حقائق، دعوے اور مستقبل

عالم نقوی

امت شاہ نے  ’بھوشیہ وانی ‘ کی ہے کہ’’ 2019 میں بی جے پی لوک سبھا میں 350 سے زیادہ سیٹیں حاصل کرے گی‘‘ اور یہ کہ ’’ ان کی پارٹی پانچ سال کے لیے نہیں پچاس سال کے لیے ’سَتَّا ‘ (اقتدار ) میں آئی ہے !‘‘  وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے پیشین گوئی کی ہے کہ’’ 2022 تک ،یعنی صرف اگلے پانچ برسوں میں نہ صرف مسئلہ کشمیر حل ہو جائےگا بلکہ آتنک واد (دہشتگردی ) نکسل واد (نکسلی دہشت گردی)  اوربائیں بازو کی اِنتہا پسندی (اُگر وَاد )کا بھی خاتمہ ہو چکا ہوگا ‘‘اور وزیر اعظم مودی نے اپنی 15 اگست کی تقریر میں ایک  اور بدیہی سچائی کا اظہارکیا  کہ ’’کشمیر کا مسئلہ’’ گولیوں اور گالیوں ‘‘سے نہیں ’’کشمیریوں کو گلے لگانے‘‘ سے حل ہو سکتا ہے !‘‘مگر ۔بقول ِشاعر ،مسئلہ یہ ہے کہ’’وہ جھوٹ بہت شاندار بولتے ہیں ‘‘!انہوں نے گزشتہ برسوں میں ایک بھی سچ بولا ہوتا یا اپنا کوئی ایک بھی وعدہ  ایمانداری اور دیانت داری سے پورا کیا ہوتا تو ہم ۔۔’’خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا ! ‘‘

 دی وائر ڈاٹ کام پر شایع دہلی یونیورسٹی کے  پروفیسر اپوروانند  جھا کا حالیہ مضمون مذکورہ بالا سبھی   دعووں اور بھوشیہ وانیوں کو سمجھنے کے لیےکافی ہے جس میں انہوں نے   ’’مہابھارت کے  ایک واقعے یُدھِشٹَر آلنگن‘‘ (یعنی نابینا  یدھشٹر کے بھیم کے  مجسمے کو گلے لگا کر تباہ کردینے )کے حوالے   سے لکھا ہے کہ ’’جب کوئی طاقتور  صاحب اقتدار مقابل ہو تو اس کی کسی بھی تجویز  قول ،دعوے  یا بیان کو  ٹھیک سے جانچے پرکھے بغیر قبول کر لینا خود کو مزید  خطرے میں ڈالنے  کے مترادف ہے ! جب ماحول جنگ کا ہو تو مقابل کی جذباتی بیان بازی بے رحم حقیقت پسندی کے کانوں سے سننی چاہیے ! ایسے میں جب بھی کوئی کہے کہ مجھے اور تمہیں ایک ہوجانا چاہیے تو اس تجویز کو ہوشیاری سے جانچنے کی ضرورت ہے کیونکہ کسی کو اپنا بنا نے کا ایک طریقہ اُسے ہڑپ کر لینا بھی ہے کیونکہ اس طرح  بھی دوسرا ،پوری طرح ،پہلے سے مل جاتا ہے، لہٰذا ’’آؤ  ہم تم مل جائیں ‘‘یہ ’نیوتا ‘پاکر  فورا! دوڑ پڑنے کی جگہ ٹھٹھک کر ،بلانے والے کو اچھی طرح سمجھ لینے کی ضرورت ہے ‘‘۔

مودی ،شاہ ،جیٹلی،یوگی  اور بھاگوت چونکہ بھارت کو ہندو راشٹر بنانے اجودھیا میں بابری مسجد کی جگہ ’بھَوِّیَہ رام مندر تعمیر کرنے اور 2025 تک بہ خیال خود بھارت کو ’’اسلام مُکت اور مسلمان مُکت ‘‘ بنا دینے کے اپنے علانیہ اور خفیہ ایجنڈے کی تکمیل کی طرف بڑھ رہے ہیں اور چونکہ کشمیر میں فلسطین جیسے حالات پیدا کرنے میں وہ بڑی حد تک  کامیاب ہو چکے ہیں اِس لیےپروفیسر اَپوروا نند  نے مہا بھارت کے جس واقعے کا ذکر کیا ہے اُس کا بیان یہاں اِختصار کے ساتھ لیکن اُنہیں کے لفظوں میں مودی شاہ بیانوں اور بھوشیہ وانیوں کو سمجھنے  کے لیے ضروری ہے ۔

وہ لکھتے ہیں کہ ’’معلوم نہیں کیوں اگست کے ڈھلتے پکھواڑے میں دھرت راشٹر آلنگن کی یاد آ گئی۔ جنگ ختم ہو چکی ہے ۔محض اٹھارہ دن کی لڑائی۔ لیکن کہلاتی ہے ’مہا بھارت ‘!کیونکہ جنگ تو میدان میں کوروُوں اور پانڈوُوں  کی فوجوں کے آمنے سامنے  ہونے سے بہت پہلے ہی شروع ہو چکی تھی ۔بارہ سال کے بن باس اور ایک سال کی گمنامی کی زندگی گزارچکنے کے باوجود کوروُوں  نے اُنہیں ایک انچ زمین بھی دینے سے انکار کر دیا تھا جبکہ اُنہوں محض پانچ گاوؤں مانگے تھے ۔کرشن نے دونوں کے درمیان ثالثی کی کوشش بھی کی لیکن اِقتدار اور قوت کے نشے میں مدہوش کوروُوں نے کرشن کی بھی نہ سنی اور وہ  خالی ہاتھ پانڈووں کے پاس    لَوٹ آئے۔پھر جنگ ہوئی۔ جو ہونا ہی تھی ۔ایک طرف پوری فوجی طاقت تھی۔ دوسری طرف صرف کرشن ۔ اسے جنگ کہنا بھی درست نہیں۔ وہ تو قتل عام تھا ۔پانڈووں نے مقابلہ تو جیت لیا لیکن اس کی قیمت بہت زیادہ تھی ۔کوروُوں کی طرف سے بھیشم اور دروناچاریہ بھی مارے گئے۔ یہ دونوں جانتے تھے کی دھرم تو پانڈووں کی طرف ہے لیکن وہ  اَدَھرم کی طرف سے لڑے اور مارے گئے !دھرم اور اَدَھرم ،حق اور نا حق سب دھرے رہ گئے کرشن نے کہا بھی تو بس اتنا کہ ’’ بھیا اسی لیے تو میں جنگ نہیں چاہتا تھا ۔جنگ تو اپنے آپ میں اَ نَیتِک (غیر اخلاقی) ہے  لیکن ایک بار شروع ہو جائے تو پھر اس کا واحد نصب ا لعین ’فتح ‘ حاصل کرنا رہ جاتا ہے دھرم (پر عمل یا اس کا حصول )نہیں !اس لیے میرا کام تو  فقط فتح کو یقینی بنانا تھا اور بس !

پانڈووں کی جائز مانگ نہ ماننے اور جنگ کو یقینی بنانے کے لیے کورووں کی منطق کیا تھی ؟ ان کے سردار دریودھن کا یہ قول مہا بھارت میں درج ہے کہ ’’دھرم (حق)  کیا ہے میں جانتا ہوں لیکن وہ میری فطرت میں نہیں اور اَدھَرم (باطل) کیا ہے یہ بھی جانتا ہوں لیکن جنگ سے فرار ممکن نہیں !‘‘جنگ ختم ہوئی تو کرشن نے  پانڈووں سے کہا کہ وہ کورروں کے بزرگ اور اپنے چچا  دھرت راشٹر سے  گلے ملیں جو اندھے تھے اس لیے لڑائی کے میدان میں نہیں گئے تھے اور بچ گئے تھے۔دھرت راشٹر اپنے بچوں اور اہل خاندان کے مارے جانے اور اپنی شکست سے غم زدہ تو تھے ہی ،غصے سے پاگل  بھی ہورہے تھے ۔انہوں نے اشارے سے اپنے بھتیجے بھیشم کو گلے لگانے کے لیے بلایا لیکن کرشن نے موقع کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے عین وقت پر بھیشم کے بجائے پتھر کا بنا بھیشم کا پتلا دھرت راشٹر کی طرف بڑھا دیا اُنہوں نے اُسے اِس طرح پوری طاقت کے ساتھ بھینچ کے گلے لگایا کہ وہ پتھر کا   پتلا چور چور ہو گیا۔وہ چیخ پڑے کہ ’ ہائے یہ میں نے کیا کر ڈالا ‘ لیکن فوراً ہی انہیں پتہ چل گیا کہ کرشن نے  ،جو انہیں ،پانڈووں کا حق مارنے اور ان سے  جنگ کرنے  سے تو باز نہ رکھ سکے تھے ، اس  گناہ سے  انہیں بچا لیا تھا !‘‘

 پروفیسر اپوروا نند نے  مہا بھارت کا یہ واقعہ درج کرنے کے بعد لکھا ہے کہ ’’دھرت راشٹر کی اس دعوت میں ایک انتباہ پوشیدہ ہے کہ جب دو فریق ِجنگ آمنے سامنے ہوں تو ایک فریق کی جذبات میں ڈوبی  اپیل  کو بے رحم حقیقت پسندی کے کانوں سے سننا چاہیے۔فریق جب طاقتور ہی نہیں صاحب اقتدار اور ظالم  بھی ہو تو اس کی تجویز کو ٹھیک سے جانچے پرکھے بغیر قبول کر لینا خود کو جوکھم میں ڈالنا ہے ! یہ دھرت راشٹر آلنگن ’منہ میں رام اور بغل میں چھری ‘ کا مترادف  تو ہے ہی  اس فریب  کی سنگینی کو اور بڑھا دیتا ہے !معلوم نہیں کیوں اگست کے اس ڈھلتے پکھواڑے میں مجھے اچانک اِس دھرت راشٹر آلنگن کی یاد آگئی ! ‘‘

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔