری کے لئے وقف کر رکھی تھی۔

ایک طرف حضرت ابراہیم علیہ السلام کی حیات مبارکہ هے حالانکہ وہ پیغمبر تھے لیکن تھے تو بشر ہی اور ان کے بالمقابل آج کے نوجوانوں کی ترجیحات جن میں بیشتر دیندار بھی هوتے هے اس سے تو یقیناً زمانہ واقف ہی هے۔

اسمارٹ فون ‘اسمارٹ بیوی’ اچھی سی نوکری’  نیو ماڈل کی کار’ خوبصورت بنگلہ ‘پرسکون و عافیت بھری زندگی۔

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آج کے نوجوانوں نے  ان چیزوں کے حصول کو ہی کامیاب زندگی کی  سند سمجھ لیاہے۔ ان کا حاصل کرنا ضروری ہو سکتا ہے   اور یہ ساری خواہشات شجر ممنوعہ بهی نہیں اور نہ ہی  ناجائز یا حرام هے ہاں اتنا ضرور ہے کہ یہ مومنین کا اصل مقصد نہیں ھو سکتا  ضرورت اس بات کی هے کہ اس کے حصول کے ساتھ ساتھ اور اس کے حصول کے بعد بھی احکام الٰہی کی بجا آوری  اور رسول پاک صلی اللہ علیہ و صلعم کی پیروی میں کوئی چیز روکاوٹ نہ بننے پائے۔

یعنی شادی هونے تک والدین و رشتہ داروں کی بے جا تمناؤں کی تکمیل کے لئے اسلام کے احکامات کو پس پشت ڈالا جائے اور شادی کے بعد بیوی بچوں  کی ہر خواہشات’  ‘ ان کی آرزویئں ‘انکے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لئے شب و روز معاشی دوڑ دھوپ کر کے پورا کر نا ہی زندگی کا مشن بنا لیا جائے۔

درحقیقت اپنی ذات سے وابستہ  ہر رشتے کے حقوق و فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی نہ ہونے پائے’ لیکن هماری حتی الامکان کوشش هو کہ دنیاوی زندگی کے یہ خوبصورت’ محبتوں بھرے رشتے راہ خدا میں کبھی بھی روکاوٹ نہ بننے پائے۔ کہیں ایسا نہ هو کہ خواہشوں کے کبهی نہ ختم هونے والے سلسلوں نے یہ سوچنے کی مہلت ہی نہیں دی کہ انسان جان سکے کہ آخر میرا رب مجھ سے کیا چاہتا هے۔ اور وہ جو چاہتا هے اس پر تو یقینا میرا ایمان تھا ہی بس صرف عمل کرنا تھا اور میں غفلت میں پڑا رہا۔

سیرت ابراہیمی میں ہمارے لئے یہ پیغام بہت واضح ہے کہ ہماری پوری زندگی اس آیت کی عملی تفسیر بن جانی چاہیئے۔

ان صلاتی و نسکی و محیای و مماتی للہ رب العالمین (الانعام 162)

 میری نماز’میرے تمام مراسم عبودیت’ میرا جینا اور میرا مرنا سب کچھ اللہ رب العالمین کے لئے هے۔

تبصرے بند ہیں۔