حفاظت نسواں کے دعوے کیا ہوئے؟

راحت علی صدیقی قاسمی

 یوپی میں بی جے پی کی حکومت قائم ہونے کے بعد عورتوں کی عزت و عصمت کی حفاظت کے لئے سپاہیوں کا ایک دستہ متعین کیا گیا اور اس کا نام ’’اینٹی رومیو اسکواڈ‘‘ رکھا گیا ،یہ دستہ عورتوں پر ہورہے مظالم پر قدغن لگانے کے لئے تھا،انہیں گھر کی چہاردیواری سے لے کر شاہراہوں تک ہر جگہ حفاظت فراہم کرنے کے لئے تھا ،ان کی آبرو اور ان کے وقار کی حفاظت کے لئے تھا ،کوئی کسی عورت کو آنکھ بھر کر دیکھ لے تو یہ افراد اس کی خبر لینے کے لئے تیار رہتے تھے ،چنانچہ پہلے دن منچلے ،عاشق و معشوق ،بھائی بہن ،سب ایک ہی زمرے میں شامل کردئے گئے اور جہاں مرد عورت کے درمیان قربت کا احساس ہوا تو ڈنڈوں نے ان کی گفتگو پایۂ تکمیل تک پہونچائی ،بہنوں کے ساتھ محو سفر بھائی بھی اس عتاب کا شکار ہوئے اور بہت سے عاشق بھی جرم عشق کی سزا پاکر اپنا نام دور جدید کے مجنوں اور فرہاد کی فہرست میں لکھوانے میں کامیاب رہے اور ایک ہی دن میں پوری ریاست میں شور واویلا ،چیخ و پکار ہو گیا ، حالات نے وزیر اعظم کو سوچنے پر مجبور کردیا اور احکامات میں تبدیلی کی گئی ،پولس کو ان کے حدود اور دائرہ کار سے واقف کرایا گیا ،انہیں احساس دلایا گیا ،ہر مرد برا، بدچلن نہیں ہوتا ، بلکہ شوہر، بھائی اور دوست بھی ہوسکتا ہے،عزیز رشتہ دار بھی ہو سکتا ہے ۔

اس کے بعد صورت حال گذرتے لمحات کے ساتھ تبدیل ہوتے چلی گئے اور وہ کارنامہ جس پر وزیر اعظم داد وصول کرتے نہیں تھک رہے تھے ،وہ کاغذی محسوس ہونے لگا ،ریاست میں ’’اینٹی رومیو اسکواڈ‘‘ کا کوئی کارنامہ سننے میں نہیں آیا ،کوئی خاص عمل دخل محسوس نہیں کیا گیا ،کہیں کوئی من چلا بدمعاش ان کے ذریعہ سبق نہیں سیکھ سکا ،کیا چند دنوں میں ہی پوری ریاست کے غنڈے موالی صوفی سنت ہوگئے ؟کیا اب کسی بیٹی کو نہیں چھیڑا جا رہا ہے ؟کیا اب ریاست کی بیٹیاں محفوظ ہوگئیں ؟ اگر جواب ہاں میں ہے ،تو تین بھیانک تصویریں ہمارے سامنے ہیں ،اور ہمارا منھ نوچنے کے لئے بیتاب ہیں ، اپنے درد و تکلیف کا قصہ بیان کررہی ہیں اور ہمیں احساس کرارہی ہیں کہ وہ ریاست جہاں عورتوں کی عزت و عصمت کی حفاظت کے دعوے کئے جارہے تھے ،ان کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنے کو باعث جرم قرار دیا جارہا ہے ، وہاں عورتوں کے ساتھ حیوانوں جیسا سلوک کیا جا رہا ہے ،ان کی عزت و آبرو سے کھیلا جارہا ہے ،ان کو انصاف کے لئے تڑپنے پر مجبور کیا جارہا ہے ،مجرموں کے ساتھ رحم وکرم کا سلوک روا رکھا جارہا ہے ۔

اس ریاست کی تین خوفناک تصویریں ان دعووں کو کھوکھلا اور بے بنیاد قرار دیتی ہیں ۔یہ دعوے سیاسی رہنماؤں کے عزت و ناموس کے حصول کا ذریعہ ہے یا کچھ نیا کرنے کی چاہ اور داد بٹورنے کا حربہ۔منظرنامہ دیکھئے اور خود فیصلہ کیجئے ،24مئی کی رات نوئیڈا کے جیور میں کچھ لوگوں نے تین عورتوں کی عزت کو پامال کیا، درد و تکلیف سے دوچار کیا ،اجتماعی آبرو ریزی کی گئی ،اسی پر بس نہیں ایک شخص کو موت کی نیند سلادیا گیا لیکن پولیس ابھی تک اس گتھی کو نہیں سلجھا پائی ،بلکہ پولیس اب تک یہ بھی طے کرنے میں ناکام ہے کہ یہ جرم ہوا یا نہیں ؟ ان عورتوں کی عزت لوٹی گئی یا نہیں ؟اس ریاست میں جہاں عورتوں کی حفاظت کے اتنے بڑے بڑے دعوے ہیں ،ان کے مقام و وقار کی گفتگو ہے ،وہاں یہ طریقہ چہ معنی دارد ،ان عورتوں نے انصاف مثل عنقاء دیکھ کر پولیس والوں کے رویہ کو دیکھ کر ،اپنی جان دینے کی کوشش کی، گلے میں پھندا ڈال کر اپنی سانسیں روکنے کی کوشش کی ،جسم پر تیل چھڑک خود کو نذر آتش کرنے کی کوشش کی ،ظلم کی انتہا انسان کو جان دینے پر مجبور کردیتی ہے ،کیا یہی عورتوں کی حفاظت کا دعویٰ ہے؟

کیا وزیراعظم کو یہ سب نظر نہیں آیا ؟ان کی زبان سے کوئی لفظ کیوں نہیں نکلا ؟کہاں ہے ان کی فوج ؟ کہاں ہیں وہ لاٹھیوں والے سپاہی ؟کیا ان مجرموں کے نصیب میں لاٹھیاں نہیں ہیں ؟کیا ان بے بس مظلوم عورتوں کے نصیب میں انصاف نہیں ہے ؟اور کتنے دن انہیں اس صورت حال سے لڑنا ہوگا؟  کیا ان کے مرنے کا انتظار ہے ؟تب جاکر پولیس اہلکاروں میں حرکت و تیزی آئے گی ؟یہ ہے پہلی تصویر جس پر ریاست کی قانونی حالات زار کا فسانہ لکھا ہوا ہے ، پولیس کی سستی کا قصہ درج ہے ۔دوسری تصویر اس سے بھی  بھیانک ہے ،جسے دیکھ کر آپ کی آنکھیں خون کے آنسو روئیں گی اور آپ کا کلیجہ پھٹ پڑے گا ،آپ کے سینہ میں اگر دل ہے اور اس دل میں دھڑکن ہے ،تو یہ واقعہ اس میں تیزی اور شدت ضرور پیدا کرے گا، اگر آپ کے سینہ میں پتھر ہے ،تو اس واقعہ کی شدت اس پتھر کو بھی چکنا چور کرسکتی ہے ۔

ایک عورت روزہ کی حالت میں طبیعت بگڑنے پر ایک شخص سے مدد طلب کرتی ہے ،یہ اسے ٹرین کے خالی کوچ میں لیٹنے کا مشورہ دیتا ہے اور اس کوچ میں جاکر اس عورت کی عزت تار تار کردیتا ہے اور یہ شخص کوئی راہ چلتا مسافر نہیں بلکہ اس شعبہ سے متعلق ہے جس کا کام ہی ہمیں حفاظت فراہم کرنا ہے اور ہمارے مسائل کو دور کرنا ہے ،آپ تصور کیجئے روزہ کی حالت میں کیا بیتی ہوگی اس عورت کے دل پر ؟کن مشکل تر حالت کا اس نے سامنا کیا ہوگا ؟ کس تکلیف و اذیت کو جھیلا ہوگا؟ ذہنی بھی، جسمانی بھی، تصور آنکھوں کو اشکبار کردیتا ہے اور تکلیف میں مبتلا کردیتا ہے ،کائنات میں بسنے والے ہر فرد کے دل میں اس شخص کے خلاف نفرت کا جذبہ پیدا ہونا فطری ہے، کسی بھی مذہب، کسی بھی ذات برادری سے متعلق ہو ،اگر اس میں انسانیت باقی ہے ،تو اس شخص کو ذلیل سمجھے گا ،اس سے نفرت کرے گا ،اس کے لئے سزا کی خواہش کرے گا ،لیکن ویڈیو وائرل ہوا ،ہم سب نے دیکھا اس کی تھانہ میں مہمانوں کی طرح خاطر مدارات کی جارہی تھی ،یہ ہے ریاست میں عورتوں کی عزت کا حال۔یہ ہے بیٹی پڑھاؤم بیٹی بچاؤ کے نعرے کی حقیقت ،اور وزیر اعلی اپنی دنیا میں کھوئے ہوئے ہیں ۔انہیں چند مسائل کے سوا کچھ نظر نہیں آتا ،اگر انہیں اس مسئلہ کی شدت کا احساس ہے ،تو پھر خاموشی کیوں ؟کیوں اب تک قانون ہاتھ میں لینے والے کو اتنی عزت سے نوازا جارہا ہے ؟کیا یہ تکریم مجرموں کے لئے حوصلہ افزا نہیں ہے ؟کیا اس سے جرائم کی شرح میں اضافہ نہیں ہوگا ؟

ان سوالات پر غور کیجئے اور ریاست کی فکر کیجئے اور جن کی آپ ہمیشہ فکر کا دعویٰ کرتے ہیں ،حمایت کرتے ہیں ،ان کے حق میں آواز بلند کرتے ہیں ،ان کی فکر کرتے ہیں ،ان تمام اقوال اور دعووں کو زمینی حقائق بخشئے ۔آئیے تیسر واقعہ سے بھی آپ کو روبرو کرا دیا جائے اور آپ کے صبر و ضبط کا امتحان لیا جائے ،یہ سرزمین مظفرنگر سے متعلق ہے ۔ایک شخص نے ایک عورت کو گھر میں قید کرکے تین دن تک آبرو ریزی کی ،پولیس اس شخص کو پکڑنے میں ناکام ہے اور ابھی تک اس مجرم کا کوئی سراغ نہیں لگ سکا ۔یہ ہے اترپردیش کی صورت حال جہاں بی جے پی سرکار کا نفاذ اس دعویٰ کے ساتھ ہوا تھا کہ اکھیلش سرکار نظم و ضبط کو قائم رکھنے میں ناکام ہوئی تھی، صوبہ میں غنڈہ راج ہوگیا تھا ، ہم اس طرز کو خارج کر دیں گے ۔

اس صورت حال کو بدلیں گے ،ریاست کو مضبوط کریں گے ،قوانین و ضوابط پر سختی سے عمل پیرا ہوں گے ،انتظام و انصرام کے شعبہ کو مضبوط کیا جائے گا ، یوگی آدتیہ ناتھ نے چند دنوں تک دوڑ بھاگ کر کچھ افسران کے تبادلہ کر اس طرف اشارہ دیا تھا ،مگر قلیل مدت میں ہی یہ طرز عمل بدلا ہوا محسوس ہورہا ہے اور عورتوں پر ہورہے مظالم کے سدباب کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی ہے۔عورتوں پر گھروں میں ظلم ہورہا ہے ،جہیز کے لئے ،لڑکے لئے اور مختلف وجوہات کی بناء پر عورتوں کو ستایا جاتا ہے ،اخبارات گواہ ہیں اور پولیس کے رویہ کو بیان کررہے ہیں ۔

اس مسئلہ میں ہماری حکومت کو سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا اور عورتوں کی حفاظت کے پختہ انتظامات کرنے ہوں گے ،عام طور پر اس طرح کے واقعات نشہ کی حالت میں انجام دئے جاتے ہیں ،اس لئے شراب بندی کے تعلق سے بھی غور و فکر کرنا ہوگا تاکہ ریاست کو صاف و شفاف فضاء مہیا کی جاسکے ،اور جرائم کا خاتمہ کیا جاسکے۔

تبصرے بند ہیں۔