حقوق نسواں کی مجموعی صورت حال

عالم نقوی

عالم گیر تحریکوں، فلک شگاف نعروں اور بلند بانگ دعووں کے باوجودپوری دنیا میں خواتین کے حقوق کی  پاسداری کی مجموعی صورت حال  اطمینان بخش نہیں۔  حق و باطل کی تلبیس نے مسئلے کو حل کرنے کے بجائے اُس میں مزید پیچید گیاں پیدا کردی ہیں۔  یہ ایک ایسی زمینی سچائی ہے جس سے نظریں چرانا دن کو رات اور رات کو دن کہنے کے مترادف ہے۔

آزادی کے بے لگام تصور نے مغرب کی عورت کومزید ایسے مسائل سے دوچار کر دیا ہے جن سے ہزار خرابیوں کے باوجود مشرق کی عورت آج بھی نسبتاً محفوظ ہے۔  لیکن مشرق میں عورت کے اپنے مسائل ہیں جس کا سبب معاشرے میں ظلم کا سرایت کر جانا ہے۔  عورت کو مردوں کے مقابلے میں تیغ بے نیام اور بے حیا بنا دینا اس کا علاج نہیں ۔ عدل و انصاف کا عمومی قیام اس کا حل ہے۔  عورتوں کے ساتھ ہونے والی نا انصافی، در حقیقت سماجی عدم انصاف ہی کا ایک مسئلہ ہے۔  معاشرے میں عدل کا نفوذ ہو جائے تو صرف  خواتین ہی نہیں  سماج کے سبھی مظلوم طبقوں کے مسائل  حل ہو جائیں گے۔

مغرب کے مسائل کی جڑیں اُن کے لادینی نظامِ تعلیم و سیاست میں پیوست ہیں تو بھارت جیسے غیر مسلم ملک کے مسائل پیدائشی بلندی و پستی اور  نسلی وطبقاتی امتیاز والےاُن کے نظامِ عقائد  یعنی’ منو وادی برہمنی نظام ‘ کا نتیجہ ہیں، جبکہ مسلم دنیا کے مسائل کا بنیادی سبب اُن کی  قرآن سے دوری اور بے عملی ہے ۔  یعنی اسلام ابھی تک مسلمانوں کی اکثریت کے حلق میں اٹکا ہوا ہے ابھی اُن کے سینے میں نہیں اترا ہے اِسی لیے اُن کے کردار میں نہیں ڈھل سکا ہے۔  اسلام صرف کہنے کی چیز نہیں کر کے دکھانے کا نام ہے جس کا سب سے بڑا اور بیّن ثبوت خود نبی کریم ﷺ کی بعثت ہے جو چالیس سال کی عمر میں ہوئی۔ حضرت عیسیٰ ؑ کی طرح انہوں نے پیدا ہوتے ہی آغوش ِمادر میں اپنی نبوت اور صاحب کتاب ہونے کا اعلان نہیں کیا۔   بلکہ چالیس تک اُس اسلام پر عمل کر کے دکھاتے رہے جس کا اُنہیں چالیس سال کی عمر میں دنیا کے سامنے اعلان کرنا تھا۔   اِس چالیس سالہ کردارِ محمد ﷺ کا سب سے روشن پہلو صداقت اور امَانت تھا کہ بلاد ِعرب کے تمام یہود، نصاری ٰ اور مشرکین اُنہیں صادق و امین کے لقب سے یاد کرتے اور اپنی امانتیں بے خوف ہوکر ان کے پاس رکھواتے تھے۔

 مسلم معاشرے میں خواتین کے تعلق سے جو برائیاں در آئی ہیں ان کا سبب غیر مسلم سماج کے اثرات ہیں ورنہ اسلام واحد دین ہے جس میں عورتوں اور مردوں کے حقوق میں کسی طرح کا بے جا امتیاز نہیں پایا جاتا۔  نسیمہ ہرزک اور ام ا لخیر اس کا زندہ ثبوت ہیں کہ مسلمانوں کا معاشرہ آج بھی عورتوں کے حقوق کے اعتبار سے نسبتاً بہتر ہے۔

نسیمہ ہرزک عزیمت  و ہمت سے بھر پور ایک اپاہج خاتون کا نام ہے جس نے نہ صرف یہ کہ اپنی کمزوری کو طاقت بنا لیا بلکہ ہزاروں دوسرے اپاہجوں کو بھی اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کا حوصلہ دیا۔   نسیمہ ہرزک کی خود نوشت داستان ’’ستاروں سے آگے‘‘ کے نام سے ڈاکٹر ظفر ا لا سلام خان کے ادارے فاروس میڈیا دلی سے 2011 میں شایع ہو چکی ہے  اور اُمُّ الخیر وہ خاتون ہے جس نے اپنے پیدائشی جسمانی نقائص کے باوجود زندگی سے ہار نہیں مانی اور انتہائی غربت اور حد درجہ نا مساعد حالات کےباوجود  انڈیااسلامک کلچرل سنٹردلی کی مدد سے یونین پبلک سروس کمیشن کے امتحان میں بیٹھی اور کامیاب ہو گئی۔  اب اُس کا آئی اے ایس بننا طے ہے۔

برادر ایم  ودود ساجد نے اُمُّ ا لخیر پر مضمون لکھ کر اُسے اُن سب سے روشناس کرا دیا ہے جو ابھی تک  اُسے نہیں جانتے تھے۔ اُمُّ الخیر کی کہانی بھی عزم و حوصلے میں نسیمہ ہرزک سے کسی طرح کم نہیں۔  2011 میں  انڈیا اسلامک کلچرل سنٹر کی چالیس روزہ ورکشاپ نے اُس کی زندگی کا رخ ہی بدل دیا اور اس کے بعد تو اس نے وہ کر دکھایا جو ہر طرح سے صحیح و سالم حسین و خوبصورت نوجوان بھی نہیں کر پاتے جنہیں ہر طرح کی سہولتیں حاصل ہوتی ہیں۔

 چھے سال قبل ورکشاپ کے اختتام پر ایک بڑے مجمع کے سامنے ہندی میڈیم سے تعلیم حاصل کرنے والی،نہایت کمزور پولیو گزیدہ  ٹانگوں والی ساڑھے تین  فٹ کی  اِس بہادر ’ بَونی بچی‘ نے  بہترین انگریزی بولتے ہوئے پورے اعتماد کے ساتھ کہا تھا کہ’’مین نے یہاں سیکھا ہے کہ زندگی کتنی ہی مشکل ہو ہمت نہیں ہارنی چاہیے۔  جو کچھ میں نے یہاں سیکھا  ہے اُس کی روشنی میں میں بھی کہہ سکتی ہوں کہ ’میں بھی کل کی افسر بن سکتی ہوں ‘ ‘ اور آج 2017 میں وہ آئی اے ایس بن چکی ہے !چھے سال پہلے اپنی یادگار تقریر میں، جس میں اُس وقت کے مرکزی وزیر  اور سابق وزیر اعلیٰ جمو ں  کشمیر فاروق عبد اللہ بھی موجود تھے اُس نے کہا تھا کہ ’’انسان کا ظاہری قد اس کی شخصیت کا معیار طے نہیں کرتا بلکہ انسان کا باطنی قد اس کی شخصیت کا معیار طے کرتا ہے۔  پستہ قد یا دراز قد ہونا انسان کے اپنے ہاتھ میں نہیں ہے لیکن اپنے اخلاق کو بلند کرنا یقیناً ہر انسان کے اپنے اختیار میں ہے ‘‘

دراصل یہ قرآن کا متعین کردہ اصول ہے کہ ’تم میں بزرگ اور صاحب عزت وہی ہے جو اللہ سے زیادہ ڈرتا ہے ‘اور یہ کہ ’اللہ اس وقت تک کسی قوم کی حالت کو نہیں بدلتا جب تک کہ اس کے افراد خود اپنے آپ کو نہیں بدلتے‘‘ !

فاروق عبد اللہ نے اُمُّ ا لخیر کا امتحان لینے کے لیے اُس سے کہا تھا کہ آپ بریانی بنانے کا طریقہ انگریزی میں بتائیے لیکن اُس کا جواب سن کر وہ خود شرمندہ ہو گئے تھے۔  اُس نے  فصیح اور شستہ  انگریزی  میں کہا تھا کہ ’’سر ! میں  نے جھگیوں میں  کَس مَپُرسی کی زندگی گزاری ہے، میں آپ کو صرف دال بنانے کی ترکیب بتا سکتی ہوں بریانی کی نہیں بریانی کی ترکیب تو وہ بتائے جس نے کبھی بریانی بنائی اور کھائی ہو ‘‘

ودود ساجد نے اپنے دل کو چھو لینے والے مضمون میں لکھا ہے کہ 2012 میں اُمُّ ا لخیر کو معذوروں کی بین ا لا قوامی کانفرنس میں  بھارت کی نمائندگی کے لیے جنوبی کوریا جانے کا موقع ملا۔ 2013 میں قومی خواتین کمیشن نے اُسے ’ایوارڈ برائے غیر معمولی خاتون ‘سے نوازا۔   2014 میں حکومت جاپان نے یک سالہ لیڈرشپ ٹریننگ پروگرام کے لیے اُسے جاپان مدعو کیا۔  وہ اِس وقت جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کر رہی ہے۔

برادر ساجد نے سول سروسز کے نتائج آنے کے بعد اُمُّ ا لخیر کو فون کر کے مبارک باد دی تو وہ روپڑی۔  کہنے لگی سر !آپ تو عربی جانتے ہیں۔  اُم، ماں کو کہتے ہیں۔  یہ نام تو میرا ہے لیکن در اصل ’اُمُ ا لخیر ‘ تو میری ماں تھی۔  اور آج جب میں دنیا بھر کے معذوروں کو یہ پیغام دینے کے لائق بنی ہوں کہ ظاہری قد کی پستی اور ٹانگوں کی کمزوری بلندیوں تک پہنچنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے تو اعلیٰ اقدار کی حامل میری ماں یہ سب دیکھنے کے لیے دنیا میں موجود نہیں ہے۔

ام ا لخیر کی کامیابی نے مسلمانوں کو ایک راستہ اور دکھا دیا ہے۔  اس بار ملک کے اتنے دگر گوں سماجی حالات کے باوجود پچاس (50)مسلم نوجوان  سول سروسز امتحان میں کامیاب ہوئے ہیں جبکہ سال گزشتہ یہ تعداد صرف 38 تھی۔

ایسی نہ جانے کتنی اُمُ ا لخیر ہوں گی جو صحیح  رہنمائی کے لیے ترس رہی ہوں گی۔  ہم اپنے درمیان اور کچھ نہیں تو نسیمہ ہرزکوں اور ام الخیروں ہی کو تلاش کر کے اُن کا حوصلہ بڑھائیں اور ترقی کی اس سیڑھی پر چڑھنے کا راستہ دکھائیں جس کو راجستھان کی ام ا لخیر اور مہاراشٹر کی نسیمہ نے سر کر کے دکھا دیا ہے۔

جیسا کہ ہم نے شروع میں لکھا ہے کہ معاملہ صرف خواتین کے ساتھ ناانصافیوں کا نہیں معاملہ ظلم کے عام ہو جانے کا ہے۔  معاملہ عدل و انصاف کے سماج  کے ہر طبقے سے اُٹھ جانے کا ہے اور تمام  اَنبیاے کرام علیہم ا لسلام کی دنیا میں آمد کا مقصد ہی یہ تھا کہ وہ یہاں عدل و قسط پر قائم معاشرہ تیار کریں۔  ہم اور آپ اِس وقت پوری دنیا توکیا صرف  اپنے سماج، اپنے شہر اور اپنے صوبے کو نہیں بدل سکتے۔  اجتماعی تبدیلی تو صرف خالق و پروردگار مُقَلّبَ ا لقُلوب کے اختیار میں ہے۔  لیکن خود اپنے آپ کو بدلنا  ہمارے اپنے اختیار میں ہے۔

 آئیے ہم آپ  سب بس ایک ہی کام  کا عہد کر لیں  کہ ہم سب اپنے آپ  کو بدل کے رہیں گے نہ خود کسی پر ظلم کریں گے نہ کسی پر ظلم ہونے دیں گے یعنی دوسروں کو ظلم سے باز رکھنے کے لیے جتنا ہمارے اختیار میں ہوگا اُتنا ضرور کریں گے۔  اگر ہم نے آپ نے فرداً فرداً ایسا کر لیا تو کل انشا اللہ ہمارا سماج بھی بدل کے رہے گا کہ فرد ہی سے معاشرہ بنتا ہے اور اللہ، جوکبھی وعدہ خلافی نہیں کرتا اُس کا وعدہ ہے کہ جب ہم اپنے نفسوں میں تبدیلی لائیں گے تو وہ پوری قوم کے حالات بدل دے گا انشا  اللہ۔

تبصرے بند ہیں۔