مستشرقین اور اسلامی تحریکات

 مجتبیٰ فاروق

بیسویں صدی عیسوی میں پچاس کی دہائی کے بعد اسلامی تحریکیں ابھرنا شروع ہوئیں۔ ان تحریکوں نے امت مسلمہ میں اسلام کے آفاقی پیغام کو پوری جدت کے ساتھ آگے بڑھانا شروع کیا اور اسلام کو مکمل نظام اور ضابطہ حیات کے طور پر پیش کرکے امت مسلمہ میں ایک نئی روح پھونکی اور امت کو احیائے اسلام کے لیے ہمہ جہت  بیدار کیا۔ اسلامی تحریکوں اور اداروں کو اس طرح سے ابھر کر سامنے آنا نئے استشراقی مفکرین کو ہضم نہیں ہوتا۔ انہوں نے ۸۰ کی دہائی کے بعداسلام پرستوں، اسلام کے علمبرداروں اور اور اسلامی تحریکوں کو ہدف تنقید بنانا شروع کیا اور اس کار شرکے لیے وہ ہرقسم کے ذرائع ووسائل استعمال میں لارہے ہیں۔

انہوں نے اسلام، اسلام پسندوں اور اسلامی تحریکات کو مغربی جمہوریت، حقوق نسواں، آزادیٔ اظہار رائے کے مخالف اور مغربی دنیا کے لیے خطرہ باور کیا ۔ اس کے لیے انھوں نے نت نئے اصطلاحات کو فروغ دیا جن میں اسلام دشمنی کھل کر سامنے آگئی، نئے استشراقی مفکرین نے جو مختلف اصطلاحات استعمال کیں ان کے دائرے میں تمام اسلام پسند اور تحریکات آجاتی ہیں، وہ اصطلاحات اس طرح سے ہیں۔

 ٭        پین اسلام ازم             Pan Islamism

   ٭        جارحیت پسندانہ اسلام  Militant Islam

   ٭        متشددانہ  اسلام          Redical Islam

 ٭        اسلامی بنیاد پرستی      Islamic fundamentalism

 ٭        سیاسی اسلام              Political Islam

  ٭        انتہا پسند                Extramism

  ٭        جنونیت               Fanatism

 ٭        دہشت گردی              Terrorism

مستشرقین نے ان اصطلاحات کو ہر لحاظ سے دنیا کے سامنے بڑھا چڑھاکر پیش کیا ہے اور وہ دنیا بھر میں احیائے اسلام کو بدنام کرنے کی کوششیں کررہے ہیں ۔نیزو ہ اسلام اور احیائے اسلام اور اس کے علمبرداروں کو  اپنے لئے ایک بڑا خطرہ تصور کرتے ہیں اور ان کو دیوقامت دشمن کے طور پر پیش کرتے ہیں مائد الاسلام کے الفاظ میں:

  Orientalism regards Islam as fandamentally opposed to the west and

treats it as a demon or a ” Threat ” to the west. (1)

برنار ڈلوس (Bernard Lowes) کی قیادت میں نئی استشراقی مفکرین نے نہ صرف اسلامی تحریکات کو ہدف تنقید بنایا بلکہ انہیں مغرب کے لیے خطرے کی علامت کے طور پر پیش کیا ہے ۔ اس مکتبِ فکر کا استدلال  محمد شاہد عالم کی زبان میںیہ ہے کہ ’’اسلامی معاشرہ جو جدیدیت کو اپنانے میں  اس لئے ناکام ہوگیا ہے کیوں کہ اسلام میں سیاست اور مذہب کا امتزاج ہے ۔وہ  جمہوریت کو ناقابل قبول ٹھہراتا ہے۔ اور مسلمانوں کو حکم دیتا ہے کہ جب تک ساری دنیا پر اسلامی قانون کی بالا دستی قائم نہ ہوجائے وہ مسلسل جنگ جاری رکھیں ۔ مختصر یہ کہ اسلام موجودہ تہذیب یعنی مغربی مفادات کے لیے بڑا خطرہ بن چکا ہے‘‘۔ اسلامی بنیاد پرستی اور اسلامی تحریکات کو جن مغربی مفکرین اور مستشرقین نے ہدف تنقید بنایا ان میں برناڈ لوئس، جان اسپوزیٹو، فریڈ بالی ڈے کے نام نمایاں ہیں۔ اسلامی تحریکات پر لکھی گئی چند کتابیںیہ ہیں:

 1 – The islamic threat: Myth or Realty by John L. Esposito.

 2  – World Religions today.                       John L. Esposito

   3  –  What Every one needs to islam                John L. Esposito

 4  –  Europe and Middle East                            Albert Hourami

   5  –  The future of islam and the west.             T. Shrron Hunts

    6  –  Arab Awakening and islamic Revival         Martin Vrumer

 7  –   Islamic Activism: A social Movement        Theory appraon

  8  –   Islamic foundamentalism and modernity  Montogimery watt

  9  –    The future of Terrorism                  John Hargan and Max. Tylor

    10  –   Islamic Activism: An introduction Lowesme Davidson

  11  –   Moderen Islamist Movements : History Religion and Politics.

   12  –   Golobal Political Islam                 Petu Mandaville

حوالہ جات             

(1)  Maidul 1slam, limits of Islamism, Jamat-e-islami in Contemporary India,

 combridge University Press, 2015, P: 2

تبصرے بند ہیں۔