حق کا دفاع ضروری ہے

عظمت علی

 دورحاضر کا انسان  اگر تعصب کی عینک اتارکے دین اسلام کا مشاہدہ کرتا توا سے ہر آن "جا ء الحق وزھق الباطل "کی صدائے بازگشت سنائی دیتی۔ مگر کیاکریں !دشمن افراد نے اس کے حسین چہرے پر اس قدر بد نما دھبے لگائے کہ غیر تو غیر اپنے ہم مذہب افراد بھی اس سے کراہت کااظہارکرنے لگے ہیں۔ جبکہ ہونا یہ چاہئے تھاکہ مسلمان اپنے کردار کی بناء پر فخر سے سر اونچاکر کے چلتا۔ لیکن آج امت مسلمہ کف افسوس مل رہی ہے۔

آج نام نہاد مسلمان جہاد کےنام پر دنیا کے گوشہ و کنار میں بے گناہوں  انسانوں کا قتل عام کررہے ہیں۔ اسی باعث غیر مسلمین نے یہ کہنا شروع  کردیاہے کہ اسلام نےجہاد کوقانونی قرار دے کر مسلمانوں کو جارحیت کی کھلی آزادی دے رکھی ہے۔ لہٰذا،و ہ طاقت کے بل بوتے پر ہر ایک کواسلام قبول کرنے پرمجبور کررہے ہیں۔ جبکہ یہ بات حقیقت سے کوسوں دور ہے اور اس کا حقانیت سے کوئی سروکا ر نہیں۔ اس لئے اگر ہم اپنے مذہب کے قوانین اور بانی اسلام کی سیرت پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالیں تو یہ بات روزروشن کی طرح واضح ہوجائے گی کہ دونوں میں کہیں بھی جارحیت کی طرفداری  نہیں پائی جاتی۔ بلکہ "من قتل نفسا بغیر نفس او فساد فی الارض فکانما قتل الناس جمیعا۔ "

جوشخص کسی نفس کو کسی نفس کے بدلے یا روئے زمین میں فساد کی سزا کے علاوہ قتل کرڈالے گا اس نے سارے انسانوں کو قتل کردیا۔ (سورہ مائدہ 32)

چونکہ دین اسلام میں جہادکو شرعی حیثیت حاصل ہے۔ لہٰذا! ہر صاحب فکر و نظر کے ذہن میں سوال جنم لیتاہے کہ جہاد یعنی چی؟

یہ بات ذکر کردینا فائدہ سے خالی نہ ہوگی کہ جہادکی دوقسمیں ہیں۔ جہاد ابتدائی اور جہاد دفاعی۔

آپ پوری تاریخ اسلام کابغور مطالعہ کرلیں مگر انبیا ء، ائمہ اور علماء کے کردار سے قتل و غارت گری کی بو نہیں آتی۔ سرکار دوعالم اور ائمہ معصومین علیہم السلام کی حیات طیبہ کا حرف بحرف اور باربار مطالعہ فرمالیں کہ "بہ ہیچ وجہ "انہوں نے کسی بھی کافر ومشرک پر حملہ کرنےکا حکم نافذ نہیں کیا۔ مگر یہ آغاز مد مقابل سے ہو۔ اس کے برعکس تاریخ اسلام نے اس بات کوبڑے ہی جلی

حرفوں میں لکھا ہے کہ ایک مرد شامی امام حسن کی خدمت میں آیا اور کچھ تلک آپ کی شان میں گستاخیاں کرتا رہا۔ جب اس کے ناشائستہ الفاظ، جملات اور ترکیبات کی لغت میں کچھ بھی کہنے کو باقی نہ رہا تو تب چپ ہوا۔

 امام حسن نے مسکرا کر فرمایا:ایسامحسوس ہورہا ہے کہ اجنبی ہو!اگر گھر، کپڑااور خوردو نوش یاکسی بھی چیز کی ضرورت ہوتو میں حاضرہو ں۔ جب اس نے امام کایہ اخلاق دیکھاتو ہکا بکارہ گیا، آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں اور منھ کاکھلا کھلا رہ گیا اور سکتہ میں آگیا۔ جب اس کے حواس یکجا ہوئے تو زبن کھولی اور اما م کی تعریف کےسواکچھ ادا نہ ہوا۔

ہادیان برحق کی زندگی میں جتنی بھی جنگیں آئیں۔ اگر آپ ان سب صرف پر ایک سرسری نگاہ ڈالیں تو یہ بات عیاں ہو جائے گی کہ انہوں نے ہمیشہ اپنا اوراپنے مقدسات کا دفاع ہی کیا ہے اور بس !

ہمار ے رہبران قوم و ملت ہمیشہ صلح و مصالحت کے علمبرداررہے ہیں۔ رسول خدا کاکفار مکہ اور امام حسن کامعاویہ سے صلح  کرنا۔ ۔ ۔ یہ ایک جیتی جاگتی مثال ہے۔ اب اگر دشمن جنگ کرنے پر مصر ہے تو ہمارا فر یضہ ہے کہ ہم اپنے جان و مال اور عزت وآبر و کےدفاع و حفاظت میں ایڑی چوٹی کا زور لگادیں۔ جیسا یزید کی پلید سیاست میں امام حسین کو جنگ ہی کرناپڑی۔ درآنحالیکہ آخت وقت تک آپ صلح وآشتی کے حامی رہے۔

 مذکورہ نظریہ کی تائید دنیا کو ہر صاحب و فکر ونظر کرتارہے گا۔ چاہے وہ جس قوم و قبیلہ سے تعلق کیوں نہ رکھتے ہو۔ کیوں کہ حق کادفاع بہر حال ضروری ہے۔ اسی باعث دنیا کا ہرملک اپنی خاص دفاعی فوج اور کچھ اہم  افراد رکھتا ہے جس کے ذریعہ وہ اپنے ملک کا دفاع کرتاہے۔ وگرنہ  ہر کس و ناکس فرعون زمانہ ہوتا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ زمین لاشوں سے پٹ جاتی اور جنازے زیادہ اور زندہ آدمی کم ہوتے !المختصر ! ہر طاقت ور آدمی یزید و صدام ہوتا اور ہرزمین کربلاو عراق ہوتی!

  خلاصہ یہ ہےکہ دین کہتاہے کہ کبھی بھی کسی کو اذیت نہ دوچہ جائیکہ کسی کا خون بہاؤ! لیکن اگر ظلم کوچلن ہوہی جائے تو "ردو الحجر من حیث جاء "

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


3 تبصرے
  1. احتشام حیدر کہتے ہیں

    ماشاء اللہ جزاک اللہ عظمت علی صاحب

    اللہ آپ کو جزائے خیر سے نوازے

  2. ارباز علی کہتے ہیں

    ماشاء اللہ عظمت علی صاحب قبلہ اللی آپ قلم کو اور مضبوط کرے

  3. پرویز کہتے ہیں

    اگر ظلم کوچلن ہوہی جائے تو "ردو الحجر من حیث جاء ”
    بہت عمدہ مطلب کی طرف اشارہ کیا ہے جناب عظمت صاحب!
    مزید مضامین کے منتظر ہیں.
    اللہ کرے زور قلم اور بھی زیادہ

تبصرے بند ہیں۔