حسن البناشہیدؒ اور ان کی تحریک !

مفتی محمد صادق حسین قاسمی

   اللہ تعالی کا نظام بڑا عجیب ہے وہ وقتا فوقتا ایسے افراد کو پیداکرتا ہے جو اصلاح ورشد کا مینارہ ٔ نور،اخلاق و کردار کاکوہ ِ ہمالہ،شریعت وطریقت کا حسین سنگم،دعوت ارشاد اور تبلیغ کا در نایا ب ہوتے ہیں ۔اور ایک فرد کا سوز ِدل اور روح کی بے قراری ایک عالم کے لئے انقلاب کا ذریعہ بن جاتی ہے ،اور وہ الحاد وبے دینی اور خدا فراموشی کے تیرہ وتاریک ماحول میں چراغ ِ ہدایت بن کر جگمگاتا ہے ،آفتاب کی طرح ا س کی کرنیں پوری دنیا ئے انسانیت پر چھاجاتی ہیں ،دیوانہ وار لوگ اس کے گرد پروانے کی طرح جمع ہوجاتے ہیں ،اس کی اداؤں پر فریفتہ اور ا س کے ایثار و اخلاق کے گرویدہ ہوجاتے ہیں ،اس کی زبان سے نکلنے والا ایک ایک جملہ دل پر بجلی بن کر گرتا ہے اور قلب کی دنیا میں تموج برپا کردیتا ہے ،محبت اور ہمدردی میں ڈوبی گفتگو زندگی کے رخ کو بدل دیتی ہے ،سادگی و بے نفسی ،تواضع و انکساری  اس کی عظمت کو مزید دو بالا کردیتی ہے اور تنہا ایک انسان وہ حیرت انگیز کارنامہ انجام دیتا ہے جو بڑی بڑی جامعات اور اکیڈمیاں بھی انجام دینے سے بسااوقات قاصر رہتی ہیں ، چناں چہ عالم اسلام کی ان ہی عظیم المرتبت اور ہمہ جہات شخصیات میں ایک مثالی اور انفرادی شخصیت امام حسن البنا شہید ؒ کی بھی ہے۔جو نگاہ ِ بلند کی حامل ،سخن دلنواز کے مالک ،جاں پر سوز سے مالامال تھے ،جنہوں نے مصر کی سرزمین میں اصلاح و انقلاب کی صدا کوبلند کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے آ پ کی آواز عرب وعجم میں پھیل گئی ،اور حق پرستوں اور دین کے متوالوں کاایک ایسا قافلہ تیار ہوگیا جو اعلائے اسلام کے جذبے سے سرشار ہو کر ،اقامت دین کی جد وجہد کے لئے تن من کی بازی لگانے والا بن گیا ۔خو بیوں اور کمالات کے پیکر حسن البناؒ نے نہایت منظم اور مستحکم طورپر دین کی محنت شروع کی اور طوفان مغرب کی ہلاکت خیزموجوں سے انسانیت کو بچانے اور دین اسلام کی ٹھنڈی چھاؤں میں پروان چڑھانے کے لئے کام کا آغاز کیا ۔

حسن البناؒکی شخصیت:

  حسن البناؒ کی ولادت 1906ء مصر کی بستی محمودیہ میں ایک دین دار گھرانہ میں ہوئی ۔آپ کے والد ماجد عبد الرحمن البناؒ حدیث وفقہ میں کامل دسترس رکھنے والے تھے پیشہ کے اعتبار سے گھڑی ساز تھے لیکن علم دین کی خدمت میں ہمہ تن مصروف رہتے اور مختلف علمی کام انجام دئیے ۔والدین کی تربیت کے نے بچپن ہی سے صلاح و تقوی کے راستہ پر گامزن کردیا تھا ،ابتدائی دور ہی سے منکرات سے نفرت اور معروف کی رغبت و عمل آوری کا جذبہ بھراہوا تھا اور زمانہ طالب علمی میں اپنے دوستوں کے حلقے میں اسی جہت سے محنت بھی شروع کردی تھی،بے حیائی کی روک تھام ،اور خدا بے بیزاری کے خلاف سینہ سپر ہوچکے تھے،اسکول کے ہی دور میں اصلاح کی غرض سے "جمعیۃ منع المحرمات”( انجمن انسداد محرمات)”جمعیۃ مکارم الأخلاق”،وغیرہ تنظیموں کی بنیاد ڈال دی تھی جو دراصل آپ کے روشن مستقبل اور آئندہ کے امام ِانقلاب ہونے کا پیغام دے رہی تھی۔سولہ سال کی عمر میں آپ قاہرہ کے دارالعلوم میں داخل ہوئے اور1927ء میں گریجویشن کی تکمیل کی ۔اور فراغت کے بعد وزارت تعلیم نے آپ کو اسماعیلیہ میں مدرس متعین کیا،1926 ء میں ملازمت سے مستعفی ہوئے اور مکمل اخوان المسلمون کے استحکام اور توسیع کے لئے وقف ہوچکے ۔ البناؒ کی شخصیت میں دین وشریعت کا حسین امتزاج پایا جاتا تھا ،وہ جہد مسلسل اور عمل پیہم کا نام تھے ،دن کے اوقات میں انسانوں کی اصلاح و تربیت ،عقائد وافکار کی درستگی کے لئے شہروں ا ور دیہاتوں کے چکر لگاتے،رات کی تنہائیوں میں رب العالمین سے زار و نیاز اور آہ وزار ی کامعمول تھا ،تزکیہ و تربیت کا خوب اہتما م فرماتے اور اپنی تنظیم کی بنیادی چیزوں میں اس کو بھی شامل کیا ،رذائل سے نفس کی اصلاح اور تقوی سے آراستگی کی بہت فکر تھی ،سادگی و تواضع کے حسین پیکر تھے،تکلفات سے پاک اور ظاہری شان و شوکت کی تمام اداؤں سے بے نیاز تھے ۔اپنی محنت پر پورا یقین رکھنے والے اور اس کے نتائج خیر سے مطمئن رہنے والے تھے ،خطیبانہ شان بھی اللہ تعالی نے عطا کی تھی ،دل کی گہرائیوں سے درد دل پیش کرتے کہ سامعین کبھی تڑپ کر اشکبار بھی ہوجاتے اور کبھی بے قراریوں میں مچلنے لگتے ،ایمانی فراست ،حسن تدبیر،معاملہ فہمی ،دقت نظری ،اصابت رائے ،خوش خلقی ،نفس کی پاکیزگی ،انسانیت کی ہمدردی ،غرض یہ کہ میر کارواں کی تما م تر صفات اللہ تعالی نے آپ میں جمع کر رکھی تھی ،اور ایک کامیاب قائد و رہبر کے اوصاف مجتمع تھے۔

مفکر اسلام مولانا ابو الحسن علی ندوی ؒ  نہایت جامع انداز میں آپ کا تعارف کرواتے ہوء ے رقم طراز ہیں کہ :اللہ تعالی نے اس رجل رشید اور فرزند فرید میں ایسی قوتیں و صلاحتیں جمع فرمادی تھیں جو انسانی نفسات اور علم الاخلاق کے ماہرین اور متعدد نقاد ومؤرخین کے نزدیک متضاد تھیں ۔بے مثال و تابان عقل اعلی درجہ کی فہم و ذکاوت ،ابلتا ہوا جوش و ولولہ ،ایمان و یقین سے لبریز دل ،قوی روحانیت ،فصیح وبلیغ زبان ،انفرادی زندگی میں غلو و تقشف سے پاک ،زہد و قناعت ،حوصلہ مندی و عالی ہمتی ،جوش وشوق فراواں سے بھر پور دل ،بلند پرواز و عقابی روح رکھنے والی ہمت ،سحر آفرین دور بین نگاہ،اپنی دعوت کی روح و مزاج کی حفاظت کا اہتما م،ذاتی معاملا ت میں حد درجہ تو اضع و خاکساری اور اقبال کے اس شعر کا صحیح مصداق:

  نگہ بلند سخن ،دل نواز ،جاں پر سوز

  یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لئے

  ( شیخ حسن البناایک مثالی شخصیت:20)

 مولانا ابوالاعلی مودودی ؒ فرماتے ہیں کہ :یہی وہ مرد مجاہد ہے جس نے اخوان جیسی زبردست تحریک کی داغ بیل ڈالی ،اس نے ہزارہا انسانوں کی کایا پلٹ دی ،ان کے اندر جہاد و سرفروشی کی روح پھونک دی اور ایک ایسے مومن ،باعزم اور فولاد صفت نسل تیار کی کہ دشمنان اسلام نے اگرچہ جوروستم کے بے تکان تیر چلائے اور جبر وتشدد کی خوب بھٹیاں دہکائیں مگر وہ جادہ ٔ حق سے نہ ہٹے اور شان کے ساتھ تحریک اسلامی کا پرچم لہراتے رہے ۔(84:اخوان المسلمون:تزکیہ ،ادب،شہادت)اقامت دین کے لئے آخری سانس تک خو د بھی ابتلاء و ازمائشوں کی بھٹیوں میں جلتے رہے ،اسلام کی تبلیغ کے لئے ہرممکن تگ ودو کرتے رہے ،اور جب آپ کا لگایا ہوا پیدا تناور درخت بن گیا ،برگ وبار ظاہر ہوئے ،حق پرستوں کی ایک مضبوط جماعت شریک ِسوز و ساز ہوگئی اور ایمانی جذبات سے لبریز مکمل تنظیم وجود میں آگئی تو باطل کی آنکھوں میں عداوت و دشمنی کا ایسا نشہ سوار ہوگیا کہ وہ حسن البنا ؒ کو آخر جام شہادت نوش کرنے پر ہی مجبور کیا ۔1949ء میں رات کی تاریکی میں اما م حسن البناؒ کو سر بازار شہید کیاگیا ،اور آپ کے اکثر باوفا مخلص رفقا وکارکنان جیل کی سلاخوں میں محبوس تھے ،رات ہی کے گھٹاتوپ اندھیرے میں خاموشی کے ساتھ آپ کے جنازہ کو لیجانے کا حکم دیا گیا ،آپ کے بوڑھے باپ نے غسل دیا اور گھر کی چار عورتوں نے کاندھا دے کر سپر خا ک کیا ۔ایک انگریز صحافی روبر جاکسون نے بڑے ہی عجیب انداز میں آپ کی شہادت کو ذکر کیا کہ :لیڈروں کے گروہ میں شیخ حسن البنا منفرد و یگانہ تھے لہذا ان کی موت بھی سب سے نرالی ہوئی ،رات کی تاریکی میں قتل کئے گئے ۔۔۔۔والد نے نماز جنازہ پڑھی اور گھر کی عورتوں نے جنازہ کو کاندھا دیا ،شہادت کے بعد راتوں رات دفن کئے گئے ،گھر والوں کو ا س حادثہ جانکاہ کے اعلان و اطلاع کی اجازت نہیں ملی ،اس رات قاہرہ میں نہایت خوف و ہراس کی فضا چھائی ہوئی تھی ،یہ کوئی حیرت کی بات نہ تھی ۔جو شخص ظلم وجور اور باطل سے ٹکرائے ،امام ابوحنیفہ ،امام مالک ،امام احمد بن حنبل اور ابن تیمیہ کے راستے پر چلے ،حالات سے لڑے اس کی موت تو ایسے ہی انوکھے ،خوفناک اور انتہائی دردناک صورت میں آنی چاہیے،جب ان کی زندگی کا ایک ایک لمحہ مخالفین کے دل دہلاتا تھا تویہ بھی ضروری تھا کہ ان کی موت بعد کی نسلوں کے دل دہلاتی رہے ۔( رجل قرآنی ؛شیخ حسن البنا ایک مثالی شخصیت :49)

اخوان المسلمون کی بنیاد:

 جس وقت مصر کی تاریخی سرزمین میں ایمان فروش قلم کاروں اور زر خرید مصنفوں کی زہر افشانیوں کی وجہ سے اسلام اور عاملین اسلام کے لئے نئے نئے فتنے پیدا ہونے لگے ،قرآن کریم کو ہدف تنقید بنایا جانے لگا، اسلامی احکامات کا مذاق اڑایا جانے لگا اور تعلیمات رسول پر تنگ نظری کے تیر برسائے جانے لگے اور مختلف کتابیں لکھ ذہنوں کو اسلام کے خلاف اکسایا جانے لگا ان پر فتن حالات میں سخت ضرورت تھی کہ اسلام کی صحیح ترجمانی کی جائے ،مغربیت کے افکار و نظریات کی مسموم فضاؤں کے رخ موڑے جائے ،اور عقیدہ وایمان کی حفاظت کے لئے میدان عمل میں سرگرم ہوا جائے ۔چناں چہ اسی عظیم خدمت کے لئے پیدا کئے جانے والے حسن البنا ؒ کی بے چین روح نے حالات کو بھانپتے ہوئے ،ایمان و اسلام کی حفاظت ،اور خدا کی سرزمین پر اس کی حکومت کو قائم کرنے کے لئے1928ء میں تاریخ اسلامی کی ایک عظیم تنظیم ’’الاخوان المسلمون ‘‘کی بنیاد رکھی ۔اخوان المسلمون نے بہت جلد اپنے بانی کے پاکیزہ جذبات اور ایمانی خیالات کی وجہ سے ہر طبقہ میں قبولیت حاصل کرلی ،اور لوگ اس کے حیرت انگیر ایمانی کیفیات کی  بناء اس سے وابستہ ہونے لگے ،تعلیم یافتہ افراد اور پیشہ ور حضرات،شہر کے رہنے اور دیہات وغیرہ میں زندگی بسر کرنے والے تمام لوگوں نے ایمان کی چنگاری کو شمع بنانے اور حمیت ایمانی سے تازہ دم رہنے کے لئے اخوان المسلمون کے حلقہ تذکیر و وعظ میں شریک ہونے لگے ، حسن البناؒ کی ایمانی افروز تقاریر ان کے خفتہ ایمان کو جگانے لگیں ،مختلف شعبوں میں ایمانیات کو زندہ کرنے لگیں ۔

حسن البنا ؒہر میدان میں دین کو زندہ کرنا چاہتے تھے ،سیاست ہو کہ معیشت،تجارت ہو کہ معاملات،ہر شعبے میں اسلامی تعلیمات کا احیا ان سب سے بڑا نصب العین تھا ۔1933 ء سے لے کر1939ء نے اخوان المسلمون مقبولیت بھی حاصل کی اور اپنے اثر و رسوخ کو بھی قائم کیا،1939ء سے باضابطہ سیاست کے میدان میں اخوان نے قدم رکھے ،کیوں کہ حسن البنا ؒدین کو سیاست سے جدا کرنانہیں چاہتے تھے بلکہ سیاست میں اخلاقی قدروں زندہ کرنا اور اس کو بھی تعلیمات نبوی ؐکی روشنی میں انجام دینے کا عزم رکھنے والے تھے ۔چناں چہ 1939ء سے لے کر 1945ء  تک اخوان نے میدان سیاست میں سرگرم کردار ادا کیا جس کے نتیجہ میں بڑے صبر آزما مراحل سے بھی گذرنا پڑا اور ابتلا و آزمائشوں سے بھی دوچا ر ہونا پڑا،مخالفین کی ایذارسانیاں بھی جھیلنی پڑی ۔اس کے بعد تیسرا مرحلہ اخوان کا 1945ء سے لے کر 1948 ءکا ہے جس میں اخوان کا حلقہ پورے عرب میں پھیل گیا اور مختلف خطوں اس کی شاخین قائم ہوگئیں ۔(مستفاد:اخوان المسلمون:تزکیہ ،ادب،شہادت)حسن البناؒ نے صاف اعلان کردیا تھا کہ یہ راستہ خاردار ہے ،کانٹوں سے گزر کر منزل کی جانب جانا پڑے گا ۔حق پرستوں کو تو ہمیشہ ہی خاردار راہوں سے گزرنا پڑتا رہا ہے ،امام نے چوں کہ اسی راستہ کا انتخاب کیا تھا اس لئے وہ بھی اور ان کے رفقاء وکارکنان نے بھی بخوشی ان تمام کا استقبا ل کیا ، حالات و مشکلات نے ان کے قدموں میں تزلزل آنے نہیں دیا ،تکلیفوں اور مصیبتوں کے پہاڑ توڑے گئے لیکن یہ تما م استقامت کا کوہ ِ گراں بن کر کھڑے رہے ،اور ہر بادِ مخالف کو اپنی ایمانی حمیت کے ساتھ پھیر نے میں لگے رہے ،ثبات قدمی کے ساتھ تمام آزمائشوں کا مقابلہ کیا اور ایک مرتبہ پھر مصر کی سرزمین پر اسلام کے علم کو نصب کردیا اور دنیا کے گوشوں میں ایمانی حرارت کے حامل افراد کو تیار کیا۔

حسن البناؒکی کوششوں کا مظہر:

حسن البناؒکے کارناموں سے ایک اہم کارنامہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے اس تحریک کو سنبھالنے والے ،اور آپ کے بعد اس کے نظام کو چلانے والے باوفا اور پر خلوص افراد کی ایک مکمل جماعت تیار کی ۔جو آپ کے متعین کردہ اصولوں کی روشنی میں اس عظیم ذمہ داری کو نبھاسکے۔جان ودل چھڑکنے والے اور مال ومتاع قربان کرنیوالے ،علم و عمل کی روشنی میں اس کاروان کو آگے بڑھانے والے ،عزیمت کے پیکروں کو تراشاتھا۔آپ کی تحریک میں جید علما ،باکمال اصحاب علم وفن ،بہترین قلم کاروں ،گفتار کے غازیوں،رات کے شب زندہ داروں ، اور میدان عمل کے شہواروں کی ایک کہکشاں جلوہ گر تھیں او رآج بھی موجود ہے۔علامہ سید قطب شہید ؒ جیسے مفسر قرآن ،علامہ عبدالفتاح ابوغدہ ؒجیسے محدث،شیخ مصطفی السباعی ؒجیسے دیدہ ورمصنف،مصطفی محمد الطحان ؒجیسے مایہ نازقلم کار،محمد الغزالی ؒجیسے متبحر عالم دین، کے علاوہ بے شمار اہل وعلم اس تحریک سے جڑے ہیں ۔اس وقت علامہ یوسف القرضاوی جیسے آفتاب علم اسی فکر سے متاثر موجود ہیں ۔اخوان المسلمون کے بانی اور مرشد ِ( قائد)اول تو خودامام حسن البناؒہی تھے۔ آ پ کے بعد اس وقت تک تقریبا ۷عظیم المرتبت شخصیات نے اس کی قیادت انجام دی اور دے رہے ہیں ۔جن کے نام بالترتیب یہ ہیں :(1)شیخ حسن بن اسماعیل الہیضبیؒ،(2)السید عمر التلسمانی ؒ(3)استاذمحمدحامدابوالنصرؒ،(4)استاذ مصطفی مشہورؒ،(5)المستشارمحمدمامون الہیضبیؒ،(6)استاذ محمد مہدی عاکف(7)ڈاکٹر محمد البدیع حفظہ اللہ ۔

     اخوان اپنے روز اول ہی سے دشمنوں کی نگاہ میں کھٹکتی رہی ہے ،اسی دن سے اس کے سادہ دل جاں نثاروں اور حق کے علم برداروں پر آلام و مصائب کے پہاڑتوڑے گئے،اخوانیوں نے اپنے خون ِ جگرسے اس گلشن کو سیراب کیا ،اور حق کے میدان کو ہموار کیا۔جیل کی سلاخوں میں بھی رہے ،تختہ دار پر بھی چڑھے،بدنوں کو لہولہان بھی کیا،اور بندوقوں کے نشانے پر بھی رہے ،مختلف وقتوں پر کرسی اقتدا پر قابض ہونے والے سنگ دل حکمرانوں نے اخوانیوں پر مظالم کی انتہا کردی ۔

تبصرے بند ہیں۔