کس درجہ ہوئے شاہان عرب بے توفیق!

 لقمان عثمانی

آج فلسطین ہمارے ہاتھوں سے نکلتا جا رہا ہے۔ شہر القدس کو ہم سے دور کیا جا رہا ہے۔ بیت المقدس کو ہم سے چھینا جا رہا ہے۔ اسکی عظمت و تقدس کو پامال کیا جا رہا ہے۔ حال یہ کہ اسکی اینٹین سسک رہی ہیں۔ اسکی دیواریں آہیں بھر رہی ہیں، اسکا گنبد رو رہا ہے۔ اسکی عمارتیں چینخ وپکار کررہی ہیں۔ اسکی مقدس سرزمین اپنے ہی آنسوؤں میں غرقاب ہورہی ہے۔ وہاں کے باشندوں کی خوشیوں کو ہموم و غموم کے طوفان نے ایسے نرغے میں اڑا پھینکا، جہاں انہیں مصیبتوں کے سمندر میں ہچکولے کھانے پڑ رہے ہیں۔ جبر و تشدد کے پہاڑ ان پر توڑے جا رہے ہیں، ظلم و استبداد کی چکی میں ڈال کر انہیں پیسا جا رہا ہے۔ غرضیکہ ہر طرح کے مظالم ان پر ڈھائے جا رہے ہیں۔ ایسی بے راہروی کے عالم میں۔ انکی جھولی میں اپنی استعداد کے تئیں تو نا امیدی کے سوا کچھ بھی نہیں۔ لیکن انکی امیدوں کی قندیلیں کسی فاروق اعظم یا صلاح الدین ایوبی کی تلاش وجستجو اور اسکے انتظار میں ابھی بھی جل رہی ہیں؛ تااینکہ اسکی روشنی بھی دھیرے دھیرے مدھم ہوتی چلی جارہی ہیں: ”وہی ہے آگ مگر آگ میں دھواں نہ رہا“ کیوں کہ جو صاحب استعداد و اقتدار ہیں وہ بھی یا تو بزدل ہیں، یا پھر انہیں ظالم و جابر اور بے درد و ستم گر کے ہاتھوں بکے ہوئے ہیں ـ

آج امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ؛ بلکہ دوغلا ٹرمپ نے اپنی منحوس زبان سے بڑی ڈھٹائی کے ساتھ ”القدس“ کو  اسرائیل کا دارالحکومت ہونے کا اعلان کرکے پورے عالم اسلام کے منہ پر ذلت بھرا طمانچہ رسید کر دیا اور سب کٹ پتلی کی طرح کھڑے ہوکر اگلے تھپڑ کا گویا انتظار کررہے ہیں یا پھر صرف بیان بازیوں پر اکتفا کرکے اپنی ذمہ داریوں سے پلے جھاڑ رہے ہیں ـ

خاص طور پر اس وقت سب کی نظریں سعودی عرب پر ٹک ٹکی لگائے ہوئی ہے۔ لیکن وہ بھی رد عمل میں اجتماعی بد دعاؤں کا تحفہ پیش کرکے اطمنان و سکون کے ساتھ خراٹے لے رہا ہے۔ کیوں کہ آل سعود آج سے نہیں، بلکہ اپنی حکومت کی تاسیس کے وقت سے ہی یہودی نواز رہا ہے۔ انکے باپ داداؤں نے سلطنت عثمانیہ کی ترقی اور لوگوں کے اسکی طرف بڑھتے ہوئے رجحانات سے خاکستر ہوکر، سلطنت عثمانیہ کو اکھاڑ پھینکنے کیلیے برطانیہ سے ہاتھ ملایا اور ہمیشہ کیلیے اسکی غلامی تسلیم کرکے، اسکے تلوے چاٹنے اور اسی کے اشاروں پر ناچنے کا معاہدہ کیا تھا اور یہ انکے باپ داداؤں کی سنت ہے جو آج بھی اسی نہج پر چلتی آرہی ہے ـ

جی ہاں! وہی آل سعود؛ جو ”خادم الحرمین الشریفین“ کا لیبل لگا کر اسکا غلط فاٰئدہ اٹھا رہے ہیں اور اس عظیم نسبت کو اپنا ڈھال بنا کر مسلمانوں کو چغت بنا رہے و انکے جذبات کے ساتھ کھلواڑ کررہے ہیں اور لوگ اسکو اسلام کا نمائندہ تصور کر کے بے لوث محبتیں انکے نام کررہے ہیں، نیز اس سے کسی طرح کی مزاحمت و مدافعت اور مخالفت کی امید بھی لگائے بیٹھے ہیں ـ

سعودی عرب کوئی کمزور حکومت نہیں، انکے پاس ہر قسم کی طاقت ہے۔ لیکن جب وہ خود ہی ضمیر فروش ہے اور اس نے برطانیہ کے اشاروں پر ناچنے کا معاہدہ کیا ہوا ہے۔ یہودیوں کی چمچہ گیری کو اپنا پیشہ بنایا ہوا ہے؛ تو ان سے کسی طرح کے خاص ری ایکشن (reaction) یا رد عمل کی توقع ”چہ معنی دارد“؟ کیوں کہ یہ سب کی اپنی ملی جلی سرکار ہے، یا پھر یہ کہیے کہ ایک ہی ترازو کے دو پلڑے ہیں؛ ایک تو علی الاعلان  اپنی کمینگی و سفاکی کا مظاہرہ کرتا ہے اور اور دوسرا ”خادم الحرمین الشریفین“ کے آڑ میں منافقانہ چال چل کر پیٹھ پر وار کرتا ہے:

کیا خوب امیرِ فیصل کو سنوسی نے پیغام دیا

تو نام و نسب کا حجازی ہے پر دل کا حجازی بن نہ سکاـ

یہودیوں کی سرتابی و سرکشی سے تو پوری دنیا آشنا ہے۔ اسکی اسلام و مسلمان دشمنی کسی پر بھی مخفی نہیں؛ لیکن اصل مجرم تو وہ آستین کے سانپ ہیں۔ جنہوں نے انہی اسلام کے دشمن کو اپنا دوست بنا کر اسکو اپنے پاس بلایا۔ بے جا تعریفوں کے پل باندھے و اربوں ڈالڑ اس پر لٹائے، ہماری آنکھوں میں دھول جھونکنے کا کام کیا۔ مسلمانوں کے سامنے مسیحائی کا لبادہ اوڑھ کر منافقت کی ساری حدیں پار کردی اور یہ ثابت کر دیا کہ وہ ایک ہی تصویر کے دو رخ ہیں۔ ایک تو بہ تکلف مسلم غمخوار کا، تو دوسرا بالفعل یہودی نواز کا؛ تا اینکہ مسلمان انکے دکھائے ہوئے ظاہری بھول بھلیوں میں سفر کررہے ہیں اور چور گھر میں ہے۔ تلاشی باہر لے رہے ہیں؛ گویا: ”دھول چہرے پر تھی اور آئینہ صاف کرتے رہے“ ـ

تبصرے بند ہیں۔