حسرتِ تعمیر

آبیناز جان علی

معلوم، کہ چھوڑنا ہے اک دن

پھر بھی یہ لگن کہ گھر بنائیں

( پروین شاکر)

چڑیا بڑی محنت اور فرطِ محبت سے اپنا گھونسلہ بناتی ہے۔ تنکے تنکے کو جوڑ کر وہ اپنے آشیانے کو سنوارتی ہے جس میں اس کے انڈے محفوظ رہتے ہیں۔  پھر اس کے بچے بھی اسی گھونسلے میں آنکھیں کھولتے ہیں اور یہیں سے پرواز کرتے ہوئے نیلگوں آسمان کی وسعتوں کا لطف اٹھانا سیکھتے ہیں۔

اسی طرح انسان بڑی محنت و مشقت اور زندگی بھر کی کمائی کو جوڑ کر زمین کا ٹکڑا خریدتا ہے جس میں وہ اپنے خوابوں کے محل کو شرمندئہ تعبیر ہوتے ہوئے دیکھتاہے۔ کچھ لوگ بڑی مشکلات کے بعد اپنا چھوٹا آشیانہ بنانے میں کامیاب ہوتے ہیں اور ان کی نظروں میں وہی ان کی زندگی کا کل سرمایہ ہوتاہے۔ یہی گھر وہ اپنے جانے کے بعداپنے بچوں کے لئے چھوڑ جاتا ہے اور اس کی آنے والی نسل اس مکان سے فیض اٹھاتی ہے۔ خوش نصیب اور ثروتمند لوگ اونچی اونچی عمارت تعمیر کر کے دادوتحسین حاصل کرتے ہیں اور دوسروں کے حسد کا نشانہ بھی بنتے ہیں۔  کچھ لوگ مکان بنانے کا خواب دیکھتے دیکھتے اس دنیائے فانی سے کوچ کرجاتے ہیں۔  بڑے ممالک اور بڑے شہروں میں جگہ کی تنگی کے باعث لوگ فلیٹ میں قیام کرتے ہیں یا جن کی قوتِ خرید کم ہو وہ کرایہ کے گھر پر اکتفا کرتے ہوئے شاید سمندر کے کنارے ایک بنگلا، یا دلکش و دلفریب کوہ و کوہسار کے درمیان یا کسی جھیل یا ندی کے کنارے یا پھر مرغزاروں کے بیچ ایک گھر کے تصورات کو علامتی پیراہن دینے کے متمنی رہتے ہیں۔

ایک آہِ سرد بھرتے ہوئے پھر حقیقت کی  دنیا میں لوٹ آتے ہیں اور محبت بھری نظروں سے اپنے گھر کا جائزہ لیتے ہوئے تسلی پاتے ہیں کہ اس دنیا میں ایک ایسی جگہ ہے جسے وہ اپنا کہہ سکتے ہیں۔  سر پر چھت انہیں دھوپ، تیز ہوائیں اور بارش سے بچاتی ہے۔ اس کی پناہ میں موسمِ سرما کے دوران انسان نرم و ملائم کمبل کے نیچے خود کو گرم رکھتاہے جبکہ گرمی میں اسے راحت پہنچانے کے لئے گھر میں تما م سہولتیں موجودہوتی ہیں۔  پنکھا یا اے۔ سی ٹھنڈی ہوائیں دیتے ہیں جبکہ ریفریجیٹر میں پیاس کی شدت کو بجھانے کے لئے طرح طرح کے مشروبات ہیں۔

گھر احساسِ تحفظ عطا کرتا ہے نہ صرف خارجی حالات سے بلکہ اس کی موجودگی سے انسان کے اندر ایک سکون طاری رہتا ہے۔ لوگ عزت دیتے ہیں اور جس کے پاس گھر ہو وہ کسی کا محتاج نہیں ہوتا اور نہ ہی اس کے لئے یہاں وہاں ٹھوکر کھانے کی نوبت آپڑتی ہے۔ اپنے گھر کو وہ قرینے سے سجاتا ہے اور اس میں وہ چیزیں ڈالتا ہے جو اسے پسند ہو اور جو اس کی شخصیت کی ترجمانی کرتی ہوں۔  گویا اسے پوری آزادی ہے کیونکہ وہ اس جگہ اپنی مرضی کا مالک ہے۔ یہاں وہ سماج کے آئین و آداب کا پابند نہیں۔  جس طرح کے کپڑے پہننا چاہے یا جس چیر کو کھانے کے لئے جی للچائے وہ ان آرزوئوں کو پورا کرسکتا ہے جن کی کبھی کبھی باہر کی دنیا اجازت نہیں دیتی۔ اپنے گھر میں انسان سکون سے زندگی گزارنے کا خواستگار رہتاہے۔ گھر اسے جہاں کے مکر و فریب سے محفوظ رکھتاہے۔

یہاں وہ اپنے گھر والوں پر اپنی عنایتیں نثار کرتا ہے۔ انہیں ہر طرح سے خوش رکھنے کی کوشش کرتا ہے اور ر ممکن طریقے سے ان کی ضروریات کو پورا کرنے کا خواہاں ہوتا ہے۔ گھر وہ جگہ ہے جہاں ہم دینا سے تھک ہار کر واپس آتے ہیں۔  چاہے ہم کتنی دور چلے جائیں یا دنیا کے جس کونے کے لئے بھی سفر کو نکل پڑیں گھر ہی وہ جگہ ہے جو ہمیں اپنی طرف واپس کھینچتی ہے اور ہم دور رہ کر بھی اسی کو یاد کرتے رہتے ہیں۔  یہی ہماری شناخت ہے۔ دنیا کو اسی کا پتہ دیتے ہیں اور یہیں تمام ڈاک پہنچتے ہیں۔

جس گھر میں محبت نہ ہو وہاں کے بچے گھبراہٹ اور خوف کا شکار ہوتے ہیں۔  ان کے احساس تحفظ کو ٹھیس پہنچتی ہے اور ان کی زندگی پر اس خوف کا سایہ تا حیات رہتا ہے۔ جس گھر میں محبت نہ ہو وہاں کے افرادغصے کے پروردہ بن کر سماج میں ظلم و تشدد پھیلاتے ہیں۔  گویا گھر کی تاریکی دینا کی تاریک ترین تاریخ لکھ جاتی ہے۔ جس گھر میں ہمیشہ بحث و مباحثے ہوتے ہیں اور لڑائی جھگڑے اور تلخ آمیز کلمات سننے کو ملتے ہیں وہاں انسانی روح مرجھاجاتی ہے۔ لوگوں کا ایک دوسرے پر بھروسہ ٹوٹ جاتا ہے اور چونکہ ہم گھرسے ہی کمزور ہوکر نکلتے ہیں اس طرح دنیا بھی ہمیں کمزور مان کر اور زیادہ تکلیف پہنچاتی ہے۔ پھر زندگی دکھ اور تکلیف کا ایک طویل سلسلہ بن جاتی ہے۔ اکثر طلاق کی شکل میں سماجی نظام اسی ٹوٹے ہوئے گھر کا رونا روتا ہے۔ گو یا انسان نہ گھر کا نہ کھاٹ کا رہتا ہے۔

انسان کا آخری گھر اس کی قبر ہے۔ یہاں سب کو جانا ہے۔ ہر جاندار کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔ اس کی تیاری پیدائش سے شروع ہوتی ہے۔ اچھے اعمال ہی بلآخرکام آتے ہیں۔  مذہب قبر کی عذاب کی یاد دلاتا ہے۔ قبر میں انسان مٹی میں مل جاتا ہے اور اس کی ہستی اسی میں تحلیل ہوجاتی ہے۔ رسولِ خدا ؐ نے بارہا قبرستان کی زیارت کی ہدایت کی کیونکہ اس سے دل نرم ہوجاتا ہے اور انسان میں عاجزی و انکساری کی خواہش انگڑائیاں لینے لگتی ہیں۔  وہ ہر وقت اپنے آخری گھر کو یاد کرتے ہوئے نیک اعمال میں مبتلا رہتا ہے اور برائیوں سے پرہیز کرتا ہے۔ جو اپنے رب کے سامنے قلبِ سلیم کے ساتھ حاضر ہوا وہ فردوس میں محلوں کا مالک ہوگا جس میں اسے قسم قسم کی آسائشیں نصیب ہونگیں۔ دیکھا جائے تو ہم اسی دائمی گھر کی تیاری ہی تو کر رہے ہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔