رشوت و سفارش عروج پر، اسرو رسوخ کے بغیر جینا دشوار

جعفرحسین جعفری

موجودہ دو ر سائنس اور ٹیکنالوجی کا دور کہلاتا ہے۔سائنس اور ٹیکنالوجی نے ہماری روز مرہ زندگی میں جو آسانیاں لائی وہ بالکل عیاں ہے۔ ،چائیے وہ موبائل فون کی صورت میں ہو یا انٹرنیٹ ، اے ٹی ایم ،  یا دوسری کوئی چیز آج چھوٹی سی چھوٹی شئے چائیے کتاب و لباس ہو یا اشیائے خوردنی سے متعلق یابڑ ی سی بڑی شے یعنی گاڑی و غیرہ۔ آن لائن منگوائی جاتی ہے تجارت و کاروباری نقطہ نظر سے آن لائن شاپنگ کا مقصد یہ تھا کہ مناسب دام اور کم وقت میں چیز مل جائے اور دفتری و سکولی کاروبار میں آن لائن کا مقصد یہ تھا کہ کرپشن کا کلاکمہ کیا جائے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ باقی چیزوں  کے ساتھ ساتھ ررشوت و سفارش بھی اب آن لائن ہو گئی۔ پہلے زمانے میں اپنے مفاد کے لئے کسی آفیسر یا وزیر کو سفارشی خط لکھ کر بیجنا پڑھتا تھا۔ لیکن اب آن لائن مسیج کر کے دو نمبری کام کرایا جاتا ہے۔مسٹر مودی جی نے (DEMONIZATION)کا قدم اُٹھا کر رشوت جیسی لعنت کا کلاکمہ کرنا مطلوب تھا۔ لیکن اس قدم سے یہ ہوا کہ اب  ہزار کی نوٹ کی جگہ دو ہزار کے نوٹ رشوت کے لئے عام ہو گیا۔ مودی جی نے 26مئی 2014کو وذیر اعظم کی کرسی سنبھالتے ہی ایک ہدف رکھا تھا کہ اپنی سرکار کے ابتدائی سو ایام میں کچھ ممالک کا دورہ کرنا ہیں۔ اور ایسا انہوں نے کیا بہت ساری ترقی یافتہ ممالک سے واپس آکر اُنہوں نے کچھ قابل داد پالسیاں لانچ کی۔ لیکن افسوس کہ رشوت جیسی لعنت کے لئے کوئی پالیسی لانچ نہیں کی۔ اس کے لئے اگر اپنے پڑوسی ملک چین سے ہی سیکھا ہوتا کہ رشوت کے گوٹالے میں ملوثپا کرملزم کو  موت کی گھاٹ آتاری جاتی ہے چین نے سال 2013 میں (LIU ZHIJUN,)جو ریلوے کے منتری تھے کو پھانسی دے کر یہ ثبوت دیاتھا کہ ترقی یافتہ ملک بننے کے لئے ایسے اقدامات اُٹھا نا ضروری ہوتا ہے۔

خیر اب اگر اتنا نہ ہی ہوتا پھر بھی یہ بُرائی پہچانی جاتی تھی۔ لیکن اب المیہ یہ ہے کہ رشوت کی اصطلاع کو تبدیل کر کے عام لوگوں کو احمق بنانے کے لئے اس کے نام تبدیل کر دیئے۔ اب دفتروں میں جب سے کیمرے وغیرہ لگائے گئے تب سے رشوت خور ملازم بھی بہت شاطرہو گئے۔ اب یہ اصطلاع بہت کم سننے کو ملتی ہیں اب اس کی جگہ چائے پانی ، جلسہ ، TREATِ ِ، رجسٹریشن  فیس اور کچھ محکموں میں پرچی کاٹنا اور باز محکموں میں اسے ، (ہفتہ) کے نام سے جانا جاتا ہے یعنی رشوت دینے والے کو پورا احساس دلایا جاتا ہے کہ یہ قانون کی طرف سے جاری شدہ حکم ہے رشوت کے گٹا ٹوپ اندھیرے میں اب واضع ہو رہا ہے کہ زندگی اب صرف اسرو رسوخ والوں کی رہ چکی ہے۔ اب عام اور بے سہارا لوگوں کی اُمیدیں زرائع  ابلاغ (میڈیا) سے وابسطہ تھی جسے FOURTH PILLER OF DEMOCRACY کہا گیا تھا۔ لیکن اب ہمارا میڈیا بھی اُنہی  کا غن گھاتا ہے جہاں سے زیادہ خرچا مل جائے آج بنک میں جائوں عام صارفین جو ضعیف العمر ہے۔

قطار میں کھڑے ضعیف العمر اپنی عمر رسیدہ پنشن وصول کر نے کے لئے دکے کھاتے نظر آتے ہیں اور اسر رسوخ اور تھوڑی سی ٹھاٹ بھاٹ میں آیا ہوا شخص کیشر کی کیبن میں جاکر کیش وصول کرتا ہے۔ یہ حالت صرف بنک کہ نہیں بلکہ محکمے تعلیم میں بھی اسر رسوخ والے اُستاد  دفترون میں اٹیچ پائے گے۔ یہ وہ تمام حرکات ہے جن کا راقم نے خود سے مشاہدہ کر رہا ہے۔ ایک طرف سے بھارت یہ بلند بانگ دعوا کر رہا ہیں کہ بھارت دُنیا کا عظیم ترین جمہوری ملک ہے جس کی تا ئید امریکہ بھی کر رہا ہے۔ دوسری طرف آئے دن عام جنتا کو ان گنائونی حرکات کا سابقہ پڑھتا ہیں ایک جمہوری ملک کے لئے عدل وانصاف ، مساوات ، بھاچارگی، خیالات کی آزادگی بنیادی چیزیں ہے۔ جو دستورے ہند کے تمہید ((PREAMBLEمیں موجود ہے لیکن موجودہ حالات پر نظر ڈال کر ایسا لگتا ہیں کہ جمہوریت صرف ملک کے کچھ ہی لوگوں کے لئے ہے۔ رشوت و  سفارش جیسے حرکات اگر صرف نیچلے درزے کے دفاتر تک ہی محدود ہوتے تو پھر بھی انسان یہ سوچتا کہ ان دفاتر میں نیم پڑھے لکھے ملازم ہوتے ہے۔ لیکن اب بات یہاں تک ہی نہیں بلکہ ریاست کہ جو بڑے بڑے ادارے اور کمیشنز ہے۔

جیسے جموں و کشمیر پبلک سروس کمیشن ، سروس سلیکشن بورڈ اب ان سے بھی اکثر پڑے لکھے نوجوان بے زار ہے۔ گزشتہ پانچ مہینے سے ، جے کے پی ایس سی ،، نے جو 10+2اور ہائیر ایجوکیشن میں بحثیت اسسٹنٹ پروفیسر کے نتائج نکالے اُن نتائج سے اکثر CANIDATES متفق نہیں ہیں۔ بار حال یہ راقم کا زاتی تجربہ نہیں ہے ،کیونکہ راقم اب تک اس نوعیت کے کسی بھی امتحان میں حصہ نہیں   لے چکا ہے۔ واللہ اعلم۔ ۔۔۔۔۔لیکن گزشتہ پانچ مہینے سے فیس بک اوروٹس ایپ پر دو اصطلاحیں (NAPOTISM)یعنی اقربا پروری اور (PARTIALITY)جمع کر نظر آرہے ہیں اور کچھ Canidates تو اس حد تک پہنچ چکے ہیں کہ۔ ۔جموں کشمیر پبلک سروس کمیشن کو کشمیر پبلک سروس کمیشن کہنا چائیے۔ اور پڑے لکھے بے روزگا ر نوجوانوں میں یہ بات عام ہو گئی ہے کہ اسسٹنٹ پروفیسر یا 10+2کی نوکری اب وہی حاصل کر سکتا ہے کہ جیسے اسر رسوخ اور زرکثیر موجود ہو کیونکہ ڈگریاں اب کتنی بھی ہو ں۔ انٹرویو کے وقت وہی سلیکٹ ہو گا۔ جے اسر رسوخ یا سفارش ہو گی۔ اور یہ ہی حال جے کے ایس ایس ار بی کا ہے  اس سے تو بچے آگ بگولہ ہے۔

کیونکہ سال 2014سے اب تک Financeانسپیکٹر کا امتحان ابھی تک تین بار ناکام ہوا اسی لئے کچھ لوگوں کو لفظ (اسلام)سے چڑھ ہے کیونکہ اسلام جس کی لاٹھی اُس کی بہنس نہیں بلکہ جیسا کرو گے ویسا پائو گے کا نظام ہیں اور اسلام ہمیشہ آمن و آشتی ، عدلہ انصاف مساوات اور بھائی چارگی کا حقیقی درس دیتا ہے اور سلامی تاریخ میں ہزاروں واقعات ایسے ملے گے کہ مسلم حُکماء نے غلط پانے پر اپنے اولاد تک کو نہیں بخشا،۔۔ بہر کیف اسی دلال نظام اور ریکارڈ کی گڑ بڑی کے لئے حکومت ہند نے Right to Information Actیعنی معلومات تک رسائی کا حق بنایا تھا۔ جوا یکٹ سال 2009میں جموں و کشمیر نے بھی اپنایا تھا یعنی ہر شہری کو یہ حق دیا گیا تھا کہ وہ قانونی طور سے گورٹمنٹ ریکارڈ حاصل کر سکے۔ لیکن افسوس صد افسوس!!! افسوس کی جموں کشمیر میں باالعموم اور چناب ویلی میں بالخصوص یہ رواج کی صورت اختیار کر گیا۔ محکمہ دہی و ترقیاتی میں۔ ۔۔۔ ایم جی نریگا۔۔۔ سکیم کے تحت اب گنے چنے کارڈ ہولڈر س بچے ہو گے جنہوں نے اب تک RTIمحکمہ کو نہ ڈالا ہو گا لیکن ہفتے کے اندر اندر گرام سیوک کے ساتھ سمجھوتہ کر کیعدالت میں جا کر باہمی فیصلہ کیا جاتا ہے۔

ہماری عدالتوں کو بھی کیا کہنا ہے ایک جمہوری ملک میں عدلیہ کا آزاد ہونا اتنا ضروری ہے جتنا جسم کے  لئے روح اور غذا  کا  ہونا ضروری ہے آزاد عدلیہ کے زریعہ سے ہی انسانیت کو انصاف ملنے کی اُمید ہوتی ہیں ملک و قوم کو آمن و سلامتی اور انصاف کے سارے تقاضے پورے کر نے کے لئے آزاد عدلیہ کا ایک اہم رول ہوتا ہے حکمران طبقہ چائے کتنے ہی ظلم وستم انسانیت پر ڈھائے لیکن اس کے ہاتھ اگر کوئی روک سکتا ہے وہ آزاد عدلیہ ہے۔لیکن ہندوستان کے قانون صرف قانونی کتابوں تک محدود ہے زمینی سطح پر سارا اس کے بر خلاف ہو رہا ہے۔ ہٹلر کے معروف الفاطتاریخ نے یو ں رقم کئے  ہیں۔ (جھوٹ کولوگوں کے  سامنے اتنا ،اتناعام  کر نا چائیے۔ کہ وہ لوگوں میں سچ معلوم ہو جائے (اس بات پر ہماری ریاست جموں و کشمیرنے من و عن عمل کیا ہے اور یہاں پر رشوت کو اس طرح عام کیا  گیا ہے کہ عام اور سادہ لوگوں کو اب ایسا لگ رہا ہے کہ یہ اب Legaliseہو گئی ہے  آج رنگے ہاتھوں رشوت پکڑتے ہوئے شخص کو پہلے سزا سنائی جاتی ہیں پھر رشوت دے کر ہی وہ رہا کر دیا جاتا ہے اور رشوت خور کو یہ خاموش پیغام دیا جاتا ہے کہ آپ رشوت کھائوں لیکن ہمیں بھی حصہ ملنا چائے آج درجہ چہارم کہ ملازم کالائف سٹائیل ایسا ہو تا ہیں کہ  دس لاکھ کی گاڑی اور پچاس لاکھ کا مکان آپ پائیں گے۔

جب کہ اتنی  تنخواہ اس کے ریٹائرمنٹ تک نہیں بنتی ہیں۔ اب  اگر ان حالات  میں کوئی با ضمیر اور خدا دوست شخص بات بھی اُٹھائے تو اُس سے زہینی بیماری میں ملوث فرد مانا جاتا ہے۔ کیونکہ آج دو ر چاپلسوں ، دوغہ بازوں ،، فریبوں اور بدماشوں کا ہے۔ رشوت کے اس طوفان میں اب شریعت پسند اور با ایمان لوگ جنہوں نے حضور ﷺ کا یہ فرمان سنا ارو پڑھا ہے کہ رشوت کھانے والا اور دینا والا دونوں پر اللہ کی لعنت ہو۔وہ بھی اب مجبوراًیہ  کہہ رہے ہیں کہ رشوت دیئے بغیردفتروں میں ہمارا کام برسوں تک نہیں بنے گا۔ اور سالہاسال ہماری فائیلیں الماریوں  کی دہول چانٹتی رہتی ہیں۔

اب اگر مودی جی نیو انڈیا (naye bharat ka nirmaan)کا خوب دیکھ رہے ہیں تو اس لعنت کو جڑ سے اُکھاڑنے کی کی تدبیر سوچنی پڑھی گی ایسے تو زبانی طور بہت سی تقریریں اب تک دے  چکے ہے ترقیاتی کاموں کے لئے جو زر حکومت کی طرف سے واگزار ہوتا ہے مشکل سے اس کا پانچ فیصد زمینی سطح پر نظر آتا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری۔۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔