حضرت مولانا علی میاں ندویؒ : یادوں کے جھروکے سے (قسط: 3)

محمد شاہد خان ندوی

حضرت مولانا کی شان بے نیازی اسی طرح کی تھی، وہ دنیا سے بقدر ضرورت ہی لیتے تھے، ان کی زندگی سادگی کا نمونہ تھی، معمولی سے معمولی آدمی ہو یا ادنی سے ادنی طالب علم یا پھر کوئی صاحب جاہ و ثروت وہ بڑی آسانی سے سب کو میسر آجاتےھے۔
مولانا کی زندگی میں روز و شب کے معمولات بہت منظم تھے، مطالعہ، خط و کتابت، قومی و ملی مسائل، لوگوں سے ملاقات، طلباء کے ساتھ مجلس،  سب کے اوقات متعین تھے، روز عصر کی نماز کے بعد مہمان خانہ کے باہر مجلس منعقد ہوتی جہاں اساتذہ اور عمائدین شہر آتے، مولانا سے ملاقات کرتے اور مختلف مسائل پر گفتگو کرتے، عشاء کی نماز کے بعد کا وقت طلبہ کے لئے مخصوص ہوتا،  مولانا سے استفادہ کی غرض سے ہم لوگ اس وقت کی تاک میں رہتے۔  عشاء کی نماز کے بعد علم کے شوقین طلباء مہمان خانہ میں مولانا کے ارد گرد حلقہ بنا کر بیٹھ جاتے اور حضرت مولانا اور طلباء کے درمیان ہمزہء وصل کے طور پر سوال و جواب کے لئے کوئی نہ کوئی استاذ آ موجود ہوتے، عام طور سے تین حضرات یہ ذمہ داری نبھاتے، کبھی مولانا برہان الدین سنبھلی صاحب تشریف لاتے جو مولانا کے ساتھ گزرے ہوئے حالات واقعات کا تذکرہ کرتے یا کسی کتاب پر گفتگو کرتے لیکن وہ کوئی سوال یا استفسار کم ہی کیا کرتے تھے، جب وہ نہ ہوتے تو مولانا شمس الحق صاحب تشریف لاتے، وہ زیادہ تر سوالات کرتے جن کا جواب حضرت مولانا دیا کرتے، بعض دفعہ مولانا شمش الحق صاحب کے بعض سوالات کا حضرت مولانا ایسا ظریفانہ جواب دیتے کہ مجلس زعفران زار ہوجاتی لیکن اکثر و بیشتر ہمارے درمیان مولانا نذر الحفیظ صاحب آموجود ہوتے، وہ طلبہ کے استفادہ کے لئے زیادہ تر حضر ت مولانا کے حالات زندگی کے بارے میں دریافت کرتے، اس لئے ہم طلبہ کو مولانا نذر الحفیظ صاحب کی موجودگی سے زیادہ فائدہ ہوتا۔

اوپر ذکر کیا جا چکا ہے کہ اللہ نے حضرت مولانا کو تربیت کا خاص ملکہ عطا کیا تھا، وہ جانتے تھے کہ حالات کی تبدیلی سے مزاجوں میں کس قسم کا فرق پیدا ہو جاتا ہے، وہ اس حقیقت سے بھی واقف تھے کہ مدارس کا رخ کرنے والے طلبا ہی در اصل امت کی دینی، فکری اور ایمانی قوت کا سر چشمہ ثابت ہوں گے جن کے دم سے بے شمار ایمان بیزار لوگوں کی روحانی تشنگی دور ہوگی اور اسلام کا تازہ دم کارواں انہیں کے وجود سے دیوانہ وار رو بہ منزل چل پڑےگا، اسی لئے حضرت مولانا تربیت کا انداز بہت نرالا اختیار کرتے تھے، وہ ہندوستانی مسلمانوں کی نفسیات کو سمجھتے تھے کہ بیشتر حضرات اپنے ممتاز بچوں کو مدرسوں کے سایہ سے بھی دور رکھتے ہیں،  مدارس کو صرف وہی بچے مل پاتے ہیں جن کی تربیت سے ان کے والدین یا تو مایوس ہو چکے ہوتے ہیں یا پھر فقر و افلاس کی بیڑیوں نے جن کے پاؤں بوجھل کر دئے ہوتے ہیں۔ انہی کے تھکے اور بے جان قدم علوم نبوت کے حصول کا سودا اپنے سر میں سمائے بوریا نشیں علماء کے دروازہ تک پہونچتے ہیں،  انہی سنگ ریزوں کو تراش کر عہد جدید کے آزروں کے بت خانوں میں موجود دیو ہیکل اور شہ زور باطل خداؤں کی پر شکوہ اور طلسماتی دنیا پر ضرب کاری لگانے کے لئے تیشے تیار کرنے ہوں گے، کچھ ٹوٹیں گے تو کچھ اپنی فطری کجی کی بنا پر بے سود ثابت ہوں گے، لیکن چند ایسے افراد ضرور تیار ہوجائیں گے جو ابراہیمی روح سے سرشار ہو کر نمرود وقت کے سینے میں اپنی قوت ایمانی کی بدولت زلزلہ پیدا کر دیں گے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ کبھی طلبہ کو ڈانٹتے نہ تھے بلکہ ان کے ساتھ بڑی شفقت کا معاملہ فرماتے، طالبان علوم نبوت کو وہ دنیا کی تمام جماعتوں اور انسانی گروہوں سے ممتاز گردانتے تھے لہذا ان کو شہزادوں کی طرح سمجھاتے تھے۔

آپ مولانا کی کتاب ‘پاجا سراغ زندگی’ کا مطالعہ کیجئے تو معلوم ہوگا کہ طالبان علوم نبوت کو وہ کن خصوصیات کا حامل تصور فرماتے تھے، ان کی دینی غیرت کو مہمیز لگانے کی غرض سے نہایت موزوں اور سبق آموز تاریخی واقعات کو وقتا فوقتا طلبہ کے سامنے ذکر کرتے تاکہ وہ اس ذمہ داری کی سنگینی سے واقف ہوجائیں جس کے لئے انہیں تیار کیا جا رہا ہے۔ چونکہ دعوت دین کام سے حضرت مولانا کو بے پناہ لگاؤ تھا اور مسلم دنیا کی علمی و فکری ترقی کے لئے وہ ٹھوس اور عمیق نبوی علوم پر مبنی دعوتی کوششوں کے فقدان کو ذمہ دار مانتے تھے لہذا ان کی ذاتی کوشش ہمیشہ یہی رہی کہ وہ ایسے افراد تیار کریں جو ان ستودہ صفات کے حامل ہوں جو قرون اولی کے علما و دعاۃ کا طرۂ امتیاز رہی ہیں،  اکثر جب دارالعلوم کی مسجد میں مولانا کی تقریر ہوتی تو فرماتے کہ ایک زمانہ میں قرطبہ اندلس کا بادشاہ پورے دعوے کے ساتھ یہ کہہ سکتا تھا کہ آج اس شہر میں کسی کی فجر کی نماز قضا نہیں ہوئی ہے لیکن افسوس کہ ندوہ کے طلبا کے تعلق سے میں یہ دعوی نہیں کر سکتا، اس سے ان کی دلسوزی اور انداز تربیت کا انوکھا پن صاف معلوم ہوتا ہے، مولانا مزید فرماتے کہ آپ شہزادے ہیں اور امت کی قیادت آپ کا فرض منصبی ہے،  کیا کسی بادشاہ کو کبھی اپنے شہزادوں سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ وہ مہتر کے بچوں کے ساتھ نہ کھیلیں ؟ آپ شہزادے ہیں،  آپ طالبان علوم نبوت ہیں،  آپ اپنے مقام کو پہچانیں۔

اخلاقی اور نفسیاتی تربیت کے علاوہ حضرت مولانا طلبہ کو ایک تلخ حقیقت سے بھی روشناس کرواتے تھے، ایک کامیاب اور دردمند مربی کے بطور وہ اپنی علمی ذمہ داری سمجھتے تھے کہ طلبۂ مدارس کو صرف خوابوں کی دنیا میں رکھنا ٹھیک نہیں ہے اور طلبہ کے لئے مدرسہ کے احاطہ میں طالبعلمانہ زندگی گزارتے ہوئے محض اپنی اہمیت کا زعم لئے پھرنا کافی نہیں ہے، کیونکہ انہیں جس بے درد اور گردن کشی پر آمادہ ماحول کی حقیقت سے اصل معرکۂ حیات میں رو برو ہونا ہے اس کے لئے ان کا یہ جاننا ضروری ہے کہ آج کی دنیا کن سخت اصولوں کے مطابق کامیابی کا پیمانہ طے کرتی ہے، لہذا وہ دوران خطابت صاف لفظوں میں یہ بتاتے تھے کہ اخلاص اور اختصاص کے بغیر کوئی کامیابی ممکن نہیں ہے،  وہ بہت زور دے کر فرماتے کہ اگر آپ میں اخلاص اور اختصاص جمع ہو جائیں تو میں اس بات کی ضمانت لیتا ہوں کہ آپ کی ناقدری نہیں ہوگی،  اگر آپ کہیں دور دراز جنگلوں یا پہاڑوں میں مقیم ہوں گے تب بھی لوگ آپ کی تلاش میں وہاں پہونچ جائیں گے، آپ کے قدموں میں اپنی دستار رکھیں گے اور آپ کو ہاتھوں ہاتھ لیں گے۔
علم حیاتیات کا ماہر اور مغربی دنیا کا مشہور سائنس داں چارلس ڈارون کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے، سائنس کی دنیا میں وہ اپنے ‘نظریۂ ارتقاء’ کے فلسفہ کے لئے خاص طور سے جانا جاتا ہے، نظریۂ ارتقاء کی وضاحت کرتے ہوئے اس نے ‘بقاء اصلح’ یا (سروائیول آف دی فیٹسٹ) کا تصور پیش کیا تھا۔

حضرت مولانارحمہ اللہ چونکہ فلسفیانہ موشگافیوں سے واقف تھے اور جانتے تھے کہ یہ نظریہ در اصل اللہ کی صفت خالقیت پر ضرب لگا کر انسانی بستی کا رشتہ ہمیشہ کے لئے خدا سے کاٹنا چاہتا ہے لہذا وہ اس فلسفہ کی تفصیل میں نو خیز طلبہ کے ذہن کو الجھائے بغیر انہیں حصول علم میں یکسوئی برتنے اور علم کی راہ میں اپنا سب کچھ قربان کرنے پر آمادہ کرتے، اور انہیں یہ باور کراتے کہ آپ بقاء اصلح کے اصول کے بجائے بقاء انفع کے اصول کو پیش نظر رکھئے اور محنت و لگن کے ساتھ اپنے مقصد کے حصول میں لگ جائیے کیونکہ اگر آپ نے انسانی سماج کے لئے اپنی نافعیت ثابت کردی تو آپ کبھی بے قیمت نہیں رہیں گے۔ مقصد کا تعین ضرور کیجئے تاکہ سمت سفر معلوم ہو اور منزل واضح، مولانا تعلیم میں یکسوئی اور انہماک کی اہمیت پر زور دینے کے لئے شیخ یحی منیری رحمہ اللہ کی مثال اکثر پیش فرماتے کہ جب وہ تعلیم کےحصول کے لئے وطن مالوف سے دور تشریف لے گئے تو جب بھی ان کےلئے کوئی خط آتا وہ اسے اٹھا کر ایک باکس میں ڈال دیا کرتے تھے، جب ان کی تعلیم مکمل ہوگئی تب انہوں نے ان خطوط کو نکالا اور پڑھنا شروع کیا تو معلوم ہوا کہ فلاں عزیز کی شادی ہوگئی اور فلاں بیمار تھا وغیرہ وغیرہ، وہ امید کرتے تھے کہ دینی علوم کے طلبہ میں علم کے تئیں ایسا لگاؤ ہی در اصل کامیابی کا ضامن ہے، حضرت مولانا یہ بھی فرماتے تھے کہ جب اپنا سب کچھ آپ علم کی راہ میں قربان کر دیں گے تب کہیں جاکر علم آپ کو اپنا تھوڑا سا حصہ عطا کرے گا کیونکہ علم بہت غیور واقع ہوا ہے۔ (جاری)

تبصرے بند ہیں۔