فطری دوستی یعنی اسلام دشمنی 

عادل فراز

اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نتین یاہو کا ۶روزہ ہندوستانی دورہ ختم ہوچکاہے۔ ہمارا جمہوری اور امن پسند ملک ایک غاصب اور دہشت گرد ملک کے ساتھ دوستی کے فروغ پر پھولا نہیں سما رہاہے۔ اسرائیل کے ساتھ دفاعی و انٹلیجنس سمیت ۹ معاہدوں پر دستخط ہوچکے ہیں ۔ اسرائیلی اخبار کے مطابق ۱۳۰ تاجروں کا قافلہ نتین یاہو کے ساتھ ہندوستان آیا ہوا ہے جو مختلف تجارتی و اقتصادی سیمیناروں میں شرکت کررہاہے جس میں ہندوستان کے بڑے تاجر بھی انکے ساتھ شریک ہورہےہیں ۔ مختصر یہ کہ نتین یاہو کا دورہ انکے ایجنڈے اور آرایس ایس کے پروپیگنڈے کے لحاظ سے ایک کامیاب دورہ تھا۔

میڈیا بھی نتین یاہو کے دورہ کو تاریخی دورہ بنانے میں اہم کردار ادا کررہا تھا کیونکہ بی جے پی نواز میڈیا مستقبل کے خطروں سے آشنا ہوتے ہوئے بھی برسراقتدار جماعت کی ملک مخالف پالیسیوں سے چشم پوشی کررہاہے کیونکہ سبکے دہن پر چاندی اور سونے کی مہریں لگادی گئی ہیں ۔ ہندوستانی میڈیا نے فلسطین میں اسرائیلی جارحیت اور عالمی سطح پر موجود دہشت گردی میں اسکے کردار پر بات تک نہیں کی اسکے برعکس نئی پالیسی کے تحت فلسطین کے کردار کو ہی مشکوک کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

نریندر مودی کے دورۂ اسرائیل کے وقت ہمارا قومی میڈیا فلسطین کو دہشت گرد ثابت کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور صرف کررہاتھا۔ بی جے پی نواز نیوز چینلوں پر اسرائیل کی مظلومیت اور فلسطین کے دہشت گردانہ کردار کو ثابت کرنے کے لئے ڈاکیومنٹریاں چلائی جارہی تھیں ۔ ساتھ ساتھ یہ بھی دکھایا جارہا تھا کہ اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد دنیا کی کتنی طاقتور ایجنسی ہے۔ اسکے کارنامے کس قدر نمایاں ہیں ۔ یعنی دنیا کی طاقتور خفیہ ایجنسیوں میں سے ایک ایجنسی موساد کو اگر کسی ملک نے پانی پلایا ہواہے تو وہ فلسطین ہے۔ در اصل دشمنی نبھانے کے چکر میں میڈیا یہ بھی بھول جاتاہے کہ وہ خود اپنے دعوئوں کی تردید کررہاہے۔ اس وقت بھی کسی ایک نیوز چینل نے یہ بتانے کی زحمت نہیں کی کہ اسرائیل اور فلسطین کی دشمنی کا راز کیاہے ؟فلسطین کی زمین پر اسرائیل کے ناجائز قبضہ کی تاریخ کیاہے؟کیوں اسرائیلی فوج ہتھیاروں سے لیس فلسطینی علاقوں میں گشت کرتی رہتی ہے ؟۔ کیا وجہ ہےکہ ہمیشہ فلسطینی مزاحمت کار اینٹے،  پتھر اور ڈھیلوں سے مزاحمت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ؟۔ کیوں کبھی کسی فلسطینی کے ہاتھ میں مہلک ہتھیار کی تصویریں وائرل نہیں ہوتیں ؟جس ملک کی اپنی کوئی زمین نہ ہو کیا اسے ایک ملک کی حیثیت سے تسلیم کیا جاسکتاہے ؟اور جس ملک کی کوئی حیثیت نہ ہو اسکی راجدھانی کا تصور کیسے کیا جاسکتاہے؟۔ بی جے پی نواز میڈیانریندر مودی کے دورۂ اسرائیل کو کامیاب بنانے میں اپنا کردار ادا کررہا تھا مگر میڈیا اپنی اہمیت اور ذمہ داری کو نبھانے میں ناکام رہا۔ وہ ہندوستان جو خود سامراجی طاقتوں کا غلام رہ چکاہے اسکے منہ پرغاصب اسرائیل کی تعریف و توصیف کی باتیں پھبتی نہیں ہیں ۔ مگر میڈیا بھی کیا کرے جب اسرائیل کی حمایت یافتہ تنظیم جس کا ملک کی آزادی میں کوئی کردار نہیں رہا ملک پر قابض ہوچکی ہے اور بیچاری عوام مذہبی جنون میں اس تنظیم کو اپنا سچا ہمدرد اور مذہبی پیشوا سمجھ رہی ہے۔ میڈیا بھی اپنا کرداراور ایمان زعفرانی ٹولے کے ہاتھوں گروی رکھ چکا ہے۔ اب اتنی ہی حقیقت دکھائی جائے گی جو ان تنظیموں کی پالیسی کے عین مطابق ہوگی۔

نریندرمودی کے دورۂ اسرائیل کے بعد اسرائیلی وزیر اعظم نتین یاہو ہندوستان کے دورہ پر تھے۔ یہ دورہ بھی نریندر مودی کے دورۂ اسرائیل کی مثال تھا۔ وہی پروپیگنڈہ اور ویسا ہی لائحۂ عمل اس دورہ کے لئے اپنایا گیا تھا۔ مگر قابل غور امر یہ ہے کہ بی جے پی اور آرایس ایس کے سربرآوردہ افراد نے ہندوستان کی اسرائیل سے دوستی کی کہانی کو راز میں نہیں رکھا بلکہ پوری کہانی میڈیا کے ذریعہ عوام کے سامنے بیان کردی۔ ۱۸ جنوری کوانڈین ایکسپریس میں بی جے پی کے جنرل سکریٹری رام مادھو کے لکھے کالم کو پڑھ کر یہ اندازہ ہوجاتاہے کہ ہندوستان اور اسرائیل کی دوستی کا اصل ہدف کیاہے۔ رام مادھو نے ہندوستان اور اسرائیل کی مشترکہ چیزوں کا ذکر کرتے ہوئے کہاکہ ہندوستان اور اسرائیل کے درمیان چند باتیں فطری طورپر مشترک ہیں ۔ انہی فطری باتوں نے دونوں کو بیحد قریبی دوست بنادیاہے۔ ایک تو یہ کہ ہندوستان بھی برٹش کالونی کا حصہ رہاہے اور اسرائیل بھی اسی کے ماتحت تھا۔ دونوں ملک آزادی کے فوراَ بعد خانہ جنگی کا شکار ہوئے۔ دوسرے یہ کہ ہندوستان پاکستان سے پریشان ہے اور اسرائیل فسلطین سے تنگ ہے۔ تیسرے یہ کہ دونوں ملک اسلامی دہشت گردی کے بھی شکار رہے ہیں ۔

رام مادھو لکھتے ہیں کہ ہندوستان نے ہمیشہ اسرائیل کے ساتھ دشمنانہ رویہ اختیار کیا۔ ۱۹۴۹ ؁ میں ہندوستان  نےاقوام متحدہ میں اسرائیل کے خلاف ووٹ دیتے ہوئے سفارتی تعلقات سے انکار کیااور ہمیشہ فلسطین کی حمایت کی۔ ‘‘اس کالم میں رام مادھو ہندوستان کی اسرائیل دشمنی کا اصل ذمہ دار مہاتما گاندھی اور پنڈت نہرو کو قرار دیتے ہیں ۔ رام مادھو کے اس بیان سے واضح ہوجاتاہے کہ آخر بی جےپی حکومت اسرائیل سے اس قدر دوستی کی خواہاں کیوں ہے ؟۔ در اصل دوستی کا یہ پورا کھیل اسلام اور مسلمان دشمنی میں کھیلا جارہاہے۔ گاندھی کے نظریات کے قاتل اب مہاتما گاندھی کی پالیسیوں پر علی الاعلان تنقید کررہے ہیں اور میڈیا اس تنقید کو نمایاں طورپر شایع کررہاہے۔ ہندوستانی عوام اب بھی یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ ملک مہاتما گاندھی کے نظریات کی پٹری سے اتر چکاہے اور آرایس ایس کا آئین ہی ملک کا آئین بنتا جارہاہے۔ حزب اقتدار جو آرایس ایس کے ماتحت حکومت کررہا ہے اور آرایس ایس جو مسلمان دشمنی میں اسرائیل کی طرح بے عدیل ہے فقط اسلام دشمنی اور مسلمانوں کو کمزور کرنے کےلئے اسرائیل سے فطری دوستی کے راگ الاپ رہاہے۔ ہندوستان جسکی خارجہ پالیسی ہمیشہ فلسطین حامی رہی ہے اور گزشتہ سال ہندوستان نے اقوام متحدہ میں یروشلم کے مسئلےپر اسرائیل کے خلاف فسلطین کے حق میں ووٹ کیا تھا رفتہ رفتہ اپنی خارجہ پالیسی میں تبدیلی لارہاہے۔ یروشلم کے مسئلے پر اسرائیل کی مخالفت کرنا ہندوستان کی مجبوری تھی کیونکہ عالمی سیاسی محاذ پر امریکہ و اسرائیل تنہا پڑچکے تھے۔ مگر اسرائیل سے دوستی کے معاملے میں تمام پرانے ریکارڈ توڑدینا ہندوستان کا اختیار ی مسئلہ تھا۔

اب ہندوستان اور اسرائیل کی دوستی کا نیاباب شروع ہوچکاہے۔ اس لئے یہ فیصلہ کرنا آسان ہوگا کہ آئندہ ہندوستان میں فلسطین کی حمایت میں ہونے والے مظاہرے اور اسرائیلی دہشت گردی کے مخالف احتجاجات پر بھی قدغن لگایا جائے گا جیساکہ بی جے پی حکومت میں پابندیاں عائد کی جاچکی ہیں ۔ دوسرے یہ کہ اب ہندوستان اسرائیل کو ایک غاصب اور دہشت گرد ملک کی نگاہ سے نہیں دیکھے گا بلکہ فلسطین کے خلاف اسرائیلی پروپیگنڈہ میں شریک ہوگا جیساکہ ہندوستانی میڈیا نے اسکا عندیہ دیدیاہے۔ تیسرے ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ اسرائیل اور ہندوستان کی دوستی کا یہ نیا باب مسلم دشمنی اور اسلام مخالف پالیسیوں پر مبنی ہے۔ فلسطین کی حمایت کرنا گویا مسلمانوں کی حمایت کرناہے۔ ہندوستان اب فلسطینیوں کو مظلوم کی نگاہ سے نہیں دیکھے گا بلکہ اسرائیلی عینک میں فلسطین کا چہرہ دہشت گرد اور ظالم کا نظر آئے گا۔ اس لئے یہ سمجھنا بھی اب مشکل نہیں ہے کہ بی جے پی حکومت نے اسرائیل کے ساتھ دوستی کو فطری دوستی کیوں کہاہے کیونکہ دونوں کی فطرت میں اسلام دشمنی ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔