حضرت مولانا شفیع احمد اصلاحی ؒ

عبدالباقی قاسمی

(پٹنہ)

حضرت مولانا شفیع احمد اصلاحی صاحب نوراللہ مرقدہٗ پرانی قدروں کے اور پرانی پیڑھی کے یادگار بزرگوں میں تھے۔ آپ کے اندرعاجزی اور انکساری  بیحد بھری ہوئی تھی اپنے اسلاف  کے بے حد قدر دانوں میں تھے۔ خاص کر مولانا عبد الخیر  صاحب نور اللہ مرقدہ کی سرپرستی اور بزرگی سے آپ نے بے حد فیض پایا اور عالم باعمل کے اوصاف حمیدہ آپ کے اندر پایا جانے لگا تو آپ کی بحالی بھی مدرسہ اصلاح المسلمین میں ہوگئی  قبل سے آپ کے والد محترم صاحب رحمۃ اللہ علیہ مدرسہ اصلاح المسلمین میں زمانہ قدیم سے تھے آپ نےاپنے  بزرگوں کا زمانہ دیکھا تھا خاص کر حضرت مولانا عبد الحفیظ صاحب سلفی نوراللہ مرقدہٗ دربنھگہ کا زمانہ بھی کافی دیکھا تھا اس وقت حضرت مولانا محمد صداقت حسین صاحب قاسمی مدرسہ ھذا  کے صدر المدرسین ہوا کرتے تھے پھر حضرت مولانا عبدالسمیع جعفری صاحب سرپرست مدرسہ ھذا کے ساتھ رہاکرتےتھے۔

شفیع  احمد اصلاحی رحمتہ اللہ علیہ صاحب کے اندر خاکساری بہت زیادہ تھی مدرسہ اصلاح المسلمین کے ہر ذمہ داری کو بڑی خوش اسلوبی سے انجام دیا کرتے تھے ہر کسی سے بات چیت بے حدنرمی سے کیا کرتے تھے ایسا لگتا تھا کہ ان کی زبان میں مٹھاس ہے اور اکرام کا بےحد جذبہ ہے پان چباتے رہتے اور باتوں ہی باتوں میں آپ پیار بھرا جملہ بولنے کے عادی تھے انہیں دیکھنے سے ایسا محسوس ہوتا تھا گویا وہ بےحد مطمئن اور مستغنی ہیں کوئی فکر و تردد نہیں جب دیکھیےان کے اندر ایک ہی دھن سوار ہے کہ مدرسہ کی ترقی اور فلاح کے لئے کام کیا جائے آپ نےنہایت ملنسار چھوٹے اور بڑے کا بہت خیال فرمایا کرتے تھے۔197عیسوی کی بات ہے جب  میں دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد پٹنہ میں میں  نوکری کی تلاشں میں آ گیا میرے والد محترم حافظ محمود عالم صاحب نے روانہ ہوتے وقت مجھے ایک خط پروفیسر کلیم احمد عاجز صاحب کے نام دیا اور فرمایا کہ یہ خط  پروفیسر صاحب کو دو گے وہ تمہاری ضرور مدد کریں گے چنانچہ پانی کے جہاز سے مہندرو گھاٹ  پہنچا تو پروفیسر صاحب کی دوکان روبرو بی این کالج جنرل  بیڈنگ اسٹور پر پہنچا اور خط حوالہ کیا پروفیسر صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے میرے رہنے اور کھانے کا انتظام کردیا کچھ دنوں قیام کے بعد میرا رہنا سہنا پتھر کی مسجد مدرسہ اصلاح المسلمین  کے قریب درگاہ روڈ میں ہو گیا اور دو کمرے کے چھوٹے دوکان میں قیام تھا ۔چونکہ خطاطی کا علم میں نے بچپن میں سیکھا تھا جو میرے لئے زندگی میں بڑاسہارا بنا۔ وی آرٹ  پریس سلطان گنج پٹنہ  میں کام شروع کیا جس کے مالک (پروپرائٹر )محترم بھائی سید انیس الرحمن صاحب اور بھائی سید انوار الرحمن صاحب تھے۔ یہ دونوں بھائی سید سہیل عظیم آبادی صاحب کے سگے بھانجے ہیں جو محمد پور شاہ گنج میں رہا کرتے تھے۔

سہیل صاحب ہندوستان گیر پیمانہ پر اردو ادب کے اعلی پائے کے مشہور و معروف ادیبوں میں ہیں اور آکاشوانی پٹنہ ریڈیو اسٹیشن میں اعلی عہدے پر فائز تھے اور ریٹائر ہونے کے بعد حکومت بہار نے انہیں سیکرٹری بہار اردو اکادمی کے عہدہ پر فائز کیا۔میری خطا طی سے لوگ واقف تھے پر یس والے مدرسہ والے بھی کچھ میرے پاس رمضان المبارک اور عید الاضحی کے اشتہار کی کتابت کرانے آجاتے تھے پرانے زمانے میں اخبارات اور کتابیں لھیتو پرس میں ہی طباعت ہوا کرتی تھی اور لیتھو کی روشنائی  خاص طور سے اولاد علی سیاہی  مرچنٹ کانپور والے ہی بناناجانتے تھے۔ اب سب کچھ ختم ہو گیا آفسیٹ کی  رنگین اور بہترین طباعت  ہونے لگی ہے۔ خطاطی ہاتھ سے لکھی جاتی تھی  اب کمپیوٹر کی ایجاد سے سب کچھ ختم ہو گیا تو اس زمانے میں لوگ میری  شہرت  سن کر کتابت کرانے کے لئے میرے پاس آیا کرتے تھے حضرت مولاناشفیع احمد اصلاحی صاحب رحمتہ اللہ علیہ بھی اکثر و بیشتر مدرسہ کا کوئی کام لے کر درگاہ روڈ پتھر کی مسجد کے ڈیرہ میں کسی کام سے تشریف لاتے  تو آواز لگاتے ہوئے اوپری منزل پر آ جاتے اور مدرسہ اصلاح المسلمین پتھر کی مسجد پٹنہ کے اشتہارات وغیرہ کی کتابت کرانے کے لئے آرڈر دیتے اگر کوئی بھی کام مدرسہ کاکرانا ہوتا تو فورا اکثر و بیشتر میرے پاس آ جاتے الحمدللہ میری کتابت  اردو عربی اور ڈیزائن سے محترم شفیع  احمد اصلاحی رحمتہ اللہ علیہ پر مطمئن ہو جاتے تھے ۔خود ان کی ذاتی کچھ چیزیں کتابچہ وغیرہ کے لیے بھی میرے پاس آ جایا کرتے تھے۔ اور بڑی تکلفی والی قربت ہم لوگوں میں ہو گئی تھی وہ اکثر مسکراتے رہا کرتے تھے ہر کوئی سے ایسے گھل مل کر باتیں کرتے تھے جیسے سبھی ان کا عزیز ہی ہو وہ چائے پان کے بہت عادی تھے ان ہونٹ ہر وقت لاہی لال رہتا تھا۔ کبھی آپ کے چہرے پر غم کے آثار نہیں دیکھا ۔شفیع احمد اصلاحی رحمۃ اللہ علیہ کے والد محترم بھی قبل سے ہی مدرسہ اصلاح المسلمین میں مدرس کی حیثیت سے تھے میں نے آپ کے والد محترم کو بھی دیکھا ان کے چہرہ پر غم کے آثار نہیں ہوا کرتے تھے۔ وہ بھی بے حد نیک مجاز ملنسار اور خاکسار عاجزی و انکساری آپ کے اندر موجود تھی۔تو گویا اپنےوالدمحترم اور بزرگوں سے زندہ دلیوالی خوبیاں انہیں ورثہ میں ملی تھیں-

زندگی زندہ دلی کانام ہے  

 مردہ دل کیاخاک جیاکرتے ہیں

  بقیۃ السلف حضرت مولانا عبد الخیر  صاحب نور اللہ مرقدہ کومیں نے پٹنہ کے قیام کے دوران تقریبا دس سالوں تک دیکھا ہے۔ اس زمانے میں آپ مدرسہ اصلاح المسلمین پتھر کی مسجد کے سرپرست اعلی اور امارت اہل حدیث کے روح رواں تھے علماء صادق پور کے چشم وچراغ کو الحمدللہ میں نے بار بار دیکھا قریب اور دور سے دیکھا تھا بڑے بڑے جلسوں میں آپ کو صدارت کرتے میں نے دیکھا اور جہاں بھی پوسٹر میں اجلاس کی صدارت میں آپ کا نام دیکھا حاضر ہو جاتا کبھی محمد پور شاہ گنج میں امیر محترم مولانا عبد الخیر صاحب رحمتہ اللہ علیہ کی صدارت میں جلسہ ہر سال ہوا کرتا تھا وہاں کے نوجوانوانان  کمیٹی سالانہ جلسہ عام بڑے ہی اعلی پیمانےپر  اہتمام کے ساتھ کیا کرتے تھے جلسہ ہر سال ہوا کرتا تھا وہاں کے نوجوان کمیٹی سالانہ جلسہ عام برے ہیں اعلی پیمانے پر اہتمام کے ساتھ کیاکرتےتھے۔ جلسہ کے بڑے پوسٹر کی خطاطی کی کتابت کے لئےیہ نوجوان اکثر میرے پاس آیا کرتے تھے اور بڑے رنگین طباعت سے آراستہ کرنے والے انہی نوجوانوں میں سے بھائی محمد قمر الدین صاحب وی آرٹ  پریس سلطان گنج میں استاد تھے مشین میں جو صاحب چھپائی کے بڑے ماہر تھے اسی طرح کبھی عالم گنج پٹنہ سیٹی اور دیگر جگہوں میں بھی آپ کی صدارت میں برابر کہیں نہ کہیں اجلاس ضرور ہوا کرتا تھا اور میں الحمد للہ اکثر جلسوں میں ضرور شریک ہو جایا کرتا تھا رات کے گیارہ بجے بارہ بجے تک گویا اختتامیہ دعاءکےبعد ہی اپنے گھر میں لوٹ تاتھا۔علمائے کرام  کی قدردانی کا اس وقت ماحول تھا زمانہ کتنا خوشگوار تھا امن و سکون کا ماحول ہوا کرتا تھا لگتا تھا کہ ہر طرف خوشبو ہی خوشبو پھیلی ہوئی ہے ہمارے اکابرین نے اتنی محنت کی تھی کتنی سچائی ایمانداری پھیلائی  تھی تب کہیں جا کر سکون کا ماحول قائم  ہوا تھا خدا ئے وحدہ و لاشریک لہٗ کے سامنے ہاتھ پھیلاتا اور دعاؤں کے ذریعے آنسو کا قطرہ بہا کر امت کی بدحالی پر دل کی گہرائی سے آپ نے اعلی سوجھ بوجھ کے ساتھ رہتی دنیا تک اس آخری امت محمدیہ کی بقا و سلامتی کے لیے دعائیں کیا کرتے تھے حضرت مولانا عبدالخیر صاحب نوراللہ مرقدہٗ اور ان جیسے پایا کہ اکابرین جیسے صاف ستھرے اور سچے لوگ تھے جنہیں اپنے بزرگوں کے ذریعہ وراثت میں اپنے بزرگوں کی جوتیوں کے صدقے میں یہ دولت ملی تھی ہر کوئی رہبر ہی تھا ان بزرگوں کے نیک اثرات کا یہ عالم تھا کہ شہروں یا دیہات میں رات کے کسی حصہ میں قریب یا دور دراز کا سفر امن و عافیت کے ساتھ کیا جاتا تھا راستے میں کوئی رہزنی  نہیں کرتا تھا بلکہ رہبری کرتا تھا ۔

حضرت مولانا شفیع  احمد اصلاحی صاحب رحمتہ اللہ نے غالبا1980 میں مجھ سے  فرمایا کہ امیر محترم مولانا عبدالسمیع جعفری صاحب کی دلی خواہش ہے کہ آپ چند گھنٹےکا  وقت نکال کر مدرسہ اصلاح المسلمین کے اونچےدرجہ  والے طلبائےکرام کو فن خطاطی سکھادیں تاکہ بچوں میں اسلامی وراثت خطاطی کی صلاحیت پیدا ہو جائے اور تحریر بھی اچھی ہو جائے پھر میں نے امیر محترم کی خواہش کو سر آنکھوں پر رکھا اور دو گھنٹے وقت نکالنے کے لیے ان شاءاللہ میں نے کہہ دیا میرے لئے کلاس روم مقرر ہوا اور بچوں کے نام کی لسٹ انچارج مدرسہ نے مجھے دیا اور الحمدللہ امیر محترم کی خواہش کے مطابق مدرسہ اصلاح المسلمین پتھر کی مسجد پٹنہ میں خطاطی کے معلم کی حیثیت سے مجھے کام کرنے کا موقع ملا الحمدللہ آج بھی میرے کتنے شاگرد موجود ہوں گے مدرسہ اصلاح المسلمین میں آنے جانے کی وجہ سے مولانا شفیع احمد اصلاحی صاحب کچھ زیادہ ہی خیال فرما نے لگے اکثر چائے ناشتہ سے میری خاطر کرتے تھے وہ فرمایا کرتے تھے کہ آپ کے نانیہال بنجر یا محسود اور قرب وجوار سے میرے گہرے مراسم تھے میسوڈھااور قرب وجوارسے میرے گہرے مراسم تھے  مجھ سے جب مولانا کھل کر باتیں کرتے اور میرے نانیہال  کے لوگوں کے بارے میں اور میرے دونوں ماموں مولوی محمد فضل الرحمان اور مولوی محمد سلیمان صاحبان اور کئی  پشتو پرانے بزرگوں کا نام بتاتے تو مجھے محسوس ہوتا تھا کہ یہ  بھی اسی سب گاؤں میں کسی گاؤں کے ہیں اور ڈھاکہ مشرقی و مغربی چمپارن کے ہر گاؤں اور علاقے سے اچھی واقفیت رکھتے تھے مولانا اصلاحی صاحب رحمتہ اللہ علیہ بڑے خوش مزاج بڑے  تجربہ کار تھے تھوڑی دیر کی ملاقات میں وہ ملاقاتیوں کا دل جیت لیتے تھے۔

ابھی الحمدللہ بہت سارے لوگ ہیں جو ان بزرگوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہوگا آپ کے اندر سچائی اورمردم شناسی اور غنائیت اور آسودگی  کے اثرات غالب تھے اور ایسے اللہ والوں کو دنیاوی  فکر و تردّد دامن گیرنہیں ہوتی تھی۔بقیتہ السلف  حضرت مولانا عبد الخیر صاحب نور اللہ مرقدہ کومیں نے دس سالوں تک پٹنہ میں دیکھا آپ کے چھوٹے صاحبزادے حضرت مولانا عبدالسمیع جعفری بھی اپنے والد بزرگوار کی طرف بے مثال عالم دین اور قوم و ملت کے سچے خادم سچی اور روحانی باتوں کے بہترین مقرر تھے حضرت مولانا عبدالسمیع جعفری صاحب کا زمانہ 25 سالوں تک دیکھا کہیں سے ان کی زندگی میں کوئی جھول نہیں دیکھا بس یوں انہیں  دیکھ کر لگتا تھا کہ یہ اپنے اسلاف کی یادگار ہیں حضرت مولانا عبدالسمیع جعفری  صاحب مولانا شفیع احمد اصلاحی  صاحب فرماتے تھے کہ مدرسہ کا کام مولوی عبدالباقی صاحب کے علاوہ دوسرے سے نہیں کر ایئے گا جب اشتہار یا پمفلیٹ کتابچہ وغیرہ جو بھی چھپ جاتا تو نیچے میرا نام جطاط کے طور پر ہے تو مطمئن ہوجاتے کئی بار کسی وجہ سے کہیں اور جا کر کتابت کرالیا گیا تو مولانا شفیع احمد اصلاحی رحمتہ اللہ علیہ نے   خود ہی مولانا شفیع احمد اسلام رحمتہ اللہ علیہ نے بتایا کہ عبدالباقی کو بہترین خطاط کے حیثیت سے امیر محترم آپ کو ضرور یاد کرتے رہتے ہیں حضرت مولانا محمد داؤد صاحب سلفی رحمتہ اللہ علیہ ساکن اموا  شیوہر وسابق مہتمم مدرسہ احمدیہ بیراگنیاں  بھی ہمارے اسلاف کی یادگار تھے نہایت سنجیدہ رکھ رکھاو مزاج میں عزت اور شرافت کے پیکر تھے جب بھی آپ کو مدرسہ-احمدیہ بیراگنیاں کا اشتہار وغیرہ کی کتاب کرنی ہوتی تو خود ہی میرے قیام گاہ درگاہ روڈ پتھر کی مسجد تشریف لاتے یا کبھی حضرت مولانا محمد خلیل صاحب ساکن چکنگری  سابق صدر المدرسین مدرسہ احمدیہ سلفیہ بیراگنیاں  کو میرے پاس اس کام  کے لئے بھیجتے حضرت مولانا شفیع احمد اصلاحی صاحب کےیہاں مولانا داؤد صاحب سلفی یا مولانا محمد خلیل صاحب جب پٹنہ میں کسی بھی  کام سے آتے تو قیام فرماتے مولانا شفیع  صاحب برے اکرام سے خاطر کرتے تھے ویسے بھی بہار کےکسی مدرسہ والے بھی آپ کےپاس آتے تومہمان نوازی میں پیش پیش رہتے۔ اب ایسے نایاب ہیرے کہاں روپوش ہوگئے علامہ شاد عظیم آبادی کا شعریادآتاہے

ڈھونڈھوگےاگرملکوں ملکوں ملنےکے نہیں نایاب ہیں ہم 

تعبیرجس کی حسرت وغم اے ہم نفسووہ خواب ہیں ہم 

تبصرے بند ہیں۔