رئیس الاحرار مولانا محمد علی جوہر

عبدالرشید طلحہ نعمانیؔ

کسی بھی منصف مزاج،غیر جانب دار،صاحب بصیرت سے پوچھا جائے کہ بیسویں صدی کے اوائل میں برصغیر کے منظرنامے پروہ کون شخص تھا جوسب پر چھایا ہوا تھا ؟ مشرق تامغرب اور شمال تا جنوب کس کا طوطی بول رہاتھا ؟ کس کی ہمت مردانہ اور جرئت رندانہ نے ایوان برطانیہ کی چولیں ہلادی تھیں ؟تو وہ بلا تامل بغیر کسی ہچکچاہٹ کے بیک جنبش لب جو نام اپنی زبان پرلائے گاوہ "محمدعلی” ہوگا۔

دست قدرت نے مولانا محمد علی کوقیادت وسیادت،صحافت وخطابت، خوداعتمادی وخودداری،سوز دروں و درد فزوں کے ساتھ ساتھ مجاہدانہ کردار اور حوصلہ مندانہ عزم واستقلال جیسے بیش بہا کمالات وامتیازات سے نوازا تھا۔راقم السطور قلم ہاتھ میں لیے حیرت و استعجاب کے اتھاہ سمندر میں غرق ہے کہ آپ کی ہشت پہل شخصیت کے کس زاویے کو اجاگر کرے اور کسے نظر انداز کردے۔
محمد علی جوہر تنہا ایک فرد نہیں بل کہ اپنی ذات میں ایک مکمل انجمن تھے، ان کا جسد خاکی جن عناصر سے تشکیل پایاتھا ان میں قیادت و سیادت کی آمیزش بھی تھی اور شاعری و ساحری کا امتزاج بھی،زبان و بیان کی طغیانی بھی تھی اور ادب وصحافت کی جولانی بھی،حب الہی اور عشق نبی کی آتش سوزاں بھی تھی اور اس میں جل کر خاکستر ہو جانے کا حوصلہ بھی۔

سوانحی نقشہ:

مولانا محمدعلی جوہر (1878ء۔1931ء )نے ریاست اترپردیش کے ضلع رامپور میں مولانا عبدالعلی کے گھر میں اپنی آنکھیں کھولیں۔ مولانا محمدعلی جوہر کے والد محترم مولانا عبدالعلی بھی ایک عظیم مجاہد آزادی تھے جو انگریزوں کے خلاف ہمیشہ سربکف رہے۔ مولانا محمد علی جوہر کا بچپن نہایت کسمپرسی میں گزرا۔بچپن میں ہی ان کے والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ والدین کا سایہ سر پرنہ ہونے کے باوجودآپ نے بھرپور طریقے سے دینی ودنیوی تعلیم حاصل کی۔ والدہ مذہبی خصوصیات کا مرقع تھیں، اس لیے بچپن ہی سے تعلیمات اسلامی سے گہرا شغف تھا۔ ابتدائی تعلیم رام پور اور بریلی میں پائی۔ اعلی تعلیم کے لیے علی گڑھ چلے گئے۔ بی اے کا امتحان اس شاندار کامیابی سے پاس کیا کہ آلہ آباد یونیورسٹی میں اول آئے۔ اس کے بعد1898ء میں آکسفورڈیونیورسٹی کے ایک کالج میں اعلی تعلیم کی غرض سے داخلہ لیا اور وہاں پر اپنے مذہبی تشخص کو من وعن برقرار رکھتے ہوئے دنیاوی تعلیم حاصل کرتے رہے۔ آپ وہ پہلے ہندوستانی تھے جنھیں آکسفورڈ یونیورسٹی یونین کے سیکریٹری بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔

روشن وتابندہ نقوش :

آکسفورڈ سے واپسی کے بعدآپ رامپور میں ایجوکیشن ڈائریکٹر کی حیثیت سے اپنی خدمات انجام دینے لگے۔ اس کے کچھ دنوں بعدآپ اسٹیٹ ہائی اسکول کے پرنسپل مقرر ہوئے۔ آپ نے اپنی تحریروں اور تقریروں سے ہندوستانیوں کے رگوں میں حریت کا جذبہ اس قدر سرایت کر دیا تھا کہ ان کی تحریروں سے ہر کوئی باشعور ومحب وطن ہندوستانی انگریزوں کے خلاف لازماً سر بکف نظر آتا تھا۔مولانا نے کبھی بھی اپنے اصولوں سے سمجھوتہ نہیں کیا بلکہ ہمیشہ آزادئ ہند کے لئے کوشاں رہے، آپ تحریک خلافت کے روح رواں اور عظیم مجاہدِ آزادی کی حیثیت سے انگریزوں کے خلاف بر سر پیکار اور ہندوستان کی آزادی کے لئے ہمیشہ کوشاں رہے۔ جدوجہد آزادی میں سرگرم حصہ لینے کے جرم میں مولانا کی زندگی کا کافی حصہ قید و بند میں بسر ہوا۔ تحریک عدم تعاون کی پاداش میں کئی سال جیل میں رہے۔ 1919ء کی تحریک خلافت کے بانی آپ ہی تھے۔ جامعہ ملیہ دہلی آپ ہی کی کوششوں سے قائم ہوا۔
مولانا کی شخصیت بحیثیت مجاہد آزادی بھی خوب تھی۔ بمبئی کے ایک ممتاز پروفیسر بھولا بھائی دیسائی نے مولانا کے انتقال کے بعد کہا تھا کہ مولانا محمد علی کا سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ انہوں نے اس براعظم کے لوگوں کو صحیح آزادی کے تصور سے روشناس کروایا۔ لندن میں گول میز کانفرنس کے افتتاح کے موقع پر مولانا نے جو تقریر فرمائی تھی اس کا شمار یقیناًدنیا کی اہم تقاریر میں کیا جاسکتا ہے۔ اپنی خرابی صحت کا ذکر فرماتے ہوئے مولانا نے کہا تھا 146146 میری یہ کیفیت ہے کہ قلب کی حالت درست نہیں بینائی میں فرق آگیا ہے پیر متورم ہیں، ذیابیطس کا عارضہ ہے۔ میں کہتا ہوں کہ جس آدمی کے حواس بجا ہوں وہ بھی ان بیماریوں کے ساتھ سات میل کا سفر بھی نہیں طے کرسکتا ؛ لیکن میں خشکی اور سمندر کے سات ہزار میل کا سفر طے کرکے یہاں پہنچا ہو ں کیونکہ جہاں آزادی کا معاملہ آتا ہے وہاں میری حالتدیوانوں کی سی ہوجاتی ہے۔

وفات: 

مولانا محمد علی جوہر جیسے نامور، ممتاز،وطن دوست شخصیت ؛جن سے ہماری گرمی محفل قائم تھی جن کی آواز سے ہمارا ملک گونجتا تھا اور جن کے جوش عمل سے بہ یک وقت تینوں براعظم متاثر تھے کہ اچانک4 جنوری سنہ۱۹۳۱ء کو اس دار فانی سے کوچ کر گئی۔

دراصل آپ جنوری 1931ء میں گول میز کانفرنس میں شرکت کی غرض سے انگلستان گئے۔ آپ نے لندن میں ہونے والی گول میز کانفرنس میں کہا تھا کہ 146146اگر ہندوستان کو آزادی نہیں دو گے تو یہاں مجھے قبر کے لئے جگہ دے دو،میں غلام ہندوستان میں جانے سے بہتر سمجھوں گا کہ یہیں مر جاؤں ارو مجھے یہیں دفنا دیا جائے 145145آخر کار گول میز کانفرنس ناکام ہوئی اور آپ وہیں پر داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ آپ کے جسد خاکی کو فلسطین لے جایا گیا اور انبیاء کرامؑ کی سرزمین میں آپ کو ابدی آرام کا اعزاز ملا۔

مولانا کی موت پر لوگوں کو یقین نہ آتا تھا کہ انہیں ابدی نیند بھی آسکتی ہے ؛ لیکن قدرت کا فیصلہ اٹل تھا۔ لاکھوں عقیدتمندوں نے بادیدہ نم مولانا کے جسد مبارک کو سپرد خاک کردیا۔مولانا کی وفات پر علامہ اقبال نے جو مرثیہ قلم بند فرمایا ہے وہ اس المناک حادثہ پر تمام قوم کی ترجمانی کرتا ہے ؂

اے خوشا مشت غبار او کہ از جذب حرم
از کنار اندلس واز ساحل بدساگذشت
خاک قدمی ادبہ آغوش تمنا در گرفت
سوئے گردوں رفت زاں راہے کہ پیغمبر گذشت
می نگنجند جزبہ آں خاکے کہ پاک از رنگ درست
بندہ کواز تمیز اسودا واحمد گذشت

صحافت کاسب سے معتبر نام‘‘محمد علی’’:
آپ کی تحریریں انگریزی اور اردو زبان میں ہندوستانی اخبارات کی زینت بنتی رہتی تھیں۔ آپ نے صحافت کے میدان میں میں ایک اردو ہفت روزہ بنام 146146ہمدرد145145اور انگلش ہفت روزہ146146کامریڈ145145کا اجراء بھی کیا۔مولانا ایک عظیم صحافی تھے، آپ کی تحریریں اتنی شستہ ہوتی تھیں کہ صرف مسلمان یا ہندوستانی ہی نہیں بلکہ انگریز بھی بصد شوق پڑھتے تھے اور ان پڑھنے والوں میں افسر پروفیسر،طلبہ،اسکالر سبھی طرح کے لوگ شامل تھے اور سب آپ کی تحریریں دیکھ کر متاثر ہوئے بغیر نہ رہتے تھے۔

جناب رضی الدین معظم آپ کی صحافتی خدمات پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’محمد علی کی صحیفہ نگاری نے اردو صحافت کا ایک نیا دور شروع کیا تھا اور وہ اردو کی پسماندہ صحافت میں بعض اہم اصلاحات کے بانی ہیں جیسے 146146 ہمدرد145145 پہلا روز نامہ تھا جو لیتھو کے بجائے ٹائپ میں چھاپا گیا۔ 146146 ہمدرد145145 پہلا روزنامہ تھا جس کے مضامین کا معیار اسزمانہ کی عام صحافت سے بھی زیادہ بلند تھا۔ بہت سے مشہور شعراء
اور ادیبوں کو جو صحافت سے دور رہتے تھے۔ محمد علی صاحب کی شخصیت نے پہلی ہی دفعہ 146146 ہمدرد145145 کے صفحات پر پیش کیا۔ مولانا حالی 145 علامہ اقبال اور مولانا شبلی کی نظمیں اور پریم چند کے افسانے پہلی بار اسی روزنامہ میں شائع ہوئے۔ مزاح نگاری کا 146146 ہمدرد145145 نے ایک ایسا معیار قائم کیا جس کا اس سے قبل اردو صحافت میں کوئی وجود نہ تھا۔ آج بھی جو اچھے بلند پایہ افسانہ نگار145 مزاج نگاریا طنز نگار ہیں انہوں نے 146146 ہمدرد 145145 کی روایات سے بہت کچھ حاصل کیا ہے۔ یہ درحقیقت سب مولانا محمد علی جوہر کی ممتاز 145 معظم145 لیق و جمیل شخصیت کا کرشمہ ہے۔ ان حالات میں ہر ایک قاری یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ وہ اگر سیاسی اختلافات کی الجھنوں میں نہ پھنس گئے ہوتے اور صحافت و تصنیف و تالیف کی طرف زیادہ متوجہ ہوتے تو خدا جانے وہ کیا سے کیا بن جاتے۔’’

جوہرؔ کی شاعری:

مولانا محمد علی جہاں ایک عظیم دانشور ?ہوش مند لیڈر،بلند پایہ خطیب اور سحر انگیز انشاء پرداز تھے، وہیں ایک صاحب طرز شاعر،ایک درمند انسان اور ایک عاشق سرگشتہ بھی تھے۔

جوہر کی شاعری میں مرکزیت ؛ جذبہ عشق ہی کے ذریعہ پیدا ہوئی، یہ عشق وطن کا، ملت اسلامیہ کا، اور آزادئ ہند کا عشق ہے …..غیر مشروط اور ہر طرح کے تحفظات سے مبرا …..لیکن یہ مشاہدۂ حق کی وہ گفتگو ہے جو بادہ وساغر کی پیرایۂ رنگین میں بیان ہوئی اور اس میں سرشاری اور سرمستی کی والہانہ اور بے تابانہ کیفیت ہے، یوں تو اس میں جیب وداماں کی شکایت بھی ہے اور زلف پریشاں اور ابرومژگاں کی حکایت بھی؛ لیکن وحشی کو جس ناقہ لیلی کی تلاش ہے اس کا راز غزل کو پوری فضا کو نظرمیں رکھنے سے کھلتا ہے ان غزلوں میں اکثر وبیشتر اشعار لخت لخت نہیں بلکہ ان میں ایک مسلسل کیفیت ہے، نہ صرف روانی، تسلسل، بہاؤاور جذباتی ترفع کی بلکہ اس معنیاتی فضاء کی بھی جس کی شیرازہ بندی مولانا کے تصور ملی اور جذبہ حریت سے ہوئی ہے، ان غزلوں سے لطف اندوز ہونے کے لیے ان کی مجموعی فضا اور قومی وسیاسی محرکات کونظر میں رکھنا بہت ضروری ہے، یہ قومی عاشقانہ کیفیت اتنی عام ہے کہ محمد علی جوہر کی غزلوں کو کہیں سے بھی دیکھئے ان میں حدیث قوم ووطن کو سردلبراں کے پیرایے میں بیان کرنے کا یہی دلنواز اورلطیف انداز ملے گا، ان سب کے ساتھ ساتھ جوہر کی نعتیہ شاعری بھی ایک امتیازی شان رکھتی ہے، ان کی نعت خوانی کے منفرد انداز کی ا س طرح تعریف وستائش کی گئی کہ جو ہر کی نعتیہ شاعری جملہ نعتیہ شاعروں کے لیے ایک ماڈل اور معیار کے مترادف بن گئی، مولانا نادریابادیؒ اس سلسلے میں یوں رقم طراز ہیں : 146146نعت گو شعراء اردو میں کثرت سے ہوچکے ہیں اور بعض کو شہرت عام، سند امتیاز بھی دے چکی ہے، مثلاً محسن کاکوروی، آسی غازیپوری لیکن ان حضرات نے عموما مناقب کے صرف خارجہ پہلوؤں پر قناعت کی ہے، او ران کو بھی کثرت تکرار نے کسی قدر بے لطف بنادیا ہے، رخ انور کی تابانی، گیسوئے اقدس کی سیاہی، ابروئے مبارک کی کجی وغیرہ گنتی کے چند بندھے ہوئے مضامین ہیں کہ انہی کوالٹ پھیر کر یہ حضرات ہمیشہ باندھتے رہتے ہیں، جوہر کی شاعری چوں کہ رسمی اور تقلید ی نہیں، اس لیے انہوں نے اس باب میں بھی اپنے لیے نئی راہ کا انتخاب کیا یعنی بجائے خارجیت کے داخلیت کو اپناموضوع بنایا اور بجائے آثار وشمائل کی نقاشی کے جذبات وواردات کی ترجمانی کی، محمد علی کا اصل موضوع حسن کی رعنائی، جمال کی زیبائی نہیں بلکہ وہ دل کی چوٹ، عشق کی تڑپ، جذبات کے سوز کو سامنے رکھ دیتے ہیں اور یہی ان کے کلام کی تاثیر کا راز ہے :

ہر آن تسلی ہے ہرلحظہ تشفی ہے
ہر وقت ہے دلجوئی ہر دم ہیں مداراتیں
معراج کی سی حاصل سجدوں میں ہے کیفیت
اک فاسق وفاجر میں اورایسی کراماتیں
بے مایہ سہی لیکن شاید وہ بلا بھیجیں
بھیجی ہیں درودوں کی کچھ ہم نے بھی سوغاتیں
(مکتوب سلیمانی جلداول ص:186)

ایک جوہرؔ شناس کی تحریر سے اقتباس:

مایہ ناز دانشور اور عظیم جوہر شناس مولانا عبدالماجد دریا آبادی نے اپنی کتاب 146146محمد علی :ذاتی ڈائری کے چندورق145145 میں مولانا محمد علی جوہر کی ہمہ جہت شخصیت کو اس طرح اجاگر کیا ہے۔

146146ایک ایسا شخص جو ایک طرف وزیر ہند مسٹر مانٹیگر اور وزیر اعظم برطانیہ لائڈ جارج کے سامنے لندن میں گھنٹوں مسئلہ خلافت پر آزادانہ تقریر کرسکتا ہو، جوعین ہیجان مخالفت میں لندن اور پیرس کی بڑی بڑی مجلسوں میں ترکوں کی حمایت میں مدلل اور شفتہ و برجستہ خطاب کرسکتا ہو، جو وائسرائے اور گورنروں کے سامنے قوانین کے سلسلے میں مخالفانہ بحثیں کرکے انھیں قائل کرسکتا ہو۔ اخبار کامریڈ میں سیاست حاضرہ اور مذہب پر دس دس اور بیس بیس کالم کے مضامین بہترین ادب و انشاء کے ساتھ سپرد قلم کرسکتا ہو، انگریزوں کی کلب لائف میں ایسا گھل مل جائے کہ انھی میں سے معلوم ہو اور دوسری طرف مسجد کے منبر پر وعظ کہنے کھڑا ہو تو روتے روتے اپنی داڑھی بھگولے اور سننے والوں کی ہچکیاں بندھ جائیں۔ محفل سماع میں بیٹھے تو اس کا وجد وحال دیکھ کر دوسروں کو وجد آجائے۔ مسئلہ قتل مرتد پر جب فقہی استدلال شروع کرے تو اچھے اچھے اہل علم اش اش کر اٹھیں۔ آزاد خیال اتنا کہ ہر کلمہ گو کو اپنا حقیقی بھائی سمجھ لے، منقشف ایسا کہ ترکی کے آمر مصطفی کمال پاشااور افغانستان کے امیر امان اللہ خان کو آخر تک معاف نہ کرے، نماز کا پابند اتنا کہ برطانوی ایوان پارلیمنٹ کے برآمدے میں بھی مصلیٰ بچھاکر کھڑا ہوجائے۔

دلیر اتنا کہ سلطان ابن مسعود والی نجد و حجاز کے منہ پر بھرے مجمع میں سب کچھ کہہ سن کر رکھ دے، ادیبوں کی محفل میں ادیب، شاعروں کی مجلس میں غزل گو، اہل سیاست کی صف میں ممتاز، عوام و خواص دونوں کے اعتماد و عقیدت سے سرفراز145145۔
مختصر یہ کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں وہ تمام صلاحیتیں اورکمالات بدرجہ اتم عطا فرمائے تھے جو ایک قومی درجے کے بلند پایہ رہنما کے لیے لازم و ضروری ہوتے ہیں، ان میں خلوص کا بحر بیکراں موجزن رہتا تھا، خطابت کی جادوگری ہو یا صحافت کی سحر آفرینی وہ ہر میدان کے مرد میدان تھے، ان کی شخصیت میں دلآویزی کے ساتھ ساتھ پارے کی سیمابی اور بجلی کی بے تابی بھی بخوبی تھی ان میں ایک منفرد قلندرانہ شان تھی کہ انھوں نے کبھی بات کہنے میں کسی کی پروا نہ کی۔ مولانا محمد علی جوہر کی شخصیت اس لحاظ سے فقید المثال ہے کہ وہ اردو اور انگریزی کے بہترین انشاء پرداز اور صحافی تھے، سچائی ان کا اصل جوہر تھا۔

تبصرے بند ہیں۔