انسان اور زمین کی حکومت (قسط اول)

رستم علی خان

پیش لفظ

یہ جو سلسلہ ہم شروع کرنے جا رہے ہیں اس میں بتایا جائے گا کہ کیسے اللہ رب العزت نے کائنات کو پیدا فرمایا اور کیسے اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کو پیدا کیا پھر انہیں زمین پر آباد کیا..پھر جب ان میں سرکش اور شیطان کے ساتھی ہونے لگے تو ان کے لیے ہدایت کا راستہ مبرہن کرنے کے لیےبہت سی برگزیدہ ہستیوں کو بھی مبعوث فرمایا تاکہ وہ لوگوں کو خالق کی پہچان عطا کریں اور توحید خالص کا درس دیں۔ اس سلسلہ میں انہی بابرکت شخصیات کا ذکر خیر ہے۔ جنہوں نے راہ خدا میں آنے والی ہر تکلیف کا جواں مردی سے مقابلہ کیا اور خدا کا پیغام بندوں تک پہنچانے میں کسی پس و پیش سے کام نہ لیا۔ اس سلسلہ میں جہاں شیطان رد کیا جاتا ہے اور اللہ سے کھلی دشمنی کا اعلان کرتا نظر آئے گا…. وہیں اپنے رب کے حکم کی تعمیل میں فرشتے دیوانہ وار آدم علیہ السلام کو سجدہ کرتے نظر آتے ہیں وہیں یوسف علیہ السلام تخت مصر پر براجمان دکھائی دیتے ہیں۔ اس میں حضرت نوح علیہ السلام کی طویل داستان تبلیغ ہو گی تو ہودعلیہ السلام کی قوم پر آنے والے عذاب کا قصہ بھی اسی زمن میں آئے گا۔ ابراہیم علیہ السلام نمرود کے سامنے سینہ سپر نظر آتے ہیں تو حضرت ایوب علیہ السلام طویل بیماری کے باوجود اپنے رب کا شکر ادا کرتے دکھائی دیں گے۔ الغرض اس سلسلہ میں قرآن میں بیان کردہ تمام قصص کو یکجا کرنے کی کوشش کی جائے گی تاکہ اہل خرد عبرت و نصائح حاصل کر کے خالق حقیقی کے سامنے جبین نیاز کو جھکا دیں۔انشاء اللہ.

اللَّهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكَاةٍ فِيهَا مِصْبَاحٌ الْمِصْبَاحُ فِي زُجَاجَةٍ الزُّجَاجَةُ كَأَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ يُوقَدُ مِنْ شَجَرَةٍ مُبَارَكَةٍ زَيْتُونَةٍ لَا شَرْقِيَّةٍ وَلَا غَرْبِيَّةٍ يَكَادُ زَيْتُهَا يُضِيءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ نُورٌ عَلَى نُورٍ يَهْدِي اللَّهُ لِنُورِهِ مَنْ يَشَاءُ وَيَضْرِبُ اللَّهُ الْأَمْثَالَ لِلنَّاسِ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ [ سورة النور:35]

 اللہ نور ہے آسمانوں کا اور زمین کا۔ اس کے نور کی مثال ایسی ہے جیسے ایک طاق ہو جس میں ایک چراغ ہو۔ یہ چراغ ایک فانوس میں ہو اور یہ فانوس ایسا ہو جیسے ایک ستارہ موتی کی طرح چمکتا ہوا جو زیتون کے مبارک درخت کے تیل سے روشن کیا جاتا ہو، جو نہ شرقی ہے نہ غربی قریب ہے کہ اس کا تیل بھڑک اُٹھے خواہ اسے آگ نہ چھوئے۔ نور پر نور۔ اللہ اپنے نور کی جسے چاہے رہنمائی عطا فرمائے۔ یہ مثالیں اللہ تعالیٰ لوگوں کے لیے بیان کرتا ہے اور اللہ ہر چیز کو خوب جانتا ہے .

کائنات پر کچھ تحریر کرنے سے پہلے ہم اس کے بنانے والے رب کی قوت اور رہنمائی پر غور کر لیں کہ وہ کیا فرماتا ہے۔ قرآن شریف میں اللہ کا فرمان ہے جو رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبانی بیان ہوا کہ”اگر سمندر میرے رب کی باتیں لکھنے کے لیے روشنائی بن جائے تو وہ ختم ہو جاے مگر میرے رب کی باتیں ختم نہ ہوں، بلکہ اگر اتنی ہی روشنائی ہم اور لے آئیں تو بھی کفالت نہ کرے” (الکھف١٠٨۔١٠٩) دوسری جگہ فرمایا کہ”زمین میں جتنے درخت ہیں اگر وہ سب کے سب قلم بن جائیں اور سمندر]دوات بن جائے[ جسے سات سمندر روشنائی مہیا کریں تب بھی اللہ کی باتیں ]لکھنے سے[ ختم نہ ہوں” ( لقمان۔٧) ٍیہ ہے ہمارا اللہ اور اُس نے بنائی ہے یہ کائنات جسے ہم اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں اور آسمانوں میں مذید کائنات ہے جسے ہم دیکھ نہیں سکتے، جو اتنی وسیع ہے کہ آج کی سائنس کہتی ہے جو یہ ایک کہکشاں ہمیں نظر آ رہی ہے۔

ایسی لاتعداد کہکشائیں آسمانوں میں موجود ہیں جس تک سائنس کی دسترس اب تک ممکن نہیں ہوئی اللہ ہی ہے اس کا خالق اور بنانے والا ہے۔ مکہ کے کافر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہتے تھے کہ اللہ کیسے پیدا کرے گا انسان کو جب وہ مٹی میں غرق ہو جائیں گے بلکہ مٹی میںگل مل جائیں گے تو اس پر اللہ کافروں سے فرماتا ہے انسان کو دوبارہ پیدا کرنا مشکل ہے یا اس اتنی بڑی کائنات کو پیدا کرنا بڑا کام تھا۔ یہ ذہن میں رہے کہ کافر بھی مانتے تھے کہ کا ئنات کا خالق اللہ ہے۔

اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے ”وہ اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین اور اُن ساری چیزوں کو جو ان کے درمیان ہیں چھ دنوں میں پیدا کیا” (السجدة٤)”اس آیات میں ایک آسمان کے بجائے آسمانوں کے ذکر معلوم ہوا کہ جو آسمان ہمیں نظر آتا ہے اس کے علاوہ بھی اور بھی آسمان ہیں جیسے آگے ذکر آرہا ہے کہ اللہ نے دو دن میں سات آسمان بنا دیے اُس کے بعد اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے ”سب مانگنے والوں کے لیے ہر ایک کی طلب اور حاجت کے مطابق ٹھیک انداز سے خوراک کا سامان بھی مہےّا کر دیا یہ سب کام چار دن میں ہو گے پھر وہ آسمان کی طرف متوجہّ ہو ا جو اس وقت محض دُھواں تھا۔اُس نے آسمان اور زمین سے کہا وجود میں آجاو،خواہ تم چاہو یا نہ چاہو دونوں نے کہا ہم آ گے فر مانبرداروں کی طرح تب اُس نے دو دن کے اندر سات آسمان بنا دیے اور آسمانوں میں اُس کاقانون وحی کر دیا اور آسمانِ دنیا کو ہم نے چراغوں سے آراستہ کیا اور اسے خوب محفوظ کر دیا یہ سب کچھ ایک زبردست علیم ہستی کا منصوبہ ہے ”( حٰم السجدة٩تا١٢) اس آیات کے لفظ دھواں کی تشریع کرتے ہوئے مولانا مودودی نے کہا کہ دھواں سے مراد مادے کی وہ ابتدائی حالت ہے جس میں کائنات کی صورت گری سے پہلے ایک بے شکل منتشر الاجزا غبار کی طرح فضا میں پھیلا ہوا تھا۔

موجودہ زمانے کے سائنس داں اسی چیز کو سحابیے ((nebula سے تعبیر کرتے ہیں اور آغاز کائنات کے متعلق ان کا تصور بھی یہی ہے کہ تخلیق سے پہلے وہ مادہ جس سے کائنات بنی ہے،اسی دُخانی یا سحابی شکل میں منتشر تھا۔ ( تفہیم القرآن جلدچہارم حاشیہ١٤ حٰم السّجدة) اللہ نے کائنات کو بر حق پیدا کیا۔ کائنات میں سب کچھ نہ اتفاقا ً پیدا ہوا ہے نہ اتفاقا ً نہ چل رہا ہے اِس کو ایک زبردست حکیم نے علم وحکمت کے ساتھ بنایا ہے اور یہ ایک قانون کے تحت چل رہی ہے.

کائنات کا آغاز حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش سے بیس ہزار سال پہلے ہوا-

اللہ تعالی نے ارضی اور سماوی (زمین و آسمان) مخلوق کو پانچ مختلف قوتوں یعنی

نمبر 1: عقل

نمبر 2: وہم

نمبر 3: خیال

نمبر 4: شہوت

نمبر 5: غضب

سے ترتیب اور ترکیب دے کر پیدا کیا ہے- اس طرح ترکیب اجزاء اور کیفیت کی نسبت مخلوقات کی چار قسمیں ہیں-

مخلوقات کی پہلی قسم جس کی عقلی قوت وہم و خیال اور شہوت اور غضب پر بھاری ہوتی ہے- یعنی عقلی قوت کے سامنے ان چیزوں کا حکم بےمعنی اور بےحقیقت ہوتا ہے- بلکل اسی طرح جیسے مردہ غسل دینے والے کے سامنے بےبس اور فرمانبردار ہوتا ہے-اسی طرح یہ چاروں قوتیں عقلی قوت کی مطیع ہوتی ہیں- اس مخلوق کا نام "فرشتہ یا روحانیت” ہے-

اصلاح شرع میں اس مخلوق کو "ملائکہ” "ارواح” یا "ملکوت” جسے فارسی میں "سروش” کہتے ہیں-

مخلوقات عالم کی یہ نوع ہر قسم کی خطاوں اور گناہوں سے پاک صاف ہے- یہ مخلوق عورت کی خواہش سے بھی مبرا ہے، کھانے پینے کی چیزوں سے بھی اسے کوئی دلچسپی نہیں- یہ مخلوق قوت عقلیہ کے سبب خود کو کسی بھی صورت میں متشکل کر سکتی ہے-
دوسری قسم کی مخلوق میں وہ جاندار شامل ہیں جن کی "عقل” شہوت، غضب، اور وہم و خیال کے تابع ہوتی ہے-

اس مخلوق کی تجسیم ہوا اور آگ سے مرکب ہے- مادہ کی لطافت کے سبب یہ مخلوق بھی ہر صورت میں متشکل ہو سکتی ہے- وہم خیال کی غالب قوت کی وجہ سے یہ مخلوق خود کو خوفناک سے خوفناک شکل میں تبدیل کر سکتی ہے- اس قسم میں سے جو خلق خدا کو ستاتی ہے اسے شیطان اور جو خلق خدا کو تکلیف نہیں دیتی اسے جن کہتے ہیں اور شرعی اعتبار سے یہ احکام الہی کی پابندی کرتی ہیں- اس کو اس طرح بھی کہا جا سکتا ہے کہ بعض جن دیندار اور حکم خداوندی کی پابندی کرتے ہیں کچھ جن شرعی احکام کو قبول نہیں کرتے وہ گمراہ اور کافر کہلاتے ہیں-

تیسری قسم کی مخلوق میں وہ جاندار ہیں جن کی عقل اور وہم خیال پر غضب اور شہوت حاوی ہوتے ہیں- ان جانداروں میں عقل نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی- عقل سے بےبہرہ اس مخلوق کی بھی دو قسمیں ہیں اور وہ دونوں حیوان کہلاتے ہیں- ان میں وہ حیوان جن پر شہوت غالب ہوتی ہے انہیں بہائم اور جن پر غضب حاوی ہوتا ہے انہیں سباع یا درندے کے نام سے پکارا جاتا ہے-

اللہ تعالی نے اپنی قدرت سے ایک آگ پیدا کی جس میں نور بھی تھا اور ظلمت بھی- فرشتے اللہ تعالی نے اپنے نور سے پیدا کئیے- یہ نوری اور معصوم مخلوق اللہ کی اطاعت گزار ہے گویا ہر طرح کی نافرمانی اور خطا سے پاک ہے- ذات کریم نے انہیں آسمان پر رہنے کے لئیے جگہ دی-

فرشتوں کے بعد اللہ تعالی نے آگ سے جنات کو پیدا کیا- جنات کے مادہ میں آگ کا نور اور ظلمات دونوں چیزیں تھیں- ان میں سے بعض ایمان کے نور سے منور ہوئے اور بعض کفروگمراہی میں مبتلا ہو کر شیطان کہلائے- اللہ تعالی نے سب سے پہلے جس کو تخلیق کیا اس کا نام "مارج” تھا- اللہ تعالی نے فرشتوں اور جنوں کی فطرت میں ایک واضح فرق رکھا- فرشتوں کی عقلی قوت وہم خیال اور شہوت اور غضب پر حاوی ہے- اور چاروں عناصر اس کے محکوم ہیں، اللہ نے انہیں نور سے پیدا کیا لہذا وہ قوت عقلیہ کے باعث جس صورت میں چاہیں متشکل ہو سکتے ہیں-

مگر جنات کی عقل پر شہوت، غضب اور وہم و خیال کا غلبہ ہے یہ فرشتوں کے برعکس ہیں کیونکہ ان کی تخلیق ہوا اور آگ سے مرکب ہے- مادہ کی لطافت کی وجہ سے یہ کسی بھی شکل و صورت کے تغیر و تبدل پر قادر ہیں- اللہ نے جنات کو بہت سی قوتیں عطا کی ہیں چونکہ ان میں بھی اللہ نے فطری عناصر غضب و قوت، وہم و خیال اور شہوت کا مادہ رکھا ہے لہذا جن کی عقل پر غضب اور بدی حاوی ہو جائے وہ سرکش و نافرمان یو جاتے ہیں اور شیطان کے قبیلے میں داخل ہو جاتے ہیں.

تبصرے بند ہیں۔