حضرت حکیم سید شاہ تقی حسن بلخی فردوسی

سیدشاہ ابصار الدین بلخی فردوسی

(متعلم ایم اے اردو پٹنہ یونیورسٹی)

حضرت ابراہیم بن ادھم بلخی سلسلہ سلوک و معرفت کے عظیم صوفی بزرگ گزرے ہیں ۔ جنہوں نے بلخ کی بادشاہت اور فرماں روائی چھوڑ کر نجات حقیقی اور فلاح اخروی میں سلوک و معرفت کی راہ اختیار کی۔ حضرت حکیم سید شاہ تقی حسن بلخی اسی سلسلۂ خاندان کی اولاد ہیں ۔ہندوستان میں ابراہیم بن ادھم بلخی کے خاندان کا ورودحضرت شمس الدین بلخی سے ہوا۔ جب یہ آٹھویں صدی ہجری میں بلخ سے ہجرت کر کے ہندوستان تشریف لائے اورحضرت مخدوم احمد چرم پوش (برادر خالہ زاد مخدوم جہاں ؒ) سے بیعت ہوگئے۔ ہندوستان آنے کے بعد آپ تقریباً ۷۳۰ ھ میں بہار آئے۔ آپ کے ساتھ آپ کے تین بیٹے مولانا مظفر بلخی، مخدوم معز بلخی اور مخدوم قمرالدین بلخی بھی تھے۔ جن میں بڑے بیٹے مولانا مظفر بلخی مخدوم شیخ شرف الدین یحییٰ منیری کے ہاتھ پر بیعت ہوئے اور ان کے مجاز و خلیفۂ خاص ہوئے۔ منجھلے بھائی مخدوم معز بلخی کے بیٹے مخدوم حسین نوشۂ توحید بلخی بھی اپنے چچا مولانا مظفر بلخی کی ہی رفاقت اور تربیت میں تھے۔ مولانا مظفر بلخی کو کوئی اولاد نہ تھی۔ مخدوم حسین نوشۂ توحید بلخی اپنے چچا مولانا مظفر بلخی کے زیر نگرانی ایک بیٹے کی طرح پلے بڑھے،جوان صالح ہوئے اور بعد میں حضرت مخدوم جہاں ؒ سے بیعت ہو کر ان کے مجازوخلیفہ ہوئے۔ آپ کی گراں قدر تصانیف میں ’’حضرات خمس ‘‘ جو عربی میں تصوف پر برصغیر ہندوپاک میں پہلی کتاب تسلیم کی جاتی ہے۔

اسی دینی علمی اور تاریخی خانوادہ میں حکیم سید شاہ تقی حسن بلخی فردوسی کی پیدائش ۱۹؍محرم ۱۳۱۹ھ مطابق ۱۹۰۱ء کو رائے پورہ، فتوحہ( ضلع پٹنہ) میں ہوئی۔ بچپن ہی سے آپ کے اندر بے پناہ علمی ذوق اور استعداد موجود تھی۔ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد جب شعور بالیدہ ہوا تو اپنے والدحضرت سیدشاہ غلام شرف الدین بلخی فردوسی(متوفیٰ ۱۳۵۲ھ) سے طریقہ سلسلۂ فردوسیہ میں بیعت ہوئے۔ آپ مخدوم حسین نوشۂ توحید بلخی فردوسی کی براہ راست اولاد ہیں ۔ جنہیں مخدوم جہاں شیخ شرف الدین احمد یحییٰ منیری کی خلافت حاصل ہے۔ حضرت مخدوم حسین نوشہ توحید بلخی تک آپ کا نسب نامہ اس طرح ہے۔

 حضرت سید شاہ تقی حسن بلخی ابن سید شاہ غلام شرف الدین بلخی ابن سید شاہ غلام مظفر بلخی ابن سید شاہ علیم الدین بلخی ابن سید شاہ محمد تقی بلخی ابن سید شاہ غلام معز بلخی ابن سید شاہ برہان الدین بلخی ابن سید شاہ علیم الدین بلخی ابن سیدشاہ نور محمد بلخی ابن سید شاہ دیوان دولت بلخی ابن سید شاہ فرید بلخی ابن سید شاہ جیون بلخی ابن سید شاہ حافظ بلخی ابن سید شاہ ابراہیم سلطان بلخی ابن سید شاہ احمدلنگر دریا بلخی ابن سید شاہ حسن بلخی ابن سید شاہ مخدوم حسین نوشۂ توحید بلخی۔

    حضرت شاہ تقی حسن بلخی کے والد ماجدحکیم سید شاہ غلام شرف الدین بلخی عرف شاہ درگاہی ممتازِ وقت تھے۔آپ اپنے زمانہ کے مشہور طبیب ہوئے۔ آپ کی غیر معمولی لیاقت اور خدمات کو دیکھتے ہوئے انگریز حکومت نے ۱۳؍جون ۱۹۱۵ء کو’’ شمس العلماء‘‘ کے خطاب سے نوازا، لیکن آپ نے اس اعزاز کو واپس کردیا۔ آپ کے روابط و تعلقات کا دائرہ بہت وسیع تھا۔ اپنے والد سے ا بتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد جب حکیم شاہ تقی حسن بلخی کومزید تعلیم کا شوق پیدا ہوا تو صوبۂ بہار کی مشہور و معروف شخصیت ملک العلماء مولانا ظفر الدین بہاری (خلیفہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں ؒ) کے شاگرد ہوئے۔ مختلف علوم و فنون پر ملک العلماء کو کامل عبور تھا۔ آج بھی ان کی بہت سی علمی کاوشیں مطبوعات کے علاوہ مخطوطات کی شکل میں محفوظ ہیں ۔ شاہ تقی حسن بلخی ان کی شاگردی کو اپنے لئے ایک عظیم سرمایہ سمجھتے اور اکثر موقع پر اس کا ذکر کرتے۔ انہیں اس شاگردی کا شرف مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ پٹنہ میں داخلہ کے بعد حاصل ہوا۔ بعد میں ملک العلماء مدرسہ شمس الہدیٰ کے پرنسپل بھی مقرر ہوئے۔ اور شاہ تقی حسن بلخی نے عا  لمیت کی سند فراغت حاصل کی۔ پروفیسر مختارالدین آرزوؔ خلف ملک العلماء حضرت شاہ تقی حسن بلخی کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں ’’شاہ تقی بلخی نے غالباً مدرسہ شمس الہدیٰ پٹنہ میں تعلیم حاصل کی تھی۔ اور والد صاحب ظفرلدین بہاری علیہ الرحمہ کے شاگرد تھے۔ ان کی طالب علمی کا زمانہ تو مجھے یاد نہیں ، ان سے ملاقاتیں اس وقت ہوئیں جب میں بہار میں اردو نثر پر کام کررہا تھا۔‘‘ (ادراک، فصیح الدین بلخی نمبر ص ۴۵) اعا لمیت کی تکمیل کے بعد آپ فضیلت میں داخل ہوئے۔ اسی درمیان ملک میں ترک موالات کی تحریک شروع ہوئی اور آپ مدرسہ شمس الہدیٰ سے علیحدہ ہوگئے۔ جس کا ذکر کرتے ہوئے شاہ تقی حسن بلخی لکھتے ہیں کہ ’’ میں ایک طویل زمانہ تک مدرسہ شمس الہدیٰ (بانکی پور، پٹنہ) میں تعلیم حاصل کرتا رہا، مگر گورنمنٹ کے قبضۂ اقتدار میں جانے کی وجہ سے ترک موالات کے اصول پر علیحدہ ہوگیا۔ اور مولانا معین الدین صاحب اجمیری (مدرسہ معینیہ عثمانیہ، اجمیرشریف)کے درس میں شریک ہو کر مستفیض ہوتا رہا۔ مگر شومیٔ قسمت مولانا جیل تشریف لے گئے۔ اور بالآخر مجھے وہاں سے علیحدہ ہونا پڑا۔ ‘‘(حالات خودنوشت، مرقومہ ۲۲؍رجب ۱۳۴۰ھ)۔ اس کے بعد مدرسہ اِلٰہیات کانپور میں داخلہ لیا اور وہیں علوم کی تکمیل کی اور سند فراغت لی۔ مدرسہ اِلٰہیات کے بانی مولانا آزاد سبحانی جو خود بھی یکتائے روزگار تھے، ان کی تربیت میں رہ کر درس و تدریس کی ساری کمی پوری کی۔ اور مولانا کا علمی فیضان پاکر خود بھی یکتائے روزگار ہوگئے۔ اس لئے آپ ہمیشہ ان کی شاگردی پر فخر کیا کرتے تھے۔ مولانا آزاد سبحانی کے خاص شاگردوں میں حضرت مولانا سید شاہ صبیح الحق عمادی (سجادہ نشیں : خانقاہ عمادیہ قلندریہ، منگل تالاب،پٹنہ) بھی تھے۔ مدرسہ الٰہیا ت کانپور میں خیرآبادی سلسلہ کے ایک مشہور اور نامور عالم مولانا غلام یحییٰ تھے۔ جو ملک العلماء کے استاد رہ چکے تھے۔ شاہ تقی حسن بلخی نے ان کے درس میں شامل ہو کر عقائد و معقولات وغیرہ کی کتابوں کی تعلیم مکمل کی۔

مدرسہ الٰہیا ت کانپور سے فراغت کے بعد آپ علم طب کی طرف متوجہ ہوئے۔ آپ کے خاندان میں علم طب اور طبابت کا پیشہ کئی پشتوں سے چلا آرہا تھا اس لئے یہ فن ورثہ میں ملا۔ آپ کے جداعلیٰ حضرت شاہ محمد تقی بلخی اول (المتوفیٰ ۱۲۵۵ھ) بھی ایک کامیاب حکیم تھے۔ جن کا علم منتقل ہوتا ہوا آپ تک پہنچا۔ علم طب کی بہت سی باریکیوں کو آپ پہلے ہی سے جانتے تھے۔ لیکن جب اس علم میں کمال حاصل کرنے کا شوق بڑھا تو دہلی طیبہ کالج تشریف لے گئے اور وہیں داخلہ لیا۔ اور مسیح الملک حکیم اجمل خاں (دہلی) کے شاگرد ہوئے۔ حکیم اجمل خاں ایک غیر معمولی حکیم تھے۔ جن کی حذاقت کی شہرت ملک اور بیرون ملک تھی۔ بڑے بڑے اہل علم آپ کی درسیات میں شریک ہوتے۔ حکیم سید محمد حسان نگرامی، حکیم اجمل خاں کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں ’’آپ کا درس نہایت مقبول تھا۔ قانون شیخ آپ کو زبانی یاد تھی۔ فلسفہ پر قدرت کی وجہ سے کلیات کا درس بہت جامع ہوتا تھا‘‘۔ حکیم ظِل الرحمان نے لکھا ہے کہ آپ کے درس میں ہندوستان کے علاوہ افغانستان، بخارا، ہرات اور حجاز کے طلبہ بھی شریک درس ہوتے تھے۔ آپ کے درس کی مقبولیت اور افادیت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ شبلی نعمانی، مولانا محمد فاروق چڑیا کوٹی، جیسی شخصیتیں پابندی سے شریک درس رہتی تھیں ۔ (تاریخ طب)

حکیم سید شاہ تقی حسن بلخی کو ایک ایسے ہی قابل طبیب کا شرف تلّمذ حاصل تھا۔ آپ برسوں ان کی شاگردی میں رہ کر فیض یاب ہوئے۔ دہلی کے بعد آپ نے تکمیل الطب کالج لکھنو میں داخلہ لیا اور۱۹۲۶ء میں وہاں سے فراغت کی سند حاصل کی۔ تکمیل الطب کالج کے اساتذہ میں حکیم عبدالحلیم صاحب کی خدمات بڑی اہم ہیں ۔ آپ کا شمار عظیم المرتبت حکماء میں ہوتا ہے۔ انہوں نے تکمیل الطب کالج میں صحیح طبی ذوق اور علمی احساس پیدا کرنے میں اہم تدبیریں کیں ۔ شفاء الملک حکیم عبدالحلیم لکھنوی کے خاص شاگردوں میں شاہ تقی حسن بلخی کے علاوہ ڈاکٹر فریدالدین قادری (والدماجدپروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری) بھی ہیں ۔ اس حیثیت سے ڈاکٹر فریدالدین قادری اور شاہ تقی حسن بلخی نے لکھنؤمیں علم طب کی تعلیم ایک ہی استاد سے حاصل کی۔

 فن طب کی تکمیل کے بعد آپ نے اپنے گھر فتوحہ خانقاہ بلخیہ میں ہی مطب شروع کردیا۔ آپ نہ صرف علاقہ کے مشہور طبیب تھے بلکہ اس فن میں آپ کی شہرت دور دور تک تھی۔ آپ کی خداقت ِعلمی، تشخیص امراض اور شفا یابی کی شہرت سن کر لوگ دور دور سے آتے اور شفایاب ہوتے۔ آپ کے مطب میں مریضوں کا ہجوم ہوتا۔ دیگر ذاتی مشاغل کے لئے آپ کو فرصت نہیں ملتی۔ تشخیص امراض اور نسخہ نویسی پر آپ کو عبور حاصل تھا۔ پیچیدہ اور کہنہ امراض کے مریض بھی شفایاب ہو کر خوشی خوشی واپس جاتے۔ آپ کے معمولات و مجربات کی کئی بیاضیں خانقاہ بلخیہ فردوسیہ کے کتب خانہ میں موجود ہیں ۔

 مذہبی و دینی حیثیت سے بھی حکیم سید شاہ تقی حسن بلخی کی شخصیت محتاج تعارف نہیں ۔ قرآن و حدیث، فقہ و تصوف، علم کلام، منطق و فلسفہ اور ادیان عالم پر آپ کی نظر گہری اور وسیع تھی۔ قرآن کی تفسیر میں تفسیر کبیر امام رازی کو بے حد پسند کرتے اوراس کا درس بھی دیا کرتے تھے۔ جس کا سلسلہ ایک عرصہ تک خانقاہ بلخیہ فتوحہ کی مسجد میں جاری رہا۔ دینی مسائل پر گہری بصیرت تھی۔ سیرت رسول ﷺ پر تو آپ کو امتیاز و اختصاص حاصل تھا۔ میلاد النبی ﷺکی محفلوں میں خصوصی طو ر پر آپ کو مدعو کیا جاتا۔ آپ کے تاثیر بیان سے سامعین پر رقت طاری ہوجاتی۔ آپ کی تجویز اور دلچسپی سے پٹنہ میں سیرت کمیٹی کی بنیاد ڈالی گئی۔ جس کے جلسے برابر اور مختلف مقامات پر ہواکرتے۔ اس کمیٹی میں پٹنہ کی کئی اہم ہستیاں شامل تھیں ۔

   آپ نے بہت سے مذہبی و دینی مضامین لکھے۔ جن کو عام و خاص میں مقبولیت حاصل ہوئی۔ ان میں ’’ توسل‘‘ اور ’’ندائے بالغیب‘‘ بہت تحقیقی اور فکری ہیں جوماہنامہ المجیب ۱۹۶۴ء میں شائع ہوئے اور بعد میں اس کی علمی افادیت کو ملحوظ رکھ کر ڈاکٹرمفتی امجد رضا امجد (ڈائرکٹر:القلم فاؤنڈیشن،سلطان گنج،پٹنہ) نے دوماہی الرّضاا نٹرنیشنل،پٹنہ ۲۰۱۷ء میں بھی شائع کیا۔ اس مضمون میں انہوں نے ان سوالوں کا جواب دیا ہے جن کا تعلق استغاثہ برسول اللہ سے ہے۔ شاہ تقی حسن بلخی لکھتے ہیں کہ استغاثہ بر سول ﷺ کو کچھ کج فہم لوگوں نے شرک کے زمرے میں شمار کیا ہے، جس سے عام مسلمانوں کے احساس کو مجروح کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ مجھے اس فتوے نے بے چین کردیا کہ اس سے بہ یک جنبش قلم کتنی کثیر تعداد کو جہنم پہنچا دیا گیا ہے (المجیب صفحہ ۱۲)۔ شاہ تقی حسن بلخی نے اس مضمون میں قرآن و حدیث کے ساتھ عقلی و سائنسی دلائل بھی پیش کئے ہیں جو ارباب علم و فن کے لئے نہایت گراں قدر ہیں ۔ آپ نے ایک تحقیقی مضمون میں شبِ برات کی فضیلت پر جو بیجا اعتراضات کئے جاتے ہیں ، ان کا بھی مفصل اور جامع جواب ارقام فرمایا ہے جو المجیب میں شائع ہوا ہے۔ علاوہ ازیں متعدد ایسے مضامین ہیں جوعلمی شاہکار کی حیثیت رکھتے ہیں ۔

   ادیان عالم پر آپ کی نظر گہری اور وسیع تھی۔توریت، زبور، اور انجیل میں آ پ کو خاص کمال حاصل تھا۔ سیرت النبی ﷺ کے مواعظ میں ان کتابوں کے حوالے پیش کرتے جس سے غیر مسلم بھی متاثر ہوتے۔ ہندو مذہبی کتابوں کا بھی اس میں تفصیل سے ذکر کرتے۔

علم کلام، فن تصوف اور تاریخ تصوف میں آپ کوامتیازی مقام حاصل تھا جس کا اندازہ آپ کے علمی مضامین سے ہوتا ہے۔ علم جفر اور رمل پر بھی گہری نگاہ تھی۔ اس علم پر آپ کے جداعلیٰ حضرت شاہ محمد تقی بلخی اول (المتوفیٰ ۱۲۵۵ھ) نے ایک مکمل کتاب تصنیف کی ہے جو ’’مراۃ الاسرار ‘‘کے نام سے موسوم ہے۔ یہ کتاب شاہ تقی حسن بلخی کے ہمیشہ زیر مطالعہ رہی۔

۱۹۶۴ء میں آپ حج کے لئے مکّہ تشریف لے گئے، جس میں ان کے ہم سفر سید ولی حسن عالم گنج گھیرا، بھی تھے۔ اس سفر حج کی آپ نے روداد بھی لکھی ہے۔ جس میں ایک جگہ لکھتے ہیں ۔ ’’کس منہ سے خدا کا شکرادا کروں ، اب تو توقع ہے کہ سرکار میں سلام ضرور قبول ہوا۔ اس لئے کہ مولانا عبدالرئوف صاحب افغانی، جن کے جدّ عہد ترکیہ میں یہاں آئے تھے اور حکومت میں بہت زیادہ ممتاز اور مقدس سمجھے جاتے تھے، ان کے یہاں گنبد مقدس کی تعمیر میں جو ٹکڑا گنبدخضراء پاک کا حکومت سے عطا ہوا تھا، اس تبرک میں سے تھوڑا حصہ جو مسلسل ان کے یہاں چلا آتا تھا، انہوں نے میری نذر کیا۔ اﷲ اللہ اس پر جو شکریہ ادا کیا جائے وہ کم ہے، اور یہ سرمۂ چشم ہے۔‘‘ (حالات خود نوشت ۲؍صفحہ ۱۳۸۴ ھ)

  شاہ تقی حسن بلخی، خانقاہ بلخیہ فردوسیہ کے انیسویں سجادہ نشیں ہوئے۔ آپ کو حضرت مخدوم جہاں شیخ شرف الدین احمدیحییٰ منیری ثم بہاری کے خلیفۂ خاص مولانا مظفر بلخی سے براہ راست ابّا عن حد خلافت حاصل ہوئی۔ آپ کو سلسلۂ فردوسیہ کے بزرگوں ،خاص کرحضرت مخدوم جہاں سے غایت درجہ محبت تھی۔ سلسلہ فردوسیہ پر بیجا اعتراض کا بھی آپ نے جواب دیا ہے۔ ادب مخدوم اور فنافی المخدوم کی آپ عظیم مثال تھے۔ بلخیوں کا شروع کردہ عرس مخدوم جہاں جس کو مولانا مظفر بلخی (المتوفی ٰ۷۸۸ھ) نے شروع کیا تھا اس کو انجام دینے کے لئے ہر سال ۶؍شوال کو بہار شریف جاتے۔ عرس کے بعد مخدوم جہاں کیے روضۂ منورہ پر فاتحہ خوانی کرتے اور واپس ہوتے۔

 آپ کو سلسلہ منعمیہ کی بھی خلافت اپنے جدّ حضرت مولانا حسن منعمی رضارائے پوری (خلیفہ و جانشین حضرت مخدوم منعم پاک قدس سرہ) سے حاصل تھی۔ مولانا حسن رضا کی شخصیت بھی محتاج تعارف نہیں ۔ آپ کا وصال ۱۲۱۵ھ میں رائے پورہ فتوحہ میں ہوا۔ اور بلخیوں کے آبائی قبرستان و درگاہ میں مدفون ہوئے۔ سید شاہ تقی حسن بلخی باوجود علالت پابندی سے عرس مخدوم منعم پاک قدس سرہٗ میں حاضر ہوتے۔ اور محفل سماع میں بے حال ہوجاتے۔

  آپ کا انتقال ۱۳۹۲ھ مطابق ۱۹۷۲ء کو عالم گنج پٹنہ میں ہوا۔ اور تدفین خانقاہ بلخیہ فردوسیہ فتوحہ کے خاندانی قبرستان میں ان کی وصیت کے مطابق حضرت مولانا حسن رضا رائے پوری کے پائتی میں ہوئی۔ جس کی وجہ مولانا حسن رضا سے آپ کی غایت درجہ محبت تھی۔ آپ کی رحلت کی قطع تاریخ حضرت مولانا سیدشاہ محمد اسمعیل ابوالعلائی المتخلص بہ روح کے اس شعر سے نکلتی ہے   ؎

’’فکر جو کی تاریخ کی میں نے

آئی صدا مغفوراﷲ‘‘

۱۳۹۲ھ

 آپ کی پہلی شادی بی بی ہاجرہ بنت سید یعقوب بلخی سے ہوئی۔ جو آپ کی چچا زاد بہن تھیں ۔ آپ کی نیکی، خدمت خلق اور پارسائی کے قصّے پورے فتوحہ میں مشہور تھے۔ ان سے ایک بیٹا اور کئی بیٹیاں ہوئیں جو ایک کے بعد ایک انتقال کرتی گئیں ۔ صرف دو بیٹیاں اور ان سے ایک بیٹا حیات ہے۔ بی بی انیسہ بلخی اور بی بی وحیدہ بلخی۔ جن کی اولاد آج کراچی میں آباد ہیں ۔ آ پ کے انتقال کے بعد آپ کے بیٹے پیرومرشد حکیم سید شاہ علیم الدین بلخی فردوسی مسند سجادگی پر فائز ہوئے۔ اور اب تک قائم ہیں ۔ آپ بھی اسی علمی وراثت کے امین اور عظیم المثال ہیں ۔ آپ کی عمر اس وقت ۹۵ برس ہوچکی ہے لیکن آج بھی نثری عبارتیں اور سیکڑوں اشعار حافظہ میں محفوظ ہیں ۔ عربی و فارسی زبان پر کامل دست رس ہے۔ عربی اور اردو کے بے شمار مضامین ہندوپاک کے رسائل وجرائد میں شائع ہوتے رہے ہیں ۔

 شاہ تقی حسن بلخی کی شخصیت کے بے شمار پہلو ہیں ۔ آپ نثر نگار ہونے کے ساتھ قادرالکلام شاعر بھی تھے۔ مقطع میں کبھی بلخی تخلص کرتے کبھی عاصی۔ جیسا کہ ایک نعتیہ شاعری میں ایک ہی جگہ دونوں تخلص اختیار کیا ہے   ؎

الہٰی بلخیؔ عاصیؔ کی یہ حسرت بھی پوری ہو

مدینہ کی زیارت اور طیبہ کی حضوری ہو

شعر گوئی میں قطعہ تاریخ سے خاص دلچسپی تھی۔ تاریخ وصال اور واقعات و حادثات پر بہت سی قطعات تاریخ لکھیں جو آج بھی سفینہ اورڈائری میں محفوظ ہیں ۔ برمحل اشعار کہنے میں آپ کو خاص کمال حاصل تھا۔ متقدمین اور متاخرین کے بہت سے اشعار آپ کے حافظہ میں محفوظ تھے۔ اور حسب حالات انہیں برمحل استعمال کرتے۔ آپ کا شعری ذوق بہت ہی غیر معمولی تھا۔ کس شعر کی تشریح کرتے تو اس کا حسن نکھر کر سامنے آجاتا۔ یہ شعر فہمی آپ کے شعری ذوق کا ہی نتیجہ تھی۔ آپ کی زندگی میں عاجزی و انکساری، توکل، سخاوت و قناعت، نرم دلی، اہل اﷲ سے محبت، اﷲ اور اس کے رسول ﷺ میں فنافیت، علم دوستی، معرفت، استدلال و استنباط یہ تمام پہلو بہ درجہ کمال تھے۔ شاہ تقی حسن بلخی کی شخصیت کے بہت سے پہلو ہیں اور سبھی نمایاں ہیں ۔ فکرو تجسس اور ہمہ جہت کثرت مطالعہ سے ان کی رائے معتدل اور متوازن ہوتی۔ علمی مباحث میں استدلال منطقی ہوتا۔ لیکن اپنے طرز بیان سے اسے عام فہم بناتے اور ان کی عملی تعبیر ہوتی۔ اس لئے ہر حلقہ میں آپ قدرافزائی کی نظر سے دیکھے جاتے۔ پی ایچ ڈی اور تحقیقی کام کرنے والے آپ کے گردوپیش ہوتے۔ آپ ان کی رہنمائی کرتے۔ ان کی تحقیقی کتابوں میں آپ کی صلاحیتوں کا ذکر مختلف انداز سے کیا گیا ہے۔ لیکن افسوس خود شاہ تقی حسن بلخی کی شخصیت پر ایک مبسوط کام نہیں ہوسکا۔ ان کی شخصیت اور خدمات تشنۂ تحقیق ہیں جسے منصہ شہود پر لانا ایک بڑی علمی اور فکری خدمت ہوگی.

تبصرے بند ہیں۔