حضرت مولانا نعمت اللہ اعظمی

مفتی رفیع الدین حنیف قاسمی

علماء انبیاء کے وارث اور ان کی علمی وراثت کے امین ہوتے ہیں، اللہ عزوجل علم نبوی کے حظ وافر سے انہیں نوازتے ہے، اور ان کو اپنی شریعت کے علوم واسرار اور حکمتوں اور خوبیوں سے مالا مال کرتے ہیں، کچھ علماء تو وہ ہوتے ہیں جو گوہر نایاب اور دریتیم کی حیثیت رکھتے ہیں، وہ اپنی گوں نہ گوں خوبیوں اور ہمہ جہت علم اور وسعت مطالعہ اور وسعت فکر اور مطالعہ کی ہمہ گیری اور علوم میں دستر س اور دستگاہ ہونے کی وجہ سے ان کو نہ صرف امت میں ان کے حین حیات ہی ان کی علمی وسعت اور گہرائی اور گیرائی پر دلالت کرنے والے الفاظ سے بندگانِ خدا کی جانب سے نوازے جاتا ہے، میری مراد، اس وقت حضرت مولانا ’’بحر العلوم‘‘ نعمت اللہ اعظمی مد ظلہ العالی کی ہے، جو نہ دار العلوم دیوبند کے عظیم سپوت اور ’’بحر العلوم‘‘ یعنی علم کے بحر بے کنار ہیں، ان کی ہمہ جہت علوم پر دستگاہ اور خصوصا علم حدیث اور اسناد ورجال پر ان کی نظر وسعت وہمہ گیری کی وجہ سے ان کو ’’بحر العلوم ‘‘ کے لقب سے ملقب کیا گیا ہے۔

حضرت کا علم اسم بامسمی ہے، آپ دار العلوم کے عظیم استاذ حدیث شمار ہوتے ہیں، ان کی علمی وسعت اور گہرائی وگیرائی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب میں ۲۰۰۲ م میں دار العلوم کے دورہ حدیث حضرت العلامہ سے دورہ حدیث میں مسلم شریف پڑھا کرتا تھا، حضرت کی ساری کی ساری گفتگو اور تقریر مسلم نوٹ کیا کرتا تھا اور جب امتحان کے مواقع سے مختلف اردو عربی شروحات کی ورق گردانی کے بعد حضرت کی دوران درس نوٹ کئے نکات اور جواہرات پر نظر ڈالتا، الحمد للہ مختلف اور چیدہ چیدہ نئی باتیں نظر آنے لگتیں جس کا کہیں کسی شرح میں وجود بھی نہیں ہوتا، بہر حال اسے حضرت کی علمی گہرائی وگیرائی کہئے یا حضرت کو من جانب اللہ عطا کردہ وہبی علم کا نام اس کو دے دیجئے ؛ لیکن حضرت کی تقریر دل پذیر اور نکات اور لعل وگہر پر دوبارہ امتحان کے مواقع سے نظر کیا جاتا تو عجیب نکات اور حکمت اور احادیث میں تطبیق وتوجیہ وغیرہ کے سلسلے میں ایسی ایسی دقیق اور باریک امور دیکھنے کو ملتے کہ عقل حیران وششدر رہ جاتی۔ ہذا فضل اللہ یوتیہ من یشاء

 مختصر تعارف:

آپ دار العلوم دیوبند کے مشہور اور نابغہ روز گار اور عظیم استاذ گرامی ہیں، خصوصا حدیث آپ کا شغل اور رجال واسناد آپ کا مطمح نظر ہے، وسعت مطالعہ، ہمہ گیری، ہمہ جہتی، کثرت معلومات اور علمی وتحقیقی ذوق کی وجہ سے معروف ومشہور ہیں، نہایت ملنسار اور ہنس مکھ چہرے کے حامل، چال ڈھال سے سادگی اور تواضع کا مجسم نظر آتے، حضرت کی ہنسی قابل دید ہوتی، دوران درس جب حضرت ہنس پڑتے ہیں تو گویا لعل وگوہر حضرت کے منہ سے ٹپک رہے ہوں ۔

آپ کی پیدائش یوپی کے ضلع مئو میں ۱۳۵۶ہے ۱۹۳۷ء کو ہوئی، ابتدائی تعلیم اور دینیات اور مبادی علوم کو اپنے وطن مالوف میں حاصل کیا، اس کے بعد دار العلوم دیوبند میں داخلہ لیا، اور ۱۳۷۲ھ؍ ۱۹۵۳ء میں دورہ حدیث کی تکمیل کی، فراغت کے بعد دو سال علوم وفنون کی تحصیل میں گذارے۔

پھر اس کے بعد منصب تدریس کی عظیم ذمہ داری کو نبھایا، اولا ۱۳۷۵ھ میں مدرسہ حسینہ تاؤلی میں مدرس مقرر ہوئے، اس کے بعد ملک کے مختلف مدارس میں تدریسی خدمات انجام دیں، جن میں مصباح العلوم گوپاگنج ضلع مئو، جامعۃ الرشاد اعظم گڑھ اور مفتاح العلوم مئو نمایاں اور قابل ذکر ہیں، آسام اور گجرات کے بعض مدارس میں بھی آپ نے تدریسی خدمات انجام دی ہیں، ۱۴۰۲ھ ؍ ۱۹۸۲ء میں دار العلوم دیوبند میں درجۂ علیا کے استاذ مقرر ہوئے، اس وقت آپ سے مسلم شریف اور ابو داؤد شریف وغیرہ کے اسباق آپ سے متعلق ہیں، دار العلوم دیوبند میں تخصص فی الحدیث کا شعبہ ہے جس کے آپ روح رواں اور قافلہ سالار ہیں، یہ شعبہ اپنی علمی شان ووقار کے ساتھ حضرت کے زیر نگرانی اپنے کارہائے نمایاں انجام دے رہا ہے۔

 تصانیف:

اردو عربی وغیرہ میں متعدد کتابوں کے آپ مصنف ہیں، جن میں سر فہرست چند ایک کتابیں ہیں، آپ کی اہم کتابوں میں ’’تقریب شرح معانی الآثار‘‘ ’’نعمۃ المنعم شرح مقدمہ مسلم‘‘، ’’نعمۃ المنعم فی شرح المجلد الثانی لمسلم ‘‘ یہ کتاب کتاب البیوع سے لے کرباب استحباب المواساۃ بفضول الماء تک ہے جس کی ۳۸۳ ۲صفحات پر مشتمل جلد شائع ہوچکی ہے  اور ’’در س بخاری‘‘ یہ حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمہ اللہ کا درس بخاری ہے، جس کے جامع حضرت مولانا ہیں، تخصص فی الحدیث سے ترمذی کی حسن، حدیث غریب اور حدیث حسن غریب پر نہایت وقیع اور دقیق اور ترمذی کی ان اصطلاحات کی جو کہ محدثین کی اسناد حیثیت سے نہایت اہتمام کی حامل رہیں، اس کو طلباء تخصص فی الحدیث نے آپ کی ہی زیر نگرانی اور زیر سر پرستی اس کام کو انجام دیا ہے، جو کہ اس شعبہ تخصص فی الحدیث کا نمایاں اور ممتاز کارنامہ ہے، کتابیں اس طرح کے نام سے موسوم ہیں ’’ حسن صحیح فی جامع الترمذی‘‘، حسن غریب فی جامع الترمذی‘‘، ’’الحدیث الحسن فی الجامع الترمذی‘‘۔( دار العلوم دیوبند کی جامع ومختصر تاریخ : ۶۹۶)

 حضرت مولانا کی ہی زیر نگرانی دار العلوم میں محاضرہ علمیہ بسلسلہ اہل کتاب رد عیسائیت پر منعقد ہوتے ہیں، جس کے مجموعہ حضرات والا ہی نے بنام ’’عیسائیت انجیل کی روشنی میں ‘‘ میں ترتیب دیا ہے اور اس کے محاضرات بھی آپ کے سپر د ہیں، اور اسی علمی سلسلہ کے مقالات میں ’’ حضرت امام ابوحنیفہ پر ارجاء کی تہمت ‘‘ کے نام سے موسوم رسالہ بھی آپ کی علمی گہرائی وگیرائی اور دور بینی اور دور اندیشی کا جیتی جاگتانمونہ ہے۔

فقہ اکیڈمی انڈیا کے صدر :

حضرت مولانا نعمت اللہ اعظمی دامت برکاتہم اس وقت ہندوستان کی فقہ اکیڈمی جس کی بنیاد حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام صاحب رحمہ اللہ نے ۱۹۸۹ ء میں رکھی تھی، آنحضرت کے بعد اس کے روح رواں اور صدر محترم حضرت مولانا مفتی ظفیر الدین مفتاحی رحمہ اللہ کے انتقال کے بعد بعد ۳۰مئی ۲۰۱۱ کو باتفاق رائے فقہ اکیڈمی انڈیا کا آپ کوصدر منتخب کیا گیا، اور اس وقت  فقہ اکیڈمی آپ کی صدارت میں نت نئے مسائل پر اپنی گراں قدر خدمات انجام دے رہے ہیں، اور اس کی  طرح کی فقہی خدمات جس کا دور حاضر جس کا ہر جگہ شور ہے کہ اجتماعی غور وخوض  کے طریقہ کار کو اختیار کیا جاتا ہے، اس کے بعد کسی ایک مسئلہ کی سلسلہ میں رائے دی جاتی ہے، فقہ اکیڈمی انڈیا کو ساری دنیا میں احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور اس کی آراء کو اہمیت دی جاتی ہے اور بطور حوالہ کے اس کی آراء پیش کئے جاتی ہیں، اس فقہ اکیڈمی انڈیا کے روح رواں اور صدر محترم کی حیثیت سے آپ کی شخصیت بھی نہایت نمایاں اور ممتاز حیثیت رکھتی  ہے۔

آج کے اس قحط الرجال کے دور میں جب کہ علمی صلاحیتوں کی حامل نابغہ روزگار، یگانہ شخصیات اور بزرگان دین بدن اس دار فانی سے اٹھتی جارہی ہے، یہ تحریر اس لئے زیر قلم وقرطاس لائی جارہی ہے کہ موجودہ اسلاف اور بزرگوں کی ان نشانیوں اور علم کی ان سپوتوں کی قدر دانی کریں اور ان کی ہمہ جہت اور ہمہ گیر خدمات اور ان کی ذات وشخصیت اور علمی مقام ومنصب کو جان کر ان سے مستفید ہونے کی ہمہ دم کوشش کریں۔

تبصرے بند ہیں۔