حضرت مولانا قاری عبدالرحیمؒ بھی داغِ مفارقت دے گئے

مولانامحمد طارق نعمان گڑنگی

 جرات وبہادری میں اپنی مثال آپ، محافلِ علماء کی رونق، مسلک اہل حق کے بے مثال ترجمان، فکر ِعبدالرحیم پوپلزئی کے معتبر و موقر اور موقع شناس عالم و شارح اور اسلاف کے علمی و روحانی کارناموں کے امین و پاسباں، ظالم کے لیے ننگی تلوار و مظلوم کے مددگار، مخلص اور بے لوث سرپرست ومربی، شیخ القرآن مولاناغلام اللہ خان ؒ کے شاگرد رشید ورفیق، قافلہ یوسفی کے روح رواں اور میر کارواں حضرت مولاناقاری عبدالرحیم صاحب  7جولائی بروز ہفتہ رات 1:30 پہ  دار فانی سے دار باقی کی طرف کوچ کر گئے اور بزم رفتگاں کا ایک حصہ بن گئے۔

حضرت قاری عبدالرحیم صاحبؒ اسلاف سے جا ملے اور وہاں چلے گئے جہاں باری باری ہم سب کو وقت متعین پر جانا ہے۔ کیوں کہ خلاق ازل نے اس دنیا کا نظام کچھ اس طرح بنایا ہے کہ۔ ۔ ترجمہ:ہر ذی روح کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔ کی حقیقت ہر ایک پر صادق آکر رہے گی، اس سے کوئی بھی فرد بشر حتی کہ انبیا کرام علیہم السلام کی ذات بھی مستثنی اور علیحدہ نہیں ہے۔

موت سے کس کو رستگاری ہے

آج وہ کل ہماری باری ہے

دنیامیں جو بھی آیاہے جانے کے لیے آیا ہے لیکن بعض لوگ جب جاتے ہیں تو زمانہ کورلاکر کے چلے جاتے ہیں ان کی جدائی پر اپنے اور بیگانے سب غمگین وآنسو بہاتے نظر آتے ہیں ایسے لوگوں کی زندگیاں ایک تحریک کا منظر پیش کرتی ہیں ان ہی تحریکی لوگوں میں یادگارِ اسلاف، رفیق ِ شیخ القرآن حضرت مولاناقاری عبدالرحیم صاحب ؒ بھی تھے۔

حضرت مولاناقاری عبد الرحیم 24جولائی  1957؁ء کو جوگاحافظ آباد جبوڑی ضلع مانسہرہ میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم جامعہ سراج العلوم جبوڑی مانسہرہ میں شیخ الحدیث حضرت مولاناسیدغلام نبی شاہ صاحب دام مجدھم سے حاصل کی، 1970؁ء میں دارالعلوم محمدیہ شہیدیہ بالاکوٹ سے قرآن پاک حفظ مکمل کیا،جبکہ تجوید وقراٗت کی سند 1972؁ء میں دارالعلوم تعلیم القرآن راجہ راولپنڈی سے اول پوزیشن کے ساتھ حاصل کی جہاں انہیں شیخ القرآن مولاناغلام اللہ خان ؒ کا شاگرد خاص ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔ شیخ القرآن ؒ سے ’’6‘‘ بار قرآن پاک کی تفسیر بھی پڑھی۔ حدیث کی تعلیم مولاناانور شاہ کشمیری ؒ کے شاگرد خاص حضرت مولانا عبدالقدیر اٹک والوں سے حاصل کی پھردس سال دارالعلوم تعلیم القرآن راجہ بازار راولپنڈی میں شیخ القرآن ؒ کی موجودگی میں درس وتدریس کے فرائض سر انجام دیے۔

آپؒ 1980؁ء میں محکمہ تعلیم سے منسلک ہوئے اور گورنمنٹ کی ملازمت اختیار کی۔ آپ کی پہلی تقرری بھونجہ  تحصیل بالاکوٹ ضلع مانسہرہ میں ہوئی، ترقی کرکے گورنمنٹ ہائی سکول بالاکوٹ تعیناتی ہوئی جہاں آپ نے 1993؁ء تک تعلیمی فرائض سرانجام دیے جس کے بعد مدت ملازمت کے اختتام تک درس وتدریس سے ہی منسلک رہے۔ 1993؁ء سے لے کر2017؁ء تک گورنمنٹ ہائیر سکینڈری سکول بانڈٰ ڈھونڈاں قلندرآباد میں ہی مدت ملازمت پوری کی۔ آپ جامع مسجد عثمانیہ گائوں سمیسر قلندر آباد میں امامت وخطابت کے فرائض بھی سرانجام دیتے رہے۔

آپ نے متعدد بار قرآن پاک فرض نمازوں میں ترتیب کے ساتھ پڑھا اور سنایا۔ اس کے علاوہ مجلس تحفظ ختم نبوت قلندر آباد کے سرپرست اعلیٰ بھی رہے ، آپؒ علاقے کی تمام مذہبی جماعتوں کی سرپرستی کرتے رہے ، آپؒ نے 2015؁ء میں وفاقی وزیر مذہبی امور جناب سردار محمد یوسف کی وساطت سے سعودی شہزادہ سلیمان کی دعوت پر حج بیت اللہ کی سعادت بھی حاصل کی اور شاہی مہمان ٹھہرے۔

آپ ؒنے ہمیشہ ضلع مانسہرہ کے مظلوم وپسے ہوئے طبقات کے لیے صداء حق کو بلند کیا۔ آپ اکثر مواقع میں یہ ارشاد فرماتے رہتے کہ ’’آخرت کی ناکامی و بربادی شرک وبدعت میں ہے اور دنیاکی ناکامی اور ذلت غلامی میں ہے، غریب ہونا عیب نہیں ہے غلام ہونے کوذلت وعیب شمار کیاجاتاہے، ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء نے توحید ورسالت اور آخرت کی دعوت دی اس کے ساتھ مخلوق کو مخلوق کی غلامی سے نکالنے کے لیے جان کی بازی بھی لگائی، جس طرح نماز،روزہ، حج وزکوٰۃ سے انسان کی نجات ہوگی اسی طرح پسے ہوئے طبقات کو جاگیرداروں ، نوابوں کے تسلط سے نکالنے کے لیے جدوجہد کرنا بھی نجات کا ذریعہ بنے گی، جس کی مثال اس دنیامیں حضرت سیدنا امام حسین  رضی اللہ عنہ نمونہ کے طور پر کر کے دکھا گئے، دنیا جانتی ہے کہ یزید ایک صحابی کا بیٹا تھا مسلمان تھا، پھر بھی امام حسین ؓ نے اسلام اور آزادی کا پرچم بلند کیا اور اپنے خاندان سمیت اپنی جان کو اللہ کے سامنے آزادی کی جنگ لڑتے ہوئے پیش کیااور شہادت کے عظیم مرتبہ پہ فائز ہوگئے ‘‘

 آپ ؒ فرماتے کہ ٹیپوسلطان کا یہ جملہ رہتی دنیا کے لیے رہنمائی دیتاہے کہ ’’شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سوسالہ زندگی سے بہتر ہے۔ ‘‘

حضرت قاری صاحبؒ کو میاں ولی الرحمن ؒسجادہ نشین گھنیلاشریف  عبدالرحیم پوپلزئی کے نام سے پکارا کرتے تھے۔

مولاناعبدالرحیم پوپلزئیؒ کی تحریک اور محنت سے 1933؁ء سے لے کر 1952؁ء تک جو مضارعت ایکٹ پختونخواہ اسمبلی میں پاس ہوایہ آپ ؒ ہی کی محنت کا نتیجہ تھا، صوبہ خیبر پختونخواہ میں پہلے غریب کسانوں اور مضارعوں سے جوبھگار لی جاتی جاتی تھی ان کی ایک ہزار قسم تھی۔ یاد رہے کہ مولاناعبدالرحیم پوپلزئی ؒ نے 9سال قید بامشقت غریب کسانوں اور مضارعوں کے حقو ق کے لیے کاٹی اور اپنے نیک مقصد میں کامیاب ہوئے۔

مولاناقاری عبدالرحیم صاحب ؒخاندان گھنیلاکے میاں غلام جیلانی مجذوب عرف نانگا میاں کے داماد اور جانشین تھے، (میاں غلام جیلانی عرف نانگا باباگھنیلا والے حاجی بابا کے پوتے تھے اور آپ میاں احمد جی حافظ جبوڑی والے کے نواسہ تھے ) آپ ؒ کے چار صاحبزادے اور تین صاحبزادیاں ہیں۔ آپ ؒکے دو بیٹے دو بیٹیاں فاضل وفاق المدارس العربیہ  ہونے کے ساتھ مختلف یونیورسٹیوں سے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ حضرت کے بڑے صاحبزادے مولانامفتی زاہد الحسن صاحب اس وقت جامعہ اشاعت القرآن حضرو میں تدریس اور ساتھ جامع مسجد صدیق اکبرؓحضرو ہی میں خطابت کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں ، دوسرے صاحبزادے حضرت مولانارشیدالحسن صاحب دارالعلوم کراچی کے فاضل ہیں اورS.S گورنمنٹ ہائی سکول پڑھنہ مانسہرہ اور ساتھ ساتھ ہمارے ادارے (مدرسۃ البنات صدیقہ کائناتؓ )  میں بھی تدریسی فرائض سرانجام دے رہے ہیں ، حضرت کے دو چھوٹے صاحبزادے (فھیم الحسن، عبدالرافع)جوکہ زیر تعلیم ہیں۔ حضرت قاری صاحب میرے سسرتھے ان کی جدائی میرے لیے بھی بہت بڑاصدمہ لے کے آئی ہے وہ ہمیشہ میری رہنمائی کیاکرتے تھے۔

حضرت قاری صاحب ؒ میاں ولی الرحمنؒ (سابق ایم پی اے )گھنیلاشریف اور وفاقی وزیر مذہبی امورسردار محمد یوسف کے معتمداورخاص لوگوں میں سے تھے،آپؒ ہر مشکل وقت میں سردار محمد یوسف اور میاں ولی الرحمن ؒ کے ساتھ سیسہ پلائی دیوارکی مانندڈٹے رہے۔

حضرت قاری صاحب ؒ استقامت و حوصلہ کے پہاڑ تھے طویل علالت میں بھی حضرت قاری صاحب نے ہمت وحوصلہ کا مظاہرہ کیا، قرآن پاک کی تلاوت ہر فرض نماز کے ساتھ حالت صحت میں ایک پارہ پڑھا کرتے تھے جب بیمار ہوئے تو آخر وقت تک روزانہ ایک پارہ، وظائف اور سورۃ مخصوصہ کی تلاوت کیا کرتے تھے، حضرت کا وصال 7جولائی بروز ہفتہ رات 1:30منٹ پہ ہواتو ہفتہ ہی کے دن مغرب کی نماز قریب مسجد مکی میں اداکی رات کو حضرت بیٹھے (فہیم الحسن، عبدالرافع) پائوں دبا رہے تھے حضرت کے ہاتھ میں تسبیح تھی اورادووظائف جاری تھے کہ آنکھ لگ گئی اور خالق حقیقی سے جاملے۔ نمازِ جنازہ 8جولائی بروزاتوار دن چار بجے ان کی رہائش گاہ کے قریب ٹھاکرہ مانسہرہ شیخ الحدیث حضرت مولاناسیدغلام نبی شاہ صاحب کی معیت میں اداکی گئی

حضرت کی نمازِ جنازہ میں ملک بھر سے کثیر تعداد میں علماء کرام، مشائخ عظام، سیاسی وسماجی شخصات نے شرکت کی جوکہ حضرت سے والہانہ محبت کاثبوت ہے

آسماں ان کی لحد پر شبنم افشانی کرے

سبزہ نو رستہ اس گھر کی نگہبانی کرے

حضرت قاری عبدالرحیم کے نمایاں ، زندہ و تابندہ اور عظیم کارنامے، اوصاف و کمالات امتایازات و خصوصیات نیز علمی دینی سماجی ملی اور قومی خدمات کا تذکرہ بہت سے لوگ کریں گے اور آپ کے حیات مستعار کے مختلف گوشوں پر مزید خامہ فرساء کریں گے اور خوب کریں گے، اور حق بھی ہے کہ حضرت قاری ؒ کی زندگی کے تمام گوشوں اور کارناموں کا احاطہ کیا جائے اور ان کی علمی وراثت اور امانت کو لوگوں تک پہنچایا جائے اس لئے کہ حضرت قاری صاحب ؒ ان عبقری لوگوں میں سے ہیں جن پر شاعر کا یہ شعر ہو بہو صادق اور فٹ آتا ہے

  ؎ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے

بہت مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

اللہ تعالی حضرت قاری صاحب ؒ کی قبر کو نور سے بھر دے، جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام نصیب فرمائے، وارثین، پسماندگان اور تمام متعلقین و منتسبین کو صبر جمیل عطا فرمائے اور ہم سب کو بھی ان کے نقش قدم پر چلنے اور ان ہی کی طرح قابل رشک زندگی گزارنے کی توفیق مرحمت فرمائے (آمین یارب العالمین)

1 تبصرہ
  1. Muhammad کہتے ہیں

    اسلام علیکم امید کرتاہوں کہ آپ خیریت سے ہوں گے
    ‏کفار جو پیارے آقا علیہ السلام پر بھونک رھے ھیں،اس کے لئے ایک بہت اھم کام جو کرنے کا ھے ۔ایک تو یہ کہ سیرت اقدس اور سنتوں کو کثرت سے بیان اور عمل کیا جائے ،ہر زبان میں خاص طور پر انگلش میں۔ میرا یہ پیغام ہرکسی تک پہنچایا جائے

تبصرے بند ہیں۔