ہر ایک سمت موت ہے رقصاں بِہار میں

نازش ہما قاسمی

بہار میں ان دنوں نیپال سے آئے ہوئےسیلاب نے تباہی مچارکھی ہے۔۔۔ہر ندی خطرے کے نشان سے اوپر بہہ رہی ہے۔ ۔۔۔۳۸اضلاع میں سے 13 اضلاع بالکل غرق ہوچکے ہیں ۔۔۔ہاہا کار مچی ہوئی ہے۔۔۔ہر طرف پانی ہی پانی طوفان نوح کا منظر پیش کررہا ہے۔۔۔لاشیں تیر رہی ہیں ۔ بچے بلک رہے ہیں ۔۔۔گزشتہ تیس سالوں 1987 کے بعد سے یہ سب سے بڑا سیلاب ہے بلکہ سن ستاسی کا بھی اس نے ریکارڈ توڑ دیا ہے۔۔۔نظام زندگی مفلوج ہوچکی ہے۔ لوگ گھروں سے باہر نکل کر امداد کے منتظر ہیں ۔۔۔سب سے زیادہ تباہی سیمانچل کے علاقے میں ہوئی ہے گھروں اور سڑکوں پر تقریباً پانچ پانچ فٹ پانی جمع ہوگیا ہے۔  گھروندے خش وخاشاک کی طرح بہہ چکے ہیں ۔۔۔آسمان سے بھی بارش کے دہانے کھل گئے ہیں اور زمین تو پانی اگل ہی رہی ہے۔۔۔لوگ دانے دانے کو ترس رہے ہیں ۔۔۔ماں کے سامنے بچے پانی میں بہے جارہے ہیں اور وہ حسرت ویاس سے ڈوبتے دیکھ رہی ہیں ۔۔۔باپ سروں پر بچوں کو اُٹھائے زندگی کی تلاش میں پانی پر تیر رہا ہے لیکن اوپر سے کوئی ہیلی کاپٹر نہیں دکھائی دیتا جو انہیں خشکی تک لے جائے۔۔۔!

کوسی ندی نے ایسا قہر برپا کیا ہے کہ سیمانچل کے اکثر علاقے لاش اگل رہے ہیں ۔ ہر طر ف پانی میں لاشیں تیرتی نظر آرہی ہیں ۔۔۔متھلانچل کے علاقے دربھنگہ، مدھوبنی، سیتا مڑھی، مظفر پور وغیرہ بھی ٹاپو میں تبدیل ہیں ۔۔۔یہاں انسانی زندگی کا زیادہ ضیاع تو نہیں ہوا ہے البتہ گھروں سے لوگوں کے رابطے ٹوٹ گئے ہیں ۔۔۔جن کے پختہ گھر ہیں وہ اوپری منزل پر کالی راتوں کو جاگتی آنکھوں سے اجلا کررہے ہیں ۔۔۔ایسی خطرناک مصیبت میں کچھ ملی تنظمیں راحت رسانی کے کاموں میں جٹ گئی ہیں جس سے سیلاب متاثرین کو کچھ راحت مل رہی ہے ،لیکن یہ اس قدر نہیں ہے کہ اس سے زیادہ راحت رسانی ہوسکے ۔۔۔حکومتی سطح پر کوئی کام نہیں ہورہا ہے۔۔۔مودی جی بہار کی کایا پلٹنے کے وعدے تو کررہے ہیں لیکن لال قلعہ سے یوم آزادی پر خطاب کرتے ہوئے انہوں نے طلاق ثلاثہ، اقلیتوں پر ظلم کے خلاف آوازیں تو اُٹھائیں لیکن بہار میں بہتے انسان ، چیختے انسان ، بلکتے معصوموں کے لیے دو لفظ بھی نہیں بول پائے،کیوں کہ ان سب باتوں سے سیاست کی روٹی گرم نہیں ہوتی ہے،معاملہ اگر وندے ماترم کا ہوتا تو زیادہ بہتر ہوتا لیکن یہاں زبانی جمع خرچ نہیں کرنا ہے بلکہ عملی طور پر میدان میں آنا ہوگا ۔۔۔نتیش جی نے مہا گٹھ بندھن کا ساتھ تو چھوڑ دیا تاکہ بہار کی ترقی میں گھوٹالے بازوں کے ساتھ کام کرنے میں کوئی رخنہ نہ پیدا ہو ۔۔۔لیکن ان کی طرف سے بھی کوئی خاطر خواہ امداد وہاں تک نہیں پہنچ رہی ہے اور ابھی سوساشن بابو شرد یادو اپنی پارٹی کو بچانے کی فکر میں ہے۔۔۔۔

ایسے میں صرف امارت شرعیہ پٹنہ، مولانا اسرارالحق قاسمی کی تنظیم ملی فائونڈیشن ، جمعیۃ اہل حدیث، رضا اکیڈمی ممبئی، جماعت اسلامی اور مولانا بدرالدین اجمل کی این جی او ، نوشاد زبیر ملک نوادہ کی تنظیم اور طیب ٹرسٹ وہاں راحت رسانی کے کام کررہی ہیں ۔ یہ لوگ کشتیوں میں بیٹھ کر متاثرین تک امداد پہنچا رہے ہیں ۔ ۔۔ان سے مل رہے ہیں ،ان کے درد بانٹ رہے ہیں ۔ لیکن ان کے پاس وسائل کی کمی ان کی محنت پر پانی پھیر  رہی ہے ۔۔۔البتہ مسلمانوں کی مسیحا سمجھی جانے والی تنظیم جمعیۃ علماء ہند جو کہ اس طرح کے ناگہانی آفت میں سب سے پیش پیش رہتی ہے ،اپنے اعتبار سے زمینی سطح پر ہر ممکن امدادی کام کررہی ہے،لیکن یہاں بھی وسائل کی قلت انہیں رفتار بڑھانے سے عاجز کئے ہوئے ہے ،مقامی سطح پر جتنا ممکن ہے اتنا کام کیا جارہا ہے۔

بہار کے سیلاب متاثرین میں جمعیت کا کردار غنیمت ہے،یہاں ایک چیز کی کمی ہے کہ جو تیزی جمعیۃ نے گجرات سیلاب کے موقع سے دکھائی تھی اگر یہاں بھی ابتدا سے ہی باضابطہ کوشش کی جاتی تو بہت ساری جانیں بچائی جاسکتی تھیں !فی الحال مولانا اسرارالحق قاسمی ہی واحد لیڈر ہیں جو زمینی سطح پر یہاں دن ورات کام کررہے ہیں ۔ لیکن سید شاہنواز حسین صاحب اور دیگر مسلم لیڈران جو اس علاقے سے تعلق رکھتے ہیں ندارد ہیں ۔۔۔ چونکہ یہاں طلاق کا کوئی مسئلہ نہیں ہے فرقہ واریت کا کوئ مسئلہ نہیں ہے  ۔ حب الوطنی پیش کرنے کا کوئی موقع نہیں ہے ۔یہاں باتوں سے کام نہیں چلنے والا ہے ۔۔۔اسی لیے ہوسکتا نظر نہیں آرہے ہوں ۔ جب الیکشن قریب ہوگا درد بانٹنے آجائیں گے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تقریباً ہر سال بہار میں سیلاب آتا ہے۔۔۔اس کے لیے حکومتی سطح پر کوئی کام پہلے سے ہی کیوں نہیں کیا جاتا تاکہ ان نقصانوں میں کمی آئے۔۔۔حکومت پربراجمان صاحب اقتدار ووٹ تو مانگنے کے لیے ہر جگہ پہنچ جاتے ہیں اور ووٹ لے کر کامیاب بھی ہوجاتے ہیں لیکن وہ لوگ جو برسوں سے سیلاب سے لڑ رہے ہیں ۔۔۔ان کے لیے کوئی ایسا باندھ۔۔۔ایسا پشتہ کیوں نہیں تعمیر کرتے جو طوفانی سیلاب آنے پر بھی نہ ٹوٹ پائے۔۔۔ایسے پل کیوں نہیں تعمیر کیے جاتےجس سے سیلاب آنے کے بعد آمدورفت میں کوئی تکلیف نہ ہو۔۔۔۔حکومت ترقی کے ڈھنڈورے تو پیٹ رہی ہے اور کچھ ترقیاں بھی ہوئی ہیں لیکن یہ جو برسوں سے مقابلہ آرائ جاری ہے ، اس کے خاتمہ کے لئے کیا کیا گیا ۔وہ  ہر سال اجڑتے ہیں ، بستے ہیں ، پھر اجڑتے ہیں ۔ بہار کی غربت میں سب سے بڑی وجہ یہاں کے سیلاب ہیں ۔۔۔بہار کے عوام سیلاب جھیل جھیل کر اس کے عادی ہوچکے ہیں ۔ ۔۔وہ جو اپنی اولادوں کو پال پوس کر بڑا کرتے ہیں انہیں یہی امید ہوتی ہے کہ کوسی کا قہر برپا ہوگا اور ایک دن یہ اس میں بہہ جائے گا۔ آخر ایسا کیوں ہوتا ہے؟ کیوں نہیں حکومت مستقل طور پر ایسا کام کرتی ہیں جس سے باڑھ آنے پر کوئی جانی نقصان نہ ہو۔ سوال یہ بھی اُٹھتا ہے کہ بہار کی جتنی ملی تنظیمیں ہیں کیا ان سبھی کے پاس کشتیاں ہیں ؟  اسٹیمر ہیں ؟ بوٹ ہیں ۔۔؟ نہیں ! آخر کیوں نہیں ؟ اگر ان کے پاس وافر مقدار میں کشتیاں ہوتیں ، اسٹیمر ہوتے تو وہ بروقت ان متاثرین تک پہنچ جاتے ہیں لیکن وہ ان بنیادی چیزوں کے نہ ہونے کی وجہ سے ان تک نہیں پہنچ پاتے اور لاکھوں لوگ سیلاب کی نذر ہوجاتے ہیں ۔

ایسے پرآشوب حالات سے نمٹنے کیلئے امارت شرعیہ پٹنہ اور جمعیۃ علمائے ہند کو چاہئے کہ ایسی چیزیں جس کی ضرورت ہمیشہ پیش آتی ہیں ،سیلاب اور بہار کا ساتھ چولی دامن کا ہے یہاں سیلاب ہر سال زندگی اور لوازمات زندگی کو برباد کرتا ہے اس لئے کشتیاں وغیرہ اگر اپنی رکھی جائیں تو زیادہ درست ہوگا ۔ اب تک سرکاری سطح پر صرف 150افراد کے مرنے کی اطلاع موصول ہورہی ہیں ۔۔۔حالانکہ سیمانچل کے علاقے لاشوں سے اَٹے پڑے ہیں ۔ تعفن پھیل رہا ہے ۔ جس سے وبائی امراض کا خدشہ لاحق ہوگیا ہے۔ملی تنظیموں کو چاہئے کہ وہ راحت رسانی کے کاموں میں تیزی لائیں تاکہ ان کی باز آبادکاری جلد ممکن ہوسکے  اور مخیرین قوم وملت سے اپیل ہے کہ وہ آسام وبہار کے سیلاب زدگان کے لیے بھر پور امداد کریں ۔۔بقرعید قریب ہے۔۔ان کے سایے چھن چکے ہیں ۔۔۔ان کے بچے بہہ چکے ہیں ۔۔۔مائیں اولادوں سے بچھڑچکی ہیں ۔۔۔بوڑھے باپ کا سہارا پانی میں ڈوب چکا ہے۔۔۔حکومت شاید ان علاقوں پر کچھ خرچ کرنے سے کترائے کیوں کہ وہ مسلم اکثریتی علاقہ ہے پھر بھی اُمید کرتے ہیں کہ وہ کچھ کام کریں گے۔۔

۔میڈیا کو ابھی طلاق ثلاثہ ۔۔۔وندے ماترم۔۔۔چین کی پسپائی۔۔۔سے فرصت نہیں ہے اگر ہوگی تو وہ بھی حکومت کی توجہ بہار سیلاب کی طرف مبذول کرانے کی کوشش کرے گی ۔۔۔ایسے میں ملی تنظیمیں ہی واحد سہارا ہیں ان سے التماس ہے کہ خدا را ڈوبتی انسانیت کو بچانے کیلئے کوئی لائحہ عمل طے کریں ،یہ غریب سہی لیکن خدا کی مخلوق تو ہے۔

تبصرے بند ہیں۔