حضور ﷺ نے انسانیت کو کیا دیا؟

محمد صابر حسین ندوی

چھٹی صدی مسیحی اور اس سے قبل انسانیت موت کے دہانے پر تھی ،ہر طرف ظلم و جور کا عالم تھا ،انسان خود فراموش ہوکر خدا فراموش ہوگیا تھا ،اخلاقی گراوٹ حرف آخر کو پہنچ گئی تھی ،تہذیب و تمدن کا جنازہ سر عام نکل چکا تھا ،گزشتہ انبیاء کی جلائی ہوئی شمعیں اور انکی نبوی تعلیمات دم توڑتی نظر آرہی تھیں،ہر طرف بت پرستی ،عیش کوشی ،آپسی اختلافات ،حقد و حسد اور انتشارات کا بول بالا تھا،پوری دنیا کا سوائے ایک بالشت کے پیٹ کے اور اپنی خواہشات کی تکمیل کے ؛کوئی اور مشغلہ نہیں رہ گیا تھا ،انسان کولہو کے بیل کی طرح اپنی زندگی گزارتا اور اپنی خواہشات ،محبوبات اور مرفہات کی غلامی کو ہی اپنا شرف سمجھتا ،کہیں کہیں اگر کوئی ہوا کا رخ بدلنے کی کوشش کرتا اور اخلاقیات و انسانیت کی دہائی دیتا ؛تو اس کاانجام بسا اوقات قتل وخون سے لیا جاتا ،یہ صورت دیکھ بہت سے صاحب فطرت؛ اپنی فطری آواز اور روشن ضمیر کی بنا پرمعاشر سے علیحدگی ،ملک و ملت سے دوری اور قبائل و خاندان کو الوداع کہنے میں ہی خیر سمجھتے؛اور کسی غار یاپہاڑوں کی بلند چوٹی یاسنسان جنگل یا کسی گھٹا ٹوپ اندھیر میں اپنے آپ کو چھپا دیتے اور پوری زندگی دوسروں سے آنکھیں بند کئے ؛بناکسی شد بدسنیاسی کی صورت میں گزارتے ،لوگ انہیں جوگی،پاگل یا دوسرے نازیبہ القاب سے یاد کرتے۔

تو وہیں بالعموم بنی نوع آپس کی بے جا حمیت اور جاہلی غیرت کو سینے سے لگائے ایک دوسرے سے برسر پیکار رہتے،بھائی بھائی کا خون کرنے اور قبائل؛قبائل کا خون بہانے پر سر بکف ہوتے،انکی جنگیں اتنی حقیر اور معمولی باتوں پر ہوتیں کہ انہیں پڑھ کر اور جان کر تاریخ کا ایک ادنی طالب علم بھی استعجابانہ مسکراہٹ اور طفلانہ حیرانگی ؛کہ اور کچھ نہ کرے ،زمانہ جا ہلیت کی جنگیں حرب بسوس ،جنگ بعاث،اور بنی ہاشم کی اموی اور ہاشمی لڑائی تو جگ ظاہر ہے ،یہ لڑائیاں اور جنگیں کسی ایک پیڑھی یا صلب کیلئے نہ ہوتیں بلکہ نسل درنسل جاری رہتیں اور ہر مرنے والا یہ وصیت کرتا جاتا کہ اس کے بعد بھی جنگ کی یہ بھٹی دہکتی رہے اور انسانیت اس میں جھلس کر خاک ہوتی رہے۔

اسی طرح بادشاہوں ،اور فوجوں میں بلکہ ملکی سطح پر اخلاقی گراوٹ کا یہ عالم تھا کہ تاریخ دانوں نے اسے لکھتے ہوئے اپنے قلم توڑ دئے ،رومن امپیرر،قیصر وکسری ،مقوقس اور ہندوستانی برہمنی حکومت عیش و عشرت ،شراب نوشی ،عصمت دری ،ہتک ریزی اور انسانی تفاوت پر مبنی تھی ،بڑا چھوٹے کو گالیاں دیتا اور اسے حقیر سمجھتا ،چھوٹا بڑے کے ساتھ ناروا اور بے ادبی کا سا سلوک کرتا ۔تو وہیں ان میں موجودصنف نازک اپنی شخصیت کیلئے بھی جد وجہد کرتی ،حتی کہ یہ بحث چھڑی تھی کہ کیا عورتیں انسان بھی ہیں یا نہیں بلکہ عورتوں کو عام مال کے مثل وراثت میں باہم تقسیم کرلیا جاتا تھا،جنگوں میں یہ قیدی بنائی جاتیں اور ان کے ساتھ وہ سلوک ہوتا جن کے بیان سے قلم وزبان قاصر ہیں ،حد تو یہ تھی ؛کہ جاہلی نخوت و کبر اور عائلی خرچ کی بنا پر ان کے لئے دنیا وی زندگی حرام کردی گئی تھی،چنانچہ انہیں پیدا ہوتے ہی زندہ درگور کر دینے اور اپنے دل سے دور کر دینے کے سوا کوئی اور کام نہ رہ گیا تھا،ایک صحابیؓ نے آپؐ کے سامنے زمانۂ جاہلیت کی اس جرم عظیم کی داستان پیش کی ؛(جس پر آپ ؐ کی آنکھوں سے اشکوں کی جھریاں لگ گئیں تھیں)اور انہوں نے یہ تسلیم کیا کہ :ہم نے اپنی بچی کو جو تقریبا آٹھ سال کی ہوگئی تھی ؛اس کی تمام تر محبت ورأفت اور اس کی منت و سماجت کے باوجود مٹی تلے دفن کردیا (قرطبی فی تفسیرہ:۹؍۴۹،ابواللیث فی تفسیرہ:۱؍۵۱۷،بدون سند)۔سنگ دلی اور قساوت قلبی کا ثبوت اس سے زیادہ اورکیا ہوسکتا ہے کہ؛خدا نخواستہ کوئی بچی بڑی بھی ہو جاتی تو اس کے جسم کا کام راحت پہنچانے اور کوڑیوں کے بھاؤ تقسیم ہونے کے سوا کوئی چارہ نہ ہوتا۔

واقعہ یہ ہیکہ لوگوں نے اپنے ان ظلم و استبدال کو جائز کر لیا تھا اور اپنی تمام تر عیش پرستی،ہوس رانی،حقوق کی پامالی اور غیر منصفانہ قوانین کو نافذ کرنے کا حقدار سمجھ لیا تھا ،یہی وجہ ہیکہ کوئی اپنے آپ کو خدا کا بیٹا کہتا تو کوئی اپنے آپ کو اہل جنت کہتا ،تو وہیں چین کی شہنشاہی تخت نشیں خاندا ن اپنے آپ کوآسمانی فرزند سمجھتے اور اپنے سے نچلے لوگوں کو حمال و مزدور حتی کہ کیڑے مکوڑے گردانتے بلکہ ؛بعضوں نے تو اپنے آپ کو اور پوری انسانیت کو ملعون جان کر خدا کے عذاب کا مستحق سمجھ لیا تھا اس طور پر کہ ان سے کوئی بھی خیر کا کام ہوہی نہیں سکتا،قرآن کریم نے انسانوں کی اس بد حالی اور دیوالیہ پن کی خوب تصویر کھینچی ہے،فرمایا:’’ظھر الفساد فی البر والبحربما کسبت ایدی الناس‘‘(روم :۴۱)،ایک اور جگہ ارشاد ہے:’’وکنتم علی شفا حفرۃ من النار فانقذکم منھا‘‘(آل عمران:۱۰۳)۔

حقیقت یہ ہیکہ انہیں پرسوز وجاں سوز اور انساں سوز حالات میں بعثت محمدی کا ظہور ہوا ،جس نے اپنی للہیت وورع ،تبلیغ و تبشیر ،جفا کشی ،ہمدردی ورواداری اور درس انسانی کی انتھک کو ششوں اور محنتوں سے انسانیت کو جہنم کے عمیق غار میں گرنے سے بچایا اور انہیں سر تا پا فسادات ،سفلیات اور طوق و سلاسل اور سرداروں و زمینداروں کی ظالمانہ ٹیکسوں سے آزاد کروایا ،جہاں پوری انسانیت اپنے اکرام و اشراف کو نیلام کئے جارہی تھی ؛انہیں اشرف المخلوقات کا مژدہ سنایا ،اورتمام بحر و بر کی مخلوقات کا اس کا خادم و غلام بتلایا:’’ولقد کرمنا بنی آدم وحملناھم فی البر والبحر ورزقناھم من الطیبات وفضلناھم علی کثیر ممن خلقنا تفضیلاً‘‘(اسراء:۲۸۹)،’’ھو الذی خلق لکم ما فی الارض جمیعا‘‘(بقرۃ:۵) ،اس کی عزت و تکریم مزید بلند کرتے ہوئے ؛اسے خدا کو اپنے بندوں میں سب سے زیادہ محبوب اور پوری انسانیت ومخلوق کو خدا کا کنبہ قرار دیا:’’الخلق عیا ل اللہ فا حبھم الی اللہ أنفعھم لعیالہ‘‘(أبویعلی:۶؍۵۶،طبرانی:۱۰؍۸۶)۔

تو وہیں در؛در پر جھکتے انسانوں کے سروں کو بلند کیا ،اپنے ہاتھوں سے تراشے ہوئے بتوں و معبودات اورننگ و عار تصویروں سے پرے ایک خدا کی عبادت ، اسی کی بندگی کر نے ،اسی سے مناجات،شکوہ و شکایت کرنے اور اسی سے اپنی گزارشات سنانے پر مامور کیا :’’واعبدوا اللہ ولا تشرک بہ شےئا‘‘…(نساء:۳۶)،ساتھ ہی اس کے ساتھ کسی کو شفیع یا کسی کو قربت یا ہم دم کی بنا پر پکارنے اور مدد لینے سے بھی منع فرمایاکیونکہ وہ انسانوں سے اپنی قربت شہ رگ سے بھی زیادہ قریب بتلاتا ہے :’’نحن اقرب الیہ من حبل الورید‘‘(الحجرات:۱۶)،نیز انسانوں کے منتشر شیرازہ پر ( جہاں باہمی نصرت وتعاون ناپید تھا) رحمت الہی اور ردائے نبوی صلی اللہ علیہ وسلم نے شفقت و محبت کا سایہ کیااور سب کو ایک امت قرار دے کر ایک ہی دھارے پر موڑدیا ،یہاں تک کہ وہ انتصار وانصرام میں سیسہ پلائی دیو ار کے مثل ہو گئے اور ایک دوسرے کی تکلیف ودردسینہ سے لگا اس مداوا کرنے اور زخم کو مندمل کرنے کی پیروی کرنے لگے اور وہ ’’مثل المؤمنین فی توادھم وتراحمھم وتعاطفھم :مثل الجسد ،اذااشتکی منہ عضو تداعی لہ سائر الجسد بالسھر والحمی‘‘ (بخاری:۶۰۱۱،مسلم:۲۵۸۶) کی مصداق ہوگئے۔

رسم و رواج کی بیڑیوں کو توڑتے ہوئے عبادات میں سہل و شفتگی اوربندگی و اطاعت ،انسانی ہمدردی اور شعور انسانیت کی بیداری کے ذریعہ معراج کی سیر کروائی بلکہ انہیں حظیرۃ القدس و ملأ اعلی کی صف میں لا کھڑا کیا ،ربانی و روحانی تسکین کے لئے عشق محبت میں چور و مھجور ہونے کیلئے حج جیسی عبادت عنایت فرماکر سرمستی عشق کے آئینہ میں اپنا عکس دیکھنے کا بھی موقع دیا۔انسانی بلندی نے اتنی پرواز کی کہ عبادت میں جہاں ایک طرف نفس کوشی اور حقوق تلفی کو کنارہ کرتے ہوئے عدل و مساوات کا نظام قائم کیا تو وہیں آپسی معاملات ،میل جول،رأفت و رواداری ،معاشرت و موانست،اور ملکی و عالم گیر پیمانے پر امن و شانتی کا دستور بلکہ مکمل نظام اور دستور حیات سے نوازا،چنانچہ ایک عورت جسے پیروں تلے کچلا جاتا تھا ،باتوں ؛باتوں میں گھسیٹا جاتا تھا ،جس کے انسان ہو نے پر بھی بحثیں ہوتی تھیں؛آپؐ نے اس کے قدموں تلے جنت رکھ دی ،اسے بہن کی صورت میں غم خوار ،تو ایک بیوی کی صورت میں ہمدم وہم نوا بنایا اور ایک ماں کی صورت میں اس کی خدمت کو بعض دفعہ جہاد سے بھی افضل قرا ردیا(بخاری:۱؍۱۳۴،مسلم:۱؍۸۹وھکذا)بلکہ قرآن نے اسے یہ مقام بھی دیا کہ بوڑھاپے میں ان کے ساتھ نازیبہ بات کہنے یہاں تک کہ ’’اف‘‘کہنے کو بھی گناہ ٹھہرایا(اسراء:۲۳)۔

حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے امن و عدل پر مبنی حکومت کی داغ بیل ڈالی ،معاشرت و حکومت میں ہم آہنگی،معیشت ومملکت میں پختگی ،نوجوانوں کی بے کاری و بے روزگاری کے بجائے محنت وجد وجہد اور ایمانداری کی رزق کا بندوبست ،ساتھ ہی صنف ضعیف کے حقوق کو تحفظ فراہم کیا ،جہاد واجتہاد کی گرماہٹ رگوں میں دوڑادی اورعلم جہاد کے علاوہ جنگ و جدل اور قتل و غارت گری کو حرام قرار دیا،حلت و حرمت کی تمیز اور خدا پرستی کے ساتھ انسان دوستی ،خود اعتمادی اور عمرانی صلاحیت میں مقام رشک تک پہونچادیا،علامہ اقبال ؒ نے بجا فرمایا:

وہ دانائے سبل ختم الرسل ،مولائے کل جس نے

غبا رراہ کو بخشا فروغ وادی سینا 

نگاہ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر

وہی قرآں،وہی فرقاں،وہی یس،وہی طہ

صلی اللہ علیہ وسلم دائماً کثیراً کثیراً

1 تبصرہ
  1. آصف علی کہتے ہیں

    ﺣﺎﺗﻢ طائی ﮐﯽ ﺑﯿﭩﯽ ﻗﯿﺪ ﮨﻮ ﮐﺮ ﺑﺎﺭﮔﺎﮦ ﺭﺳﺎﻟﺖ ﻣﯿﮟ ﺁﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺗﮭﻮﮌﺍ ﺳﺎ ﺳﺮ ﺳﮯ ﺩﻭﭘﭩﮧ ………… ﺳﺮ ﮐﮯ ﭼﻨﺪ ﺑﺎﻝ ﯾﺎ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﻝ ﻧﻈﺮ آﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ …
    ﺁﭖ ﻧﮯ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﻮ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ
    ﻋﻤﺮ ﺑﯿﭩﯽ ﮐﮯ ﺳﺮ ﭘﮯ ﺩﻭﭘﭩﮧ ﺩﻭ .
    ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﯾﺎ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﺎفر ﮐﯽ ﺑﯿﭩﯽ ﮨﮯ .
    ﺁﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭ ﺁﻟﮧ ﻭ ﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﺭﻭ ﮐﺮ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﻋﻤﺮ ﺑﯿﭩﯽ، ﺑﯿﭩﯽ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﭼﺎﮨﮯ ﮐﺎﻓﺮ ﮐﯽ ﮨﻮ ﯾﺎ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﮐﯽ .
    ﺁﭖ ﺍﭘﻨﯽ ﺟﮕﮧ ﺳﮯ ﺍﭨﮫ ﮐﮭﮍﮮ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﭼﺎﺩﺭ ﺍُﭨﮭﺎ ﮐﺮ ﺑﭽﯽ ﮐﮯ ﺳﺮ ﭘﺮ ﺭﮐﮭﯽ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ
    ﺑﯿﭩﺎ ﻣﯿﺮﮮ ﺻﺤﺎﺑﮧ ﺁﭖ ﮐﻮ ﻗﯿﺪ ﮐﺮ ﮐﮯ ﻻﺋﮯ ﮨﯿﮟ
    ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﺭﮨﻨﺎ ﭼﺎﮨﻮ ﺗﻮ ﺭﮨﻮ ﻭﺍﭘﺲ ﺟﺎﻧﺎ ﭼﺎﮨﻮ ﺗﻮ ﺟﺎ ﺳﮑﺘﯽ ﮨﻮ
    ﻭﮦ ﻟﮍﮐﯽ ﮐﮩﺘﯽ ﮨﮯ ﻣﯿﮟ ﻭﺍﭘﺲ ﺟﺎﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﯽ ﮨﻮﮞ ..
    ﺁﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭ ﺁﻟﮧ ﻭ ﺳﻠﻢ…
    ﻣﯿﮟ ﻗﺮﺑﺎﻥ ﻣﯿﺮﮮ ﻣﺎﮞ ﺑﺎﭖ ﺑﮭﯽ ﻗﺮﺑﺎﻥ ﺁﭖ ﮐﮯ ﻓﯿﺼﻠﻮﮞ پر
    ﺁﭖ ﻧﮯ ﺻﺤﺎﺑﮧ ﮐﯽ ﮈﯾﻮﭨﯽ ﻟﮕﺎﺋﯽ ﺩﻭ ﺩﻥ ﺍﻭﺭ ﺩﻭ ﺭﺍﺗﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺁﭖ ﮐﮯ ﭘﺎﮎ ﺍﺻﺤﺎﺏ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﭘﺮ ﭘﮩﻨﭽﮯ ﺩﺭﻭﺍﺯﮦ ﮐﮭﭩﮑﮭﭩﺎﯾﺎ .
    ﺍﻧﺪﺭ ﺳﮯ ﺍﻃﻌﯽ ﺑﻦ ﺣﺎﺗﻢ ﯾﻌﻨﯽ ﺣﺎﺗﻢ ﮐﺎ ﺑﯿﭩﺎ ﺑﺎﮨﺮ ﺁﯾﺎ ﺟﺐ ﺑﮩﻦ ﮐﻮ ﻏﯿﺮ ﻣﺤﺮﻡ ﺻﺤﺎﺑﮧ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺗﻮ ﻏﺼﮧ ﻣﯿﮟ ﺁ ﮔﯿﺎ
    ﭘﮩﻼ ﺳﻮﺍﻝ ﺑﮩﻦ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﺎ ﻧﺒﯽ ﮐﯿﺴﺎ ﮨﮯ؟
    ﺑﮩﻦ ﺑﮭﺎﮒ ﮐﺮ ﺁﮔﮯ ﮨﻮﺋﯽ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﮐﮯ ﻣﻨﮧ ﭘﺮ ﮨﺎﺗﮫ ﺭﮐﮫ ﮐﺮ ﮐﮩﺘﯽ ﮨﮯ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﻏﻠﻂ ﻟﻔﻆ ﻣﻨﮧ ﺳﮯ ﻧﮧ ﻧﮑﺎﻟﻨﺎ ﻣﯿﺮﺍ ﺑﺎﭖ ﺑﮭﯽ ﻣﯿﺮﯼ ﻋﺰﺕ ﮐﯽ ﺣﻔﺎﻇﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮ ﺳﮑﺘﺎ ﺟﻮ ﻣﺤﻤﺪ ﻋﺮﺑﯽ ﻧﮯ ﮐﯽ ﮨﮯ .
    ﺍﺱ ﻧﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﯾﮧ ﺻﺤﺎﺑﮧ ﮐﺎ ﮐﺮﺩﺍﺭ ﮐﯿﺴﺎ ﮨﮯ . ؟
    ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﯽ ﻧﻤﺎﺯ ﮐﺎ ﭨﺎﺋﻢ ﮨﻮﺗﺎ ﺗﮭﺎ ﯾﮧ ﻧﻤﺎﺯ ﭘﮍﮬﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﻥ ﮐﺎ ﭼﮩﺮﮦ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﻣﯿﺮﺍ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﺎ .
    ﻏﺼﮧ ﭨﮭﻨﮉﺍ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﺎ ﺍﮔﺮ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﺎ ﻧﺒﯽ ﺍﺗﻨﺎ ﺍﭼﮭﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺋﯽ .
    ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﯽ ﺩﻝ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﮨﻮ ﺟﺎﺅﮞ ﭘﮭﺮ ﺳﻮﭼﺎ ﮐﮩﯿﮟ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﺟﮩﻨﻤﯽ ﮨﻮ ﮐﺮ ﻧﮧ ﻣﺮ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﻟﯿﻨﮯ ﺁﺋﯽ ﮨﻮﮞ ﺁﺅ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺑﮩﻦ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﻧﺒﯽ ﮐﮯ ﻗﺪﻣﻮﮞ ﮐﻮ ﭼﻮﻡ ﮐﺮ ﺟﻨﺖ ﮐﯽ ﺑﮩﺎﺭﯾﮟ ﻧﮧ ﻟﻮﭦ ﻟﯿﮟ؟
    ﻣﯿﮟ ﮨﺎﺗﮫ ﺟﻮﮌتا ﮨﻮﮞ ﻣﺠﮭﮯ ﺑﺘﺎﺅ ﻣﯿﺮﺍ ﻧﺒﯽ ﺗﻮ ﮐﺎﻓﺮ ﮐﯽ ﺑﯿﭩﯽ ﮐﻮ ﻋﺰﺕ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ,لیکن ہم مسلمان ایک آدم کی اولادبنت حواکےساتھ کیاسلوک کررہے ہیں؟
    ﻣﺠﮭﮯ ﺑﺘﺎﺅ یوم آخرت میں رسول رحمت ﻧﮯ ﭘﻮﭼﮫ ﻟﯿﺎ ﺗﻮ ﮐﯿﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﻭ ﮔﮯ ؟
    ﻭﮦ ﮐﻤﻠﯽ ﻭﺍﻻ ﮐﺎﻓﺮ ﮐﯽ ﺑﯿﭩﯽ ﮐﮯ ﺳﺮ ﮐﺎ ﺩﻭﭘﭩﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﮔﺮﺗﺎ ﺩﯾﮑﮫ ﺳﮑﺘﺎ ﺗﻢ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﺑﮩﻨﻮﮞ ﮐﯽ ﻋﺰﺕ ﺳﮯ ﮐﮭﯿﻠﺘﮯ ﮨﻮ .
    ﻭﮦ ﮐﺎﻟﯽ ﺯﻟﻔﻮﮞ ﻭﺍلےپیارےاورﻧﺒﯽ ﮐﮯ ﺻﺤﺎﺑﮧ ﺩﻭ ﺩﻥ ﺩﻭ ﺭﺍﺕ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﯾﮏ ﻧﺎ ﻣﺤﺮﻡ ﮐﻮ ﺑﻨﺎ ﺩﯾﮑﮭﮯ ﮔﮭﺮ ﭘﮩﻨﭽﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﻢ ﮨﺮ ﻭﻗﺖ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﻧﺎ ﻣﺤﺮﻡ ﺑﮩﻦ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﮐﮯ ﻃﻠﺐ ﮔﺎﺭ ﮨﻮ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﮩﻦ ﺑﯿﭩﯽ ﺳﮍﮎ ﭘﺮ ﺳﮑﻮﻝ ﮐﺎﻟﺞ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﮐﺴﯽ ﻣﻘﺼﺪ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﮐﺴﯽ ﻣﺠﺒﻮﺭﯼ ﻣﯿﮟ ﮐﺎﻡ ﭘﺮ ﺟﺎ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺗﻢ ﺍﯾﮏ ﮔﻨﺪﯼ ﻟﻮﻣﮍﯼ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﮐﯽ ﻧﻈﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﺍﺳﮯ ﺩﯾﮑﮫ ﺭﮨﮯ ﮨﻮ .
    ﺟﻮ ﻧﺒﯽ ﮐﺎﻓﺮ ﮐﯽ ﺑﯿﭩﯽ ﮐﻮ ﭘﻮﭼﮭﺘﺎ ﮨﮯ ﺑﯿﭩﺎ ﺟﺎﻧﺎ ﭼﺎﮨﻮ ﺗﻮ ﺟﺎ ﺳﮑﺘﯽ ﮨﻮ ﺭﮨﻨﺎ ﭼﺎﮨﻮ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﺑﺎﭖ ﮨﻮﮞ۔۔۔۔ذراسوچی

تبصرے بند ہیں۔