آگ کے ساتھ ہی پانی بھی بہم رکھنا تھا
افتخار راغبؔ
آگ کے ساتھ ہی پانی بھی بہم رکھنا تھا
دل میں تھا عشق تو آنکھوں کو بھی نم رکھنا تھا
…
مجھ کو معلوم تھا بدلی ہوئی رُت کا انجام
پھر بھی بے تاب اُمنگوں کا بھرم رکھنا تھا
…
اب کہاں دل کہ طلب عقل سے ہو کچھ امداد
اک ذرا سوچ کے پہلا ہی قدم رکھنا تھا
…
چیخ پڑتا تو یہ ڈر تھا کہ نہ ڈر جائیں وہ
اُن کو ہر حال میں مائل بہ ستم رکھنا تھا
…
اُن سے امید بھی رکھنی تھی وفا کی اے دل
دستِ الفت میں محبت کا عَلَم رکھنا تھا
…
شدّتِ عشق میں کرنا تھا اضافہ راغبؔ
اور بے تابیِ جذبات کو کم رکھنا تھا
تبصرے بند ہیں۔