سر زمینِ ’القدس‘ کی صدا

مفتی محمد صادق حسین قاسمی

جب سے امریکی صدرٹرمپ نے ’’القدس‘‘ یعنی بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قراردیا ہے پوری دنیا میں غم وغصہ کی لہر جاری ہے، ٹرمپ کے اس فیصلے سے جہاں بین الاقوامی اصول کی خلاف ورزی ہوئی ہے، ظالمانہ وجابرانہ اختیار کا استعمال کرکے امن پسند دنیا میں نفرت کی فضاقائم ہوئی، وہیں عالمِ اسلام کے مسلمانوں کے دلوں کے تار کو چھیڑدیاہے اور مسلمانانِ عالم کو بے چین وبے قرارکردیا ہے، بیت المقدس کی محبت کی دبی ہوئی چنگاریوں کو بھڑکادیا ہے۔ٹرمپ اسلام دشمنی اور مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنے میں ویسے تو مشہور ہے، جن کے بہت سے فیصلے خود ان کے لئے ذلت ورسوائی کاذریعہ بنے ہیں۔ وہیں ٹرمپ کا یہ اعلان کرنا کہ اسرائیل کا دارالحکومت تل ابیب نہیں بلکہ ’’القدس‘‘یعنی یروشلم ہوگا نہایت درجہ احمقانہ، ظالمانہ اور آمرانہ ہے۔ٹرمپ نے اپنے اس اعلان کے ذریعہ یہودیوں کی خوشنودی حاصل کرنے اور جن ناپاک مقاصد کے پس پردہ انہیں کرسئ اقتدار پر بٹھایاگیا ہے اس کو پوراکرنے کی سمت قدم بڑھائے ہیں لیکن اس کی وجہ سے وہ پوری دنیا میں ملعون ومردود ہوگئے، اور پوری دنیا میں اس فیصلہ کی بھرپور مذمت کی جارہی ہے اور اپنے اختیار کا ناجائز استعمال کرنا قراردیا جارہا ہے۔

سرزمینِ ’’القدس‘‘ یعنی بیت المقدس سے مسلمانوں کا رشتہ نہایت گہرا اور ایمان افروز تاریخ کے ساتھ وابستہ ہے۔فلسطین کی مقدس سرزمین اہلِ ایمان کے لئے شروع سے عقیدتوں اور محبتوں کی مرکز رہی ہے، ہر دور میں مسلمانوں نے اسے اپنی جان سے زیادہ اہمیت دی اور اس کے تحفظ کے لئے اپنی زندگیوں کو نچھاورکیااور آج تک اس سرزمین کے تقدس میں اور مسجدِ اقصیٰ کی حفاظت وبازیابی کے لئے بے چوں وچراجانوں کا نذرانہ پیش کررہے ہیں ، مسلمان کسی قیمت پر اپنے قبلۂ اول کو ناپاک یہودیوں کے ہاتھوں میں جانے نہیں دیں گے، بیت المقدس کے تحفظ اورمسجد اقصیٰ کی سلامتی کے لئے اس امت نے اپنے گرم لہو کو بہایا ہے، ماؤں نے اپنے جگر کے پاروں کو اس کی حفاظت کے لئے قربان کیا ہے، جوانوں نے اپنی خواہشات وتمناؤں کا محور مسجد اقصیٰ کی حفاظت کو بنایااور ہر دور میں ایمان کے جیالوں نے ایک ایمان افروز، ولولہ انگیز تاریخ رقم کی ہے، اور آج بھی ہزاروں فلسطینی مسلمان و نوجوان بیت المقدس کی حفاظت کے لئے جامِ شہادت نوش کررہے ہیں۔

فلسطین اور اس کی تاریخ پرغیر معمولی مہارت رکھنے والے، اور اس کے حالات پر گہری نگاہ رکھنے والے، عالمِ اسلام کے ممتاز قلم کار ومصنف حضرت مفتی ابولبابہ شاہ منصور صاحب اپنی کتاب ’’اقصی کے آنسو ‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں :’’القدس ہمارا وہ عظیم ورثہ ہے جس کے محافظ وخادم کا منصب خالقِ کائنات نے ہمیں بخشا ہے، یہود ونصاری نے جب اس مقدس عبادت گاہ کی حرمت کا تحفظ نہ کیا، اس کی پاکیزہ فضاؤں کو اپنے زہریلے گناہوں سے آلودہ کیااور باربار تنبیہ کے باجود باز نہ آئے تو اللہ رب العزت نے انہیں مقامِ ’’اجتبائیت‘‘ سے معزول کرکے امتِ محمدیہ کویہ عظیم منصب سونپ دیا ہے۔اس دن سے۔ ۔۔۔جب صحابہ کرامؓ نے نصرتِ خداوندی سے القدس فتح کیا۔۔۔یہ بارِ امانت ہماری غیرت کا امتحان ہے، ہمارے ایمان کو پرکھنے کی کسوٹی ہے، اس کے تحفظ میں ہماری ترقی وبقاکا راز مضمر ہے اور اس کے تقدس پر حرف آیاتو ہم سے ’’اجتبائیت‘‘ کا منصب چھن جانے کا خطرہ ہے۔اللہ تعالی کی شان !ہم ایسے دور میں جی رہے ہیں جب یہود بے بہبودکے قدم اس کی دہلیز تک آپہنچے ہیں ، اس کا مطلب یہ ہے کہ عنقریب حق وباطل کا جوعظیم معرکہ بپاہوگا، ہم اس میں اہلِ حق کے دست وگریبان وبازو بن کر اس اجرِ عظیم کو حاصل کرسکتے ہیں ۔ ۔کاش !آج کوئی سلطان صلاح الدین ایوبی ؒ نہیں جو تاریخ کا رخ موڑسکے، لیکن اس کی وجہ یہ نہیں کہ مسلم امہ بانجھ ہوچکی ہے، آج بھی سلطان صلاح الدین کے جانشین پیداہوسکتے ہیں ، لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ مسلم نوجوانوں میں لہوولعب کورواج دینے کے بجائے مقاصدِ عالیہ کے حصول کی فکر پیداکی جائے، ان میں فسق وفجور، فحاشی وبے راہ روی کے رجحانات سے بچاکر ایثار وتقوی کا جوہر پیدا کیا جائے۔ اے ایوبی کے فرزندو!اپنے مقام وذمہ داریوں کو پہنچانو!مسجد اقصی کی سوگوار فضاسے آنی والی صداؤں کو سنو!‘‘

بیت المقدس کو 17ھ، 638ء میں 300صحابہ نے فتح کیااور یہاں کے پادری صفرونیوسی نے شہر کی چابیاں حضرت عمرؓ کے حوالے کیں ۔ 1099ء میں عیسائیوں نے یہاں پھر قبضہ کیا۔بالآخر1187ء میں سلطان صلاح الدین ایوبی ؒ نے صیلبیوں کو شکست دی اور بیت المقدس کو آزاد کرایا۔مفکر اسلام مولانا ابوالحسن علی ندوی ؒ نے نقل کیا ہے کہ:میدانِ جنگ میں سلطان کی کیفیت ایک ایسی غمزدہ ماں کی سی تھی جس نے اپنے اکلوتے بچہ کا داغ اٹھایا ہے، وہ ایک صف سے دوسرے صف تک گھوڑے پردوڑتے پھرتے اورلوگوں کو ترغیب دیتے، خود ساری فوج میں گشت کرتے اور پکارتے پھرتے :یاللاسلام، اسلام کی مدد کرو!آنکھوں سے آنسو جاری رہتے۔ سلطان کو بیت المقدس کی ایسی فکر تھی اور اس کے دل پر ایسا بار تھا کہ پہاڑ اس کے متحمل نہیں تھے۔90برس بعد یہ پہلا قبلہ جہاں حضور ﷺ نے معراج کی شب انبیاء کی امامت کی تھی، اسلام کی تولیت میں آیا۔(تاریخ دعوت وعزیمت:1/264)1516ء میں عثمانی خلافت کے زیر انتظام آیا۔1917ء میں پہلی جنگِ عظیم ہوئی، خلافتِ عثمانیہ کا خاتمہ ہوااور القدس انگریزوں کے قبضے میں چلا گیا۔1917ء میں ’’بالفور ‘‘معاہدہ کے تحت یہاں یہودی ریاست قائم کرنے وعدہ کا کیا گیا۔1948ء میں فلسطین کے78فیصد علاقے پر اسرائیلی ریاست کے قیام کا اعلان کردیا گیا، 1967ء میں یہود نے فلسطین کے باقی ماندہ علاقوں پر قبضہ کرلیا۔1987ء میں یہودیوں کے خلاف جدوجہدکا اعلان کیاگیا۔(اقصی کے آنسو:19)

پوری دنیا جانتی ہے کہ ناجائز طور پر قائم ہونے والی اسرائیلی مملکت اور اس کے حکمرانوں نے فلسطینیوں کے ساتھ جو سلوک کیا ہے وہ تاریخ کا ایک بدترین باب ہے، آج بھی فلسطینیوں کو خود ان کی ہی سرزمین میں قید وبند کرکے رکھ دیا ہے، معصوم بچوں ، بے قصور جوانوں ، عزت مآب ماؤں ، بہنوں ، نہتے مردوں ، کمزور بوڑھوں کے ساتھ اسرائیلی اپنے روزِ قیام سے ظلم ڈھاتے آرہے ہیں ، ان کے گھروں کو اجاڑنا، ان کے شہروں کو برباد کرنا، ان کی عمارتوں کو ڈھانا، اور ہر طرف خاک وخون کا دل سوز منظر برپا کرنا اسرائیلیوں کا مشغلہ رہا ہے۔ فلسطین کے لوگوں کے ساتھ ہر روز ایک نئے ظلم کا تجربہ کیا جاتا ہے۔ہر طرف سے فلسطین کے رہنے والوں کے عرصۂ حیات کو تنگ کرنے اور ان کی خوشیوں کو چھین کر غم و الم میں مبتلا کرنے کی اسرائیل نے شروع سے کوشش کی ہے۔اسرائیلی یہودیوں نے حیوانیت کا ایک ریکارڈقائم کیا ہے، جن کے سینے انسانی ہمدردی سے خالی اور جن کے دل پتھروں سے زیادہ سخت ہونے کی وجہ سے کسی معصوم پھول جیسے بچہ کا تڑپنا انہیں بے قرار نہیں کرتا، کسی بے قصور اور کمزور عورت کا ظلم کی بھینٹ چڑھنا انہیں معیوب معلوم نہیں ہوتا، نہتے نوجوانوں کے لہو سے اپنی پیاس بجھاتے ہوئے انہیں شرم محسوس نہیں ہوتی، ہنستے کھیلتے گلشن جیسے گھروں کو ویران کردینے میں ان کا ضمیر ملامت نہیں کرتا، کمزوروں اور ضعیفوں کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک کرتے ہوئے ان کو کسی لمحہ خوف پیدا نہیں ہوتا۔اسکولوں پر تالے لگاتے ہوئے اور اسپتالوں میں مریضوں اور بیماروں کو پریشان کرتے ہوئے دواؤں کا محتاج بناتے ہوئے انہیں کسی قسم کی تکلیف نہیں ہوتی۔

امریکی صدر کے اس اعلان سے ایک مرتبہ پھر القدس کا مسئلہ پوری دنیا میں گونجنے لگا ہے، اور دنیا کے مختلف مقامات پر احتجاجی مظاہرے ہورہے ہیں اور اس اعلان کی مذمت کی جارہی ہے، یہ بات صاف ہے القدس پر مسلمانوں کا ہی حق ہے اور القدس فلسطین ہی کا دارالحکومت ہوگا، ناجائز طور پر اور ظلم وجبر کے ساتھ اسے اسرائیل سے جوڑنا ناانصافی اور بین الاقوامی دستور کی کھلی خلاف ورزی ہوگی۔اور یہ بھی بات کہ القدس کا مسئلہ صرف فلسطینیوں کا ہی نہیں جو روز اس کے لئے خاک وخون میں تڑپتے رہتے ہیں ، بلکہ القدس سے سارے عالم کے مسلمانوں کا ایمانی رشتہ ہے اور گہری وابستگی ہے۔ چوں کہ ہم تو بیت المقدس سے کوسوں دور ہیں ، ایسے حالات میں اس ایمانی تعلق کی بنیاد پر ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم اس فیصلے کے خلاف زبان وقلم سے احتجاج کریں ، دور رہ کر اس کی سلامتی و تحفظ کے لئے دعائیں کریں ، اہلِ فلسطین کی مددونصرت کے لئے رب کریم کی بارگاہ میں التجائیں کریں ۔کاش !ہمارے مسلم حکمراں غیرتِ ایمانی کے ساتھ بھرپور انداز میں صدائے احتجاج بلندکرتے اور فیصلہ واپس لینے تک دباؤڈالتے تو کتنا اچھا ہوتا، خدا ان کی رگوں میں ایمانی خون دوڑائے اور جذبہ ایمانی سے انہیں سرشار کرے۔

سنو بھی قبلۂ اول سے کیا آواز آتی ہے
مسلمانوں میری حرمت پہ کٹ جانے کا وقت آیا
اٹھوبھی اے صلاح الدین ایوبی ؒ کے فرزندو!
پھر اس غازی کے افسانے کو دہرانے کاوقت آیا

1 تبصرہ
  1. آصف علی کہتے ہیں

    ہم نے تقریباً سولہ یا سترہ مہینوں تک نبی کریم ﷺ کے ساتھ بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نمازیں پڑھیں پھر ہمارا قبلہ کعبہ کو مقرر کردیا گیا (بخاری: ۳۳۹۲)

    مسلمانوں کا قبلہ اول بیت المقدس کئی عشروں سے اسرائیل کے قبضہ میں ہے یہودی شروع دن سے ہی مسلمانوں کے ازلی دشمن ہیں حتی کہ پوری انسانیت کےلئے شفیق, نبی محمد کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو شہید کرنے کی کوشس بھی یہودیوں نے ہی کی یہ جانتے ہوئے بھی کہ محمد ذیشان نے ہمیں (یہودیوں) اور مسلمانوں کے پینے کے لئے پانی کی قلت کے باعث کنواں اپنے اصحاب کے ذریعے خرید کر دیا مگر پھر بھی تنگ ذہن یہودی اپنی گندی سوچ کو نا بدل سکا حضرت صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ نے یہودیوں سے بیت المقدس واپس لیا تو اس کے بعد مسلمانوں کی جہاد سے دوری کی بدولت بیت المقدس دوبارہ یہودی ہاتھوں چلا گیا اور مسلمانوں کو یہ دن بھی دیکھنا پڑا کہ کافر فوجوں نے مسلمانوں کا خون اس قدر بہایا کہ گھوڑوں کے گھٹنے مسلمانوں کے خون میں ڈوبے ہوئے تھے اور وہ عظیم جرنیل ایوبی کہ جس کے سامنے پوری دنیا کی کافر قوتیں نا ٹھہر سکیں اس فوج کا جرنیل دمشق میں سلطان ایوبی شہید کی قبر پر چھڑی مار کر بولا اٹھ ایوبی ہم نے تیرے وارثوں سے بیت المقدس واپس لے لیااور تاحال یہودی ہی بیت المقدس پر قابض ہیں_
    اور ہمارے مسلمان بہن بھائیوں پر عرصہ حیات تنگ کئے ہوئے ہیں ہمارے فلسطینی مسلمان یہودی ٹینکوں اور گولیوں کا مقابلہ پتھروں سے کر رہے ہیں اور اپنے سینوں پر گولیاں کھا کر صیہونی عزائم کی راہ میں عرصہ دراز سے رکاوٹ بن کر کھڑے ہیں- نبی کریم کا ارشاد مبارک ہے ,کفر ایک ملت ہے’ چونکہ نبی محترم خود صیہونیوں سے برسر پیکار رہے اس لئے یہودیوں کی گندی فطرت سے زیادہ آگاہ ہیں اور اپنی امت کو آگاہ بھی کیا مگر افسوس ہمارے حکمرانوں اور علماء نے اس فرمان کو سنجیدہ نا لیا اور آج امریکہ کو یہ جرأت ہوئی کہ وہ یروشلم کو اسرائیل کا دارالخلافہ قرار دے رہا ہے وجہ ہماری آپسی تفرقہ بازی اور جہاد سےدوری ہے. یہودی اور عیسائی جان گئے کہ جب تک مسلمانوں میں اتحاد باقی ہے ہم مقبوضہ فلسطین پر اپنا قبضہ قائم نا رکھ سکیں گے اسی لئے انہوں نےمسلمانوں کواندر سےکمزورکیا اور امت محمدیہ کو فرقوں ,قوموں ,لسانیات اور جمہوریت میں الجھا کر رکھ دیا تاکہ مسلمان آپس میں ایک ہو کر فرمان محمد کریم پر عمل پیرا ہو کر ہماری راہ میں رکاوٹ نا بن سکیں, مگر افسوس تو اپنے مسلمان حکمرانوں اور علماء پر ہے کہ جنہوں نے امت کواکٹھاکرنا تھا آج وہی خود بکھرے پڑے ہیں مگر کوئی بات نہیں ان شاءاللہ اسی امت میں سے چند اللہ کے بندے جو رب کریم کے فرامین کو پڑھ کر سمجھ کر میدانوں میں نکلے ہیں ان شاءاللہ امریکہ اسرائیل کی اینٹ سے اینٹ بجائینگے اور کافروں پر اپنا رعب طاری کرتے رہینگے ہاں آج ضرورت اس امر کی ہے ہم بھی اپنے بیت المقدس کی حرمت پر مرمٹنے کو تیار ہو جائیں…
    بس ایک آدھ کالم لکھ کر اور سڑک پر احتجاج کر کے ہم بری الذمہ نہیں ہوسکتے کیونکہ ابھی فلسطین اور قبلہ اول یہودی شکنجے میں ہے …
    مسلمانوں اس مقدس گھر کی شان ہے کہ رسول عربی نے معراج کی رات تمام انبیاء کو اسی مقدس گھر میں باجماعت نماز پڑھائی محمد عربی کے فرمان کے مطابق بیت المقدس میں ایک نماز پڑھنے کا ثواب دس ہزار اور ایک روایت میں پچاس ہزار نمازوں کے برابر ثواب ہے
    اذان ہی دے کہ سو نا جانا
    ابھی فلسطین تک ہے جانا

تبصرے بند ہیں۔